26ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟

0

دو روز قبل دستورِ پاکستان میں بالآخر ایک آئینی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے بارے میں پچھلے چند ہفتوں سے سیاسی جماعتوں کے درمیان کافی لے دے ہورہی تھی اور تمام  میڈیا پلیٹ فارمز پر یہی موضوع زیربحث رہا۔ذیل میں آئینی ترمیم کے نکات کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔

  • جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹس کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔
  • سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کمیشن کے تحت ہوگی۔
  • کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج اور سپریم کورٹ کے سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج شامل ہوں گے، کمیشن میں وفاقی وزیر قانون ، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا 15 سالہ تجربہ رکھنے والا وکیل شامل ہوگا۔ جوڈیشنل کمیشن میں سینٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے۔ جبکہ کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن بھی ہوگا جو سینٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرری کی اہلیت رکھتا ہو۔
  • چیف جسٹس پاکستان کو اسپیشل پارلیمانی کمیٹی نامزد کرے گی اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے تین سب سے سینئر ترین ججز میں سے ہوگا، نامزد جج کے انکار کی صورت میں بقیہ تین سینئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جاسکے گا۔
  • پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے آٹھ اور سینٹ کے چار ارکان ہوں گے۔ کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزد کرے گی۔
  • آئینی منظوری کے بعد چیف جسٹس کی پہلی نامزدگی 3 روز قبل ہوگی۔ کمیشن یا کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جاسکے گا۔
  • کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ لے گا اور ناقص کا کردگی پر جج کو بہتری کے لیے مہلت دی جائے گی، دوبارہ ناقص کارکردگی پر کمیشن جج کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا۔
  • سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ میں خالی جگہ بھرنے کے لیے کمیشن کا کوئی رکن بھی نامزدگی کر سکتا ہے۔
  • کوئی شخص پریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہواور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے 5 سال ہائی کورٹ کا جج ہونایا 15 سال ہائی کورٹ/سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہے۔
  • چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفی دے یا 65سال کا ہوجائے یا برطرف کیا جائے۔
  • سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی بنیاد پر کسی درخواست کے مندرجات سے باہر کوئی حکم یا ہدایت جاری نہیں کرے گی۔
  • سپریم کورٹ کسی کیس یا اپیل کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ منتقل کرسکے گی۔
  • سپریم کورٹ میں آئینی بینچ ہوگا جس میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر جج ہوں گے۔ سینئر ترین جج آئینی بینچ کا پریزائیڈنگ جج ہوگا ، جبکہ آئینی بینچ کے سوا کوئی بینچ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار اور آئین کی تشریح سے متعلقہ معاملہ نہیں دیکھے گا۔آئینی بینچ میں کم ازکم پانچ ججز ہوں گے۔
  • متعلقہ تمام درخواستیں یا اپیلیں آئینی بینچ کو منتقل کی جائیں گی۔
  • ہائی کورٹ میں کوئی جج تعینات نہیں ہوگا، جو پاکستانی شہری نہ ہو اور 40سال سے کم عمر نہ ہو۔ہائی کورٹس میں بھی آئینی بینچ ہوگا۔
  • سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس پاکستان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 2 دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔
  • کونسل میں اختلاف پر اکثریت کا فیصلہ حاوی ہوگا اور کونسل کی انکوائری کے بعد جج کی برطرفی کے لیے صدر کو رپورٹ کی جائے گی۔
  • چیف الیکشن کمشنر یا ممبر اپنی مدت پوری ہونے پر اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔
  • جنوری 2028 تک رباکا خاتمہ کردیا جائے گا۔
  • کابینہ یا وزیراعظم کا صدر کو دیا گیا مشورے پر کسی عدالت ، ٹربیونل یا اتھارٹی میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
  • قومی و صوبائی اسمبلی ، سینٹ اور بلدیاتی حکومتوں کے قیام الیکشن کے لیے درکار رقم چارجڈ اخراجات میں شامل ہوگی۔