محمد اسرار مدنی
مدیراعلی تحقیقات
جدید دور میں مسلم دنیا کے دستوری ڈھانچوں کی تشکیل ہر جگہ ایک پیچیدہ اور متنوع عمل رہا ہے، جس کی جڑیں خلافت عثمانیہ کے دور سے جاملتی ہیں۔خلافت کے خاتمے اور نوآبادیاتی قوتوں کی آمد کے بعد مسلم دنیا میں آئینی ڈھانچوں نے ایک نیا رخ اختیار کیا، جہاں مقامی حکومتوں کو نوآبادیاتی طاقتوں کے قانونی اور سیاسی اثر و رسوخ کے تحت ڈھالنے کی بھی کوشش کی گئی۔
نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد مسلم ممالک نے اپنی خودمختاری حاصل کی، تو ان کی آئینی تشکیل میں دو اہم پہلو ابھرے: ایک طرف شریعت کو بنیاد بناتے ہوئے اسلامی اقدار کو آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی، اور دوسری طرف جدید قومی ریاستوں کے تقاضوں کے مطابق جمہوری اصول اپنانے کی بحث چھڑی۔ اس دوہری کشمکش نے مختلف ممالک میں مختلف آئینی ماڈلز کو جنم دیا، جیسا کہ سعودی عرب نے شریعت کو مکمل آئینی بنیاد بنایا، جبکہ ترکی نے ایک سخت سیکولر آئین اپنایا۔ ان تاریخی عوامل نے مسلم دنیا میں آئینی ڈھانچوں کی تشکیل کو ایک منفرد اور متنوع عمل بنایا، جس کا اثر آج بھی کئی ممالک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ مسلم دنیا کے اکثریتی ممالک نے کوئی نہ کوئی آئین وضع کر رکھا ہے، مگر دستور سے جڑے کئی بحران بھی بہت شدید ہیں۔یہ آئینی بحران بنیادی طور پر سیاسی، مذہبی، اور سماجی عوامل کے پیچیدہ امتزاج سے پیدا ہوتےہیں، جہاں آئین کی تشکیل میں عالمی معیارات، شریعت کے اصولوں اور مقامی ثقافتوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بیشتر مسلم ممالک نے مغربی ماڈلز کو اپنانا شروع کیا، تاہم ان کے آئینی ڈھانچے میں مقامی مذہبی اور ثقافتی شناختوں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل نے جنم لیا۔ مزید برآں، اقلیتوں کے حقوق، طاقت کے توازن اور عدلیہ کی خودمختاری جیسے مسائل نے آئینی بحران کو مزید گہرا بنا دیا، جس سے ان ممالک میں اصلاحات اور تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹیں آئیں۔ ان بحرانوں کا حل صرف آئینی ڈھانچوں میں اصلاحات اور مقامی اقدار کے ساتھ ہم آہنگی کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔
مسلم دنیا کو آئینی نظام کی تشکیل میں مغرب کی ہوبہو نقل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ہر معاشرتی اور سیاسی نظام اپنے تاریخی، ثقافتی، اور مذہبی پس منظر سے تشکیل پاتا ہے۔ مسلم دنیا کی اپنی سیاسی فقہ میں شورائیت، مشاورت، اور عوامی بہبود کے اصول موجود ہیں، جو اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ اصول نہ صرف مذہبی اعتبار سے معتبر ہیں بلکہ جدید سیاسی تصورات جیسے جمہوریت، سیاسی استحکام، اور انسانی حقوق کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہیں۔ عوامی بہبود کے اسلامی اصول معاشرتی انصاف، غربت کے خاتمے، اور انسانی ترقی پر زور دیتے ہیں، جو کسی بھی آئین کی روح ہونے چاہئیں۔ ان اقدار کو آئینی ڈھانچے میں دوبارہ زندہ کرنے سے ایسے نظام کی تشکیل ممکن ہے جو مقامی ضروریات اور عالمی تقاضوں دونوں کو پورا کر سکے۔
مسلم دنیا میں آئینی ڈھانچوں کی تشکیل کا ایک اہم پہلو یہ رہا ہے کہ اسلامی شریعت کے اصولوں کو جدید آئینی اور قانونی تقاضوں کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ شریعت، جو اسلامی قوانین اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے، مسلمانوں کے لیے ایک جامع ضابطہ حیات فراہم کرتی ہے۔ تاہم، جدید قومی ریاست کے تصور کے تحت آئین سازی میں جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق جیسے تصورات کو بھی شامل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ امتزاج کئی مسلم ممالک میں ایک پیچیدہ عمل ثابت ہوا، جہاں بعض اوقات مذہبی اور سیکولر عناصر کے درمیان تنازعات نے آئینی استحکام کو چیلنج کیا۔ مثال کے طور پر، پاکستان کا آئین شریعت کو بنیادی ماخذ قرار دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی جمہوری اور انسانی حقوق کے اصولوں کو بھی تسلیم کرتا ہے، جس سے ایک متوازن آئینی ماڈل تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔
اسلام اور آئینی اصولوں کی مطابقت کی بحث مختلف مسلم ممالک میں متنوع شکلیں اختیار کرتی آئی ہے۔ کچھ ممالک جیسے سعودی عرب اور ایران نے اپنے آئین کو مکمل طور پر شریعت پر مبنی بنایا، جبکہ ترکی اور انڈونیشیا نے سیکولر آئینی اصول اپنائے، جہاں مذہب کو حکومتی معاملات سے الگ رکھا گیا۔ اس امتزاج کی عملی تعبیر میں چیلنجز اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق، آزادی اظہار، اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ جیسے امور شریعت کی روایتی تشریحات کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں۔ ان اختلافات کو حل کرنے کے لیے اجتہاد، قانونی اصلاحات، اور سماجی مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ آئین کو اسلامی اقدار اور جدید قانونی اصولوں کا ایک جامع اور عملی نمونہ بنایا جا سکے۔
مسلم دنیا میں آئینی ماڈلز کے تنوع کی جڑیں ان کے تاریخی، سماجی، اور سیاسی حالات میں پیوست ہیں۔ صدارتی نظام، جیسا کہ ترکی اور مصر میں دیکھا جاتا ہے، طاقت کے ارتکاز اور تیز فیصلے کرنے کی صلاحیت کے لیے جانا جاتا ہے۔ تاہم، یہ نظام اکثر آمرانہ طرز حکمرانی کا شکار ہو جاتا ہے، جیسا کہ مصر میں عبدالفتاح السیسی نے کیا۔ پارلیمانی نظام، جیسا کہ پاکستان اور عراق میں اپنایا گیا، زیادہ عوامی اور جمہوری سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اکثر سیاسی عدم استحکام، مخلوط حکومتوں کے تنازعات، اور پالیسی سازی میں سست روی کا شکار ہوتا ہے۔ مخلوط نظام، جو دونوں ماڈلز کے عناصر کو یکجا کرتا ہے، تیونس جیسے ممالک میں تجربہ کیا گیا ہے، لیکن اس میں بھی اختیارات کے توازن اور حکومتی فیصلوں کی مؤثر عملداری کے مسائل سامنے آتے ہیں۔
ان آئینی ماڈلز کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار محض نظام کی ساخت پر نہیں بلکہ سیاسی کلچر،عوامی شعور، تعلیم، اداروں کی مضبوطی، اور عوامی شراکت کی نوعیت پر بھی ہوتا ہے۔ مثلاً، ترکی کا صدارتی نظام ابتدائی طور پر ترقی اور استحکام کا ذریعہ سمجھا گیا، لیکن حالیہ دہائیوں میں یہ نظام جمہوری اصولوں کی کمزوری اور اختیارات کے ارتکاز کا شکار ہوا۔ دوسری جانب، پاکستان میں پارلیمانی نظام کئی بار فوجی مداخلت اور سیاسی بحرانوں کی وجہ سے اپنی اصل روح میں کام نہیں کر سکا۔ تیونس کے مخلوط نظام نے جمہوری تبدیلی کی امید پیدا کی، لیکن سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات نے اس کے مؤثر ہونے پر سوالات اٹھائے۔ ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آئینی ماڈلز کی کامیابی کے لیے محض ڈھانچے سے زیادہ مضبوط اداروں، سیاسی برداشت، اور عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
مسلم دنیا کے دساتیر میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اعادہ کیا گیا ہے، لیکن کئی ممالک میں ان پر عمل درآمد ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ بیشتر دساتیر میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اصول تو موجود ہیں، لیکن ان اصولوں کی عملی تشریح اور نفاذ میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کو مساوی حقوق فراہم کیے گئے ہیں، مگر، عملی طور پر،کبھی کبھار مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی طرح، مصر میں قبطی مسیحیوں کو آئینی حقوق حاصل ہیں، لیکن ان کے خلاف سماجی اور قانونی امتیاز کی مثالیں بھی بار بار سامنے آتی ہیں۔
ان چیلنجز کی ایک بڑی وجہ آئین اور اس کی تشریح کے درمیان موجود فرق ہے۔ کئی مسلم ممالک میں آئینی دفعات کو اس طرح نافذ کیا جاتا ہے کہ وہ صرف اکثریتی برادری کے مذہبی یا سماجی اصولوں سے مطابقت رکھیں، جس سے اقلیتوں کے حقوق پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ایران میں آئینی طور پر زرتشتی، یہودی، اور مسیحی اقلیتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن بہائی برادری کو قانونی اور سماجی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مسائل کی جڑیں بعض اوقات اکثریتی برادری کے نظریات، سماجی تعصبات، اور بعض اوقات ریاستی پالیسیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ اس لیے مسلم دنیا میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے محض آئینی دفعات کافی نہیں، ان دفعات کے مؤثر نفاذ اور اقلیتوں کو عملی تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیاسی عزم، قانونی اصلاحات، اور سماجی شعور کی بھی ضرورت ہے۔
مسلم دنیا میں آئینی نظام کے تحت جمہوریت کو فروغ دینے کی کوششیں ایک اہم لیکن متنازع موضوع رہی ہیں۔ کئی ممالک نے جمہوری اصولوں کو اپنانے کے لیے آئینی ترامیم کیں، جن میں انتخابات، انسانی حقوق، اور اقتدار کی پرامن منتقلی شامل ہیں۔ لیکن فوجی مداخلتوں اور آمرانہ حکومتوں نے ان کوششوں کو بار بار نقصان پہنچایا۔ آمرانہ نظام کی تقویت کی ایک بڑی وجہ مسلم دنیا کے کئی ممالک میں سیاسی اور سماجی استحکام کا فقدان ہے۔ آمرانہ حکومتیں عموماً آئینی اصولوں کو توڑ مروڑ کر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتی ہیں، جس سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، مصر میں 2011 کے عرب بہار کے بعد جمہوریت کے قیام کی امیدیں پیدا ہوئیں، لیکن آئینی تبدیلیوں کے باوجود آمرانہ نظام دوبارہ غالب آ گیا۔ یہ مسائل جمہوریت کے ساتھ ساتھ آئینی فریم ورک کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتے ہیں، جہاں سیاسی جماعتوں، عدلیہ، اور دیگر اداروں کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لیے آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ نتیجتاً، جمہوریت اور آمرانہ نظام کے درمیان کشمکش مسلم دنیا میں آئینی استحکام اور عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
مسلم دنیا میں آئینی اصلاحات کے ضمن میں عالمی دباؤ اور بین الاقوامی قوانین کا اثر بھی ایک نمایاں حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور دیگر بین الاقوامی ادارے اکثر انسانی حقوق، جمہوریت، اور شفافیت کو فروغ دینے کے نام پرحکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں اور نتیجے میں کئی مرتبہ آئینی ترامیم کی جاتی ہیں۔مگر، یہ اصلاحات مقامی سطح پر ہمیشہ مؤثر یا مقبول نہیں ہوتیں۔ اکثر ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ عوامی امنگوں کے بجائے عالمی طاقتوں کو مطمئن کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ مصر میں عرب بہار کے بعد آئینی اصلاحات کا نفاذ ایک مثال ہے، جہاں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے عالمی دباؤ کے تحت تبدیلیاں تو کی گئیں، لیکن ان کا عملی نفاذ محدود رہا۔ مزید برآں، بعض ممالک میں یہ دباؤ قومی خودمختاری کے اصولوں سے متصادم سمجھا جاتا ہے، جس سے عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ نتیجتاً، بین الاقوامی دباؤ کے تحت کی گئی آئینی اصلاحات عموماً دو دھاری تلوار ثابت ہوتی ہیں، جو ایک طرف انسانی حقوق کے فروغ میں مددگار ہوتی ہیں، تو دوسری طرف سیاسی اور سماجی تنازعات کو جنم دیتی ہیں۔
مسلم دنیا میں آئینی استحکام اور اس کے معیشت پر اثرات کا مسئلہ بھی ایک گہرے تجزیے کا متقاضی ہے۔ آئین کی مضبوطی اور شفافیت کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے اور معیشت کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جن ممالک میں آئینی ڈھانچہ مستحکم ہے، وہاں معیشت زیادہ متحرک اور ترقی پذیر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ملائیشیا اور انڈونیشیا نے آئینی استحکام اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں ان کی معیشت نے نمایاں ترقی کی۔ آئین کے تحت واضح کیے گئے قانونی اقدامات سرمایہ کاروں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں اور معاہدوں پر عمل درآمد یقینی ہے۔اس کے برعکس، جہاں آئینی عدم استحکام پایا جاتا ہے، وہاں معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں، سیاسی بحرانوں اور آئینی تنازعات کی وجہ سے معیشت میں زوال آیا۔آئینی شفافیت اور عوامی شمولیت کے بغیر، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور کرپشن جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو نہ صرف معیشت بلکہ معاشرتی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لیے، آئینی استحکام نہ صرف سیاسی نظم و ضبط بلکہ معیشت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
مسلم دنیا میں آئینی اصلاحات کے آئندہ امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کئی اہم پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ موجودہ دور کے تقاضے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آئین کو معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے مزید جامع اور شفاف بنانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم تجویز یہ ہے کہ آئین میں شہری حقوق اور آزادیوں کو زیادہ وضاحت اور زور کے ساتھ شامل کیا جائے، تاکہ عوام کا اعتماد آئینی نظام پر بحال ہو۔ اسی طرح، آئین سازی کے عمل میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانا بھی ایک لازمی قدم ہوگا، کیونکہ عوامی مشاورت سے تشکیل دیے گئے آئین زیادہ مستحکم اور قابل قبول ثابت ہوتے ہیں۔
علاقائی اور بین الاقوامی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے، مسلم دنیا کے آئینی نظام کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے، جس میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، اور اقلیتوں کے تحفظ پر خاص زور دیا جائے۔ ایک اور اہم پہلو آئینی عدالتوں اور آزاد عدلیہ کے کردار کو مضبوط بنانا بھی ہے، تاکہ آئینی تنازعات کو منصفانہ اور غیرجانبدارانہ طریقے سے حل کیا جا سکے۔ آئینی اصلاحات کے ذریعے سیاسی نظام میں طاقت کی تقسیم کو متوازن بنایا جا سکتا ہے، تاکہ آمرانہ رجحانات کا خاتمہ ہو اور جمہوریت کو فروغ ملے۔
پاکستان سمیت مسلم دنیا میں عسکریت پسند جماعتیں جو جدید آئینی ڈھانچے کو تسلیم نہیں کرتیں، انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جدید آئینی نظام میں اصلاحات اور شریعت کے اصولوں کا انضمام ممکن ہوتا ہے۔یہی سبق پوری مسلم دنیا کی آئینی روایت سے ملتا ہے۔ تاریخی طور پر، مسلم دنیا میں مختلف ریاستوں نے اسلامی اقدار اور جدید آئینی اصولوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئینی اصلاحات صرف طاقت کے ذریعے نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی اور قانونی مکالمے اور مفاہمت کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی آئین سازی کے عمل میں علماء کرام کی شمولیت سے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ وہ اسلامی شریعت کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اس موضوع پر مزید مکالمہ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے پہلے ضروری ہے کہ تشدد کا راستہ ترک کیا جائے۔
بہرحال، مسلم دنیا کی سیاسی اشرافیہ، عوامی نمائندگان اور مذہبی طبقات کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئین کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود، معاشی ترقی، اور قومی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوتاہے، اور اس کے لیے ایک جامع، متوازن اور دین سے ہم آہنگ آئینی ڈھانچہ ضروری ہے۔ کامیاب آئینی اصلاحات ایک ایسے مسلم معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں جو ماضی کی روایات کا احترام کرتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔
سالنامہ تحقیقات کے کتابی سلسلہ کا یہ شمارہ(2024ء) ایک کاوش ہے کہ مسلم دنیا میں دستور سازی کے عمل کی جامع تفہیم فراہم کی جائے، جس میں مختلف مسلم ممالک کے آئینی بحران، سیاسی نظام، مذہبی عنصر اور سماجی استحکام کے باہمی تعلق کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں مسلم دنیا کی آئینی تاریخ،شرعی تقاضوں، عملی مشکلات، قانونی وسیاسی پیچیدگیوں، اور دستوری تبدیلیوں اور ان کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کا مقصد مسلم دنیا میں آئینی عمل کی موجودہ صورتحال کو سمجھنا اور ممکنہ اصلاحات کا جامع تجزیہ کرنا ہے، تاکہ دستوری عمل کے مختلف پہلوؤں کا ایک وسیع تناظر سامنے آسکے۔اگرچہ ان موضوعات پر اردو زبان میں مواد انتہائی محدود تھا، لہذا ہم نے ٹیم سمیت شب و روز محنت کرکے کئی اہم مضامین و مقالات کے تراجم اور پھر ان کی تلخیص میں کلیدی کردار ادا کیا، جبکہ کچھ اہل علم کے مضامین، تراجم اور نتائج فکر کو شامل کر کے یہ مجموعہ مرتب ہوا، خصوصاً ادارتی ٹیم کے فعال رکن شفیق منصور نے تراجم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ہم اِس کاوش میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں، اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔