اسلامی نظریاتی کونسل کے نام کھلا خط

از بیرسٹر ظفراللہ خان ،سابق وزیر قانون

0

چیئر مین

اسلامی نظریاتی کونسل

اسلام آباد

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته!

اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ مؤرخہ 24 ستمبر 2025 بابت اندراج مقدمہ زیر دفعہ 295 سی ، مراسله از نیشنل کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی راولپنڈی، ذرائع ابلاغ میں پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس خاص مقدمہ پر تبصرہ کیے بغیر میں درج ذیل گزارشات کرنا چاہتا ہوں جو کونسل کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائے تا کہ اس ضمن میں حتمی و آخری رائے سے پہلے کونسل ان پر غور کر لے۔

-1 اسلامی نظریاتی کونسل (کونسل) ایک آئینی ادارہ ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 229 اور 230 میں کونسل کا کام اور احاطہ اختیار بیان کیا ہے جس کی پابندی کونسل پر لازمی ہے۔ آئین کی ان دفعات کے تحت یہ ایجنسی کونسل کو ریفرنس نہیں بھیج سکتی۔ کونسل کو ریفرنس صرف پارلیمنٹ ( دونوں ایوان) صوبائی اسمبلیاں، صدر پاکستان ، گورنر صاحبان ہی بھیج سکتے ہیں اور وہ ریفرنس بھی صرف قانون کے عمل سے متعلق ہو سکتا ہے جیسا کہ کیا یہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا نہیں؟ یہ آئینی ادارے یا آفس ہولڈر بھی آپ سے کسی مقدمہ پر رائے دریافت نہیں کر سکتے ۔ اگر ایک مقدمہ کی بابت کونسل کو ریفرنس کیا جائے تو کونسل پر لازم ہے کہ وہ اس کا جواب نہ دے۔ اگر وہ اس پر رائے دے گی تو یہ آئین کے دیے گئے احاطہ اختیار سے تجاوز ہوگا۔

-2درج بالا آئینی پوزیشن سے قطع نظر کسی بھی خاص مقدمہ میں رائے دینا صرف اور صرف تفتیشی افسر یا پھر عدالت کا حق ہے، کونسل کا نہیں ہے۔ کیونکہ کونسل کے پاس اس مقدمہ کے سارے حقائق اور شواہد نہیں ہوتے ۔ عدالت بھی گواہوں سے حلف لیتی ہے اور شہادتوں کے بعد کسی حتمی رائے پر پہنچتی ہے، کونسل اس عمل کے بغیر کیسے رائے دے سکتے ہے؟

-3اسلامی اصول فقہ اور مغربی اصول فقہ میں کسی بھی جرم میں مجرمانہ عمل (actus reus) کے علاوہ مجرمانہ نیت (mens rea) شرط ہے۔ استثنا کے طور پر کچھ جرم صرف غفلت یا خطا پر بھی ہو جاتے ہیں۔ زیر بحث جرم میں مجرمانہ نیت کا ہونا لازم ہے، جس کے لیے شہادت کا موجود ہونا ضروری ہے۔ یہ بھی آپ کے سامنے رہے کہ پاکستان کا قانون ، شہادت کے لیے گواہوں سے حلف اور ان پر جرح کو لازم سمجھتا ہے اور یہ اختیار کونسل کے پاس نہیں ہے ۔

-4وفاقی شرعی عدالت نے بھی طے کر دیا ہے کہ اس طرح کے جرائم میں مجرمانہ نیت کا ہونا لازمی ہے ۔ اس طرح کے کسی بھی ملزم کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے عمل / قول کی وضاحت کرے۔ اگر وہ یہ کام کر لے تو پھر یہ جرم نہیں رہتا ۔ (10 – PLD 1991 FSC) کیا اس کیس میں ایسا ہوا ہے؟

-5قانون میں غیر مناسب / غیر مہذب عمل اور مجرمانہ عمل میں فرق ہے۔ بہت ساری چیز میں غیر اخلاقی/غیر مناسب غفلت پر مبنی ہوسکتی ہیں مگر جرم نہیں ہوسکتیں۔ یہ جرم بننے کے لیے سو چا سمجھا اور بدنیتی پر مبنی عمل ( malicious action) چایے۔ (10) PLD 1991 FSC اس کے لیے اس کا فیصلہ شہادت کے بعد عدالت ہی کر سکتی ہے۔ کونسل کے مکمل پاس شہادت موجود نہیں ہے۔

-6یہ بات بہت اہم ہے کہ قانون کا اصول ایک چیز ہے اور اس اصول کا اطلاق دوسری چیز ہے۔ اصول کے اطلاق کے لیے مکمل حالات کا سامنے ہونا لازم ہے۔ جس کے لیے تفتیش کا عمل ضروری ہے۔ اس لیے عمومی اصول صرف بیان تو کیے جا سکتے ہیں مگر حالات کی تفصیلات جانے بغیر اور معیاری شہادت کی موجودگی کے بغیر اس اصول کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا جو کہ کونسل نے کر دیا ہے۔

-7ہمارے اسلامی قوانین کے غلط اطلاق پر پہلے بھی بہت زیادہ تنقید ہوتی ہے اگر اسلامی نظریاتی کونسل اپنے آئینی حدود سے تجاوز کر کے اس طرح کے معاملات پر رائے دے گی تو آپ کے ادارے پر بے جا تنقید ہوگی۔ آپ کے آئینی ادارے کے وقار میں کمی آئے گی۔ اسلامی قوانین اور اسلامی اداروں پر بے جا تنقید کا سبب بننا اسلام اور ملک وملت کے مفاد میں نہیں ہے ۔

-8 یہ بات بھی محل نظر رہنی چاہے کہ کونسل ایک مشاورتی آئینی ادارہ ہے اور یہ سرکاری دار الافتاء نہیں ہے۔ اس کے لیے جید علما کرام اور مدارس موجود ہیں ۔ تاریخ عالم بتاتی ہے کہ جب فتوئی اور ریاست ملتی ہے تو زیادتیاں ہو جاتی ہیں۔ اسی گٹھ جوڑ نے حکیم سقراط کو زہر پلایا اور جناب مسیح علیہ السلام کو مصلوب کرنے کی ناپاک کوشش کی ، ہماری تاریخ میں جناب منصور حلاج کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا، حضرت شہاب الدین سہروردی کو قتل کیا گیا، امام احمد بن حنبل کو کوڑے مارے گئے ، ابن رشد کی تذلیل کی گئی اور شیخ احمد سر ہندی کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس اتصال سے کوقتل احمدبن سپین میں مسلمانوں پر سقوط غرناطہ کے بعد ظلم ڈھائے گئے جن کو Inquisition کہا جاتا ہے۔ غالباً اسی تناظر میں ایک معاصر عالم نے اپنی ایک تحریر میں Council of Islamic Ideology کو Council of Islamic Inquisition لکھا ہے۔ اسی تناظر میں،اس معاملے میں بہت احتیاط لازم ہے اور گرنہ یہ سلسلہ چل نکلے گا اور کوئی محفوظ نہ رہے گا اور کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔

اس لیے میری تجویز ہے کہ آپ اس طرح کے ریفرنس پر رائے دینے سے گریز کیا کریں۔ اگر چاہیں تو اس قانون سے متعلق عمومی بدایت نامہ بنا کر حکومت کو بھیج دیں تا کہ وہ اس سلسلہ میں ضابطہ فوجداری / قانون شہادت میں قانون سازی کر لے۔

خیر اندیش

ظفر اللہ خان

اسلام آباد

29-09-2025