تحریک پاکستان کی پہلی مسلم ایجوکیشن سکیم
مسلم دنیا میں مذہبی تعلیم کے ماڈل کے سلسلے میں اس مضمون کا موضوع صرف مذہبی نہیں بلکہ ’مسلم تعلیم ‘ہے جس میں اس بات کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو بطور مسلمان کیسے نظام تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید دنیا میں پالیسیاں بنانے کے لیے سروے اور ڈاٹا جمع کرنے کی بہت اہمیت مانی جاتی ہے اورجمع شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے سوالات طے کرنے اور پھر ان کے حل تلاش کے لیے تحقیق کرنے کو کامیاب پالیسی کا ذریعہ سمجھاجاتاہے ۔ اس مضمون میں سروے ، رپورٹ اور تجاویز شامل ہیں جس پر تحریک پاکستان کے ابتدائی ایام میں مسلم قائدین نے کام کیا۔ سروے کا پس منظر بیان کرنے کے بعد دو رپورٹوں کو اس مضمون کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ ایک کو ’پیر پور رپورٹ‘ اور دوسری کو ’نواب کمال یار جنگ رپورٹ‘ کہاجاتا ہے۔ مضمون نگار اسلامی نظریاتی کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
انگریزی استعمار کے تحت مسلم نظام تعلیم کی تبدیلی بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک بڑے تہذیبی، ثقافتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ اس پر رد عمل کے طور پر ایک طرف مدارس دینیہ کا نظام متحرک ہوا تو دوسری طرف علی گڑھ کا نظام تعلیم متعارف ہوا ۔ نظام مدرسہ کا مقصد دینی علوم اور اسلامی ماحول کا تحفظ تھا جبکہ علی گڑھ کا مقصد انگریز اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کو ختم کرنا یا کم کرنا تھا ۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے مسلم فضلا کو انگریزی تعلیم کے ذیعے انگریز کے ساتھ افہام وتفہیم کے قابل بنانا اور انہیں ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل بنانا پیش نظر تھا ۔ اس میں کامیابی یا ناکامی کا تناسب معلوم کرنا ایک الگ تجزیاتی مطالعہ کا متقاضی ہے ۔ اس سلسلے میں جو مطالعات کلی یا جزوی اس سے قبل ہوئے ہوں ان کی تنقیح اور تجزیہ بھی مطالعہ کا ایک اہم موضوع بن سکتا ہے ۔ ہمارا مضمون اس کے بعد والے مرحلے سے متعلق ہے ۔
یہ مرحلہ متحدہ ہندوستان میں قانون حکومت ہند ۱۹۳۵ کے تحت ہونے والے صوبائی انتخابا ت کے بعد سے شروع ہوتاہے ۔ ۱۹۳۷ء كی صوبائی حكومتیں قانون حكومت ہند ۱۹۳۵ء كے صوبائی حصے كے تحت قائم ہوئی تھیں اور كانگریسی وزارتوں نے اسی دستوری حق اكثریت كو استعمال كرتے ہوئے تعلیمی اور تہذیبی تبدیلیاں كی تھیں۔ كانگریس كی واردھا سكیم كی وجہ سے مسلمانوں كو محسوس ہوا کہ انہیں تعلیمی و تہذیبی نقصانات ہوئے ہیں ۔
افسر شاہی کے بعد مسلمانوں کے لیے خطرہ
ان حالات میں مسلم لیگ نے جواسلام اور مسلم تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے جد وجہد شروع کی اس کا ایک اہم حصہ مسلم نظام تعلیم میں اصلاحات بھی تھیں۔ قائد اعظم نے ۵ فرورری۱۹۳۸ء كو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ كے اجلاس میں تقریر كرتے ہوئے اس کا اشارہ یوں دیا:”پہلے افسر شاہی (Bureaucracy) تھی۔ وہ سمجھتے تھے كہ انھیں مسلمانوں پر طے شدہ حق حاصل ہے۔ وہ كہتے تھے كہ اگر یہ جناح آگیا تومسلمان ہمارے ہاتھوں سے نكل جائیں گے۔ یہ كام ہوبھی گیا كہ اللہ كا شكر ہے اب مسلمان ان كے ہاتھوں سے باہر ہیں۔ مگر اب طاقت ان سے نكل كر كافی حد تك اكثریتی آبادی كے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ اب یہ بات واضح ہے كہ انگریز حكومت كی طرف سےایسی كوئی علامات نہیں دكھائی جارہی ہیں كہ وہ مسلمانوں كی مدد كو آئے گی بلكہ وہ تو انھیں بھیڑیوں كے آگے ڈال رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے كہ ابھی تك معاملات قابو میں ہیں۔كافی حد تك مسلم لیگ نے مسلمانوں كو برطانوی حكومت كی ہتھكڑیوں سے آزاد كرالیا ہے، مگر اب ایك اور طاقت ہے جس كا دعوی ہے كہ وہ برطانوی حكومت كی جانشین ہے۔ آپ اسے جو بھی نام دے لیں، مگریہ ہندو ہیں، اور ہندو حكومت ہے”[1]۔
پیر پور كمیٹی كی تشكیل
انڈین نیشنل کانگریس کی صوبائی حکومتوں کے زیر اثر قائم شدہ نئی تعلیمی سکیم میں مسلمانوں کے تہذیبی و تعلیمی نقصانات كا اندازہ لگانے كے لیے ۲۸/ مارچ ۱۹۳۸ء كو پیر پور[2] كے ‘راجہ سید محمد مہدی صاحب’ كی سربراہی میں ایك خصوصی كمیٹی تشكیل دی گئی۔ راجہ صاحب كے علاوہ اس میں سید تقی ہادی، سید اشرف احمد، مولوی عبد الغنی، سید ذاكر علی اور میاں غیاث الدین بطور ركن شامل تھے اور اے بی حبیب اللہ اس كے سیكرٹری تھے۔ اس كے ذمے كانگریسی وزارتی حكومتوں والے سات صوبوں بہار، صوبہ ہائے متحدہ (یو پی)، مركزی صوبہ جات (سی پی) وغیرہ میں كانگریسی حكومتوں كے مظالم اور ان نقصانات كا مطالعہ كرنے كاكام لگایا گیا جن كا مسلمانوں كو سامنا كرنا پڑا۔ كلكتہ كے اجلاس مؤرخہ ۱۷، اپریل ۱۹۳۸ء میں قائد اعظم نے اس کمیٹی کی اطلاع یوں دی کہ ‘لیگ كی كونسل نے مسلمانوں كی اقتصادی، تعلیمی واخلاقی اصلاح’كےلیے ایك كمیٹی مقرر كی ہے۔ خورشید احمد خان یوسفی نے قائد اعظم كے صدارتی خطبے میں ‘لیگ اور صوبائی قانون ساز اسمبلیاں’ كے تحت اس كمیٹی كا یوں ذكر كیا ہے: “مركزی دفتر مظالم (Central office of the hardship) میں بہت سی زبانی اور تحریری شكایات پہنچی ہیں، جن میں ان بد سلوكیوں اور بے انصافیوں كا ذكر كیاگیا جن كا سامنا مختلف كانگریسی صوبوں كے مسلمانوں كو كرنا پڑا، خصوصاً جو آل انڈیا مسلم لیگ كے كاركن تھے یا ركن تھے۔ اس لیے كونسل نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ‘راجہ محمد مہدی صاحب’ كی سربراہی میں ایك خصوصی كمیٹی تشكیل دی ہے”[3]۔ كمیٹی كی رپورٹ۱۵؍ نومبر ۱۹۳۸ء كو شائع ہوگئی اور ۲۶دسمبر ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ كے اجلاس منعقدہ پٹنہ میں پیش كی گئی[4]۔ اسے پیرپور رپورٹ كہاجاتا ہے۔
پیر پور رپورٹ كا خلاصہ
رپورٹ میں بتایا گیا كہ واردھا سكیم میں مسلمانوں كی مسلم شناخت كو بگاڑنے كا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس كے لیے کمیٹی نے روس كی مثال دی جہاں نظام تعلیم اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں كے ذریعے مسلمانوں كو دین سے دور كردیاگیا۔ انہوں نے تمام ادیان كی اقدار كو جمع كركے ایك دین قرار دینے پر بھی تنقید كی۔ رپورٹ میں واضح كیاگیا كہ اسلام كی حیثیت مسلمانوں كے لیے ہندو مت سے بہت مختلف ہے۔ ہندو مت كی تعلیم برہمنوں تك محدود ہوتی ہے جب كہ اسلام تمام مسلمانوں كے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ اسلامی تاریخ اورامیر خسرو، كبیر، اكبر اور دارا شكوہ جیسی تاریخی شخصیات كو مسلمانوں كا ہیرو قرار دے كر انہیں غلط رنگ میں پیش كیاگیا كہ انہوں نے ہندومت كے ساتھ اختلاط كا رویہ اپنایا۔اس كے ساتھ ساتھ اس سكیم میں ہندو ہیروز ؛ ہارشا، پرتھوی راج، شیواجی اور رنجیت سنگھ كو عظیم شخصیات بنا كر دكھایا گیا اور دوسری سے چوتھی جماعت تك دوسری قدیم اقوام كے ذكر كے ساتھ پورے تین سال صرف ہندو تاریخ پڑھانے كے لیے مختص كردیے گئے۔اس سكیم نے متحدہ ہندوستانی قومیت كی بھی وكالت كی اور دین كی بجائے وطن كے ساتھ محبت كا درس دیا، گانے اور رقص كی تعلیم بھی اس میں شامل كی گئی اور ہندو ایام منانے كو تعلیم كا حصہ بنادیاگیا۔ اس سے بھی بڑھ كریہ مسلمانوں كو ہریجنوں كی طرح قرار دیاگیا۔ كمیٹی نے سكیم میں شامل معاشرتی علوم كے نصاب كو بھی خلاف اسلام قرار دیا۔پیر پور رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی كہ كانگریس اور ‘ہندو مہا سبھا’ دونوں كا مقصد ایك ہی ہے، البتہ ان میں فرق یہ ہے كہ ہندو مہا سبھا رویے اور الفاظ میں سخت ہے اور كانگریس نرم الفاظ اور سیاسی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ كیا كہ كانگریس ہندوستانی مسلمانوں كو ان كی اسلامی شناخت سے محروم كردینا چاہتی ہے۔
غیر اسلامی شعائر کی پابندی
مسلمان طلبہ وطالبات كے لیے ‘بندے ماترم’كا ترانہ لازم قرار دیاگیا جس میں مسلم دشمن عبارات واضح طور پر شامل تھیں۔ كئی مقامات پر یہ كہہ كر اذان دینے پر پابندی لگا دی گئی كہ اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ سی پی اور بہار میں سكولوں كے مسلمان طلبہ كو السلام علیكم كے بجائے ‘نمستے’ اور ‘رام جی كی جے’ كہنے كے علاوہ ‘سرسوتی دیوی’ كے سامنے ہاتھ جوڑ كر پوجا كرنے پر مجبور كرنے كے واقعات بھی ہوئے۔ ایك مراسلہ كے ذریعے صدر مدرسین كو ہدایت كی گئی كہ گاندھی جی كے یوم پیدائش پر ان كی تصویر كے سامنے كھڑے ہوكر پوجاكریں۔ اردو كو مسلمانوں كی زبان قرار دے كر ‘ہندوستانی’ كو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا۔ گائے كے ذبح پر پابندی لگائی گئی اور گاؤكشی كے مقدمات قائم كركے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ كیاگیا۔ ‘ودیا مندر’ یعنی ‘مندر مدرسہ’ كا منصوبہ شروع كركے مسلمان بچوں كو تعلیم سے محروم ركھنے كا ایك اور اقدام كیاگیا[5]۔
سکولوں میں اسلام کی لازمی تعلیم کی اہمیت
کمیٹی نے دینی تعلیم كی جگہ اخلاقی تعلیم متعارف كرانے پر اعتراض كرتے ہوئے حوالہ دیا كہ اس مسئلے پر ۱۹۱۶میں بھی غور كیا گیا تھا اور بالآخر یہی فیصلہ ہواتھا كہ ‘اسلام كی تعلیم’ مسلمانوں كی تعلیم كا جزو لاینفك ہے، اس لیے صوبوں كو انہیں مستقل اسلامی ادارے قائم كركے دینی تعلیم فراہم كرنے كی ہدایت كی گئی تھی۔انہوں نے اس كے علاوہ بھی مسلمانوں كے بارے میں واردھا سكیم كی دیگر خرابیوں كابھی ذكر كیاگیا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا كہ ‘شمال مغربی سر حدی صوبے’ كے علاوہ تمام صوبے اس نظام تعلیم سے متاثر ہوئے۔
اسی كانفرنس میں قرار داد پاس كی گئی كہ یہ نظام تعلیم نافذ كرنے سے مسلمانوں كا جو فكری نقصان ہوا اس كا فوری ازالہ كیاجائے اور مسلم لیگ كی ‘وركنگ كمیٹی’ كو اختیار كیا گیا كہ جہاں راست اقدام كی ضرورت محسوس ہو، كیا جائے۔رپورٹ میں مطالبہ كیاگیا كہ مسلمانوں كے لیے الگ تعلیمی ادارے قائم كیے جائیں جن كا نظم ونسق بھی مسلمانوں كے ہاتھ میں ہو تاكہ مسلمانوں كی تعلیم كا نظام ان كے اپنے ہاتھ میں رہے۔اس مقصد كے لیے ‘سنٹرل مسلم ایجوكیشن بورڈ’ قائم كیاجائے اور مكمل طور پر مسلمانوں كی زیر نگرانی اور مسلمانوں كے زیر انتظام صوبائی سطح پر بھی تعلیمی بورڈ قائم كیے جائیں۔ان كے اخرجات چلانے كے لیے اسمبلیوں میں موجود مسلم نمائندے حكومت سے فنڈ فراہم كرنے كا مطالبہ كریں، نیز مسلم اوقاف اور عوام سے بھی مدد كی اپیل كریں۔
اسی زمانے میں صوبہ بہار میں ایك ایسی تحقیق ‘شریف رپورٹ’ كے نام سے بھی منظر عام پر آئی۔ حكیم اسرار احمد كُراوی كی كتاب ‘سی پی میں كانگریس راج’، فضل الحق كا ایك پمفلٹ اور مسلم لیگ كاایك كتابچہ بھی اسی موضوع پر شائع ہوئے[6]۔
پیر پور رپورٹ كا خلاصہ قائد اعظم كی زبانی
۲۶؍ دسمبر ۱۹۳۸ء كو آل انڈیا مسلم لیگ كے ۲۶ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں ‘پیر پور رپورٹ’پیش كی گئی تو قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ میں اس کی تفصیلات بیان کیں ۔ انہوں نے ‘ہندو نشاة ثانیہ’ كے لیے گاندھی جی كے پروگرام پر روشنی ڈالی اور ‘پیر پور رپورٹ’ كا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا : ‘صورت حال كا خلاصہ ایك جملے میں سمویا جاسكتا ہے۔”آج ہندو ذہنیت اور ان كے نقطۂ نظر كو پالاپوسا جارہا ہے اور مسلمانوں كو مجبور كیاجارہا ہے كہ نئی صورت حال كو قبول كریں اوركانگریسی رہنماؤں كے احكامات كے سامنے سر جھكا دیں۔ یہ ہندو نقطۂ نظر آئے روز مسلمانوں كی روزمرہ زندگی میں دخل اندازی كررہا ہے’[7]“۔
علی گڑھ كی تعلیمی خدمات اور روز گار سے آگے کا مرحلہ
مسلم لیگ كی قیادت زیادہ تر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی كے فضلا اور متعلقین كے ہاتھوں میں تھی۔ جب مسلم لیگ نے نشاۃ ثانیہ کے لیے اپنا حتمی نصب العین طے كرلیا توقائد اعظم نے ۵/ اپریل ۱۹۳۹ءكوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی كے سٹاف كی طرف سے استقبالیہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا: “علی گڑھ مسلمانوں كے لیے امید اور جذبہ حاصل كرنے كا ذریعہ تھا۔وہ عوامی زندگی سے اپنے آپ كو علیحدہ كرچكے تھے مگر جب اسلام كے نام پر انھیں پكارا گیا تو وہ اس سے الگ نہیں رہ سكے[8]۔ مسلمان بے نامی زمین میں كھڑے نہیں تھے، بلكہ وہ خود بے نامی زمین تھے، مسلمان كی اپنی كوئی حیثیت نہیں تھی۔كسی قوم كی نشو ونما كے لیے دو اہم ذرائع ہوتے ہیں : ایك ماں اور دوسرا استاد۔یہ ایك ایسا اہم ہدف تھا جو بہت زیادہ ذمہ داری كا تقاضہ كرتا ہے۔ مجھے اعتراف ہے كہ آپ لوگوں نے اپنی حدود كے اندر رہتے ہوئےاپنی بہترین كوشش كی ہے۔علی گڑھ كے لوگ جہاں گئے، انھوں نے اپنے آپ كو باعزت طریقے سے اس كے اہل ثابت كیا۔تاہم اب بھی بہت سا كام كرنا باقی ہے۔ ہندوستان میں تدریس كے یقینی نتائج سامنے آئے ہیں۔ہمارے پڑھے لكھے لوگ روزگار كے قابل ہوكر ایسے نكل رہے ہیں جیسے كسی فیكٹری میں مال تیار ہورہا ہو۔ ان میں سے اكثر كے سامنے سب سے اہم مقصد روزگار كے قابل ہونا تھا۔اس كا نتیجہ یہ نكلا كہ ان كا مقصد محض روزگار كا حصول رہا، خواہ افسرشاہی كے دائرے میں ہو یا كانگریس كے دائرے میں۔ انھیں ان دونوں میں سے ہی كسی كی تلاش كرنا ہوتی تھی۔ انھیں برطانوی دائرے میں روزگار بھی مل سكتے تھے، القابات بھی اور ترجیحات بھی۔ ان كے علاوہ كچھ ایسے تھے جونیشنلسٹ مسلمان بننے كا مظاہرہ كركے كانگریس كیمپ كے پیروكار بن گئے، اور كانگریس بھی ان كی سرپرستی كرنے لگی۔
نئی ذہن سازی كی ضرورت
میں آپ سے پوچھتا ہوں،اے اساتذۂ كرام ! كیا اب یہ سلسلہ ختم نہیں ہونا چاہیے؟ اہل فكر ودانش كی نئے سرے سے ذہن سازی كی فوری ضرورت ہے۔ آج صورت حال یہ ہے كہ ہم پورےصاحب استعداد لوگوں پر بھی اعتماد نہیں كرسكتے۔ میں نے اس مسئلے پر بہت غور وفكر كیا ہے، مجھے یہ پتہ چلا ہے كہ اس میں ایك اہم عنصر كی كمی ہے۔ اہل فكر ودانش ایك اصول پر عمل نہیں كرپائے- خود اعتمادی اور اخلاقی، ثقافتی اور سیاسی خود شعوری۔ كوئی قوم اس وقت تك كچھ بھی حاصل نہیں كرسكتی جب تك اس كے اہل فكر ودانش قربانی دینے كے لیے تیار نہ ہوں۔میں اس حقیقت كو راز میں نہیں ركھنا چاہتا كہ مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں، اور مسلمان اس وقت تك اپنی حیثیت برقرار نہیں ركھ سكتے جب تك وہ قومی خود شعوری اور خود اعتمادی حاصل نہ كرلیں۔ مسلم دماغ شكست خوردگی میں مبتلا ہے۔ خوف،حوصلہ شكستگی، گداگری ہم میں سے كئی ایك كے دل ودماغ پر چھائی ہوئی ہے۔جب تك ہماری شكست خوردہ ذہنیت برقرار رہتی ہے، ہمارے لیے امید كی كوئی كرن نہیں۔ ہاں اب ہم نےاپنے فرائض كو جاننا شروع كردیا ہے۔ ہم ایك قوم كی طرح زندگی بسر كریں گے، اور ایك قوم كی طرح اپنا كردار ادا كریں گے”[9]۔
دستوری تحفظ كے لیے گورنرجنرل كو بریفنگ
۴؍ جولائی ۱۹۳۹ ء كو بمبئی میں مسلم لیگ كی وركنگ كمیٹی كے اجلاس میں كانگریس اور ‘ہندو مسلم’ مسئلہ، ہندوستانی تاركین وطن، فلسطین فنڈ، مسلم نیشنل گارڈز، ہندوستانی نوابی ریاستوں كے مسلم شہری، حیدر آباد احتجاج، مسلم لیگ بہار كی درخواست اور واردھا سكیم وغیرہ جیسے مسائل پر غور كیا گیا۔ كمیٹی میں ‘واردھا’ سكیم كے بارے میں جو فیصلہ كیاگیاتھا، قائد اعظم نے اسے یوں بیان كیا: “كمیٹی نے كانگریسی حكومتوں والے صوبوں میں مسلمانوں كی حالت پر غوركیا۔ اب چوں كہ گورنر جنرل كو حال ہی میں مكمل بریفنگ دی جاچكی ہے، اس لیے كمیٹی نے فیصلہ كیا كہ اس معاملے پر مزید كام كو آئندہ اكتوبر تك مؤخر كردیا جائے۔ یہ بھی فیصلہ كیا گیا كہ كوئی متعین قدم اٹھانے سے پہلے گورنر جنرل كی طرف سے كسی كارروائی كا انتظار كرلیاجائے۔ كمیٹی امید كرتی ہے كہ گورنر جنرل كو جو بریفنگ دی گئی ہے وہ اس پر غور كریں گے، اور مسلمانوں كے حقوق اور مفادات كے تحفظ كے بارے میں قانون كے ذریعے ان پر جو ذمہ دار یاں عائد كی گئی ہیں ان كو ادا كرنے میں كامیاب ہوں گے”[10]۔
۳؍ ستمبر ۱۹۳۹ء كو عالمی جنگ شروع ہوگئی تو تمام صوبائی حكومتوں كے اختیارات حكومت برطانیہ نے معطل كردیے اور اس پر احتجاج كے طور پر گاندھی جی كی ہدایت پر اكتوبر- نومبر ۱۹۳۹ء میں كا نگریس نے تمام صوبائی وزارتوں نے استعفا دے دیے۔ اس واقعہ پر جناح صاحب كی ہدایت پر مسلم لیگ نے ۲۲؍ دسمبر كو ‘یوم نجات اور یوم تشكر منایا’۔ ان حالات میں دونوں جماعتوں كے درمیان تعاون كے امكانات معدوم ہوگئے[11]۔ دسمبر ۱۹۳۹ء میں جناح صاحب نے ایك اخباری بیان جاری كركے مطالبہ كیا كہ عالی قدر شاہ برطانیہ كے اپنے ہائی كورٹ كے جج صاحبان پر مشتمل ایك شاہی كمیشن تشكیل دیا جائے جس كی سربراہی پریوی كونسل كے ایك ماہر قانون ركن كررہے ہوں، اور یہ كمیشن كانگریس كی وزارتوں كے خلاف مسلمانوں كی شكایات كی تحقیق كرے۔
آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی فکر مندی اور اقدام
قائد اعظم نے اکتوبر تک گورنر جنرل کی طرف سے کسی اقدام کا انتظار کرنے کی بات کی تھی ۔ ۲۹/ دسمبر ۱۹۳۹ء كو كلكتہ میں آل انڈیا مسلم ایجوكیشنل كانفرنس [12] منعقدہ ہوئی تو اس کی صدارت نواب كمال یار جنگ [13]نے کی ۔ اپنے خطبۂ صدارت میں انہوں نے کانفرنس کی سابقہ خدمات کی تحسین کی اور اس وقت مسلمانوں کی تعلیمی وتہذیبی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی اصلاح کے لیے کمیٹی بنانے کی تجویز دی ۔ نواب صاحب کے خطبۂ صدارت کے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں:
‘آل انڈیا مسلم ایجوكیشنل كانفرنس نے اپنے قابل یادگار تاریخی دور میں مسلمانان ہند كی عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں۔ یہی وجہ ہے كہ ہم اس كے بانی اعظم سر سید احمد خان اور ان كے جانشینوں كی یاد تازہ ركھتے ہیں، جنہوں نے اس ادارہ كے ذریعے مسلمانان ہند كے ذہن میں اس امر كا بڑھتا ہوا شعور پیدا كیا كہ انھوں نے اس ملك كی ترقی میں كیا حصہ لیاہے۔ لیكن اب اس ادارہ كو گزشتہ قائدین سے زیادہ ایك عظیم تر ذمہ داری سے عہدہ بر آہونا ہے۔
تعلیمی سكیم كا دستور سے تعلق
قانون حكومت ہند بابت ۱۹۳۵ء نے برطانوی ہند كے صوبجات میں خود مختاری نافذ كردی ہے، جس سے ابنائے وطن كو اپنی تعلیمی پالیسی تشكیل دینے كا حق حاصل ہوگیا ہے۔ قانون مذكور كا وفاقی جزو ابھی رُو بہ عمل نہیں آیا۔لیكن مستقبل قریب میں مركزی حكومت میں كوئی نہ كوئی تغیر ناگزیر ہوگا۔ بہت ممكن ہے كہ اس قانون میں ترمیم ہوجائے، یا یہ سارا قانون مسترد ہوكر كوئی نیا قانون تشكیل پاجائے جو ملك كو آزادی كی منزل كی طرف ایك قدم آگے لے جائے اور عوام الناس كو اپنی پالیسی تشكیل دینے كے زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوجائیں۔ ایسے عظیم الشان تغیر كے موقع پر وہ كون سی چیز ہے جو آپ كے لیے جاذب توجہ ہو۔
گزشتہ ڈھائی سال كے واقعات كی رفتار نے یہ ظاہر كردیا ہے كہ صوبہ داری مجالس مقننہ میں ایك واحد مذہبی فرقہ ایك اكثریتی جماعت تشكیل دے سكتا ہے۔ اور اگر وہ ٹھان لے تو اپنی تہذیب كو جو اس كے مذہب كی آفریدہ ہے سارے صوبہ میں پھیلاسكتا ہے۔ ایسے حالات میں اقلیت خسارہ میں رہتی ہے، جیسا كہ مسلم جماعت رہی۔ كیا آئندہ تغیرات میں ایسے حالات دہرانے كی اجازت دیں گے۔ یا آپ عملی آدمیوں كی طرح اپنا تعلیمی لائحۂ عمل قبل از قبل مرتب كركے اپنے تعلیمی نصب العین كو متعین كردیں گے۔ اور اس بات پر اصرار كریں گے كہ آئندہ نظام میں اس نصب العین كا دستوری حیثیت سے تحفظ كیاجائے۔
تعلیمی سکیم اور اسلام كا اجتماعی نظام
میں اس امر سے بخوبی واقف ہوں كہ مسلمان ایك جماعت كی حیثیت سے ان تعلیمی سكیموں سے مطمئن نہیں ہیں جو مختلف گوشوں سے پیش ہوتی رہی ہیں۔ یہاں كسی خاص سكیم كا ذكر كرنا ضروری نہیں ہے، لیكن ایك چیز كے متعلق مجھے یقین ہے كہ مستقبل میں كوئی نظام تعلیم قابل قبول نہ ہوگا جو ہم میں ایسے ذہنی، روحانی اور اخلاقی صفات نمو دینے سے قاصر رہے جن كی وجہ سے ہم اسلامی روح اور تہذیب كے محافظ بن سكتے ہیں، وہ اسلام جو نوع انسان كی ترقی كے لیے اپنا ایك پیام ركھتا ہے۔جیسا كہ ہر مسلمان جانتا ہے، اسلام محض ایك جذبے كا نام نہیں، اور نہ یہ ایك ایسی مجرد خصوصیت ہے جو كسی فرد كی خانگی زندگی تك محدود رہے۔ یہ در حقیقت اِجتماعی زندگی كا ایك طریقہ ہے۔ اور اس كو ہر نظام تعلیم میں جگہ ملنی چاہیے جو ہمارے بچوں كے لیے مرتب كیا جائے۔ ڈاكٹر سید عبد اللطیف كے الفاظ میں :
“اسلام كا مقصد ایك ایسا اجتماعی نظام قائم كرنا ہے جو زندگی كے دو بنیادی حقائق پر زور دیتا ہو۔ ایك جس كو میں حركت حیات سے تعبیر كرتا ہوں اور دوسرا وحدت حیات۔ اور یہ دونوں ایك ایسے لائحۂ عمل كی طرف اشارہ كرتے ہیں جس كو “شریعت” كے نام سے موسوم كیاجاتا ہے۔ آپ اس شریعت كو”قانون اسلام”بھی كہہ سكتے ہیں۔ اس قانون اور اس لائحۂ عمل كے حدود كے اندر ایك مسلمان كو زندگی بسر كرنی پڑتی ہے۔ یہ حدود در حقیقت تنگ نہیں ہیں جیساكہ وہ ہماری موجودہ جہالت اور انحطاط كی حالت میں نظر آتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں واقعات كی رفتار نے باربار ثابت كر دیا ہے كہ جس حد تك زندگی كے یہ دو بنیادی حقائق حركت ووحدت پیش نظر ركھے گئے، اس حد تك شریعت اسلام اپنے پیرؤں میں زندگی اور قوت پیدا كرتی رہی۔پس یہ امر پیش نظر رہے كہ جس قسم كا تعلیمی نظام بھی آپ اپنے بچوں كے لیے مرتب كریں، اس كو زندگی كے ان عظیم الشان حقائق كے مطابق ہونا چاہیے جس كا اسلام علمبردارہے۔ اگر ہمارے بچوں كی تعلیم میں ان حقائق تك پہونچنے كے لیے راستے مسدود كردیے گئے تو ظاہر ہے كہ ایسی تعلیم بےثمر ثابت ہوگی”[14] ۔
تعلیمی نظام كا مقصد اوراس كے اسلامی خدو خال
آخر میں انہوں نے نظام تعلیم كا مقصد طے كرتے ہوئے اور اسے مرتب كرنے كی دعوت دی اور فرمایا:’میری رائے میں اس كانفرنس كو چاہیے كہ اس امر كے متعلق ان حالات كے مد نظر جن میں ہم اس ملك میں گھرے ہوئے ہیں، ہمارے بچوں كے لیے كس قسم كی تعلیم موزوں ہوگی، اپنے خیالات فوراً مرتب كرلے۔ہر نظام تعلیم میں جو مسلمانوں كے لیے تشكیل دیا جائے دو ابتدائی مقاصد پیش نظر رہنے چاہیے:
(۱)۔ اسلامی تہذیب كی امتیازی خصوصیات كا تحفظ۔
(۲)۔ اسلامی نظام اجتماعی كا استحكام۔
متذكرۂ صدر مقاصد كے حصول كے لیے ایك نظام تعلیم تشكیل دینے كا كام ماہرین تعلیم كی ایك جماعت كے سپرد كیاجانا چاہیے۔ مثلاً تین اركان كی ایك مختصر كمیٹی، جس كا یہ فرض ہوگا كہ ملك كے مختلف حصوں كا دورہ كرے، ہر مركز پر مقامی ماہرین تعلیم ومعاشیات سے مشورہ كرے اور اپنی رائے پیش كرے۔ اس كمیٹی كا كام یہ بتلانا بھی ہوگا كہ كس حد تك اور كن خاص مضامین میں مسلم اور غیر مسلم طلبہ كے لیے ایك مشتركہ نصاب تیار كیا جاسكتا ہے اور كن مضامین میں مسلمانوں كے لیے جداگانہ اور مستقل انتظام ضروری ہوگا۔
انھوں نے مزید وضاحت كی كہ”یہ مسئلہ بجائے تعلیمی یا سیاسی ہونے كے زیادہ تر معاشی نظر آئے گا۔ كیوں كہ وہ تعلیم ناقص ہے جو ہم میں سے فلاكت زدہ افراد كی معاشی ترقی میں معاون ثابت نہ ہو۔ پس یہ ضروری ہے كہ ہم اپنے معاشی ذرائع كے استحكام اور ہماری خیرات اور اوقاف كے مسئلہ پر توجہ كریں، تاكہ ان كو عامة المسلمین كی فلاح و بہبود كے لیے كام میں لایا جاسكے”۔
آئینی تحفظ كی ضرورت
نواب صاحب نے اپنی تقریر میں مزید فرمایا : اس امر كے متعلق رائے دینا بھی اس كمیٹی كا فرض ہوگاكہ ایسے جداگانہ انتظام كو اطمینان بخش طریقہ پر رو بہ عمل لانے كے لیے آئینی تحفظ كس حد تك ضروری ہوگا۔
ایسی اسلامی تعلیم جو معیشت کی بھی اصلاح کرے
حاضرین ! ہندوستان میں مسلمانوں كی تعلیم كا مسئلہ خالص تعلیمی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ اس مسئلہ پر مسلمانوں كی موجودہ زندگی كے پس منظر میں غور كریں تو مسئلہ بجائے تعلیمی یا سیاسی ہونے كے زیادہ تر معاشی نظر آئے گا۔ كیوں كہ وہ تعلیم ناقص ہے جو ہم میں سے فلاكت زدہ افراد كی معاشی ترقی میں معاون ثابت نہ ہو۔ پس یہ ضروری ہے كہ ہم اپنے معاشی ذرائع كے استحكام اور ہماری خیرات اور اوقاف كے مسئلہ پر توجہ كریں، تاكہ ان كو عامة المسلمین كی فلاح و بہبود كے لیے كام میں لایا جاسكے۔میں آپ كو یقین دلاتا ہوں كہ یہ ذرائع نظر انداز كرنے كے قابل نہیں۔ آپ ملك كے مختلف حصوں میں مختلف اوقاف پائیں گے جو قانون بیت المال كی غلط تعبیر كی وجہ سے یا تو مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گئے ہیں یا ان كو حكومت نے ضبط كرلیا ہے۔ اور جہاں كہیں بھی یہ اوقاف مسلمانوں كے ہاتھ میں ہیں،ان كو دانشمندی سے استعمال نہیں كیا جارہا ہے۔ اس كے علاوہ زكاة كو ہم نے بری طرح فراموش كردیا ہے۔ یہ ایك اولین فرض ہے جو اسلام امراء پر عائد كرتا ہے تاكہ وہ غرباء كے ساتھ فوائد میں شریك رہیں اور احساس، اتحاد ومساوات كا ثبوت دیں۔ اگر ہم اسلام كے اس بنیادی حكم كے مطابق عمل كرسكیں تو مسلم عوم كی تعلیمی ومعاشی سدھار كے اسكیموں كو كامیابی كے ساتھ چلانے كا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں آپ كی مخلصانہ غور وفكر كے لیے اس سكیم كا ذكر كرتا ہوں جو مسلم كلچر سوسائٹی حیدرآباد نے بیت المال كے عظیم الشان ادارہ كے اِحیا كے لیے مرتب كی ہے۔ اگر یہ رو بہ عمل آجائے تو ہم اس ملك میں ایك آزاد اور باعزت زندگی بسر كرسكتے ہیں۔
اخراجات برداشت كرنے كی پیش كش
حاضرین! میں نے عمداً ان موضوعات كا ذكر كرنے سے گریز كیا ہے جو ہر سال آپ كی كانفرنس میں بحث وتمحیص كے لیے پیش ہوتے ہیں۔ میں نے صرف ایك اہم ترین مسئلہ پر اپنی توجہ مرتكز كی ہے یعنی ایك ایسی جامع تعلیمی اسكیم كا مرتب كرنا جو نسبتاً چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی حاوی ہو۔ اب تك ہم نے ان اسكیموں سے ہم آہنگی پیدا كرنے كی كوشش كی جو دوسروں نے مرتب كركے ہمارے سر تھوپی تھیں۔ اب وقت آگیا ہے كہ ہم خود اپنی ایك اسكیم تیار كرنے كی كوشش كریں اور یہ دیكھیں كہ ایسی اِسكیم ملك كے تعلیمی نظام سے كس طرح ہم ربط ومطابقت پیدا كرسكتی ہے۔ ایك تحقیقاتی كمیٹی كی تشكیل كے لیے جو میں نے تجویز كی ہے یقیناً كچھ مصارف ناگزیر ہیں اور اگر آپ اجازت دیں تو میں بخوشی یہ مصارف برداشت كروں گا۔ بقیہ امور میں میری دعا ہے كہ آپ كے غور وفكر میں فضل الہٰی شریك رہے[15]۔
نواب صاحب كے خطاب كا اثر
یہ معاملہ نواب صاحب كے صدارتی خطاب کے فوراً بعد لگاتار دو دن تک مختلف حلقوں میں غیر رسمی طور پر زیر بحث رہا اور اس طرح کی انکوائری کی ناگزیر ضرورت پر مکمل طور پر اتفاق رائے قائم ہوگیا۔پھر اجلاس کے اختتامی روز نواب صدر یار جنگ [16]بہادر نے اسے عملی شكل دینے كے لیے قرارداد پیش کی، جس كی تائید عزت مآب جناب اے کے فضل الحق نے كی۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہو گئی جس میں ملك كے مختلف نظام ہائے تعلیم کا سروے کركے ایک جامع اور وسیع البنیاد تعلیمی اِسكیم تیار كرنے كا فیصلہ كیاگیا، جو مسلمانوں کی ثقافت اور سماجی نظام کی مخصوص خصوصیات کے تحفظ میں مددگار ثابت ہو۔
نواب كمال یار جنگ كی تعلیمی كمیٹی
اسی كانفرنس میں ایک اور قرارداد کے ذریعے مطابق نواب کمال یار جنگ بہادر کو كمیٹی كا صدر اور خان بہادر پروفیسر عبدالمجید قریشی[17] ایم اے کو اس کا سیکرٹری مقرر کیا گیا اور صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ کمیٹی کے اہلکاروں کا انتخاب کریں۔ ممتاز ماہرین تعلیم اور عوامی رہنماؤں سے مشاورت كركے صدر كمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کمیٹی درج ذیل افراد پر مشتمل ہوگی:-
- نواب کمال یار جنگ بہادر۔ صدر
- علامہ عبداللہ یوسف علی، M.A., LL .M., C.B.E., I.C.S. (ریٹائرڈ)
- سر شیخ عبدالقادر، Kt.، بیرسٹر- ایٹ لاء
- عزت ماب سر ایم عزیز الحق، Kt.، C.I.E
- ڈاکٹر سر احمد فضل الرحمن، B.A. (آکسن)، ایل ایل ڈی۔
- ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، ایم اے، ایل ایل ڈی، بار ایٹ لاء۔
- ڈاکٹر عبدالعزیز پوری، ایم اے، پی ایچ ڈی۔ (لندن)
- حاجی مولوی ابوالحسن، I.E.S. (ریٹائرڈ)۔
- مولوی سید طفیل احمد
- خان بہادر پروفیسر عبدالمجید قریشی، ایم اے- سیکریٹری۔
- جناب خان فضل محمد خان، ایم اے (کنٹاب)۔
کمیٹی کا کام جلد از جلد شروع کرنے كی غرض سے نواب کمال یار جنگ بہادر نے کانفرنس ختم ہونے کے تقریباً فوراً بعد کمیٹی کا اجلاس جلد بلانے کے لیے ۴ جنوری ۱۹۴۰ء کو ایک خط جاری کردیا۔ چناں چہ ۲۶ جنوری ۱۹۴۰ء كو كمیٹی كا پہلا اجلاس قصر خان خاناں، حیدرآباد (دکن) میں ہوا۔ كئی روز كے مسلسل غور وخوض كے بعد عوامی رائے كے حصول كے لیے ایك سوالنامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ سوالنامے كا مسودہ تیار كرنے كا كام عزت مآب سر ایم عزیز الحق کو سونپاگیا۔
گشتی كمیٹی كی تشكیل
سوالنامہ ملك كے مختلف حصوں میں تقسیم كركے مسلمانوں كے حالات، ان كی تعلیمی ضروریات اور تجاویز جمع كرنی تھیں۔ اس مقصد كے لیے سر محمد عزیز الحق كی سربراہی میں ایك گشتی كمیٹی تشكیل دی گئی۔اس کمیٹی کا کام مسلم تعلیم کے مقامی حالات کا مطالعہ کرنا، موجودہ نظام تعلیم کا جائزہ لے کر مسلمانوں کے سماجی نظام اور ثقافتی زندگی پر اثرات کا جائزہ لینا، اس بات کی تحقیق کرنااوریہ کہ آیا کوئی منتشر اثر یا رجحان تو کام نہیں کر رہا ہے۔ رائے عامہ کے رہنماؤں اور دیگر نامور ماہرین تعلیم کے ساتھ عام طور پر مسلم تعلیم کے مسائل پر بحث کرنا۔طے یہ ہوا كہ گشتی کمیٹی اپنی رپورٹ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔ كانفرنس كا آئندہ اجلاس دسمبر ۱۹۴۰ میں ‘پونا’ میں ہوا، اس وقت تك چوں كہ گشتی كمیٹی كا كام مكمل نہیں ہواتھا اس لیے اسے ایک سال کا مزید وقت دیا گیا۔ رپورٹ کے منسلک ’ب‘ میں مکمل سوالنامہ دیا گیا ہے ۔ سوالنامے کے شروع میں جواب دہندگان سے درخواست کی گئی تھی کہ :
۱۔ اپنانام مع اعلیٰ تعلیم کا درجہ یا دیگر القاب و خطابات ذکر کریں ۔
۲۔ موجودہ عہدہ ، منصب یا اس کے علاوہ اپنی حیثیت لکھیں ۔
۳۔ اپنے تجربہ کا خلاصہ لکھیں جس کی بنیاد پر جواب دے رہے ہیں ۔
۴۔ مکمل پتہ مع ڈاک خانہ و نام ضلع
یہ سوالنامہ کل ۱۰۰(ایک سو) سوالات پر مشتمل تھا جن میں نظا تعلیم کے تمام پہلؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ پہلا سوال یہ تھا: ’’کیا آپ کی رائے میں موجودہ نظام تعلیم اپنے کسی تعلیمی مرحلے – یعنی پرائمری ، سیکنڈری اور یونیورسٹی – پر اسلامی تہذیب اور روایات کے تحفظ کے لیے کام کررہا ہے ؟ کیا موجودہ تعلیمی نظام میں کوئی ایسی چیز ہے جس کا مقصد مسلم طلبہ کو اسلام سے دور کرنا ہو ، یا کسی بھی طرح وہ مسلم سماجی نظم ونسق کو ربط توڑنے کی حوصلہ افزائی کرتاہے ؟ ‘‘ ۔ باقی سوالات تقریبا اسی پر مبنی تھے ۔ ان میں سے پہلے ۲۰ سوال عمومی نوعیت کے تھے مگر سب کا محور مسلمانوں کی دینی تعلیم ہی تھا ۔ اگلے آٹھ سوال (۲۱- ۲۸) یونیورسٹی کی تعلیم کے بارے میں تھے پھر پانچ سوال (۲۹- ۳۳) ثانوی تعلیم کے بارے میں تھے ۔ اس کے بعد پندرہ سوال (۳۴- ۴۸) پرائمری تعلیم کے بارے میں تھے ، تین سوال (۴۹-۵۱) فنی اور صنعتی تعلیم کے بارے میں تھے ،چھے (۵۲- ۵۷) صرف لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں تھے اور اس کے بعددس سوال (۵۸- ۶۷) خالص مشرقی تعلیم(Oriental Education) کے بارے میں تھے ۔ ان میں خصوصیت سے دینی تعلیم اور دینی موضوعات پر تحقیق کے متعلق سوالات پوچھے گئے تھے ۔ پھر تین سوال (۶۸- ۷۰ ) انتظامیات کے بارے میں تھے ، دس سوال (۷۱ – ۸۰ ) بے روزگاری کے بارے میں ، تین (۸۱- ۸۳) تعلیمی وظائف کے بارے میں دو (۸۴- ۸۵) مسلم طلبہ کے لیے رہائشی سہولیات کے بارے میں ، آٹھ سوال (۸۶- ۹۳ ) مختلف امور کے بارے میں، تین (۹۴- ۹۶) تعلیمی اداروں کو ملنے والی گرانٹ کے بارے میں ، ایک سوال (۹۷) تعلیمی انجمنوں کے بارے میں اور آخری تین سوال (۹۸- ۱۰۰) مع ذیلی سوالات مندرجہ بالا تمام عناصر کے اعداد وشمار کے بارے میں تھے ۔
كمیٹی كی رپورٹ اور اس كی سفارشات
اس كمیٹی نے زبردست محنت كی اور ۱۹۳۹ء میں اس كی ایك رپورٹ ‘تعلیمی نظام پر’ شائع ہوكر منظر عام پر بھی آئی۔ رپورٹ انگریزی میں تھی، تعارف كے ۲۱ صفحات اور متن كے ۳۸۳صفحات پر مشتمل تھی اور اس كا عنوان: Report of the Kamal Yar Jung Education Committeeتھا۔ اس رپورٹ كو ایك تعارف، دو اجزا اور ضمیموں میں تقسیم كیاگیا تھا۔رپورٹ كے پہلے حصے میں مسلم ایجوكیشن كے بارے میں سروے اور دوسرے حصے میں جائزہ اور كمیٹی كی سفارشات پیش كی گئیں۔ یہ سفارشات ہر تعلیمی مرحلے كے لیےتھیں۔كمیٹی نے ہندوستان كے دینی مدارس میں تعلیم كی صورت حال كا جائزہ بھی پیش كیا اورتجاویز دیں اس كا جائزہ Oriental Education كے عنوان سے پیش كیاگیا۔ رپورٹ كے آخر میں ضمیموں كے عنوان سےرپورٹ كے تمام اجزا سے متعلق ضروری ریكارڈ بہم پہنچایا گیا ہے[18]۔ ان اجزا کا خلاصہ درج ذیل ہے :
تعارفی حصہ
رپورٹ كے تعارفی حصے میں نواب كمال یار جنگ بہادر كی كمیٹی كی تشكیل، اس كے اجلاسوں، گشتی كمیٹی كی تشكیل، اس كی كارگزاری،كام كرنے میں مشكلات؛ سوالنامے كی تیاری میں مشكلات،سوالنامے كا خاكہ، سوالنامے كی تقسیم، صوبائی اور مقامی كمیٹیوں كی تشكیل كے لیے صدر كمیٹی كا گشتی مراسلہ، گشتی سفر كاپروگرام اور تیاری، مشرقی ہند ریلویز كی طرف سے ریل كی سہولت، دورے كے لیے طے شدہ مقامات، شخصی مشكلات، ریل كے سفر كی مشكلات، شمال مغربی ریلویز میں مشكلات، كشمیر جانے میں مشكلات، مقامی مشكلات كی وجہ سے پروگراموں میں تعطل اور توقفات، دیگر مشكلات، مہمان نوازیوں كا تذكرہ، رپورٹ كی تیاری اور اسے پیش كرنے میں تاخیر كی وجوہات، مسلم ایجوكیشن كے سروے كے حوالے سے خاص مشكلات كے ذكر سمیت كمیٹی كی كاركردگی كی پوری روئیداد درج ہے۔رپورٹ پہلے حصے میں مسلم ایجوكیشن كے بارے میں سروے تھا۔
رپورٹ کا حصہ اول
پہلے حصے کی ابتدا مدراس میں ’مسلم ایجوکیشن ‘كے سروے سے کیا گیا ۔ جس میں مدراس كے مسلمانوں کی تعداد ،صوبے میں اسلامی تعلیم کی تاریخ ، مدراس یونیورسٹی کے قواعد وضوابط میں مسلم تعلیم کے لیے مشکلات اور مدراس میں کانگریس کی صوبائی حکومت سے متلعقہ امور کا جائزہ لیاگیا ۔ مدراس کے بعد مرکزی صوبجات (Central Province- CP) اور برار (Berar) کی تاریخ اور یہاں اسلامی تہذیب کے اثر رسوخ کا جائزہ لیاگیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ’’ ودیا مندر سکیم ‘‘، اس صوبے میں کانگریس کی صوبائی حکومت اور ناگپور یونیورسٹی کے بارے میں سروے کیاگیا۔ تیسرے نمبر پر بمبئی اور سندھ میں اسلامی تعلیم کا سروے ہوا، یہاں واردھا سکیم کا جائزہ لیاگیا اور اس عمل کے خلاصے کے طور پر اس صوبے اور اس میں موجود نوابی ریاستوں کے بارے میں یادداشت اور شواہد پیش کیے گئے ۔
حصۂ دوم
رپورٹ کے دوسرے حصے میں سروے کے حقائق پر تبصرہ اور سفارشات پیش کی گئیں۔ سب سے پہلے یونیورسٹی سطح کی تعلیم پر تبصرہ اور سفارشات پیش کی گئیں ، مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کی تجویز دی گئی ، پھر ثانوی تعلیم کی بات ہوئی اور پھر پرائمری کی ۔ اس کے بعد رپورٹ کا اختتامیہ ہے اور نمایاں شرکائے سروے کے نوٹ ہیں ۔
منسلکات و ملحقات
رپورٹ کے اخر میں ۹ ضمیمے ہیں (A تا I) ۔ پہلا ضمیمہ صدارتی مراسلہ ہے ، دوسرا سوالنامہ ہے ، تیسرا تقسیم سوالنامہ کی فہرست ہے ، چوتھا مقامی کمیٹیوں کے بارے میں صدارتی مراسلہ ہے ، پانچواں سفری لائحۂ عمل ہے ، چھٹا کلکتہ یونیورسٹی میں ’اسلامی تاریخ وتہذیب کا نظر ثانی شدہ نصاب ‘ ہے ، ساتواں ثانوی تعلیمی نظام اور اس کا نصاب ہے ، آٹھواں پرائمری نظام تعلیم اور اس کا نصاب ہے اور نواں شماریاتی نقشہ ہے ۔
سروے کے اہم نتائج
مختلف صوبوں میں مسلم آبادی بھی مختلف تھی اور تعلیمی سہولیات بھی مختلف۔ اس لیے کمیٹی نے آبادی کے لحاظ سے سروے کے نتائج اور سفارشات پیش کیں ۔ سب سے پہلے یونیورسٹیز میں مسلم تعلیم پر تبصرہ کیاگیا:
یونیورسٹی سطح کی تعلیم کا جائزہ اور تجاویز
اس وقت یونیورسٹیز كی كل تعداد اٹھارہ تھی۔اس مقصد كے لیے انہیں دو علاقوں كے لحاظ سے شمالی ہندوستان كی یونیورسٹیاں اور جنوبی ہندوستان كی یونیورسٹیاں میں تقسیم كیا گیا شمالی ہندوستان میں آٹھ یونیورسٹیز تھیں۔ عثمانیہ ، میسور اور ٹراونکور ہندوستان کی نوابی ریاستوں کی یونیورسٹیاں تھیں:
رپورٹ میں ان میں سے حیدر آباد كی عثمانیہ یونیورسٹی كو ایك منفرد یونیورسٹی قرار دیا گیا، جس میں اعلیٰ مراحل تك تمام مراحل تعلیم میں تدریسی زبان ایك ہندوستانی زبان یعنی اردو تھی اور انگریزی كو ایك ذیلی زبان كے طور پر اختیار كیاجاتا تھا۔عثمانیہ محققین سائنس اور آرٹس کے متعلقہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں كثیر الجہت تحقیقات بجالاتے تھے اور عثمانیہ یونیورسٹی ہندوستان كی تمام یونیورسٹیز كے لیے ایك قائدانہ حیثیت ركھتی تھی۔بیس سال قبل تک ہندوستان میں کم ہی کوئی اعلیٰ تعلیم کا ایسا ادارہ مل سکتا تھا جس میں ذریعۂ تعلیم کوئی ہندوستانی زبان ہوتی ۔
میسور یونیورسٹی میں عربی، فارسی اور اردو كی تعلیم كا انتظام موجود تھا مگر ٹراونكور یونیورسٹی میں ایسا كوئی انتظام نہیں تھا۔ ان جامعات میں مسلم طلبہ وطالبات كی تعداد بھی كوئی بہت زیادہ نہیں تھی۔
جنوبی ہند میں مسلم طلبہ كی زیادہ تر تعداد وہاں كی پانچ یونیورسٹیز میں تھی مگر سروے سے ثابت ہوا کہ ان جامعات میں عربی فارسی اور اردو کو وہ مقام نہیں دیاگیا جو دیگر زبانوں کو دیاگیا تھا۔كئی جامعات میں ثانوی اور بی اے کی سطح پر ایک ثانوی زبان بطور لازمی مضمون پڑھنا پڑتی تھی مگر ان زبانوں میں عربی، اردو یا فارسی كا اختیار كم ہی دیاگیا تھا۔ ان صوبوں کی دیگر جامعات میں بھی عربی، اردو اور فارسی کے ساتھ قریب قریب یہی سلوک کیا جارہا تھا ۔
خلاصہ
جنوبی ہند کی پانچوں جامعات میں مسلم طلبہ کو نہ تو عربی فارسی اور اردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوئی سہولت دی گئی تھی نہ ہی تحقیق کی ۔ جس کی وجہ سے مسلم طلبہ کے چھ صدیوں پر محیط اس اسلامی دور کے حالات معلوم کرنے اور علوم سے استفادہ کرنے سے محروم تھے جب عدالتی زبان فارسی ہوا کرتی تھی ۔عربی تعلیم مسلمانوں کی دینی زبان ہے اور ان کا تعلق دین کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے بہت اہم ہے ۔ مسلم طلبہ کو عربی کی تعلیم سے محروم کرنا انہیں دین سے دور کرنے کے مترادف ہے ۔اسی طرح اردو ہندوستانی زبانوں میں ایک نمایاں مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ جنوبی ہند کے اکثر مسلمانوں کی مادری زبان ہے اور ایجوکیشنل سسٹم میں مادری زبان کی اہمیت مسلم ہے ۔ ملک بھر کی سیاسی دانست کے مطابق ہر قوم کو اپنی تہذیب وثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہے مگر اس طرح مسلم طلبہ كو اسلامی تاریخ اور تہذیب و ثقافت سے مطلع ہونے كا كم ہی موقع ملتا ہے ۔اس كے مقابلے میں ہندی، سنسكرت اور دیگر زبانیں، تاریخ وتہذیب، فلسفہ اور دینی مضامین پڑھنے پڑھانے كے مواقع میسر تھے۔
تجویز
ان جامعات میں ان زبانوں کی اعلیٰ تعلیم کو کماحقہ حیثیت دی جائے جس سے پورے ملک کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں پر اثر پڑے گا ۔ اس علاقے میں مسلم تاریخ کا مطالعہ بھی نصاب تعلیم کا حصہ ہو [19]۔
شمالی ہند کی جامعات کی صورتحال
شمالی ہند کی جامعات میں علی گڑھ ، بنارس ، دہلی ، پنجاب ، الہٰ آباد، آگرہ ، لکھنؤ ، پٹنہ ، کلکتہ اور ڈھاکہ کی یونیورسٹیاں شامل ہیں ۔ ان میں سے پہلی دو جامعات کو سروے رپورٹ سے مستثنی رکھاجاسکتا ہے کیوں کہ ان کی ایک خصوصی نوعیت ہے اور دہلی یونیورسٹی کو بھی فی الحال اس میں شامل نہیں کیاجاسکتا کیوں کہ وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور محدود دائرے کے اندر کام کررہی ہے ۔ شمالی ہند کی دیگر جامعات کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ ان میں یونیورسٹی سطح پر اساتذہ فراہم کرنے کی حد تک عربی ، فارسی اور اردو کو تسلیم دیا جاتا ہے اگرچہ بہت اچھی سہولیات حاصل نہیں ہیں ۔ اسی طرح تمام یونیورسٹیوں سے متعلقہ علاقوں میں ایم عربی ، فارسی اور اردو کے لیے ملحقہ کالج کئی علاقوں میں میسر نہیں ۔
میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں درس وتدریس اور امتحان کے لیے مادری زبان مقرر کی گئی ہے ۔ اس صورت میں جہاں مسلمانوں کی زبان اردو کے علاوہ ہو وہ تو کسی نہ کسی درجے میں مادری زبانوں میں شامل ہوتی ہے مگر جہاں ان کی مادری زبان اردو ہو ، وہاں مسلم طلبہ کے لیے مشکلات آتی ہیں ۔
یونیورسٹی کی سطح پر اردو عربی اور فارسی کی تعلیم ، اور اس سے نچلے درجوں میں مادری زبانوں میں اردو شامل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے میں بھی مشکلات ہیں اور وہ اپنی تہذیب وثقافت کا مطالعہ کرنے سے بھی محروم رہتے ہیں ۔
پھر محض اردو عربی اور فارسی کی تعلیم کا مسئلہ حل ہوجانا بھی مسلم تعلیم کے مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے ۔ ان جامعات کے نصاب میں مسلمانوں کو اسلامی تاریخ اور ثقافت سے کم ہی آمنا سامنا ہوتا ہے ۔ صرف زبان کی تعلیم کو اس کا متبادل سمجھ لینا ایک سخت غلطی اور بد قسمتی کی بات ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان زبانوں کی تعلیم کے بھی تمام صوبوں میں مناسب انتظامات موجود نہیں ۔ بعض اوقات کسی کالج میں یہ سبجیکٹ تو آفر کردیا جاتا ہے مگر اسے پڑھانے کے لیے اساتذہ اور مناسب سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں ۔ جہاں ان مضامین کی تعلیم کی کسی حد تک سہولت ہو وہاں بھی اس کا نصاب اس معیار کا نہیں ہوتا جو دوسرے مضامین کا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر بی اے آنرز کی سطح پر ایک یونیورسٹی سنسکرت کامضمون پیش کرتی ہے تو اس میں سنسکرت کی قدیم تاریخ ، رسم الخط اور تمام دینی نصوص کا مطالعہ کرایا جاتا ہے جبکہ وہی یونیورسٹی اگر عربی میں بی اے آنرز آفر کرتی ہے تو اس میں برائے نام کچھ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ سنسکرت کا طالب علم اپنے مذہب کا اچھا خاصا مطالعہ کرلیتا ہے مگر ایک مسلمان عربی میں تخصص کرتے ہوئے بھی اپنے دین کا مطالعہ کرنے سے محروم رہتا ہے ۔ فلسفہ ، تاریخ منطق وغیرہ کے عام مضامین میں بھی مسلمان نقصان میں ہی رہتے ہیں کیوں کہ انہیں دیگر ہندوستانی اقوام کی طرح اپنے رہنماؤں اور دینی مفکرین کے نتائج فکر کے مطالعہ کا موقع نہیں ملتا ۔ ان کی سکیم آف سٹڈی دیگر اقوام سے بالکل مختلف اور سطحی بنائی جاتی ہے ۔ اس طرح عربی اوردو ، فارسی اور مسلم تہذیب وتاریخ کا معاملہ تو اپنی جگہ رہا پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو منطق، فلسفہ ، تاریخ ، جغرافیہ کے مضامین میں بھی نسبتاً اپنے دین یا دینی نصوص کا مطالعہ کرنے کا موقع کم ہی ملتاہے ۔
مغربی ممالک کی تاریخ زمانوں کے لحاظ سے پڑھائی جاتی ہے اور ان زبانوں میں ہندوستانی مذاہب پر وسیع پیمانے میں تحقیقی کام بھی ہورہا ہے جس میں قدیم ہند سے لے کر جدید ہند تک تاریخ ، جغرافیہ ، علوم ، ایجادات ، آثار قدیمہ وغیرہ تمام پہلؤوں کا احاطہ کیا جاتا ہے مگر جب باری اسلام کی آتی ہے تو اس کے بارے میں نہ تو اس سطح کی تحقیق ہورہی ہے جس سطح کی دیگر مذاہب کے بارے میں ہورہی ہے نہ دین کے بارے میں ، نہ تخلیقات وایجادات کے بارے میں ، نہ تاریخ وتہذیب کے بارے میں ۔ مسلمان طلبہ اسلامی تاریخ کے خاکوں سے بھی ناواقف رہتا ہے ، دیگر ممالک میں اسلامی عصریات اور ہندوستان کے تہذیبی ورثہ میں اسلام کے حصہ کا مطالعہ کرنا تو دور کی بات ہے ۔ حالانکہ اسلامی ورثہ معیار ، مقدار اور تنوع کے لحاظ سے انتہائی غنی ہے ۔ اس کا مطالعہ جہاں مسلمانوں کے لیے یہ قابل فخر ورثہ ہے ، وہیں یہ غیر مسلم ہندوستانیوں کے لیے ہندوستانی تہذیب کے مطالعہ میں خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ بمبئی یونیورسٹی میں حال ہی میں اسلامک کلچر میں ایم اے شروع ہوا ہے مگر اس کے نہ سٹاف ہے نہ سہولیات ۔ البتہ پچھلے دو سالوں سے کلکتہ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ وثقافت میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام کردیاگیا ہے اور اسلامی تہذیب کا مضمون بی اے اور ایف کی سطح پر بھی نصاب میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس میں دین اسلام : فلسفہ ، تاریخ ، اسلامی تاریخ ہندوستان میں ، اسلامی قانون کے مضامین شامل ہیں ۔ پھر تفصیل میں ہندوستان میں اسلامی قانون کی تاریخ ، ہندوستان کے علاوہ اسلامی قانون کی تاریخ ، برطانوی استعمار کے زیر انتظام اسلامی قانون کی تاریخ اور اسلامی قانون کے مکاتب فکر وغیر ہ شامل ہیں ۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں یہ سہولت پہلے سے موجود ہے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا معاملہ بھی دیگر جامعات سے مختلف ہے ۔ یہاں تو اسلامی تاریخ ، تہذیب اور دینی نصوص پڑھنے کے بڑے مواقع ہیں [20]۔ اس زمانے میں میٹرک ، ایف اے ، بی اے اور ایم اے سب کے امتحانات یونیورسٹی میں ہی ہوتے تھے ۔
مسلمانوں کے لیے تعلیمی مشکلات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ میڈیکل اور انجنیرنگ کے داخلہ ٹیسٹ میں ایسے سوالات شامل کیے جاتے جن سے مسلمان وقف نہیں ہوتے تھے ، اس لیے انہیں یہاں داخلے کا موقع کم ہی ملتا تھا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ میڈیکل اور انجنیرنگ کالجز کی بھاری فیسیں بھی مسلمانوں کے لیے ناقابل تحمل ہوتی تھیں ۔
تعلیمی نصاب مناسب نہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا کچھ اپنا بھی قصور تھا کہ وہ تعلیم کم ہونے کی وجہ سے یا عدم دلچسپی کی وجہ سے میڈیکل ، انجینئرنگ اور تدریس کے شعبوں میں ملازمتیں بھی کم ہی حاصل کرپاتے تھے ، اس لیے بھی دوسرے مسلمانوں کی تعلیم پر برے اثرات پڑتے تھے ۔
بعض کالجوں میں باقاعدہ مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہوتی تھی اور اس طرح یا تو وہ تعلیم سے بالکل محروم رہ جاتے یا انہیں اپنے علاقے سے بہت دور جانا پڑتا ۔ مسلم خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے مسائل اس سے کہیں زیادہ گھمبیر تھے ۔مسلمانوں کے لیے تعلیمی وظائف اور مالی امداد کے مسائل بھی اسی نہج پر تھے ۔
سفارشات
کمیٹی نے یونیورسٹی تعلیم میں مسلمانوں کو سہولت دینے کے لیے کمیٹی نے ۲۲ سفارشات پیش کیں جو عام تعلیمی نظام میں اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ اور مطالعہ کا بہترین ضامن ثابت ہوسکتی ہیں[21]۔
مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کی تجویز
اسلامی تعلیم عصر حاضر کے طلبہ کے لیے مناسب حال بنانے کے لیے کمیٹی نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی انتظامیہ کو ایک مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی فوری طور پر قائم کرنے کی سفارش کی ، جس کانام انھوں نے یوں تجویز کیا :
Central Research Organization for advanced studies and researches in Islamic history and culture with special reference to India.
انہوں نے اس کی تائید میں زور دے کر کہا کہ اس وقت ہندوستان کی تاریخ تعمیر نو کے عمل سے گزر رہی ہے ، دیگر تمام شعبوں میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ اگر مسلمانوں نے اسلامی حوالے سے اس میں پورا پورا حصہ نہ لیا تو یہ ایک بہت بڑا لمیہ ہوگا ۔ پھر انہوں نے اس ادارے کے ۱۰ فرائض منصبی بھی طے کیے [22]جو آج بھی ایک اسلامی معاشرے میں اعلیٰ تعلیم کے انتظامات کے لیے انتہائی کارآمد ہے[23]۔
دینی مدارس کا جائزہ اور سفارشات
کمیٹی نے Oriental Education کے عنوان سے دینی مدارس اور دار العلوموں کی صورتحال کا جائزہ پیش کیا ۔ قرآن وحدیث وفقہ اور دیگر دینی موضوعات کی تعلیم میں ان اداروں کی خدمات کا ذکر کیاگیا، ان کی تحسین کی گئی اور ان کی مشکلات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمزوریاں بھی ذکر کی گئیں۔ ان کی بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان میں تحقیقات اسلامی کا کوئی کام نہیں ہورہا تھا جس سے یہاں کے فضلا قرآن وحدیث اور فقہ وغیرہ میں اچھے محققین مہیا کرسکیں۔ کمیٹی نے ان کا تحقیقاتی معیار بلند کرکے اسلامی تہذیب کی نشاۃ ثانیہ کے معیار پر لانے کے انتظامات کرنے کی سفارش کی ۔ یہ کام کرنے کو انہوں نے بحیثیت مسلمان سب مسلمانوں کا فرض قرار دیا۔ انہوں نے آل پاکستان ایجوکیشنل کا نفرنس کو سفارش کی کہ فوری طور پر All India Board of Oriental Education تشکیل دے اور اس بورڈ کو اختیار دے کہ وہ ان مدارس سے رابطہ کرکے صوبوں اور نوابی ریاستوں کے دینی مدارس کے نصاب اور سکیم آف سٹڈی کو اس سطح پر لانے کے لیے ان کی مدد کریں ، انھیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے تیار کریں ، تحقیقی کام کو اپنی سکیم میں شامل کرنے میں مدد دیں اور مناسب ہوگا کہ وقتاً فوقتا یہاں سے تحقیقی کتب کی اشاعت ہوتی رہے ۔ کمیٹی نے بورڈ کی تشکیل اور علاقوں کی نمائندگی کا ایک خاکہ بھی پیش کیا[24] ۔انہوں نے تجویز دی کہ یہ ایک اعلیٰ پیمانے كا خود مختار بورڈ ہو، اس كے عہدیداروں كا تقرر گورنر جنرل كرے،مسلم نوابی ریاستوں سمیت پورے ہند سے نمایاں علمی شخصیات كا اس كے اركان كے طور پر تقرر ہو، مدارس كے طلبہ اس كے تحت امتحان دیں،دینی علوم كے اعلیٰ درجہ سے ماہرین ان سے پیدا ہوں اور وہ ایسامقام حاصل كریں كہ اسلامی تہذیب وثقافت كے احیاء كے لیے كام كرسكیں۔
ثانوی تعلیم : تبصرہ اور سفارشات
ثانوی سطح کی مسلم تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے پانچ پہلؤں کو پیش نظر رکھاگیا ۔ ۱)۔ ثانوی سکولوں کی انتظامی سربراہی ، ۲)۔ مسلم ہائی سکولوں کی کارکردگی ، ۳)۔ نصاب اور مضامین مطالعہ ، ۴)۔ انتظامی کمیٹی اور ۵)۔ ذریعہ تعلیم اور ذریعہ امتحانات۔
اس سروے پر جوابات بہت کم تعداد میں ملے ۔ جوجوابات ملے ان کا خلاصہ یہ تھا کہ ۱)۔ ثانوی تعلیم کے سکولوں کی انتظامی سربراہی اور اختیارات عموماً غیر مسلم لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، یہاں تک کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ ثانوی تعلیمی بورڈوں اور جن یونیورسٹوں میں ابھی تک ثانوی تعلیم کے انتظامات موجود ہیں ان میں مسلمانوں کی مناسب اور مؤثر نمائندگی ہونی ضروری ہے ۔ ۲) ۔ جن صوبوں میں ابھی تک ثانوی تعلیم کے بورڈ نہیں ہیں ان میں ان کی فوراً تشکیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ان میں مسلمانوں کی مناسب اور مثر نمائندگی بھی ہو ۔ ۳)۔ مسلم ہائی سکولوں کا انتظام و انصرام مناسب طریقے سے نہیں چل رہا ہے ۔ اس کی وجہ بعض مقامات پر جماعتی سیاست ہے ، بعض جگہ ڈکٹیٹر شپ ہے اور بعض جگہ فنڈز کی کمی ۔ ۴)۔ موجودہ نصاب اور درسی کتب مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہیں ۔ ان میں فوری تبدیلی کرکے مسلم ثقافت پر مبنی مضامین شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح ادبی مطالعات میں مسلم تاریخ اور نصاب میں اسلامی درسی مضامین شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ۵)۔ ثانوی تعلیم کے تمام سکولوں کی انتظامی کمیٹیوں میں مسلمانوں کی مناسب نمائندگی ہونی چاہیے ۔ ۶)۔ ذریعہ تعلیم کے بارے میں مختلف آرا آئیں۔ کسی نے مادری زبان میں تعلیم کی تائید کی ، کوئی انگریزی زبان کو جاری رکھنے کے حق میں تھا ۔ یہ آرا غالباً کچھ ہندوستانیوں کی طرف سے سنسکرت کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تحریک کے رد عمل کے طور پر تھیں۔
ذریعہ تعلیم
کمیٹی نے اس سلسلے میں مختلف علاقوں کے ماہرین تعلیم اور سماجی قائدین سے اپنے تبادلۂ خیالات کا ذکر بھی کیا اور پھر تجویز دی کہ کم از کم مسلمانوں کے لیے تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہیے ۔
ثانوی تعلیم کے بارے میں مسلمانوں کی خواہش
کمیٹی نے سروے کے دوران حاصل ہونے والی مسلمانوں کی رائے عامہ کا خلاصہ یوں پیش کیا کہ وہ ثانوی سطح کی مسلم تعلیم کے بارے میں پریشان ہیں اور اخبارات میں اس کا بکثرت اظہار کررہے ہیں ۔ کانگریس کی صوبائی حکومتوں کا نظام تعلیم نافذ ہونے کے بعد اس پریشانی میں بہت اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس مسئلے کا حل دونکات میں پیش کیا گیا ۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کا ثانوی تعلیمی نظام ان کی اپنی تہذیب وثقافت سے مناسب تر ہونا چاہیے اور دوسری یہ کہ یہ نظام ملک میں رائج ثانوی تعلیم کی عمومی سکیم سے بھی ہم آہنگ ہو ۔ اس تعلیمی نظام میں بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کے بارے میں مسلمان خاص طور پر پریشان ہیں۔
کمیٹی کی مجوزہ ثانوی تعلیمی سکیم
اس سروے کی روشنی میں کمیٹی نے مسلمانوں کے لیے ثانوی تعلیم کی ایک عارضی سکیم بناکر پیش کی اور بتایا کہ اس میں حسب ضرورت نظر ثانی اور تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے :
- ثانوی تعلیم ۱۲ سال کی عمر سے شروع ہو اور ۴ سال تک جاری رہے ۔
- داخلے کے اہل وہ طلبہ ہوں گے جنہوں نے ۶ سالہ پرائمری تعلیم حاصل کی ہو اور کم از کم ۳۳ فی صد نمبر لیے ہوں۔
- اس کے علاوہ جو بچے ہوں گے انہیں فنی تعلیم وتربیت کے اداروں میں لازمی بنیادوں پر داخلہ دے کر کوئی فن سکھایا جائے گا تاکہ کام کاج میں اپنے والدین کی مدد کریں۔
- ثانوی تعلیم کا مقصد یہ ہوگا کہ ۱۶ سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے بچوں کو درج ذیل کاموں کے قابل بنانے کے لیے ضروری صلاحیت مہیا کی جائے :
- یونیورسٹی میں علم حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں۔
- فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں۔
- سرکاری ملازمت یا عوامی خدمت کے قابل ہوجائے ۔
- پرائیویٹ کاروبار کرنے یا پیشہ اختیار کرنے کے قابل ہوجائے۔
- انہی ضروریات کو مدنظر رکھ کر اس مرحلے کا نصاب تیار کیاجائے۔
اس مرحلے پر تعلیم کی مزید مجوزہ خصوصیات درج ذیل ہیں:
- اس مرحلے پر تعلیم مادری زبان میں دی جائے ۔
- داخلے کے لیے پرائمری کا وہ نصاب پاک ہونا اور اس کے مطابق صلاحیت موجود ہونا ضروری ہوگا جو سکیم آف سٹڈی یہ کمیٹی پرائمری مرحلے کے لیے تجویز کررہی ہے ۔
- پرائمری سطح پر سکھائے گئے امور دستکاری[25] کی مشق کرنے کے لیے ثانوی تعلیم کے ۴ سالوں کے ٹائم ٹیبل میں مناسب گنجائش رکھی جائے ۔
- ہر صوبے میں درج ذیل نوعیت کے ثانوی سکول قائم کیے جائیں ۔ ضروری نہیں کہ ہر نوعیت کے لیے الگ سکول ہو ، حسب ضرورت دودونوعیتوں کو ایک ایک ادارے میں بھی جمع کیا جاسکتا ہے۔
- آرٹس اور سائنس کے ثانوی سکول
- کامرس کے ثانوی سکول
- زراعت کے ثانوی سکول
کمیٹی نے آبادی کے لحاظ سے سکولوں کی تعداد کے بارے میں تجاویز دیں ۔ ان سکولوں میں تمام مذاہب کے بچے پڑھیں گے اور ان کا انتظام حکومت کے پاس ہوگا یا حکومت کی مدد سے عوامی کمیٹی کے پاس ہو ، مگر مؤخر الذکر صورت میں انتظامی کمیٹی میں ہندو ، مسلمان اور دیگر ادیان کے نمائندے شامل ہوں۔
ثانوی سکولوں میں دینی تعلیم
کمیٹی نے تجویز دی کہ
- ایسے سکولوں میں ہندوستان کی دونوں بڑی آبادیوں کی مذہبی تعلیم بھی دی جائے ۔
- اگر عوامی کمیٹی کے زیر انتظام سکولوں میں دینی تعلیم دینا ممکن نہ ہوتو مسلم عوام کا مطالبہ ہے کہ ہر ٹاؤن میں گورنمنٹ سیکنڈری سکول کھولے جائیں اور ہر سکول میں مسلمانوں کی آبادی کی نسبت سے سیٹیں مختص کردی جائیں، اور مسلم طلبہ کی دینی تعلیم کے لیے خصوصی شقیں شامل کی جائیں۔
- اگر یہ تجویز بھی قابل قبول نہ ہو تو صوبائی حکومت صوبے کی مقننہ میں مسلم ارکان کے تناسب سے تعلیمی بجٹ مہیا کرے تاکہ مسلمان اپنے لیے حکومت کی سرپرستی میں سیکنڈری سکول قائم کرکے چلا سکیں ۔
- ثانوی تعلیم کے سکول ۴ سالہ تعلیم پر مشتمل ہوں ، ان ہی میں حسب ضرورت پرائمری سکول بھی قائم کیے جاسکتے ہیں اور صرف ثانوی بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
- ہر سکول میں کل ۱۲ سیکشن ہوں ، ہر کلاس کے حصے میں ۳ سیکشن آئیں اور ہر سیکشن میں ۳۰ طلبہ ہوں۔ سکول کے کل بچوں کی تعداد ۳۶۰ ہو[26]۔
- کمیٹی نے اخراجات کا حساب لگا کر اس سکیم کے مطابق قائم کیے جانے والے ہر سکول پر 11, 000 (گیارہ ہزار) روپے خرچ آئیں گے اور اگر ایک صوبے میں اس قسم کے 100 سکول کھولے جائیں تو کل خرچہ صرف 11, 00, 000 لاکھ روپے ہوگا۔
- اگر موجودہ حالات میں یہ ممکن نہ ہو تو حکومت صوبائی اسمبلی مسلم ارکان کے تناسب سے ثانوی تعلیم کی گرانٹ کا حصہ مسلمانوں کے لیے الگ کردے۔
عمل در آمد کی تجویز
۱۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ان سرکاری سکولوں میں تعلیمی نظام ٹھیک سے کام کررہا ہے اور مسلمان بچے کسی تعصب کا سامنا نہیں کررہے ہیں ، یہ تجویز ہے کہ ہر صوبے کے شعبۂ تعلیم کے افسران میں ایک مسلم اسسٹنٹ ڈائریکٹر ، ایک مسلم انسپکٹر ، ۳ کے قریب مسلم اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر کیے جائیں تاکہ وہ وقتاً فوقتاً سرکاری سکولوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیتے رہیں اور سرکاری امداد سے قائم ہونے والے سکولوں کا بھی ۔ اور پھر اپنے معائنے کی رپورٹ شعبۂ تعلیم کو پیش کریں ۔
۲۔ ہر سرکاری سکول میں اور حکومت کی امداد سے چلنے والے سکول میں مسلم اساتذہ کا تقرر اس صوبائی اسمبلی میں منتخب مسلم ارکان کے تناسب سے کیا جائے ۔
مختلف مکاتب فکر کے ادارے
کمیٹی نے وضاحت کی کہ حکومتی امداد کے تحت مسلم سکول قائم کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم مختلف مکاتب فکر تعلیمی ادارے ختم کرنے کی تجویز دے رہے ہیں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ مسلم تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے حکومتی امداد عام حالات میں مکتب فکر کی بنیاد پر قائم کیے جانے والے اداروں کو ہی دی جائے ۔ البتہ خاص حالات میں ، یعنی اگر یہ ادارے دیگر مکاتب فکر کے طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کردیں تو دوسری بات ہے ۔ دوسرے مکتب فکر کے طلبہ کی سیٹیں کل تعداد کے ۲۰ فی صد تک ہونی چاہئیں، جیسا کہ یورپی سکولوں میں شرط رکھی گئی ہے ۔
مسلم ایجوکیشن بورڈ قائم کرنے کی تجویز
کمیٹی نے مزید تجویز دی کہ مکاتب فکر کی بنیاد پر قائم شدہ اداروں کے لیے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس ایک غیر سرکاری بورڈ آف مسلم ایجوکیشن تشکیل دے ۔ اس کے ارکان میں اسلامی انجمنوں ، اسلامی مدارس کے منتظمین ، اسلامی مدارس کے سربراہان اور دیگر ایسی مسلم ایجوکیشنل باڈیز کے نمائندے شامل ہوں جن کی صوبائی سطح پر اہمیت ہو ۔ یہ بورڈ حکومت سے منظور کرایاجائے ۔ یہ بورڈ مکاتب فکر کی بنیاد پر قائم ہونے والے مدارس کے لیے قواعد وضوابط مرتب کرے ، ان اداروں کے لیے یکساں انتظامی پالیسی تشکیل دے اور اس بات کی نگرانی کرے کہ ان اداروں میں صحت مند تعلیمی ماحول قائم رہے ۔
بورڈ تشکیل دینے کی یہ تجویز اس متفقہ رائے عامہ کی روشنی میں دی گئی ہے جس کے مطابق تمام صوبوں کے لوگوں نے شکایت کی ہے کہ مسلم ادارے عموماً اچھی طرح کام نہیں کررہے ہیں ، نہ ان سے وہ مقاصد حاصل ہوپارہے ہیں جن کی ان سے توقع رکھی جاتی ہے۔
مسلم مدارس میں نمایاں اسلامی شعائر کی کمی
دوران سروے ہمیں بعض مدارس کے طریق تعلیم وتربیت کو دیکھنے کا موقع ملا جس سے ہماری عمومی رائے یہ قائم ہوئی کہ ایسے مدارس میں نمایاں اسلامی علامات پیش کرنے کی کمی ہے ۔ اداروں کی دیواروں پر نصابی کتابوں سے ہر قسم کے اقوال زریں اور نقش ونگار لے کر سجا دیے گئے تھے مگر ان میں قرآن مجید سے یا دیگر مقدس نصوص سے لی ہوئی ہوئی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ بڑے بڑے بادشاہوں، سرداروں اور سورماؤں کی تصاویر بھی سکول کی دیواروں پر لگائی گئی تھیں مگر نمایاں اسلامی شخصیات کا کہیں نشان نظر نہیں آرہا تھا ۔
ہاسٹلوں میں مسلم طلبہ کے رہائشی کمروں میں بھی ایسا کوئی انتظام نہیں کیاگیا جس سے مسلم طلبہ کے لیے اسلامی فضاقائم رکھنے میں مدد ملے۔
ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی ایسی کو ئی چیز شامل نہیں جو مسلم طلبہ میں صحت مند اسلامی روح بیدار کرسکے ۔
بلاشبہ ان اداروں میں اکثر دینیات کا مضمون پڑھانے کی گنجائش موجود ہے مگر یہ تدریس بالکل ایک معمول کی طرح کی جاتی ہے ، کوئی خاص توجہ اور غور وفکر اس تعلیم کا حصہ نہیں ہوتا ۔
ثانوی تعلیمی بورڈ
کمیٹی نے صوبوں میں ثانوی تعلیمی بورڈ قائم کرنے کی جو تجویز دی تھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ان بورڈز کے لیے درج ذیل مقاصد طے کیے :
- اداروں کی منظوری کے قواعد وضوابط مرتب کرنا ۔
- نصاب تشکیل دینا اور درسی کتب کا تعین کرنا ۔
- امتحانات کا انتظام کرنا ۔
- بورڈ کو ان مقاصد کے حصول کے لیے تمام ضروری اختیارات حاصل ہونا۔
- ان بورڈز اور ان کے تحت مندرجہ بالا مقاصد کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی صوبائی اسمبلیوں میں منتخب مسلم ارکان کے تناسب سے ہو ۔
خواتین کی تعلیم
ثانوی تعلیمی مرحلے پر مسلمان بچیوں کے لیے علیحدہ سکول قائم کیے جائیں ۔ پہلے سے قائم عام گرلز سکولوں میں مسلم طالبات کے لیے کو اسلام کے حوالے سے کوئی خاص سہولت فراہم نہیں کی گئی ۔
اس قسم کے تعلیمی اداروں کے قیام اور انہیں چلانے کے بارے میں انتظامی مشکلات سے کمیٹی پوری طرح آگاہ ہے مگر اس صورت حال سے نکلنے کے لیے اقدام کرنا بھی ضروری ہے ۔ کمیٹی نے تجویز شعبۂ تعلیم ہر صوبے میں مسلم بچیوں کے لیے علیحدہ ثانوی سکول ایک مناسب تعداد میں قائم کردے ۔ اگر ایسے مزید اداروں کی ضرورت ہوتو مسلم آبادی خود ایسے سکول قائم کرے اور انہیں صوبائی مسلم ایجوکیشن بورڈ کے زیر نگرانی دے دے جیسا کہ لڑکوں کے سکولوں کے بارے میں تجویز دی گئی ہے ۔
ذریعہ تعلیم
ہندوستان کے اندر اور باہر ماہرین تعلیم اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس تعلیمی مرحلے میں ذریعہ تعلیم وامتحانات مادری زبان ہو ، مگر اصل مسئلہ فرقہ وارانہ غلط فہمیوں اور تنازعات کا ہے ۔ اس وقت پورے ہندوستان میں نئی نئی بولیاں جنم لے رہی ہیں ۔ عام حالات میں ہندوستان کی دو بڑی آبادیوں کی مشترکہ زبانیں جو صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہی ہیں اور جن زبانوں کی بنیادیں ہمارے آباء واجداد نے مضبوط کرکے رکھی تھیں ، ان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر فوری طور پر اتفاق ہوجانا چاہیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ذریعہ تعلیم بنائی جانے والی زبانوں کی فنی اصطلاحات کے سلسلے میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے لسانیات کے محققین اور ماہرین علوم پر مشتمل انہی خطوط پر ایک بورڈ تشکیل دیاجائے جن خطوط پر پہلے ایک مشاورتی تعلیمی بورڈ تشکیل دینے کی تجویز دی جاچکی ہے ۔ یہ بورڈ اصطلاحات کے بارے میں تجاویز مرتب کرے اور ان اصطلاحات کو ہر صوبے میں بسنے والی دونوں بڑی اقوام کی زبان میں مناسب طریقے سے شامل کردیا جائے ۔ امید ہے کہ دونوں بڑی اقوام جو اس وقت ایک دوسری کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ، وقت گزرنے کے ساتھ باہمی خیر سگالی اور تحمل کی ضرورت کو سمجھ جائیں گی ۔ اگر اس کے باوجود بھی اس مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکے تو مسلمانوں کے لیے ذریعۂ تعلیم اور امتحانات فی الحال انگریزی ہی کو رہنا چاہیے اور انہیں کسی ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جو ان کی مادری زبان نہیں ہے۔ انگریزی میں تعلیم، تعلیمی لحاظ سے ان کے لیے جس قدر بھی بری ہو ، ان کی اپنی زبان کی وحدت کو تو پارہ پارہ نہیں کرسکے گی ، نہ ہی ان کی تہذیب اور اور روایات کی تخریب تباہی کا ایک اور ذریعہ تو نہیں بنے گی [27]۔ یاپھر ایک تجویز یہ ہوسکتی ہے کہ ہر سرکاری سکول یا سرکاری امداد سے چلنے والے سکول میں طلبہ کو ان کی اپنی اپنی مادری زبانوں میں ہی تعلیم دی جائے ۔ اس سے بنگال اور کچھ دیگر صوبوں کے وہ حصے مستثنیٰ ہوں گے جہاں اردو زبان میں تعلیم دینے پر اتفاق پایاجاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ صوبوں میں یا تو ہر سکول دوہرے سٹاف کا انتظام کرنا ہوگا یا مسلمانوں اور ہندؤں کے لیے الگ الگ سکول قائم کرنا ہوں گے۔
اگر ان متبادل طریقوں میں سے کوئی بھی قابل قبول نہیں ہوتا تو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنی تہذیبی اور دینی شناخت کو خطرے سے محفوظ کرنے کے لیے ، ثانوی تعلیم کے ہر مشترکہ نظام سے علیحدگی اختیار کرلیں اور صوبائی تعلیمی بجٹ سے اپنا حصہ الگ کرکے دینے کا مطالبہ کریں تاکہ وہ اپنے لیے ثانوی تعلیم کا مستقل بندوبست کرسکیں [28]۔
اس كے بعد Secondary Education پھر Primary Education اور Schools of Oriental learning كا پورا جائزہ اور ہر ایك كا مجوزہ خاكہ پیش كیا۔ رپورٹ كے صفحہ ۲۷۱ پر اس پورے جائزہ كا خلاصہ ذكر كیا گیا ہے اور سفارش كی گئی ہے كہ ‘مسلم ایجوكیشنل كانفرنس’ اس پر مزید كام جاری ركھے۔ آخر میں ایك بار پھر یہ بات زور دے كر كہی گئی ہے كہ جو معلومات ہم نے جمع كردی ہیں اور جو سفارشات مرتب كردی ہیں ان كی روشنی میں آئندہ كئی سالوں تك اس كام كو جاری ركھنا بہت ضروری ہے[29]۔اس پر سربراہ كمیٹی نواب كمال یار جنگ بہادر اور دیگر آٹھ اركان كے دستخط بنائے گئے ہیں۔ كچھ معزز اركان كمیٹی نے اس رپورٹ كے بارے میں كچھ اختلافی نوٹ بھی لكھے ہیں، انہیں بھی صفحہ ۲۷۲ سے ۳۰۱ تك رپورٹ كا حصہ بنایا گیا ہے۔ سب سے طویل نوٹ گشتی كمیٹی كے چیئرمین سر محمد عزیز الحق صاحب كا ہے۔ اسے بذات خود’مستقل مسلم ایجوكیشن سكیم’ قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ یہ ۲۸ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ہند كے طول وعرض كے دوروں سے حاصل ہونے والے تجربات كو بھی مختصراً بیان كیاگیا ہے، گشتی كمیٹی كے اركان كا شكریہ بھی ادا كیاگیا ہے اور كچھ مستقل تجاویز بھی دی گئی ہیں۔
کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی کہ ثانوی تعلیم کے آخری سالوں میں ہر ادارے کو شام کے وقت عمومی موضوعات پر خصوصی محاضرات کا انتظام کرنے کا پابند کیاجائے جن میں حاضری اور تحریری نوٹس لینا تمام طلبہ کے لیے لازم ہو ۔
ثانوی تعلیم کا۴ سالہ نصاب مکمل کرنے کے بعد مرحلۂ ثانویہ کے دوسالوں کا عوامی امتحان لیا جائے جس میں سوالات ایسے شامل کیے جائیں جن سے درسی مضامین کے بارے میں طلبہ کی فکری اور تجزیاتی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکے جو انہوں نے اس مرحلے کی تعلیم کے دوران حاصل کیں ۔ اس سلسلے میں سولات کی بوچھاڑ کرنے کی مکمل حوصلہ شکنی کی جائے ۔
اس رپورٹ میں سکولوں کی ہم نصابی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی تجویز نہیں دی گئی کیوں کہ اس کا فیصلہ کرنا ہر سکول کا اپنا کام ہے ۔ اس کا زیادہ تر دار ومدار سکول سٹاف کی دستیابی اور ان کے جذبے پر ہوگا۔
اسی طرح جسمانی ورزش وغیرہ کے بارے میں بھی کوئی تجویز نہیں دی گئی حالانکہ یہ کمیٹی اسے سکول لائف کی ایک انتہائی ضروری سرگرمی سمجھتی ہے ۔ ہر سکول میں اس سرگرمی کی سہولت ہونی چاہیے مگر اسے درسی مضمون کا درجہ دینے کی ضرورت نہیں ۔
پرائمری تعلیم (نظام تعلیم کا خاکہ )
کمیٹی نے جن جن مقامات کا دورہ کیا ان میں اپنے فرائض منصبی کے اندر رہتے ہوئے مقامی حالات کا مطالعہ کیا اور نافذ العمل نظام تعلیم کا اس نظر سے جائزہ لیا کہ اس سے ان علاقوں کے مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور ثقافتی زندگی پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں اورملک کے دیگر حصے ان سے کیسے متاثر ہورہے ہیں ۔ کمیٹی نے یہ جائزہ لینے پر خصوصی توجہ دی کہ آیا کوئی ایسی سرگرمی بھی کارفرما ہے جس سے مسلمانوں کی وحدت کو نقصان پہنچے یا جس کا مقصد ایسا نقصان پہنچانا ہو۔ کمیٹی نے بیان کیا کہ عوامی قائدین اور ماہرین تعلیم سے تبادلۂ خیالات کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’ریاست ڈنمارک میں سب کچھ اچھا نہیں ہے‘‘[30]۔ اس لیے کمیٹی نے اس مرحلے پر مسلم ایجوکیشن کے لیے نئی تجاویز دینے کا فیصلہ کیا جو مسلمانوں کی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں اور موجودہ صورتحال میں بہتری لاسکے۔
اس کے لیے اصولی فیصلہ یہ کیا گیا کہ یہ تجاویز مرتب کرتے وقت یہاں کی ثقافت کا یکساں ہونا پہلے سے طے نہیں کرلیاجائے گا ۔
وسیع خاکہ (Broader outline)
وسیع خاکے کے طور پر یہ تجوز دی گئی کہ جہاں تک ممکن ہو مفت اور لازمی تعلیم اردو زبان میں دی جائے کیوں کہ ہمارے خیال میں صرف اردو ہی ہندوستان کی مشترکہ زبان قرار دیا جاسکتی ہے۔ البتہ سروے کے دوران یہ تجویز بھی کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی کہ شمالی مشرقی صوبہ ، پنجاب ، کشمیر ، صوبجات متحدہ (آگرہ ، اودھ ، دہلی ) ، مرکزی صوبجات ، بمبئی ، میسور، آندھرا اور اسی طرح کے دیگرایسے صوبہ جات اور ریاستوں میں جہاں مقامی مسلمان اس کی حمایت کریں اردو ہی تدریسی زبان ہونی چاہیے ۔ بصورت دیگر طلبہ کی مادری زبان کو ذریعہ تدریس بنادیا جائے ۔ اس کے لیے درجِ ذیل انواع کے ادارے ہوں:
- شہری پرائمری سکول
- دیہاتی پرائمری سکول
- لڑکیوں کے پرائمری سکول
- مسلم یتیم خانوں کے ساتھ ملحقہ ، یا یتیم خانوں پر مشتمل صنعتی پرائمری سکول بھی ہونے چاہئیں جہاں صنعتی تعلیم دی جاسکے ، اور
- مسلم پرائری اساتذہ کی تربیت کے لیے ٹریننگ سکول ہونے چاہئیں ، البتہ اسی پر ہمیں اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں نئی مشرقی سمت سازی (Re-Orientation)کے اقدامات بھی کرنے چاہئیں ۔ یا
- علوم شرقیہ کے مکاتب اور مدارس کی، کسی حد تک ، تنسیق نو کرکے ان کا ربط جدید مضامین کے ساتھ قائم کرنا چاہیے ۔
عملی تجاویز
- ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں درج ذیل انتظامات کرنا ہوں گے:
- مجوزہ تبدیلیوں کو شامل کرنے کے لیے نئی نصابی کتب تیار کرنا ؛ مگر
- جہاں نئی کتب کی تیاری میں مالی رکاوٹیں ہوں وہاں موجودہ درسی کتب میں سے انتہائی احتیاط سے انتخاب کیاجائے
- دونوں صورتوں میں مسلم لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے دینی تعلیم ضرور شامل کی جائے
- ہمارا اصل مقصد دوہرے تعلیمی ادارے قائم کرنا نہیں ، ہمارے خیال میں موجودہ پرائمری سکولوں کو بڑی آسانی سے ہمارے تجویز کردہ نظام میں تبدیل کیاجاسکتا ہے [31]۔
درسی کتب کی تیاری
ہم پہلے تجویز دے چکے ہیں کہ آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس ایک صوبائی مسلم ایجوکیشن بورڈ قام کرے ۔ یہاں یہ تجویز دی جارہی ہے کہ اسی بورڈ کے تحت ڈویژن کی سطح پر بورڈ قائم کیے جائیں ۔ یہ بورڈ صوبے کی سطح پر آپس میں رابطے میں رہیں اور تبادلۂ خیالات کرتے رہیں ۔ اسی طرح حکومتی تعلیمی شعبوں اور لوکل باڈیز کے ساتھ بھی ان کا رابطہ رہے ۔ مسلم بورڈ کی ذمہ داری ہوگی کہ مسلم تعلیم کے مفادات پر گہری نظر رکھے اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہر موضع میں تعلیم سے متعلقہ مسائل کے سلسلے میں مسلمانوں کو مشورہ بھی دے اور ان کی مدد بھی کرے ۔
آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک ذیلی کمیٹی بعنوان ’’نصابی کتب کمیٹی ‘‘ جس میں تمام صوبائی بورڈوں کی نمائندگی ہو :
- اپنے انسپکٹر وں کے ذریعے وقتا فوقتاً نافذ العمل درسی کتب کا جائزہ لیتی رہے کہ کہیں مسلمانوں کو کسی قابل اعتراض مواد کی تعلیم تو نہیں دی جارہی ۔
- مختلف تعلیمی مراحل کے لیے اردو ، دینیات اور اسلامی تاریخ کی درسی کتب کی تیاری پر غور خوض کرے ۔
- اشاعتی اداروں کے ساتھ رابطہ کرکے ان کتب کی اشاعت کا انتظام کرے ، حکومتی ٹیکسٹ بک کمیٹی، یا دیگر متعلقہ اداروں کو یہ کتب اایسے سکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کرے جس کا انتظام وانصرام مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔
- مسلم سکولوں اور مدارس کے سربراہان کو اطلاع دے کہ فلاں فلاں مضامین کی نصابی کتب دستیاب ہیں ۔
- مختلف لوگوں کو علی گڑھ میں قائم مرکزی بک ڈپو سے یا اگر ممکن ہو تو صوبائی کتب خانوں کی مدد سے یہ کتب خریدنے میں مدد دے ۔
درسی کتب کا انتخاب
درسی کتب کی تیاری پر وقت لگ سکتا ہے ، اور اس میں ممکنہ طور پر مالی مشکلات بھی آسکتی ہیں ۔ تجویز ہے کہ عارضی طور پر آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی درسی کتب کی کمیٹی عبوری مدت کے لیے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے کچھ کتب کے انتخاب میں مدد دے ۔ حکومت کی صوبائی کمیٹی برائے درسی کتب میں صوبائی بورڈز کی نمائندگی ہونی چاہیے ، تا کہ یہ نمائندے ان سکولوں کے لیے بھی کتب کے انتخاب میں مدد دیں جن کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے ، اور مسلمانوں کے لیے بھی ۔ کوئی ایسی درسی کتاب مقرر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جس کے بارے میں ان کمیٹیوں کے مسلم نمائندوں نے ۲/ ۳ (تین میں سے دو ) کی نسبت سے مخالفت میں رائے دی ہو۔
کمیٹی نے تعلیم کے مالیاتی معاملات کے بارے میں سفارشات پیش کیں۔ البتہ انہوں نے اصولی بات بتائی کہ ہم حکومت پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ۔ حتی کہ جب ہم دینیات کی تدریس یا اردو کی تدریس یا اردو کے ذریعے تعلیم دینے کی سہولت کا مطالبہ کرتے ہیں تب بھی یہ مقصد نہیں ہوتا۔
علوم شرقیہ کے ادارے
یہ ادارے ہندوستان میں بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ ضروری ہے کہ ان اداروں کے منتظمین بھی ہماری ان تجاویز کو رو بہ عمل لانے میں ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دیں ۔
خلاصہ
کمیٹی نے یہ تجاویز دے کر امید ظاہر کی کہ اس پر کام آئندہ جاری رہے گا۔ رپورٹ پر جن ارکان نے دستخط کیے انہوں نے اپنے کچھ اختلافی نوٹ بھی لکھے ۔ ان میں سر شیخ عبد القادر ، پرنسپل ڈبلیو ایچ صدیقی اور عزت مآب سر محمد عزیز الحق کا نوٹ شامل ہے ۔ مؤخر الذکر نوٹ زیادہ تفصیلی ہے ۔
سر محمد عزیز الحق نے زیر بحث نظام تعلیم بنانے والوں کی نیت پر شک کرنے سے انکار کیا ، البتہ ان نتائج سے اتفاق کیا کہ اس نظام کے تمام معاشی ، سماجی اور سیاسی فوائد کے باوجود وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ثقافتی اور سماجی نظام کی شکست وریخت کا سبب بنا ہے ۔ انہوں نے مختلف علاقوں کی کچھ مثالیں دیں۔ انہوں نے مدراس ، بمبئی ، سی پی اور برار کا ذکر کیا ۔ انہوں نے مسلمانوں کو اردو میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہ دینے کو سب سے بڑی غلطی قرار دیا ۔ پھر انہوں نے وضاحت کی کہ مسلمانوں کو ادبی نصوص کے طور پر تمام ہندو عقائد اور شخصیات کے بارے میں پڑھنا پڑتا ہے اور اسے اسلامی عقائد اور شخصیات پڑھنے کا موقع کم ہی ملتا ہے ۔ اسی طرح تاریخ میں انہیں قدیم ہند کے بارے میں تو پڑھایاجاتا ہے ، جس میں ہندو مذہب کا ارتقا اور اسی سے متعلقہ علوم کا تعارف ہوتا ہے ۔
جوں ہی مسلمانوں کا قرون وسطیٰ کا دور آتا ہے اس کے لیے نصابی کتابوں میں لڑائی جھگڑے، لوٹ کھسوٹ، مار دھاڑ کے علاوہ کچھ نہیں پڑھایا جاتا ۔ یہ سلسلہ نبی اکرم ﷺ سے شروع کرکے مغلوں تک لایا جاتا ہے اور سب کو زبردستی قبضے کرنے والے جنگ جو کے طور پر پڑھایاجاتا ہے ۔ اسی میں مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں اور قتل وغارت بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ اس نظام تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو مسلم کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے ۔ معزز رکن کمیٹی نے مسلم بادشاہوں کے نام لے لے کر ان سے منسوب ناپسندیدہ اقدامات کی مثالیں دیں۔ انہوں نے ان مسائل کے حل پر بھی ناقدانہ تبصرہ کیا ہے اور اسے عملی اور فوری بنانے پر زور دیا ۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ناگپور یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ اور دیگر موضوعات کے بارے میں مربوط تحقیق کا نظام قائم کرنے کی تجویز دی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق وتدریس کا مناسب انتظام کرنے پر بھی زور دیا ۔
دینی تعلیم کے بارے میں تجاویز
جناب عزیزالحق نواب کمال یار جنگ کمیٹی کی گشتی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے ۔ ان کے تفصیلی نوٹس انتہائی قیمتی اور قابل قدر ہیں یہاں صرف براہ راست دینی تعلیم کے بارے میں ان کی تجاویز کا خلاصہ پیش کیاجاتا ہے :
آل انڈیا اورینٹل یونیورسٹی کی تجویز
جناب عزیز الحق نے اس ’بورڈ آف اورینٹل ایجوکیشن ‘ یعنی مجلس تعلیم شرقیات جس کی تجویز نواب کمال یار جنگ کمیٹی نے دی ہے ، اس کے بارے میں تجویز دی کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو ایک ’آل انڈیا اورینٹل یونیورسٹی ‘ قائم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے ۔مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے ہندوستان میں ایک ’جامعہ ازھر ‘ کا قیام ضروری ہے ۔ دیوبند ، ندوہ اور اعظم گڑھ ،نیز اعلیٰ معیار کی علوم شرقیہ کی تعلیم کا مقصد لیے قائم شدہ حیدر آباد، بہاولپور، دہلی ، اجمیر ، ویلور، کلکتہ ، سلہٹ اور دیگر متعدد مقامات پر بہت سے دینی مدارس کے ہوتے ہوئے ’اسلامی علوم میں مہارت ‘ کے مقصد سے ایک انتہائی اعلیٰ معیار کی ’جامعہ علوم شرقیہ ‘ قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ذرا اہمیت رکھنے والے مقامات پر قائم مساجد کے ائمہ تربیت یافتہ اساتذہ بن جائیں اور یہ مساجد مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت کے مراکز بن جائیں تو اس سے ہندوستان میں مسلم عوام کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ اس سے دینی مدارس کے فضلا کے لیے ملازمت کے مواقع بھی کھل جائیں گے اور علم وفضل کے حامل لوگوں کے لیے دیگر بہت سے در وا ہوجائیں گے [32]۔
مسلم سکولز
جناب عزیز الحق نے کمیٹی کی متفقہ تجاویز برائے مسلم مکاتب (Muslim Schools) پر مزید کام کرنے کے لیے اپنے نوٹ میں تفصیلی رائے دی جس کا خلاصہ یہ ہے :
مسلم مکاتب کے بارے میں جو درسی سکیم ہم نے رپورٹ میں دی ہے اگر اسے تسلیم کرکے نافذ کردیا جائے ، یا اسے تسلیم نہ کیاجائے اور موجودہ نظام تعلیم ہی جاری رہے ، دونوں صورتوں میں ’مسلم مکاتب ‘ میں تدریس اور منہج تدریس کی تنظیم نو ضروری ہے ۔ مسلم سکولز کے قیام کا جواز یہ نہیں ہے کہ ان میں مسلم طلبہ آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں یا مسلم معلمین کو ان میں ملازمت مل جاتی ہے ، بلکہ ان کا جواز یہ ہے کہ مسلم ہندوستان ایک ایسی نوعیت کے مکاتب کا تقاضا کرتا ہے جس کا ماحول اور منظر مسلمانوں کے خاص تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو ۔حتی کہ جب تک مختلف صوبوں اور ریاستوں میں موجودہ نصاب اور درسی لائحۂ عمل قائم رہتا ہے اس وقت تک بھی یہ تبدیلی ضروری ہے ۔ اگر مسلم سکول بھی ایک دوسرے عام سکول کی طرح ہو، جس میں اس کی اپنی کوئی خاص علامت نہ ہو تو اسے ’مسلم سکول ‘ کہنے کا استحقاق بھی بمشکل ہی حاصل رہتا ہے ۔
میری عاجزانہ رائے میں ہر مسلم ہائی سکول میں ہر روز کم از کم آدھے گھنٹے کا ایک پیریڈ ایسا ہونا چاہیے جب ہائی کلاسز کے آخری چاروں سیکشن ایک جگہ جمع ہوں اور ہیڈ ماسٹر آکر ان سے اسلام کے بارے میں گفتگو کرے ۔ ہیڈماسٹر اپنے طور پر اس کا ایک خاکہ تیار کرے ، خاکہ ایسا ہونا چاہیے کہ ایک متوسط معیار کے سکول کے لیے مناسب ہو ۔ مثلاً ایسا ہوسکتا ہے کہ اس آدھے گھنٹے میں طلبہ کی اپنی زبان میں یا انگریزی میں، جو مناسب ہو ، قرآن پاک پڑھ کر سنایا جائے اور اس کے تاریخی ، جغرافیائی اور سیاق وسباق کے حوالے دے کر اس کی تشریح کی جائے ۔ پھر وقتا فوقتاً ایک منتخب شدہ موضوع کے متعلق کچھ حکایات پیش کی جائیں جن میں مسلم صوفیہ ، علما اور قائدین کے حالات زندگی بیان کیے جائیں ۔ دنیا میں اب تک حضرت عمر کے اس واقعہ کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکی جب انہوں نے بیت المقدس کی چابیاں وصول کرنے کے لیے سفر کیا ۔ کیا حضرت معین الدین اجمیری کے اس کمال کی کوئی مثال مل سکتی ہے جب انہوں نے بے یار ومددگار حالت میں اجمیر کے راجپوتانہ کے علاقے میں سخت مزاج سرداروں کے درمیان جاکے ڈیرے ڈال دیے اور اصلاح کا کام شروع کیا ۔ آج دنیا بھر سے لوگ ان کے مزار پر آتے ہیں ۔ اس سے بڑی بہادری کی مثال ہم کہاں سے لائیں کہ اورنگ زیب عالمگیر نے بیرونی دشمن کے حملے کے عین دوران میں مصلیٰ بچھا یا اور نماز شروع کردی ۔ اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ، ان کا علم طلبہ کو ہوجانے دیجیے ۔ ہر روز بورے ٹائم ٹیبل میں سے آدھا گھنٹہ نکال لینا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا اور پھر یہ مجلس درسی کتاب کے سبق کی طرح نہیں ہوگی ، گفتگو پر مبنی ہوگی ۔
ہر معلم سے بھی کہا جائے کہ وہ اپنے ہاں اس قسم کا ایک خاکہ تیار کرکے وقتاً فوقتاً اسلام کے بارے میں طلبہ کی ذہن سازی کرتا رہے ۔ ایک مسلم سکول کی دیواروں پر جو اقوال زرین لکھے جائیں وہ بھی اسلام کے سرچشمہ –قرآن مجید سے ہوں، یا حدیث سے ہوں ۔
سکول کے پورے منظر کو مسلم بنایاجائے اور مسلم سکولوں کے مسلم طلبہ جب سکول سے باہر جائیں تو وہ اسلامی روح اور نظریے کو ساتھ لے کر جائیں [33]۔
دینی تعلیم
جہاں تک مسلم سکولوں میں دینی تعلیم یا دینیات کا تعلق ہے تو اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی ہونی چاہیے ۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس ایک کمیٹی صرف اس مقصد کے لیے تشکیل دے کہ وہ صرف اور صرف مسلم سکولوں کے نصاب کا جائزہ لے اور ان کے لیے بہتر نصاب تجویز کرے جو ان کے مقصد سے مناسبت رکھتا ہو ۔ مسلم رائے عامہ اس بات پر متفق ہے کہ سکولوں میں دینی تعلیم ہونی چاہیے اور اس کا حق بھی بنتا ہے کہ اسے درسی نظام میں نمایاں مقام حاصل ہو ۔ یہ کام ایک مجلس ماہرین کے ذریعے ہی کرنا چاہیے ۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ نصاب جیسا کیسا بھی ہو دینیات کے استاد کی تنخواہ غیر معیاری نہیں ہونی چاہیے ۔ اس کام کی ابتدا کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ٹریننگ کالج سے ملحق ایک سکول قائم کردینا چاہیے ۔ تھیالوجی ٹریننگ سکول صرف دینیات کے معلمین کی تربیت کے لیے مختص ہونا چاہیے ۔ شروع شروع میں چھٹیوں میں مختصر دورانیے کی ٹریننگ سے کام کی ابتدا کی جاسکتی ہے تاکہ مسلم ہائی سکولوں کے متعدد معلمین کو بیک وقت ٹریننگ دی جاسکے[34]۔
مسلم سکولوں اور کالجوں کا آئندہ نظم ونسق
جناب عزیز الحق نے کہا: ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں تعلیم یافتہ فوجیں تیار کرکے نکالنے کی بجائے اپنی پیداوار کی نوعیت اور معیار پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہر صوبے میں کم از کم ایک ایک مسلم کالج اور ایک ایک مسلم سکول ایسا ہونا چاہیے جہاں نتائج کا جائزہ مقدار کی بجائے معیار پر لیاجائے اور یہ دیکھا جائے کہ ان سے ہندوستان کو کیا فائدہ ہوگا اور مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا ۔ہمارے پاس ایک سکول اور ایک کالج تو ایسا ہونا چاہیے جہاں ہم مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لیے ایسے قائدین تیار کریں جو اسلام اور ہندوستان کے لیے ہر طرح کی قربانی کے جذبے سے سرشار ہوں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں ہاسٹل سسٹم ہو اور طلبہ کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کا بہترین ماحول فراہم کیا جائے ۔یہاں دن کی ابتدا باجماعت نماز سے ہو اور اس کے فوراً بعد فوجی مشق ہو۔دن کا وقت درسی تعلیم اور مشقی مجالس (Tutorial work) کے لیے مختص ہو ۔ بعد دوپہر کا وقت کہیں باغات، یا لیبارٹریز ، یا ورکشاپس میں گزارا جائے ۔ یا اس وقت میں اپنے قلم ، کاغذ یا ضروری چیزیں تیار کی جائیں۔ کوئی اگر چاہے تو ٹائیپنگ، شارٹ ہینڈ وغیرہ سیکھ لے ۔طلبہ ان چیزوں کو اپنی دلچسپی کے مشغلہ کے طور پر اختیار کریں ۔ کچھ لوگ کھیلوں میں وقت گزاریں اور کچھ عملی مشقوں میں ۔ طلبہ کچھ وقت نکال کر اپنی خوراک کی پیداوار میں بھی حصہ ڈال سکتے ہیں ، کوئی سبزی اگائے کو ئی مرغیاں پال لے وغیرہ ۔ تمام طلبہ کا کچھ مدت کے بعد طبی معائینہ ہوا کرے تاکہ وہ صحت مند رہیں ۔ ہر طالب علم اپنی جگہ کی صفائی ستھرائی خود کرے اور کپڑے وغیرہ خود دھویا کرے ۔ طلبہ اپنے درمیان ایک کواپریٹو سوسائیٹی تشکیل دیں جسے وہ خود ہی چلائیں؛ کتابیں ، کاغذ قلم اور دیگر چھوٹی موٹی ضروریات کی چیزیں اس سوسائیٹی کے ذریعے خریدی جائیں۔ سکولوں کے لیے دی گئی یہ تجاویز کالجوں پر بھی نافذ ہوں۔
پرائمری تعلیم اور واردھا سکیم
جناب عزیز الحق نے اس کا سیر حاصل تجزیاتی مطالعہ پیش کیا، واردھا سکیم ہی کی وجہ سے مسلمانوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی تھی کہ مسلمانوں کی دینی اور تہذیبی صورت حال پر زد پڑ رہی ہے ۔ اسی کی بناپر پیر پور کمیٹی تشکیل پائی تھی اور زیر غور کمیٹی بھی [35]۔
تعلیم اور تبدیلی مذہب كے مسائل، تبشیری سرگرمیوں كے اثرات، مدراس یونیورسٹی، مسلمانوں كی تعلیم كے بارے میں لارڈ مایو كی قرارداد ۱۸۷۱ء، مدراس میں اٹھائے گئے اقدامات، مسلم تعلیم سے لاپرواہی، انڈین ایجوكیشن كمیشن ۱۸۸۲ء، تعلیمی ضوابط پر نظر ثانی ۱۸۹۲ء، پبلك سروس، مسلمانوں كی مشكلات كا پہلی مرتبہ احساس ۱۹۱۲ء، عربی مدارس كا یونیورسٹی كے ساتھ انسلاك، مسلم گرلز سكول، عربی مدارس كی درجہ بندی، سكولوں میں ہندی كی تعلیم ۱۹۳۵ء۔تیسرے باب میں مدراس كی مسلم تعلیم كی مشكلات كی وضاحت كی گئی اور یونیورسٹی كے قواعد وضوابط بیان كیے گئے۔مسلم بچوں كے تعلیم حاصل كرنے كا تناسب۔ چوتھے باب میں مدراس میں كانگریس كی وزارت كے قیام اور اس كے اثرات بیان كیے گئے۔ اس سلسلے میں كالج ایجوكیشن، كانگریس كے جھنڈوں، تصاویر اور ترانوں كا مسئلہ، مسلم اداروں كے اخراجات كی عدم فراہمی، ہندی زبان، دیوناگڑھی رسم الخط، عربی دان منشیوں كی معزولی، دیگر نقصانات۔
سروے كے اہم ضمیمے
رپورٹ كے آخر میں بہت مفید ضمیمے شامل كیے گئے جن میں رپورٹ كے تمام اجزا سے متعلق ضروری ریكارڈ بہم پہنچایا گیا ہے۔ان ضمیموں كو انگریزی الفابیٹ كے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ضمیمہ ‘A’ میں ‘آل انڈیا مسلم ایجوكیشنل كانفرنس’ كے اجلاس كے صدر كی حیثیت سے نواب صاحب كی طرف سے ۴ جنوری ۱۹۴۰ء كو كمیٹی كے اركان كو لكھا گیا مراسلہ شامل كیا گیا ہے جس میں انہوں نے اس اقدام كا مقصد بھی لكھا اور جنوری كی ۲۶ تاریخ كو حیدر آباد میں اس كا اجلاس بھی طلب كیا۔ضمیمہ ‘B’ میں ۱۰۰ نكات پر مشتمل سوالنا مہ دیا گیا جس میں مسلم ایجوكیشن كے تمام مراحل اور انتظامیات كا احاطہ كیا گیا تھا۔ضمیمہ ‘C’ میں پورے ملك میں قائم’مسلم لیگ’[36] كی ذیلی شاخوں كو پہنچائی گئی سوالنامے كی نقول كا نقشہ دیا گیا تھا۔یہ سوالنامے وزراء، وائس چانسلر صاحبان، ماہرین تعلیم، صحافیوں، چیف كمشنر صاحبان، نوابی ریاستوں اور دیگر نمایاں شخصیات كو بھی بھیجے گئے۔ یہ كل چار ہزار سات سو (۴۷۰۰) كی تعداد میں تقسیم ہوئے۔ ان میں سے ایك ہزار چار سو نقول تو گشتی كمیٹی كے دوروں كے درمیان تقسیم كی گئیں۔ضمیمہ ‘D’ میں نواب صاحب كا وہ مراسلہ شامل كیا گیا جو انہوں نے ‘مقامی كمیٹیاں’ قائم كرنے كے بارے میں لكھا۔ اس مراسلے میں ان شخصیات كے اسمائے گرامی بھی لكھے جن كی مشاورت سے مركزی كمیٹی تشكیل دینے كا انہیں اختیار دیاگیا تھا۔ مقامی كمیٹیوں كا مقصد ملك بھر سے معلومات اور مطلوبہ مواد جمع كرنا تھا۔ اس سلسلے میں بمبئی، مدراس،بنگال، پنجاب، صوبہ ہائے متحدہ، بہار، مركزی صوبہ، اڑیسہ، آسام، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ، دہلی، اجمیر، برطانوی بلوچستان، حیدر آباد، میسور، ٹراونكور، بھوپال، رامپور، كشمیر، اندور، گوالیار، بروڈا، بہاولپور اور پٹیالہ میں ۲۵ مقامی كمیٹیاں قائم كی گئیں۔اس مراسلے میں كام كرنے كا مقصد اور طریقہ بھی بتایا گیا اور اس كی نقل ہر مقامی كمیٹی كے نمائندے كو اركان كی گئیں۔ضمیمہ ‘E’ میں جنوبی ہند كا ٹور پروگرام یعنی گشتی كمیٹی كے دوروں كے اوقات كا نقشہ دیا گیا۔ یعنی یہ كہ كس تاریخ كو، كس دن، كتنے بج كر كتنے منٹ پر كس شہر كے سٹیشن سے روانہ ہوں گے۔ یہ دورہ ۱۶ مئی كو بروز جمعرات شروع ہوا اور ۲۵ جون تك جاری رہا۔ پھر ۲۲ ستمبر بروز اتوار ۸ بج كر ۶ منٹ پر شمالی ہند كا دورہ شروع ہوا، ہر اگلے شہر میں پہنچنے كا وقت بھی دیا گیا اور ۱۸ نومبر كو بروز پیر ختم ہوا۔ نقشے كے آخر میں نوٹ دے دیا گیا كہ ریلوے كی دیر سویر كے حساب سے پروگرام میں تبدیلی كی جاسكتی ہے۔ ضمیمہ ‘F’ میں یونیورسٹی آف كلكتہ كے لیے نظر ثانی شدہ نصاب برائے ‘تاریخ اسلام’ كی تفصیل دی گئی جو ایف اے، بی اے اور ایم كے تمام مراحل كے لیے الگ الگ تیار كیاگیا تھا۔ ضمیمہ ‘G’ میں ثانوی تعلیم كے لیے ضروری وسائل كا نقشہ دیا گیا، جس میں ثانوی سكولوں كے لیے مطلوبہ سٹاف، ہر سكول كا متوسط بجٹ جو اس كے قیام سے ۱۵ برس بعد ضرورت ہوگا،آمدن، لڑكوں كے لیے نصابی مضامین؛ لازمی، اختیاری۔ لڑكیوں كے سكولوں كے نصابی مضامین اور دونوں قسم كے سكولوں كے نصاب خواندگی كی مقدار،سالانہ گھنٹوں كی تعداد اور تقسیم كار،مضامین كے مقررہ نمبر۔ ضمیمہ ‘H’ میں پرائمری سكول’شہری علاقوں كے لیے’ – چھ سالہ پروگرام چھوٹے بچوں كا نصاب، ۶ سال كی عمر سے جماعت اول شروع۔ عربی، فارسی، جسمانی تربیت، تہذیبی تربیت وغیرہ مضامین سمیت تقریبا تما م ضروری مضامین۔پرائمری تعلیم’دیہی علاقوں كے لیے’، ‘لڑكیوں كے سكول’، پرائمری اساتذہ كی تربیت، لڑكیوں كے سكولوں كی اساتذہ كی تربیت، صنعتی پرائمری سكول، درس نظامی كے مكاتب اور مدارس۔ آخر میں نوٹ لكھا گیا كہ یہ نصاب ابتدائی خاكہ ہے، تفصیلی نصاب كے لیے قائم خصوصی كمیٹیاں حسب ضرورت اس میں تبدیلی كرسكیں گی۔ ضمیمہ ‘I’ میں ‘مدراس’ میں مسلم آبادی كی تفصیل دی گئی اور مختلف علاقوں اور اضلاع میں تقسیم كیاگیا۔ مدرس میں اردو بولنے والی آبادی كا الگ چارٹ دیاگیا۔ مدراس كے عوامی اداروں میں مسلم اہل علم كی تعداد كا بھی ایك چارٹ دیاگیا۔ ۱۸۶۸ سے ۱۹۳۸ تك ہر سہ سالہ مدت میں یونیورسٹی كا امتحان پاس كرنے والے مسلمانوں كی تعداد، تمام تعلیمی پروگراموں كی الگ الگ تعداد دی گئی۔مدراس میں طلبہ كی كل تعداد، ملیبار میں لڑكوں كے سكولوں پر عوامی پیسے سے اخراجات، گزشتہ ۱۰ سالوں میں مدراس كی یونیورسٹیز میں مسلم طلبہ كے نتائج، ۱۹۴۰ء میں مدراس كی پروونشل سروسز، ہر سروس میں كل تعداد اور مسلمان ملازمین كی تعداد، مركزی صوبہ (سی پی) اور برار میں مسلم آبادی، سی پی كے شہروں میں مسلم آبادی كی تعداد، سی پی اور برار میں مسلم ایجوكیشن كی ترقی (۱۸۸۶تا ۱۹۰۲ء)،یہ موازنہ مختلف مراحل میں ۱۹۳۷ء تك كیاگیا۔ پبلك امتحانات میں پاس ہونے والے مسلم امید واروں كی تعداد، سی پی اور برار میں اردو سكول، سی پی كے كالجوں میں مسلم طلبہ كی تعداد، بمبئی اور سندھ میں مسلم آبادی، لائل پور زرعی كالج میں مسلم طلبہ كی تعداد[37]۔
نواب صاحب کا دوسرا خطبۂ صدارت
۱۹۴۰ء میں حیدرآباد دكن میں مسلم ایجوكیشنل كا نفرنس كا اجلاس ہو ا تو اس میں بھی نواب كمال یار جنگ صاحب نے خطبۂ صدارت پیش كیا[38]۔
مسلم تعلیم کا نظام قائد اعظم کی نظر میں
۸/ مارچ ۱۹۴۴ء کو علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:”…… پاکستان کی ابتدا ہندوستان میں مسلم حکومت قائم ہونے سے بہت پہلے اسی وقت ہوگئی تھی جب یہاں پہلا غیر مسلم مسلمان ہواتھا۔ جوں ہی ایک ہندو نے اسلام قبول کیا، اس کے ساتھ ہی وہ نہ صرف دینی طور پراپنے ماحول سے باہر ہوگیا بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور معاشی طور پر بھی اس سے الگ ہوگیا۔اسلام نے اس پر یہ فرض عائد کردیا تھا کہ بطور مسلمان وہ اپنی شناخت اور انفرادیت کو کسی اجنبی معاشرے میں تحلیل نہ کرے۔صدیاں گزرگئیں اور اس دوران ہندو ہندو رہے اور مسلمان مسلمان ہی رہے، انھوں نے اپنی اپنی وحدتوں کو تحلیل نہیں کیا- یہی چیز پاکستان کی بنیاد تھی”[39]۔
اسلامی تصورات كے مطابق خواتین کی كاروبار زندگی میں شركت
قائد اعظم نے مسلم یونیوسٹی علی گڑھ تشریف لے گئے تو یونیورسٹی میں قائم مسلم لیگ كے یونٹ كے اجلاس سے۱۰/ مارچ ۱۹۴۴ء كو خطاب كیا جس كی ابتدا یوں كی:میں آپ كے اس كام كی دل كی گہرائیوں سے قدر كرتا ہوں جو آپ لوگوں نے آل انڈیا مسلم لیگ كا ایك چھوٹا بچہ ہونے كی حیثیت سے سر انجام دیا۔……… پھرانھوں نے طلبہ كی توجہ اس جانب مبذول كرائی كہ آج كے دور كی ضرورت سادہ بی اے ایم اے كی بجائے شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ وغیرہ كی ہے۔ ہم نے بمبئی میں ایك سكول بینكنگ اور تجارت كے طریقے سكھانے كے لیے بھی قائم كیا ہے۔……….. طویل گفتگو كرتے ہوئےانھوں نے مسلم نوجوانوں كو ہندو اور یورپین كاروباری لوگوں كے مقابلے میں كاروباری ہنر سیكھنے كی نصیحت كی اور خواتین كو بھی اس طرف توجہ دلائی۔
پھر خواتین كے بارے میں فرمایا:…………کوئی قوم اس وقت تک عظمت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ تمھاری خواتین تمہارےساتھ ساتھ موجود نہ ہوں۔ ہم رسوم ورواج کی برائی کا شکار ہیں۔ یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ ہماری خواتین قیدیوں کی طرح اپنے گھروں كی چار دیواری کے اندربند کردی گئی ہیں۔ میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم مغربی طرزِ زندگی کی برائیوں کی نقالی كرنے لگیں۔ بلکہ آئیے ہم اپنی خواتین کی حیثیت کو اپنے اسلامی تصورات اور معیارات کے مطابق بلند کریں۔ جس خوفناک حالت میں ہماری خواتین كو رہنا پڑ رہا ہے،اس کی تو کہیں بھی اجازت نہیں۔ آپ کو چاہیے کہ مغربی معاشرے کی گمراہانہ طور طریقوں سے دور رہتے ہوئے،اپنی خواتین کو ہر شعبۂ زندگی میں اپنے ہمقدم کے طور پرساتھ لے کر چلیں۔ ایك عورت جو خود اَن پڑھ ہو، آپ اس سے یہ توقع نہیں ركھ سكتے كہ وہ آپ كے بچے كی مناسب طریقے سے پرورش كرسكے گی۔…… آئیےاس سرمائے كو اٹھاكر ہم باہر نہ پھینكیں [40]۔
یہ مشق اور یہ رپورٹ آئندہ مسلم معاشرے كی تعمیر نو كے علمی كا موں، یعنی معاشی نظام، سیاسی نظام وغیرہ مرتب كرنے كے لیے بنیادی كوشش ثابت ہوئی۔ پاكستان بننے كے بعد قائداعظم كی سربراہی میں ۲۷ نومبر سے یكم دسمبر ۱۹۴۷ء ‘آل پاكستان ایجوكیشنل كانفرنس’ كا انعقاد دارالحكومت كراچی میں ہوا۔ اس كانفرنس كی سفارشات میں نواب كمال یار بہادر كمیٹی كی رپورٹ كا واضح پرتو نظر آتا ہے، حتی كہ یہاں جو مركزی ادار تحقیقات اسلامی قائم كرنے كی سفارش كی گئی، پاكستان كی پہلی ایجوكیشنل كانفرنس میں وہ سفارش بھی شامل تھی[41]۔۱۹۵۱ٗ میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس ہوئی اور ۱۹۵۴ٗ تک یکساں تعلیمی نظام کے لیے انہی خطوط پر کام ہوتا رہا کہ سارےتعلیمی نظام کی نظریے کی بنیاد پر تعمیر نو کرکے مدارس کو بھی اس کا حصہ بنا دیا جائے مگر اس کے بعد تعلیمی پالیسی بدلی اور صرف دینیات پر اکتفا کیاگیا ۔
نواب کمال یار جنگ کی کمیٹی کی رپورٹ اور تجاویز دینی اور دنیاوی تعلیم کے فرق اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے ۔
[1]– Yusufi: Khursheed ; p. 724- 725
[2]– پیر پور، ہندوستانی ریاست اتر پردیش، فیض آباد ڈویژن میں ضلع باڑا بانكی كے ‘ڈیوا بلاك ‘ میں ایك چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ كنجا واڑا پنچائت كے تحت آتا ہے۔ اس زمانے میں یہ ریاست ‘اتر پردیش ‘كی بجائے ‘صوبۂ ہائے متحدہ’كہلاتی تھی اور اس میں زیادہ علاقے شامل تھے۔ اتر پردیش كی كے ایك اور ضلع كھیری (Kheri)، تحصیل لكھیم پور (Lakhimpur) میں بھی ‘پیرپور’ نام كے ایك گاؤں كا ذكر ملتا ہے۔خلاصہ از ویب سائٹس۔
[3]– Yusufi, Khurshed; p.789.
[4]– Yusufi, Khursheed; p.789, https://www.epaperpdf.com/wp-content/uploads/ 2021/12/Pirpur-Report.pdf
[5]– روزنامہ جنگ، اتوار ۱۳؍ جون ۲۰۰۴، بھارت كی تاریخ میں تحریف كا اعتراف، قمر الدین خان بلاگ۔ رئیس احمد جعفری نے پیر پور رپورٹ مکمل اپنی کتاب بعنوان RARE DOCUMENTS میں صفحہ نمبر ۱۵۱ تا ۲۲۴ بھی شامل کی ہے ۔ یہ کتاب ۱۹۶۷ میں محمد علی اکیڈمی لاہور سے شائع ہوئی ۔
[6]– https://www.studypool.com/documents/11588891/pakistan-movement-p0119
[7]– Yusufi, Khurshed; p.858- 859.
[8]– قائد اعظم اپنی بات كررہے ہیں كہ مجھے اسلام كے نام پر پكارا گیا تو میں برطانیہ چھوڑ كر واپس آگیا۔
[9]– Yusufi: Khursheed; V-II, p.989-991.
[10]– Yusufi, Khurshed; p.1016.
[11]– پیر پور كمیٹی كی رپورٹ كا نسخہ نہیں مل سكا، اس لیے مختلف ویب سائٹس سے معلومات جمع كركے خلاصہ لكھ دیا گیا ہے۔ قائد اعظم كی ایك تقریر میں بھی پیر پور كمیٹی كی اكثر سفارشات كا ذكر آگیا ہے۔
Report of the Inquiry Committee appointed by the Council of the All-India Muslim League to enquire into Muslim Grievances in’ ‘congress Provinces (Pirpur Report) . 1958., Pakistan Journal of History & Culture, Vol.XXVI/2 (2005)۔
[12]– آل انڈیا مسلم ایجوكیشنل كانفرنس در اصل ‘آل انڈیا محمڈن ایجوكیشنل كا نفرنس ‘ ہی كا نام تھا جو سر سید احمد خان صاحب نے ۱۸۸۶ء میں علی گڑھ میں قائم كی تھی۔اس كے سالانہ اجلاس ہندوستان كے مختلف شہروں میں منعقد ہوا كرتے تھے۔ اسی كے بیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ ڈھاكہ كے اختتام پر اسی اجلاس میں آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ۳۰؍ دسمبر ۱۹۰۶ء كو ڈھاكہ كے مقام پر ‘ آل انڈیا مسلم لیگ ‘ كے قیام كا فیصلہ كیا تھا۔ اس لحاظ سے’ آل انڈیا مسلم ایجوكیشنل كانفرنس ‘ مسلم لیگ كی بنیاد بنی تھی۔ خلاصہ از ویكی پیڈیا، انگریزی۔
[13]– نواب كمال یا ر جنگ بہادركا تعارف كہیں یكجا نہیں مل سكا۔ مختلف ویب سائٹس سے جو معلومات ملی ہیں ان كے مطابق نواب صاحب كا اسم گرامی نواب میر كمال الدین حسین خان بہادر، كمال یار جنگ تھا، اور ان كے والد گرامی مرحوم حسام الملك خان خاناں تھے۔ وہ حیدر آباد كے حكمران گھرانے سے تعلق ركھتے تھے۔ نواب كمال یار جنگ كی واحد صاحبزادی ‘خدیجہ بیگم ‘ جو كسی زمانے حیدر آباد دكن سٹاك ایكسچینج كی صدر بھی رہیں۔ ان كے تین بچے ہیں : ایك صاحبزادہ ‘محمد انس خان’، پیدائش حیدر آباد ۲۲؍جون ۲۰۰۱ء، دو صاحبزادیاں : صاحبزادی نورہ فاطمہ بیگم صاحبہ، پیدا ئش حیدر آباد ۲۵؍ جون ۱۹۹۹، صاحبزادی فزلكہ فاطمہ صاحبہ، پیدائش حیدر آباد ۱۸؍ اگست ۲۰۰۳ء۔آج كل ان كی فیملی برطانیہ میں رہائش پذیر ہے۔ مختلف ویب سائٹس سے اندازاً۔
[14]– خطبہ نواب كمال یار جنگ بہادر، آل انڈیا مسلم ایجوكیشنل كانفرنس، اجلاس، كلكتہ ۲۹؍ ڈسمبر ۱۹۳۹ء، اعظم اِسٹیم پریس حیدر آباد دكن، ص ۲۵
[15]– خطبۂ صدارت، نواب كمال یار جنگ ، كلكتہ ۲۹/ دسمبر ۱۹۳۹ء، مطبوعہ اعظم اِسٹیم پریس حیدر آباد دكن، ص ۶-۸، ۲۵
[16]– نواب صدر یار جنگ بہادر (۱۸۶۶- ۱۹۲۶ء) كا اسم گرامی مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی تھا۔ آپ علی گڑھ کے قریب موضع بھیکم پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آگرہ کالج میں حاصل کی۔ اسی زمانے میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔ مختلف رسائل اور اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے۔ ایک عرصہ تك “الندوہ “لکھنؤ کے ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۱۸ء میں ریاست حیدرآباد میں “صدر الصدور امور مذہب ” کے فرائض سونپے گئے۔ ۱۹۲۲ء میں نواب صدر یار جنگ بہادر کا خطاب سرکاری نظام سے ملا۔ ۱۳ سال بعد اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہو کر علی گڑھ کے قریب اپنی ملکیت حبیب گنج میں واپس آ گئے۔آپ فارسی اور اردو كے ادیب تھے۔ زندگی بھر قدیم كتابوں كے نسخے جمع كرتے رہے،’ كتب خانہ گنج’ان كے ذوق كا مظہر ہے۔ ان كے تحقیقی وتنقیدی مضامین اور تبصرے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، مخزن، زمانہ، معارف وغیرہ رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ ان پر شبلی اور حالی كے اثرات خاصے گہرے ہیں۔ تصانیف دو درجن کے قریب ہیں جن میں علمائے سلف اور “نابینا علما” خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔آپ دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاد اور علامہ شبلی نعمانی کے رفیق تھے۔ آپ ۱۹۱۸ سے ۱۹۱۹ء تك جامعہ عثمانیہ کے پہلے وائس چانسلر تھے۔ خلاصہ از ویكی پیڈیا۔
[17]– عبد المجید قریشی (۵؍ فروری ۱۸۸۵-تقریباً ۱۹۷۲ء) ولد عبد الكریم قریشی موجودہ ضلع سرگودھا، صوبہ پنجاب كے قدیمی تاریخی شہر بھیرہ (Bhera) میں پیدا ہوئے۔۱۸۹۳ سے ۱۹۶۰ء تك بھیرہ ضلع شاہ پور كے تحت رہا۔ عبد المجید نے ۱۵؍ مئی ۱۹۰۳ء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایف اے، بی اے اور ریاضی میں ایم اے ریاضی تك وہیں تعلیم حاصل كی۔ان كے بڑے بھائی فضل حق قریشی اور منجھلے بھائی عبد العزیز قریشی (متوفی ۱۹۳۶ء) بھی علی گڑھ كے فاضل تھے۔عبد المجید صاحب لكھتے ہیں كہ اس وقت علی گڑھ كالج كے پرنسپل جناب ‘تھیوڈور ماریسن صاحب ‘ تھے۔وہ گھوڑے پر سوار ہوكر طلبہ سے نمازوں كی پابندی كرانے كے لیے خود چكر لگاتے تھے۔قریشی صاحب كالج میں طلبہ یونین كے كیبنٹ رہے اور بی اے كے آخری سال میں اس كے سیكرٹری بنے۔وہ سنیئر مانیٹر بھی رہے اور فٹ بال كے چیمپین بھی رہے۔بی اے كے بعد ان كانام ڈپٹی كلكٹر كے لیے منظور ہوگیا مگر انہوں نے ایم اے میں داخلہ لینے كو ترجیح دی۔وہ سر ضیاء الدین احمد كے چہیتے اور قریبی شاگرد تھے۔ انہوں نے طالب علمی كے زمانے میں سر ضیاء الدین احمد كے حكم پر ریاضی كے مشہور پروفیسر، چكرورتی صاحب (بابو جادو چندر چكرورتی) كی چھٹیوں كے زمانے میں ان كی جگہ ریاضی بھی پڑھائی۔یہاں بی اے سنیئر كی كلاس میں اپنے ہاسٹل كے ساتھیوں ہی كو پڑھانا پڑا۔ڈاكٹر ضیاء الدین احمد اور كالج كے پرنسپل ‘آرچیولڈ’ نے چھپ كر ان كا پورا لیكچر سنا اور اطمینان كا اظہار كیا۔ آنریری سیكرٹری نواب وقار الملك صاحب نے انہیں كلكٹری كے مقابلے میں آدھی تنخواہ پر كالج میں پڑھانے كی پیش كش كی تو انہوں نے بڑی خوشی سے ایك سو پچیس روپے ماہوار پر علی گڑھ میں بطور ریڈرپڑھانا شروع كیا اور چوالیس سال علی گڑھ میں گزار دیے۔ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں عبد المجید صاحب كا تقرر كرتے ہوئے نواب صاحب مرحوم نے لكھا: “ڈاكٹر ضیاء الدین احمد نے بھی ڈپٹی كلكٹری كی نوكری پر كالج كی كم تنخواہ پر ملازمت اختیار كی تھی۔ میں دعا كرتا ہوں كہ جیسا ضیاء الدین احمد كا مستقبل شاندار رہا، ویسا ہی عبد المجید قریشی كا بھی ہو “۔ عبد المجید صاحب ۱۹۲۰ء میں شعبۂ ریاضی میں ریڈر ہوئے اور ۱۹۴۳ء میں پروفیسر ہوئے۔ ۱۹۴۲ء میں انہیں ‘خان بہادر’ كا لقب عطا ہوا۔ پھر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ اور ڈین بھی رہے۔ جب سر ضیاء الدین وائس چانسلرتھے تو عبد المجید صاحب ڈپٹی وائس چانسلر رہے۔ فروری ۱۹۴۷ء میں علی گڑھ سے ریٹائر ہوئے اور آزادی كے وقت چھ ماہ تك وائس چانسلر شپ كے فرائض سر انجام دیے۔ اس وقت كوئی وائس چانسلر نہیں تھا۔ وی ایم ہال كے چھ سال پرووسٹ رہے، ایس ایس ہال میں دوسال كے لیے دوبارہ تقرر ہوا۔ سنیئر موسٹ ہونے كی وجہ سے ای سی كے ممبر بھی رہے۔ عبد المجید ۳۵ سال تك (۱)۔ ڈیوٹی سوسائٹی، (۲)۔ مسلم ایجوكیشنل كانفرنس كے ساتھ بھی منسلك رہے۔ یہاں ان كا منصب اسسٹنٹ سیكرٹری اور جوائنٹ سیكرٹری تھا۔انہیں ۱۵؍ فروری ۱۹۳۷ء كو یوپی مسلم ایجوكیشنل كانفرنس كے اجلاس منعقدہ جونپور كی صدارت كرنے اور صدارتی خطبہ پیش كرنے كا موقع بھی ملا۔خان بہادر پروفیسر عبد المجید قریشی صاحب نے یونیورسٹی كی كئی عمارتیں بنوانے میں شركت كی،مركزی عمارت سلطان جہاں بلڈنگ (كانفرنس كی بلڈنگ) بھی انہوں نے بنوائی۔ وہ خواتین كی تعلیم كے بڑے حامی تھے اور سلسلے میں بڑی خدمات سر انجام دیں۔ علی گڑھ میں انہوں نے’بیت المجید ‘ كے نام سے اپنی كوٹھی بنوائی مگر قیام پاكستان كے بعد اپنے وطن واپس آگئے اور كئی سال سرگودھا میں رہے۔ پاكستان میں ضیاء الدین میموریل كمیٹی بنی تو اس كے سیكرٹری رہے۔ انہوں نے ایل كامت دونوائے كی كتاب ‘ہیومن ڈسٹنی’ كا ترجمہ’مقدر انسانی ‘كے نام سے كیا جو ۱۹ اكتوبر ۱۹۵۹ء كو اكیڈمی آف ایجوكیشنل ریسرچ كراچی سے شائع ہوا۔ اس كے پیش لفظ میں سید الطاف علی بریلوی نے انہیں سرسید اور محسن الملك كے اول درجے كے اكابر علی گڑھ میں شمار كیا۔ انہوں نے اس سے قبل اس كتاب پر تبصرہ بھی لكھا تھا جو جنوری ۱۹۵۲ء میں سہ ماہی ‘العلم ‘ كراچی میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے ‘چند عظیم علمائے جراثیم ‘ كے نام سے ڈاكٹر پال ڈی كرائف كی كتاب كا ترجمہ كیا، یہ بھی اكیڈمی آف ایجوكیشن ریسرچ كراچی نے باشتراك مكتبہ فرینكلن لاہور- نیویورك شائع كیا۔ اس كے پیش لفظ میں ان كا پتہ عبد المجید قریشی (سابق پروفیسر ریاضی، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)، ۹۵ سول لائنز سرگودھا، ۱۸؍ جنوری ۱۹۶۰ء لكھا ہے۔ عبد المجید صاحب نے كولمبیا یونیورسٹی كے پروفیسر ایس سٹینز فیلڈ سارجنٹ كی كتاب كا بھی ‘عظیم علمائے نفسیات’ كے عنوان سے ترجمہ كیا جو كہ ضیاء پریس كراچی سے طبع ہوكر اكیڈمی آف ایجوكیشن ریسرچ كراچی سے ہی ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ اس كتاب پر مترجم كی تصویر بھی چھپی ہے اور نام یوں لكھا ہے: خان بہادر پروفیسر عبد المجید قریشی، سابق صدر شعبۂ ریاضی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔سعید صدیقی صاحب نے ۱۹۶۷ ء میں نصاب تعلیم كے بارے میں ایك كانفرنس كا احوال لكھتے ہوئے لكھا كہ پروفیسر عبد المجید قریشی ڈاكٹر نبی بخش بلوچ اور جناب حسن علی عبد الرحمن ریٹائرد جج بلوچستان ہائی کورٹ كے بھی استاذ تھے۔عبد المجید صاحب كی پہلی شادی بدایون میں ہوئی جس سے ۴ بچے ہوئے۔ دوسری شادی پنجاب میں ہوئی اور ان سے آٹھ (۸) بچے ہوئے۔ ایك صاحبزادے پروفیسر عبد الوحید قریشی (پیدائش ۱۹۱۶ء) علی گڑھ میں رہتے ہیں۔ وہ شعبۂ تاریخ سے منسلك رہے اور ۱۹۷۶ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ آپ نے بھی اپنی رہائش گاہ كانام بیت المجید ركھا ہے۔ عبد المجید صاحب كا انتقال ۸۷ سال كی عمر میں كراچی میں ہوا۔ سہ ماہی فكر ونظر، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،جلد ۲۴، جنوری ۱۹۸۷ تا جولائی ۱۹۸۸، ناموران علی گڑھ، تیسرا كارواں، جلد اول،پروفیسر عبد المجید قریشی، مقالہ نگار ڈاكٹر جمال آراء نظامی، ص ۱۵۱-۱۵۷ بحوالہ زبانی معلومات از ڈاكٹر عبد الوحید قریشی صاحبزادۂ صاحب سوانح، نامہ ہائے صدق وصفا مطبوعہ رسائل ومكتوبات عبدالمجید قریشی صاحب، مرتب شدہ سید الطاف حسین بریلوی، شائع شدہ اكیڈمی آف ایجوكیشنل ریسرچ آف پاكستان – كراچی، طبع اول ۱۹۸۷ء۔سرسید ہال ریویو، اولڈ بوائز نمبر،علی گڑھ میں میرے شب وروز، عبد المجید قریشی، ص ۹۳- ۱۰۰، سہ ماہی العلم، كراچی بابت ماہ اپریل تا جون ۱۹۶۳ء ایڈیٹر سید الطاف علی بریلوی، اكیڈمی آف ایجوكیشنل ریسرچ، آل پاكستان ایجوكیشنل كانفرنس، ‘علی گڑھ میں میرے چوالیس سال ‘، از پروفیسر عبد المجید صاحب قریشی،قسط اول (كل تین اقساط)، ص ۹- ۲۶۔ (باقی اقساط نہیں مل سكیں)، روزنامہ جنگ، ‘ڈاكٹر نبی بخش بلوچ سے پہلی ملاقات’، از سعید صدیقی، ۱۰؍ اپریل ۲۰۱۱، سر سید ہال ریویو، اولڈ بوائز نمبر، بیادگار صد سالہ تقریبات یوم تاسیس مدرسة العلوم علی گڑھ ۱۹۷۵ء میں ‘علی گڑھ میں میرے شب وروز’ عبد المجید قریشی۔ سہ ماہی فكر ونظر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ناموران علی گڑھ، دوسرا كارواں، بابو جادو چندر چكرورتی-مقالہ نگار ڈاكٹر ایم اے پٹھان، ص ۲۵۷- ۲۶۱
[18]– اصل رپورٹ، نسخہ محفوظ شدہ سنٹرل سیكرٹریٹ لائبریری، گورنمنٹ آف انڈیا، نیو دہلی۔
[19] Report Kamal Yar Jang Committeee on Education p. 227- 230
[20] Report Nawab Kamal Yar Jang , p238….. یہاں کلکتہ یونیورٹی کے Religion : Theology and Philosophy کی پوری سٹڈی سکیم دی گئی ہے۔
[21] Report Nawab Kamal Yar Jang , p247- 249
[22]– اسی سے ملتے جلتے مقاصد كے ساتھ آل پاكستان ایجوكیشنل كانفرنس ۱۹۴۷ میں ایك’مركزی ادارہ تحقیقات اسلامی ‘ پاكستان میں ائم كرنے كی تجویز دی گئی تھی جو التوا میں رہا اور اسمبلی میں اس پر كئی سال بحث ہوتی رہی اور بالآخر ۱۹۵۴ میں كراچی میں قائم ہوا۔ وہ اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی كے ایك ذیلی ادارے كے طور پر كام كررہا ہے۔
[23] پاکستان قائم ہوتے ہی نومبر ۱۹۴۷میں آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں بھی اسی طرح کا ادارہ قائم کرنے کی قرار داد پاس کی گئی ۔
[24] Report Nawab Kamal Yar Jang , p253- 255.
[25] اس کا مقصد شاید واردھا سکیم کے تحت ان صوبوں میں جاری نصاب کا حوالہ دینا ہے جو بنیادی طور پر پرائمری کی سطح پر پیشہ ورانہ مہارتیں سکھانے پر مبنی تھی ۔ کمیٹی چاہ رہی تھی کہ اسی نظام کے اندر مسلم ایجوکیشن کا خاطر خواہ انتظام ہوجائے ۔
[26] کمیٹی نے ملحق G میں سیکنڈری سکول کی عارضی سکیم تیار کرکے بھی پیش کی ۔
[27] شاید یہ اس زمانے میں اہون البلیتین کے طور پر Less Evil ہو مگر بعد میں اس نے بھی وہی درجہ حاصل کرلیا ، جس کے خطرات کا اظہار کمیٹی کی رپورٹ نے سنسکرت ، یا ہندی کے بارے میں کیا تھا۔
[28] کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے ضمیمہ G میں اس کا عملی خاکہ اور تدریسی مواد کی تفصیل شامل کردی۔
[29]– آئندہ ابواب میں نظام حكومت اور نظام معیشت، معاشرت كے بارے میں جن كمیٹیوں، مضامین اور دستاویزات كا ذكر ہے وہ اسی كام كا تسلسل تھا جسے مسلم لیگ كے زیر نگرانی انجام دیاگیا، مرتب۔
[30] ضرب المثل ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں ۔ اس سے موجودہ خرابیوں اور آئندہ خطرات کی خبر دی جاتی ہے ۔
[31] کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے ضمیمہ H میں اس تعلیمی خاکے کی تفاصیل مہیا کردیں ۔
[32] Kamal Yar Jang , p. 281-82
[33] Report Kamal Yar Jang Committee , p. 283- 85
[34] Report Kamal Yar Jang Committee , p. 285
[35] دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے اس کا مطالعہ مفید رہے گا ۔
[36]– جیسا كہ پہلے ذكر كیاگیا مسلم لیگ در اصل مسلم ایجوكیشنل كانفرنس كی پیداوار تھی، ان كی سرگرمیاں ایك ہی پروگرام كے تحت ہوتی تھیں۔
[37]– اصل رپورٹ، نسخہ محفوظ شدہ سنٹرل سیكرٹریٹ لائبریری، گورنمنٹ آف انڈیا، نیو دہلی۔
[38]– حیدر آباد ایجوكیشنل كانفرنس، خطبۂ صدارت نواب كمال یار جنگ بہادر، ورنگل، ۲۴ ذی الحجہ سن ۱۳۵۹ھ، مطابق ۱۹۴۰ء، مطبوعہ اعظم اسٹیم پریس، گورنمنٹ ایجوكیشنل پرنٹرزحیدر آباد دكن، معاون ادارہ ادبیات اردو، حیدر آباد دكن۔۱۲ صفحات۔
[39]– Yusufi, Khursheed; Volume III: 1840-41.
[40]– Yusufi, Khursheed; VoumeIII, 1851-1853
[41]– Proceedings of the Pakistan Educational Conference Held at Karachi From 27th November to 1st December 1947, Government of Pakistan, Ministry of Interior (Education Division) , Printed by the Assistant Manager, Government of Pakistan Press, Karachi.