انڈونیشیا میں خواتین کی تعلیم:دورہِ انڈونیشیا کے کچھ مشاہدات

حیا حریم

0

انڈونیشیا میں مدرسوں کا بڑا وسیع جال پھیلا ہوا ہے، ان کی تنظیم، تشکیل اور نگرانی کا کام  قومی اسلامی تنظیموں کے دم قدم چل رہا ہے۔ ان تنظیموں میں:نہضۃ العلماء، محمدیہ اور سیفیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ بعض جزائر میں مقامی تنظیمات بھی یہ خدمت انجام دے رہی ہیں۔ یہ مدارس  ابتدائی، ثانوی اوربعض  جگہ ڈگری سطح تک  تعلیم کا اہتمام کرتےہیں۔ اس سب میں خوشگوار پہلو یہ ہے کہ دینی تعلیم و تبلیغ کے پورے ڈھانچے میں خواتین بھی ان جماعتوں میں برابر کی شریک ہیں۔انہوں نے مساجد کے نظام سے لے کر جامعات تک میں اپنا کردار نمایاں رکھا ہوا ہے۔ان جماعتوں کے خواتین وِنگ بہت فعال ہیں،بلکہ دعوتی میدان میں وہ زیادہ آگے نظر آتی ہیں۔ اس مضمون میں خواتین کی شراکت کے ذاتی مشاہدات پیش کیے گئے ہیں۔ مضمون نگار اسلامی علوم کی ماہر اور معروف دینی ادارے’مرکز الحریم‘ کی سربراہ ہیں۔

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

رواں سال انڈونیشیا کے مختلف شہروں میں جانے کا موقع ملا اور متعدد تعلیمی اداروں میں خواتین کے ساتھ ملاقاتیں اور نشستیں رہیں ،ان تمام نشستوں میں خواتین کے تعلیمی رجحانات اور میسر وسائل و ماحول کے حوالے سے گفتگو زیرِ بحث رہی ۔

انڈونیشیا کے تعلیمی اداروں میں واضح محسوس کیا جا سکتا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے مرد و زن کے مابین کو ئی صنفی امتیازات نہیں ہیں ۔ خواتین کو تمام شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہیں۔ اس سے زیادہ حیران کن ہے کہ خواتین کے مساوی حقوق اور تعلیم کی فراہمی کے لئے خواتین کی بہت سی جدوجہد کارفرما ہے ۔ کچھ سالوں قبل ان خواتین کے مطابق وہ صنفی بےاعتدالی کا شکار رہی ہیں ، جس کے نتیجے میں کئی ایسی تحریکیں وجود میں آئیں جنہوں نے خواتین کے حق میں آواز اٹھائی ، اور کم عمری کی شادی ، خواتین پر گھریلو تشدد اور خواتین کے لئے صنفی امتیازات کے حوالے سے پُر زور احتجاج کیا جو کہ تاحال جاری ہے ، البتہ ان تحریکات کے نتیجے میں انڈونیشیا کی خواتین میں شعور آچکا ہے ۔کسی حد تک وہاں کی عام خواتین میں اپنے حقوق کے حوالے سے آگاہ ہیں۔ مذہبی اعتبار سے انڈونیشیا میں محمدیہ اور نہضة العلماء دونوں جماعتیں اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ البتہ جدید اجتہادات اور معاشرتی عرف کو قابلِ قبول بنانے میں نہضة العلماءکا بہت کردار ہے ۔ انڈونیشیا مشرقی جاوا  میں نہضة العلماء کا  گہرا اثر دیکھا جاسکتا ہے  جو کہ انڈونیشیا میں31 جنوری 1926ء  میں قائم ہونے والی ، سنی مسلمانوں کی ایک تنظیم ہے ۔اس کے اراکین کے تعداد 30 ملین سے زائد ہے ۔  یہاں کے مقامی علماء کرام ، مدارس اور مذہبی تحریکیں بھی نہضة العلماء کے منہج اور فتاوی کو تسلیم کرتی ہیں ،اور اسے سرکاری طور پر بھی مقبولیت حاصل ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ یہ منہج جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہے اور اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ کیسے ہر شخص کو اسلام کے قریب کیا جائے ۔

نہضة العلماء نے بابِ اجتہاد  تک کلی رسائی رکھی ہے اور اسے عُرف کے مطابق بنانے کی کوشش اور اس پر عمل در آمد کیا ہے ۔ ان کے مطابق خواتین اس معاشرے کا حصہ ہیں اسی لئے تعلیم ، درس گاہ ،تجارت  و سیاست میں خواتین کا کردار واضح ہے ۔  انڈونیشیا کے مختلف شہروں میں بہت سے ایسے تاریخی مقامات موجود ہیں ، جو پڑھی لکھی ایسی خواتین کی یاد میں بنائے گئے ہیں جنہوں نے قوم کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری اٹھائی ، عوام ان خواتین سے  آج تک عقیدت رکھتی ہے   اور انہیں دیگر خواتین کے لئے بطور اسوہ پیش کرتی ہے ۔

مختلف شہروں کے مدارس میں جانے سے اندازہ ہوا کہ خواتین دینی تعلیم سمیت   دنیاوی علوم و فنون پر بھی دسترس رکھتی ہیں ، دینی تعلیم کی تدریس کا آغاز فجر سے پہلے ہو جاتا ہے ، قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کر نے کے بعد دن میں انہیں اجازت ہوتی ہے کہ و ہ عصری علوم و فنون میں مہارت حاصل کریں۔ یہاں  چند شہروں میں تعلیمِ بنات کے حوالے سے اپنا تجزیہ ذکر کروں گی :

جے پارہ:

جے پارہ انڈونیشیا کے صوبے سامارانگ میں واقع  ہرا بھرا شہر ہے ، اس شہر میں مدرسہ ہاشم الاشعریہ کے نام سے موسوم خواتین کی تعلیم کا ایک بہت بڑا مدرسہ واقع ہے۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ سائنس ، فزکس ، بیالوجی وغیرہ کے علوم لازمی پڑھائے جاتے ہیں ۔ اس مدرسے میں لائیبریری کے ساتھ سائنس لیبارٹری بھی موجود ہے ۔  یہاں نہضة العلماء کی فکر کی ترویج و اشاعت ہوتی ہے  ۔ ماہانہ بنیادوں پر ملک بھر سے خواتین کے اجتماعات اس مدرسے میں کئے جاتے ہیں ۔ اس مدرسے میں خواتین کو لکڑی کی صنعت و حرفت سکھائی جاتی ہے ۔یہاں کئی طالبات کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے لکڑی کے فریم اور مختلف نمونے بنا رہیں تھیں ۔یہاں علمی اجتماعات میں جمع ہونے والی خواتین کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر جاتی ہے، خواتین کو مختلف جگہوں میں مختلف موضوعات پر علمی حلقات میسر ہوتے ہیں ، جس میں اپنی دلچسپی کے موضوعات میں شرکت کر سکتی ہیں، انہیں سوال کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ۔

 جگ جا/ یوک یکارتہ :

یہ شہر جے پارہ سے چھ گھنٹے کے سفر کی مسافت پر واقع ہے ، اس شہر کو تعلیم کا شہر کہا جاتا ہے ۔ انڈونیشیا بھر میں پھیلے ہوئی مختلف مذہبی و سماجی شخصیات اسی شہر کے کسی مدرسے میں دینی علوم سے فیضیاب ہوچکی ہیں  ۔اس شہر کے ہرمحلے میں بے شمار مدارس واقع ہیں ، یہاں تک کے شہر “ملانگ” کی ایک گلی میں سولہ مدرسے میں نے خود دیکھے ہیں ، جن میں طلباء و طالبات کی تعلیم کا مخلوط ماحول موجود ہے ۔ ان کے نزدیک ہر انسان کی اخلاقی تربیت بہت زیادہ ضروری ہے۔ دیگر دنیا کے احوال سے یہ لوگ زیادہ باخبر نہیں ہوتے لیکن ان کے اپنے شہر کے بیشتر افراد اعلی تربیت و اخلاق کے حامل ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مدرسہ تربیت کا نام ہے ، جہاں پڑھنے والی ہر طالبہ معاشرے میں بہترین اخلاقی و تربیتی کردار ادا کر سکے ۔ اس علاقے کے تمام مدرسوں میں بچے اپنی چار دیواری میں محدود نہیں تھے۔ سب مدرسوں کے بچے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور آنا جانا کرتے ہیں۔نہوں نے بتایا کہ دو ہزار سولہ میں جاوا میں نہضة العلماء نے ایک تحریک چلائی تھی جس کا سلوگن تھا “اپنے بچوں کو مدرسہ بھیجو” اس تحریک کے بعد بے تحاشا بچوں نے مدارس کا رخ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاوا انڈونیشیا کے بہت کم  بچے ایسے ہوں گے جو مدرسے نہ جاتے ہوں۔

یہاں مدارس کے علاوہ بازاروں اور گلیوں میں موجود مساجد میں خواتین کے لئے تعلیمی حلقات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ان حلقات میں مرد و زن  کے درمیان موضوعات کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جو مرد سیکھتے ہیں وہی خواتین کو بھی سکھایا جاتا ہے ، میراث و فلکیات جیسے موضوع ہوں یا  بیوع و طہارت کےمضامین ہوں ، خواتین کے نصاب و دروس میں یکساں شامل ہیں ۔

اس شہر میں  خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے کی تحریکیں زوروں پر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نہضة العلماء ایسے نصاب کو فروغ دے رہی ہے جس میں خواتین کے مسائل اور ان کا ذکر بھی اسی حد تک ہو جس قدر مردوں کا ذکر شامل ہیں ۔ مذہبی خواتین چاہے مسلمان ہو ں یا غیر مسلم ، ان سب کو ہی اپنی مذہبی تعلیم کی مکمل آزادی میسر ہے  اور اس پرکوئی قدغن نہیں ہے۔ مسجد کے  پہلو میں چرچ اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں جن سب میں خواتین کی اکثریت نمائندگی کر رہی ہے ۔

سامارانگ:

یہ شہر خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔  اپنے شہروں سے تعلیم حاصل کرنے والی خواتین عصری تعلیم یا دیگر پیشہ ورانہ امور میں مزید آگے بڑھنے کے لئے اس شہر کا رخ کرتی ہیں ۔   یہاں انہیں تجارت و کاروبار کو فروغ دینے کے مواقع میسر آتے ہیں ۔ اس شہر کی مختلف درسگاہوں میں پیشہ ورانہ صلاحیتو ں کی تربیت ہوتی ہے ۔ صوبے کے وزیر اعظم اکثر ایسے اجتماعات میں حاضر ہوتے ہیں اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں  مزید آگے بڑھنے کی تجاویز سمیت مواقع فراہم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔

بانڈہ آچے :

سماترا آئر لینڈ میں واقع بانڈہ آچے انڈونیشیا کا ساحلی علاقہ کہلاتا ہے ۔اس شہر کو شریعت کے نفاذ کا علم بردار مانا جاتا ہے ۔یہاں خواتین کی دینی تعلیم میں فقہ اور تفسیر کو بطورِ خاص نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے ۔یہاں خواتین کی تعلیمی درس گاہوں میں فقہ  کو اہمیت حاصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ خواتین بہت سے مسائل میں اجتہاد کر رہی ہیں اور انہیں عرف کے مطابق  اپنا رہی ہیں، فقہ اور شرع کا جاننا سب کے لئے ضروری ہے ۔

خواتین کا شعبہء افتاء :

جکارتہ شہر میں گذشتہ دس سالوں سے خواتین کی ایسی تحریکات کام کر رہی ہیں جو خواتین کو فتوی دینے کی اہلیت کے منصب پر لا سکیں ۔ یہاں تک کہ یہ تحریک سرکاری سطح پر منظور کی جا چکی ہے اور گذشتہ پانچ سالوں سے انہیں حکومتی امداد و سرپرستی بھی فراہم ہورہی ہے ۔اس تحریک سے وابستہ خواتین مختلف شہروں میں خواتین کے مسائل زیرِ غور لا رہی ہیں اور ان کے مطابق جدید اجتہادی فتاوی کا صدور ہورہا ہے ۔ ان کے فتاوی کو اہمیت حاصل ہو رہی ہے اور یہ تحریکات دن بدن مقبول عام بھی ہو تی جارہی ہیں ۔ اب تک ان کی خواتین کی طرف سے تین اہم مسائل پر باقاعدہ فتاوی جا ری کئے جا چکے ہیں ۔ جن میں جنسی تشدد، کم عمری کی شادی  اور موحولیاتی مسائل شامل ہیں ۔ ان مسائل کی مختلف جہات کا ادراک کیا جا رہا ہے اور باقاعدہ طور پر ایسے نصاب تیار کئے گئے ہیں جو ان مسائل کے حوالے سے آگاہی دیں ۔

بچیوں کی ابتدائی تعلیم:

گذشتہ دس سالوں سے بچیوں کو اسکول اور تعلیمی اداروں میں بھیجنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے ۔  سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں کی تعداد92.7فیصدہے ۔جبکہ لڑکیوں کی تعداد 92.8  فیصدہے ۔

علاوہ ازیں ابتدائی تعلیمی اداروں یعنی اسکولوں میں طلباء و طالبات  کو مختلف مضامین اختیار کر نے کا موقع دیا جاتا ہے ، ایک لگا بندھا نصاب سب طلبہ پر لازم نہیں کیا جاتا ، بلکہ کچھ مضامین ان کی دلچسپی پر منحصر ہوتے ہیں ۔

وزارتِ تعلیم کی جانب سے ماہانہ بنیادوں پر  اسکول جانے والے طلبہ و طالبات کے والدین سے مشاورت اور اجلاس ہوتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی ڈھانچے میں وہی طالبِ علم مکمل آسکتا ہے جس کے والدین  اس پر بھر پور توجہ دیں

خلاصہ :

انڈونیشیا میں قومی و صوبائی سطح پر خواتین کے حقوق کی بے شمار تنظیموں کی فعالی اور تحریکات کے کردار، نیز نہضة العلماء کی اس میں بھرپور دلچسپی کی بناء پر گذشتہ دس سالوں سے زائد کے عرصے میں یہ خواتین کا تعلیمی رجحان اور شعور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر خواتین کی نمائندگی تقریبا مساوی ہی ہے  ، البتہ اس میں ایک خلا یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ عالمی دنیا سے وہاں کے طلبہ و طالبات کا رابطہ بہت ہی کم ہے ۔ جس باعث انہیں دیگر ثقافتیں ، تہذیبیں اور مذاہب کے  نشیب و فراز سے واقفیت بہت ہی کم ہے ، بلکہ یوں کہا جائے کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے تو یقینا بے جا نہ ہوگا ۔ بین الاقوامی علمی دنیا سے  رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہاں جامعات میں اصل و اساس کا کردار ادا کرنے والے مرد و خواتین اساتذہ  بھی  عربی ، انگریزی زبانوں سے ناواقف ہیں ۔دوسری طرف  بین الاقوامی اسلامی دنیا کے اہل علم ، انڈونیشیا کے گہرے اجتہادات ، عرف کی چھاپ اور شریعت کی تفہیمات سے متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔جس کے لئے ضرورت ہے کہ انڈونیشیا میں ایسے مقامی افراد و خواتین تیار ہوسکیں جو بین الاقوامی زبانوں میں راہ نمائی و روابط بحال رکھنے میں مدد کر سکیں ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں انڈونیشیا عالمی سطح پر روابط بحال کرنےمیں مؤثر کردار ادا کر سکے گا ۔