سعودی اسرائیلی تعلقات کی پیش رفت: پاکستان کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

0

مشرق وسطی میں تبدیل ہوتی جغرافیائی  سیاست  پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔جنوبی ایشیا اور خلیجی ریاستوں کے مابین سیاسی، دفاعی اور اقتصادی روابط میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ ایک پہلو پاکستان کے حوالے سے بھی ہے جو خلیج میں تیزی کے ساتھ اپنی روایتی جگہ کھو رہا ہے۔جنوبی ایشیا اور خلیج کے مابین روابط کی اہمیت بڑی طاقتوں کے درمیان ہوتی رسہ کشی اور مشرق وسطی میں چین کے وسیع ہوتے اثرورسوخ  کے تناظر میں اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے،اور اسی کے نتیجے میں رواں برس مارچ میں ایران سعودی مصالحت بھی ہوتی نظر آئی۔

28 جولائی 2020 کو پولیٹک نے چین اور ایران کے مابین ممکنہ 400 بلین ڈالر کے اقتصادی معاہدے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر اس کے اثرات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک ویبینار منعقد کیاتھا۔ چین اور ایران  کے درمیان باہمی فاعی تعاون میں اس وقت سے اضافہ ہوا ہے جب  2018 میں صدر ٹرمپ نے اوبامہ دور میں ہونے والےایران جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا۔حالانکہ 2015میں اوباما انتظامیہ کی طرف سے کیا جانے والے یہ معاہدہ ایک نمایاں کامیابی تھی۔

اس کے علاوہ ، 2020 میں ٹرمپ کی صدارت کے دوران طے پانے والے ’معاہدہِ ابراہیمی‘ کے نتیجے میں عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش جیسی مسلم ریاستوں نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا۔اس نئی پیش رفت سے پاکستان کے لیے کچھ مسائل پیدا ہوگئے۔ ایک طرف پاکستان چین کا قریبی سٹریٹجک حلیف ہے اور چین ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔تو دوسری طرف پاکستان کے  عرب اتحادی امارات، سعودی عرب اور قطر  وغیرہ اسرائیل کے قریب ہونے لگے تھے۔

’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ کے تعاون سے 22 مئی کو منعقدہونے والی ایک تقریب کے اندر مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کا جائزہ لیا گیا۔ اس تقریب میں شریک ماہرین نے پالیسی سفارشات میں رائے دی تھی  کہ امریکاکو بے چینی کے عالم میں نہ تو چینی اثرورسوخ کو نظرانداز کردینا چاہیے اور نہ ہی حد سےزیادہ ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی مفادات کے لیے ایک  واضح پالیسی اپنانی چاہیے۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں اپنے حلیف ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کو چینی اثرورسوخ اور طاقت کی کشمکش کے تناظر میں دیکھنا امریکی مفادات پر منفی اثر مرتب کرسکتا ہے۔

سعودی اسرائیلی تعلقات میں نرمی

مشرق وسطیٰ میں تیزی سے تبدیل ہوتی حرکیات اورخطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر عدم اطمینان کا مطلب یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔ صدر بائیڈن نے سعودی عرب کے ساتھ ایک جارحانہ سفارتی مساعی کا آغاز کیا ہے،سعودی عرب اب ایک ایسا ملک ہے جو پہلے کی بہ نسبت غیرمتوقع انداز میں اقدامات کررہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی بدلتی ہوئی سیاست بھی ایک پیچیدہ عنصر ہے ،کیونکہ نیتن یاہو  اکثردو ریاستی حل میں دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق،امریکا میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے  پچھلے دو مہینوں میں سعودی عرب کے کم از کم دو دورے کیے، اس دوران سعودی حکام نے  امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ سول نیوکلیئر پروگرام شروع کرنا چاہتے ہیں جس  کے تحت  وہ اپنی یورینیم خود افزود کر سکیں، متحدہ عرب امارات کی طرح نہیں کہ جہاں یورینیم افزود کرکے اسے بھیجی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی حکام اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں نیٹو طرز کا باہمی سکیورٹی معاہدہ چاہتے ہیں۔ دوسری جانب چائنہ نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن (سی این این سی) نے سعودی عرب کو تجویز دی ہے کہ وہ  قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنی سرحدوں کے قریب جوہری پلانٹ قائم کرے۔ اس اقدام کا مقصد امریکا پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ جوہری پروگرام کی مدد میں لچک کامظاہرہ کرے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق، سلیوان نے جدہ کا دورہ کیا:

” جس کا مقصددوطرفہ اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کرنا،اور ایسے اقدامات کو ممکن بنانا تھا جن کے تحت زیادہ پرامن، محفوظ، خوشحال، اور مستحکم مشرق وسطیٰ کے  خیال کو آگے بڑھانا اور دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کومزید مضوبط بنانا تھا۔‘‘

بائیڈن انتظامیہ کی سفارتی مساعی  کے مقاصدکا خلاصہ سعودیوں کو چین یا روس کے قریب جانے سے روکنا، اسرائیل کے ساتھ  تعلقات استوار کرنا اور ایران کے خلاف ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ جوہانسبرگ میں منعقدہ برکس کانفرنس میں سعودی عرب اور ایران دونوں کو برکس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ متحدہ عرب امارات اور مصر بھی جنوری 2024 سے برکس کے رکن بننے کے لیے تیار ہیں۔

وسیع تر اثرات و مضمرات

اسرائیل کے ساتھ سعودی تعلقات کو معمول پر لانا ’معاہدہِ ابراہیمی‘ کا حصہ ہوگا۔ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرلینابلاشبہ  اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم واقعہ ہو گا۔ اس سے اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان پر زبردست دباؤ آئے گا جو فلسطینیوں کے معاملات میں سعودی عرب سے رہنمائی لیتا ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے 2022 میں کیے گئے سروے کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں رائے عامہ جو ابتدائی طور پر ابراہیمی معاہدے کے حق میں تھی، اب اس میں کچھ کمی آئی ہے۔

اگر اس طرح کی کوئی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے تو اثرات کے اعتبار سے اس کی کامیابی کا انحصار اس امر پہ ہوگا کہ معاہدے کے تحت فلسطینیوں کو کیا رعایتیں اور فوائد دیے جاتے ہیں۔ کیا اس میں فلسطین کے لیے ریاست کا درجہ شامل ہوگا اور اسرائیلی مقبوضہ بستیوں کا خاتمہ ممکن ہوگا؟ مگر سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل میں جب ایک دائیں بازو کی جماعت حکومت میں ہے، تو وہ اس طرح کے کسی بھی مطالبے کو کیوں مانے گی۔

خلیجی ریاستوں میں تو بادشاہانہ نظام حکمرانی ہے،مگر پاکستان میں اب بھی ایک ٹوٹی پھوٹی جمہوریت موجود ہے۔ کسی بھی وقت  سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرلینا پاکستان  کی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کے لیے ایک تہلکہ ثابت ہوگا، خاص طور پر اگر اِس کے ساتھ سعودی عرب، اور دیگر خلیجی ممالک کی طرف سے اقتصادی اور سیاسی حوالوں سے دباؤ بھی شامل ہوا۔ جہاں تک وقت کے تعین کی بات ہے،تو صدر بائڈن اگلے سال امریکی انتخابات سے پہلے  معاہدہ چاہتے ہیں۔

پاکستان اس وقت  اپنے داخلی مسائل میں گھرا ہوا  ہے، ایسے میں مشرق وسطیٰ کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر عوامی بحث کے لیے بہت کم جگہ باقی  ہے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ پر پاکستان کے روایتی موقف کا اعادہ  سابق وزیراعظم عمران خان کرچکے ہیں، جو اس وقت قید میں ہیں:

’’کوئی بھی ملک جو بھی کرے، ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ اور ہمارا موقف بانی پاکستان  قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948 میں واضح کردیاتھا: کہ ہم اسرائیل کو اس وقت تک قبول نہیں کر سکتے جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے اور وہاں کوئی منصفانہ آباد کاری نہیں ہوتی۔‘‘

مزیدبرآں،اس طرح کے کسی بھی اقدم کا براہ راست اثر القاعدہ، داعش اور ان جیسی  شدت پسند تنظیموں کے بیانیے پر بھی پڑے گا۔ کیونکہ، مسئلہ فلسطین ان جماعتوں کے بیانیے کے بنیادی محرکات میں سے ایک تھا، ان گروہوں کے بانیوں نے فلسطین کے لیے انصاف کے حصول کی خاطر پرتشدد راستوں کا انتخاب کیا تھا۔

ان انتہا پسند تنظیموں نے اسلامی ممالک کی حکومتوں کو بھی اس لیے نشانہ بنایا کہ انہیں مغرب کا حلیف تصور کیا گیا،اور یہ کہ ان مسلم حکمرانوں کی حمایت سے اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف مظالم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اگر فلسطینیوں کوانصاف فراہم کیا جاتا ہے، اور ایک تبدیلی آتی ہے، تو یہ مسلم انتہا پسندوں کے مستقبل اور اسرائیل اور مغرب کے ساتھ اسلامی دنیا کے تعلقات کے لیے بہت دور رس نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ قدم  ان گروہوں کو بھی قائل کر سکتا ہے جو کشمیر کے محاذ پر سرگرم ہیں،چین کا عروج طویل عرصے سے جاری تنازعات کے پرامن چل کے لیے داغ بیل ڈال سکتا ہے۔ تاہم، اگر یہ معاہدہ زیادہ عوامی حمایت یا بات چیت کے بغیر طے پا جاتا ہے  تو اس سے مسلم خطوں میں حکمرانوں کے لیے مستقبل کے تناظر میں  زبردست خطرات لاحق ہوں گے۔

حال ہی میں لیبیا کے معاملے میں ایسا ہی ہوا، جب اس کی وزیر خارجہ نجلا منگوش نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے روم میں اسرائیلی ہم منصب سے خفیہ ملاقات کی۔ اس ملاقات کی خبر کو اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے عام کیا اور لیبیا میں سڑکوں پر زبردست احتجاج پھوٹ پڑا۔ اس کی وجہ سے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ نے منگوش کو یہ کہتے ہوئے معطل کر دیا کہ اس نے یہ قدم  انفرادی حیثیت میں اٹھایا ہے اور یہ کہ  لیبیا فلسطینی مسئلے کے لیے بہت حساسیت سے رکھتا ہے۔

بشکریہ: politac.com