شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج : مذہبی و عصری علوم کا ایک ماڈل ادارہ
پروفیسر سید محمد سلیم
مولانا شفیع محمد مرحوم ایک درد مند مسلمان تھے۔ خلافت تحریک، خاکسار تحریک اور پاکستان تحریک میں حصہ لے چکے تھے۔ آخر میں جماعت اسلامی میں شریک ہوگئے تھے۔ مولانا مرحوم نے چوہدر ی غلام محمد مرحوم (وفات:جنوری1970ء) کے ساتھ مل کر 1954ء میں ’’ادارہ تعمیر ملت‘‘ قائم کیا۔ اس ادارہ کو انہوں نے اپنی تین سو ایکڑ زمین دے دی۔ یہ زمین ہالہ(صوبہ سندھ) سے چھ میل کے فاصلہ پر ڈیپر نامی گوٹھ میں واقع ہے۔ وہاں ایک دارالعلوم قائم کیا گیا۔مگر چل نہ سکا۔ پروفیسر سید محمد سلیم نے 1961ء میں اس کا نام ’’منصورہ‘‘ کر دیا۔ پھر وہاں ’’شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج ‘‘ قائم ہوا(15 نومبر 1959ء)۔یہ کالج 13 سال تک بہار دکھا کر عوامی مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ظلم(1972ء) کا شکار ہوگیا۔ پروفیسر سید محمد سلیم اس کے پرنسپل رہےہیں۔اس مضمون میں کالج میں نافذ نظام تربیت کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔یہ مضمون پہلے ’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز‘ میں شائع ہوا۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
اس کالج میں داخلہ کے لئے ضروری تھا کہ، امیدوار طالب علم پرائمری پاس ہو اور قرآن مجید ناظرہ پڑھا ہوا ہو۔ بعض طلبہ یہ شرائط پوری نہیں کرتے تھے۔ ان کے والدین داخلہ پر بھی مصر ہوتے تھے۔ ایسے طلبہ کو ابتدائیہ کی صف میں پڑھایا جاتا تھا۔ ثانویہ درجات کا نصاب تعلیم، کالج انتظامیہ کا ساختہ پرواختہ تھا۔ ہر سال اس پر غور ہوتا تھا اور تغیرو تبدل ہوتا تھا۔ اس طرح مسلسل کوششوں سے ایک موزوں اور مفید نصاب تعلیم تیار ہوگیا تھا۔
کالج میں عالیہ کے عربی اور انگریزی درجات دونوں درجات تھے اور دونوں کے نصابات بورڈ آف سیکنڈری انڈ انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن اور سندھ یونیورسٹی، حیدرآباد کے منظور کردہ تھے۔ جن کو کالج نے قبول کر لیا تھا۔ البتہ عربی نصاب میں ایک پرچہ فہم دین کا کالج نے اپنی جانب سے اضافہ کر دیا تھا۔ وہ طلبہ کو پڑھایا جاتا تھا۔ انگریزی نصاب میں صرف انگریزی کے دو پرچے پڑھ کر امتحان دینے پر سند مل سکتی تھی۔ مگر ہم نے اپنے طلبہ کو آرٹس کے تمام مضامین میں امتحان دلانا پسند کیا۔ اس طرح ہمارا کورس بھاری ہوگیا تھا۔
طلبہ کے والدین کا اصرار تھا کہ، ان کے بچے عربی کے ساتھ انگریزی بھی ضرور پڑھیں۔ان کے بچوں کے ساتھ میں سرکاری تسلیم شدہ سندات ہونا چاہئیں تاکہ حصول ملازمت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس وجہ سے کالج انتظامیہ کوو سرکاری نصاب پورا کا پورا قبول کرنا پڑا اور وہ تعلیم کی دوئی کو ختم کرکے مربوط اور متحدہ نصاب پیش کرنے سے قاصر رہی۔ تاہم کالج نے دوسرےذرائع سے نقائص اور خامیوں کو دور کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔
مضامین تدریس:
’’عالیہ‘‘ اور ’’ثانویہ‘‘ کے درجات میں درج ذیل مضامین کی تدریس ہوتی تھی:
- قرآن مجید
- حدیث شریف
- عقائد و کلام
- فقہ
- فہم دین
- منطق و فلسفہ
- صرف و نحو
- عربی ادب و انشاء
- اردو- سندھی
- انگریزی
- ریاضی
- جنرل سائنس
- معاشرتی علوم
- ڈرائنگ
- ورزش
- محنت کاری
تربیت گاہ
شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج، منصورہ(سندھ) ایک’’رہائشی اور اقامتی درس گاہ‘‘ تھا۔ جس کا آغاز(1960ء) میں 6 طلبہ سے ہوا تھا اور آخر 1973ء میں طلبہ کی تعداد 300 کے قریب ہوگئی تھی۔ جن میں بعض طلبہ غیر ملکی بھی تھے۔
اقامت گاہ کو یہاں’’تربیت گاہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ اس لیے تھا کہ تربیت کا بلند مقصد ہر وقت اساتذہ اور طلبہ کے پیش نظر رہے۔ اور غیر شعوری طور پر اذہان تربیت قبول کرنے پر آمادہ رہیں۔ یہاں اس امر کی تربیت دی جاتی تھی کہ طلبہ بامقصد زندگی گزارنے کی عادت ڈالیں۔ زندگی کی تمام جد وجہد کا مقصود اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کو قرار دیں۔ اس کے لیے اسلامی اعمال، اسلامی اخلاق اور اسلامی آداب اختیار کریں۔ یہاں کے منتظمین کے پیش نظر تربیت کا وسیع تصور تھا۔ جو زندگی کے تمام اعمال و احوال پر حاوی تھا۔یہاں طلبہ کی ہمہ پہلو اور ہمہ جہت تربیت ر توجہ دی جاتیتھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف تدابیر اور مختلف طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ ترغیب اور مسابقت کے طریقہ کار کو اہمیت دی جاتی تھی، اس بات کو فوقیت دی جاتی تھی کہ، طلبہ خود اپنے جذبہ اور شوق سے کام کریں۔
تربیت گاہ کا ماحول
اس کے لیے یہ بات ضروری خیال کی جاتی تھی کہ طلبہ کا اپنی درس گاہ سے اور اپنے اساتذہ سے قلبی لگاؤ اور محبت ہو، تب ہی تو وہ درس گاہ کے پیش نظر مقاصد کو خوش دلی سے قبول کریں گے۔ اس طرح یہ بات بھی ضروری خیال کی جاتی تھی کہ اساتذہ خوش اخلاق اور حسن کردار کے حامل ہوں اور ان کے طرز عمل میں کشش ہو۔ اس بات کو بھی اہمیت دی جاتی تھی کہ، درس گاہ کا ماحول ستھرا اور خوش منظر ہو۔ خوش منظر بنانے میں طلبہ کا اپنا فاضلانہ کردار بھی شامل ہو۔ تب ہی تو وہ اس سے محبت کریں گے۔ اساتذہ بھی طلبہ کے ساتھ برابر لگے رہتے تھے نہ تھکتے تھے اور نہ چھٹی لیتے تھے۔ سب ایک ہی نظریہ، ایک ہی سوچ اور ایک ہی ذہنیت کے حالم تھے۔ کھیتوں کے درمیان کالج کی عمارات دور سے نظر آتی تھیں۔ رہائشی کمروں کے سامنے کی تختے چمن کے تھے۔ چمن کی نگہداشت پر اگرچہ باغبان مقرر تھا، پھر بھی طلبہ باغبانی میں حصہ لیتے تھے۔ وسط میں مسجد نمایاں تھی۔ ساری عمارات کچی اور نیم پختہ تھیں۔ گاؤں کے ماحول سے کوئی تضاد نہیں تھا۔
فرائض اور ذمہ داریاں
تربیت گاہ میں رہنے والے ہر شخص پر یکساں فرائض اور پابندیاں عائد تھیں۔ خواہ اساتذہ ہوں، طلبہ ہوں یا ملازمین ہوں۔ نماز کے لیے مسجد میں آنا سب کے لیے ضروری تھا۔ بلتستان کے ایک شیعہ طالب علم نے وہاں داخلہ لے لیا تھا، وہ بھی مسجد کے ایک گوشے میں اپنے طریقہ پر نماز پڑھتا تھا۔ پان بیڑی، سیگریٹ اور حقہ کی جو پابندی طلبہ پر عائد تھی وہی اساتذہ پر بھی عائد تھی اس لیے سارے ماحول میں یک رنگی کی فضا تھی، تضاد نہیں تھا۔
ارشاد و رہنمائی کے طریقے
تربیت و رہنمائی کے لیے تلقین و ارشاد کے طریقے اور کئی تدبیریں اختیار کی جاتی تھیں:
ا)خاموش تبلیغ: تربیت گاہ میں آیات قرآن، احادیث، آداب اسلامی ، موزوں اشعار پر مشتمل خوش خط لکھے ہوئے طغرے، کتبے اور چارٹ، کمروں میں اور نمایاں مقامات پر آویزاں ہوتے تھے۔ آتے جاتے طلبہ کی نظریں ان پر پڑتی رہتی تھیں۔ غیر شعوری طور پر یہ تعلیمات ذہن میں نقش ہوتی رہتی تھیں۔ گویا کہ یہ خاموش تبلیغ تھی۔
ب)درس قرآن: روزانہ مغرب کی نماز کے بعد 15 منٹ کے لیے مسجد میں درس قرآن مجید ہوتا تھا۔ جس میں سارے طلبہ شریک ہوتے تھے۔ ان کے سامنے عام فہم زبان میں قرآن کے مطالب بیان کیے جاتے تھے۔
ج) خطاب صباحی: کالج کی تدریس کا آغاز ہونے سے قبل تمام طلبہ ایک جگہ جمع ہوجاتے تھے۔ عالیہ علیحدہ، ثانویہ علیحدہ۔ ان کے سامنے ایک استاد دینی، دینوی، معلوماتی وغیرہ کسی موضوع پر مختصر تقریر کرتا تھا۔ یہ گویااس دن کی غذا تھی۔ ثانویہ کے معیار کے لحاظ سے جداگانہ تقریر ہوتی تھی، اور عالیہ کے معیار کے لحاظ سے جداگانہ تقریر ہوتی تھی۔ اساتٓذہ اپنے مطالعہ کا نچوڑ وہاں پیش کرتے تھے۔ طلبہ ان خطابات کو بڑے شوق سے سنتے تھے۔
انتظامی صلاحیتوں کی جلابخشی
کام کرنے سے کام آتا ہے۔مختلف صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے ضروری ہے کہ، انسان ہر قسم کے کام کرے۔ اس لیے تربیت گاہ میں طلبہ ہر قسم کے کام کرتے تھے۔ اس سے ان کے اندر نہ صرف خود کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی تھی، خود اعتمادی پیدا ہوتی تھی ، بلکہ قائدانہ صلاحیت بھی ابھرتی تھی۔ مستقل مزاجی، صبرو تحمل کی صفت پیدا ہوتی تھی۔ طلبہ تمام کام کرتے تھے اور بڑے ذمہ دارانہ انداز میں انجام دیتے تھے۔ ذیل کے انتظامی امور طلبہ سر انجام دیتے تھے۔
- عریف کمرہ: ایک کمرہ میں چار پانچ طالب علم رہتے تھے، ان میں سے ایک طالب علم’’عریف‘‘ مقرر کر دیا جاتا تھا۔ وہ کمرہ میں صفائی ستھرائی، نظم و ضبط اور خاموشی کو قائم رکھتا تھا۔ صفائی کے لیے باریاں مقرر کرتا تھا، باہمی جھگڑے طے کرتا تھا۔ معاملہ زیادہ بڑا ہو تو پھر ناظم تربیت گاہ کے سامنے پیش کرتا تھا۔
- ناظم صلاۃ: ناظم صلاۃ مسجد اور نماز سے متعلق تمام ذمہ داریاں ادا کرتا تھا۔ مختلف کاموں کے لیے مختلف طلبہ مقرر کرتا تھا۔ ان کے درمیان باریاں مقرر کرتا تھا۔ وضو خانہ کے حوض کو پانی سے بھرنے کے لیے ہینڈ پمپ چلانے کے لیے دس دس لڑکوں کی باریاں مقررر کرتا تھا۔ بجلی آجانے کے بعد(1968ء) یہ باریاں ختم ہوگئیں تھیں۔ حفاظ طلبہ کی باریاں مقرر کرتا تھا کہ وہ ایک ایک ہفتہ کے لیے پنج وقتہ امامت کے فرائض انجام دیں۔ ختم نماز کے بعد وہ طلبہ کی حاضری لیتا تھا۔ ناظم صلاۃ جب یہ جملہ زبان سے ادا کرتا تھا کہ، ثبت الاجر انشاء اللہ (اجر انشاءاللہ متعین ہوا۔حدیث) تب طلبہ مسجد سے باہر جاتے تھے۔
- ناظم خوراک: باورچی خانہ کا عملہ کھانا تیار کردیتا تھا۔ اب کھاناکھلانا طلبہ کی ذمہ داری ہوتا تھا۔ ناظم تیرہ، چودہ لڑکوں کی ٹیم کے ساتھ دارالطعام میں جاتا۔ کھانا میزوں پر لگواتا۔ تب گھنٹی بجائی جاتی۔ طلبہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ کھانا سب کو کھلا دینے کے بعد ناظم خوراک اپنے خادموں کے ساتھ آخر میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ لوگ کھڑے رہ کر کھانا کھلاتے تھے۔
- ناظم روشنی: تربیت گاہ میں طلبہ لالٹین جلاتے تھے۔ ناظم روشنی ان کو روزانہ تیل تقسیم کرتا تھا۔ (1968ء کے بعد بجلی آگئی تھی)۔
- ناظم صحت و صفائی: سارے تربیت گاہ کی صفائی اس کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ بھنگی اس کی نگرانی میں صفائی کرتا تھا۔ گندے مقامات پر اور جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے وہاں فنائل اور ڈی ڈی ٹی پاؤڈر چھڑکواتا تھا۔ بیمار بچوں کے لیے پرہیزی کھانا تیار کراتا تھا، تربیت گاہ میں دو بستروں کا بیمارستان(ہسپتال) تھا، جہاں زیادہ مریض طلبہ رہتے تھے۔ ان کی نگہداشت کرتا تھا۔ ان کے لیے تیماردار طلبہ مقرر کرتا تھا۔
- ناظم تعلیم: ظہر کے بعد اور عشاء کے بعد طلبہ اپنے اپنے کمروں میں مطالعہ کرتے تھے۔ ناظم تعلیم چکر لگا کر دیکھتا تھا کہ، طلبہ پڑھائی میں مشغول ہیں؟ تعلیم میں کمزوری دور کرنے کے لیے ایک اتالیق(ٹیوٹر) مقرر تھا۔ ناظم تعلیم دیکھتا تھا کہ، کمزور طلبہ اتالیق کے پاس جاتے ہیں؟ تقریری مقابلے؛ معلوماتی مقابلے اور بیت بازی کی محفلیں منعقد کرانا بھی ناظم تعلیم ہی کا کام ہوتا تھا۔
- ناظم کھیل: طلبہ کھیل ایک استاد کی رہنمائی میں کھیلتے تھے۔ ناظم کھیل استاد کا معاون ہوتا تھا۔ کھیل کا سامان رکھتا تھا۔ منصورہ میں فٹ بال، ہاکی، کبڈی، کشتی وغیرہ کے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ چھوٹے بچوں کے کھیل دوسرے ہوتے تھے۔ ہر طالب علم سے توقع کی جاتی تھی کہ، وہ کھیلوں میں حصہ لے۔
- ناظم محنت کاری: مختلف صفوں کے طلبہ باری باری چمن میں پودوں اور درختوں کی صفائی اور نگہداشت کرتے تھے، باغبانی کرتے تھے۔
اتنے سارے مختلف کام طلبہ چلاتے تھے۔ اساتذہ محض ان کی نگرانی کرتے تھے۔ اس طرح ان کی صلاحیتیں جلا پاتی تھیں۔ ان کے اندر خود اعتمادی کی صفت پیدا ہوتی تھی۔ قائدانہ صلاحیت پروان پڑھتی تھی۔ استقلال اور صبروتحمل کی عادت نمو پاتی تھی۔
علمی ذوق کی آبیاری
مختلف نوعیت کی علمی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی تھیں۔ طلبہ ان میں حصہ لیتے تھے۔ اس سے ان کی صلاحتیں پروان چڑھتی تھیں۔ علمی ذوق بیدار ہوتا تھا۔ پھر بعض ان میں سے نمایاں مقام حاصل کر لیتے تھے۔
- خطابات: باہر سے اگر کوئی اہل علم کالج آتا تو اس سے درخواست کی جاتی تھی کہ وہ طلبہ کو خطاب کرے اور اپنے علم ے فائدہ پہنچائے۔
- تقریری مباحثات: ایک موضوع پر طلبہ موافق اور مخالف فریق بن کر تقریریں کرتے تھے۔ مشق بہم پہنچاتے تھے۔ ایک استاد رہنمائی کرتا تھا۔
- بیرونی مباحثات میں شرکت:دوسری تعلیم گاہوں سے مباحثات میں شکت کی دعوتیں آتی تھیں۔ اکثر طلبہ ان میں شرکت کرتے تھے۔ استاد تقاریر تیار کرانے میں رہنمائی کرتے تھے۔ پھر ان کو لے کر دوسرے کالجوں میں جاتے تھے۔ بسا اوقات کامیاب ہوکر آتے تھے۔
- مقابلہ معلومات: یہ اس کالج کی جدت تھی، اور ٹی وی میں از قسم نیلام گھرو ذوق آگہی کے اجراء سے پہلے یہ مقابلہ اس کالج میں جاری تھا۔ دو پارٹیوں کےدرمیان معلومات کا مقابلہ ہوتا تھا۔ ہر فریق کو تین تین سوالات پوچھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ سوالات نگران کو پیشگی پہنچانا ضروری تھا۔ جواب کے لیے صرف تین منٹ کا وقفہ ہوتا تھا۔ اس طریقہ کار سے طلبہ میں ذوق مطالعہ کو فروغ دینا مقصود تھا۔
- بیت بازی: طلبہ میں صحیح تلفظ، درست ادائیگی اور شعر فہمی کا ذوق پیدا کرنے کے لیے بیت بازی کو فروغ دیا گیا تھا۔ اس میں استاذہ بھی شریک ہوتے تھے۔ اس کی محفلیں اکثر رات کو منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ یہ اس بزم کا فیضان تھا کہ جو لوگ اردو زبان کا ایک لفظ نہیں جانتے تھے، وہ بعد میں فصیح اللسان مقرر ہوگئے اور سینکڑوں اشعار ان کو یاد ہوگئے۔
- مشاعرہ: گاہے گاہے مشاعرہ بھی منعقد ہوتا تھا، جس میں بیرونی شعراء بھی شرکت کرتے تھے۔
- شام منصورہ: جب کوئی علمی یا ادبی معروف شخصیت کالج میں آتی تھی، تو طلبہ اس کے ساتھ ایک شام مناتے تھے جس میں بے تکلف گفتگو ہوتی تھی۔ یہ طلبہ کے علم میں اضافہ کا سبب بنتی تھی۔
- دارالمطالعہ: تقریباً ہر رواق(بلاک) میں طلبہ نے اپنے لیے ایک لائبریری قائم کر رکھی تھی جہاں سے دوسرے طلبہ کو مطالعہ کے لیے کتابیں اجراء ہوتی ہیں۔ رواق کے مابین یہ صحت مند مسابقت تھی۔
- ریڈیو: خاص خاص خبریں اور تعلیمی پروگرام طلبہ کو سنائے جاتے تھے۔ حرمین شریفین کی کی قرات طلبہ بڑے شوق سے سنتے تھے۔
دیوار گیر صحافت
طلبہ میں تحریر کا ذوق پیدا کرنے کی ہر طرح ہمت افزائی کی جاتی تھی، اس کے وہاں کئی مظاہرے تھے۔ طلبہ اخبارات اور رسالے نکالتے تھے۔
دیوار گیر اخبار: طلبہ کاغذ کے پورے تختہ پر اخبار تیلار کرکے دیوار پر ایک مخصوص جگہ چسپاں کر دیتے تھے۔ اخبار کا نام مستقل نام ہوتا تھا۔ سرخیاں لگائی جاتی تھیں، خبریں ہوتی تھیں اداریہ لکھا جاتا تھا۔ صحافت آزاد تھی ہر شخص جس زبان میں چاہے اخبار نکال سکتا تھا اردو، سندھی، پنجابی، پشتو، انگریزی اور عربی زبانوں میں اخبارات نکلتے تھے۔ سال بھر طلبہ پرچے نکالتے رہتے تھے۔ کبھی کم کبھی زیادہ۔ مدیر اپنے پرچے جمع رکھتا تھا۔ سال کے آخر میں تقریبات کے موقع پر صحافت کا نگران استاد ان پرچوں کو دیکھتا تھا۔ نمبر دیتا تھا جس کو سب سے زیادہ ملتے تھے وہ انعام کا مستحق قرار پاتا تھا۔
رسالہ: بعض دو دو تین تین طلبہ مل کر رسالہ بھی نکالتے تھے۔ عام طور پر یہ ایک کاپی پر مشتمل ہوتا تھا۔
مضامین نویسی: اس اخبار نویسی سے حوصلہ پاکر بعض طلبہ ملکی رسالوں میں لکھنا شروع کردیتے تھے۔ ان پرچوں کی بدولت بعض طلبہ صحافی بن گئے۔
طلبہ کی انجمنیں
طلبہ کی اپنی انجمنیں تھیں، جن کو وہ خود آزادانہ طور پر چلاتے تھے۔
اسلامی جمعیت طلبہ(قائم شدہ، دسمبر1947ء): کالج میں یہ سب سے اہم انجمن تھی۔ اس کا وسیع کام تھا۔ اس کے پاس دفتر تھا ۔ اس کے اجتماعات باقاعدگی سے ہوتے تھے۔
النادی العربی: عربی زبان میں گفتگو کرنے کی مشق کرنے کے لیے یہ انمجن قائم کی گئی تھی۔ طلبہ خود ہی اس کو چلاتے تھے۔
بزم ادب: طلبہ کی یہ انجمن ادبی مشاغل کے لیے تھی۔
طلبہ کے مشغلے
بہت سے طلبہ تفریحی مشغلے رکھتے تھے۔ بعض ٹکٹ(Stamps ) جمع کرتے تھے۔ بعض سکے(Coins ) جمع کرتے تھے۔ ماچس کے لیبل جمع کرتے تھے۔ خوبصورت پتھر جمع کرتے تھے۔ خوبصورت پر(Feather ) جمع کرتے تھے۔ مختلف ملکوں کے جھنڈے(Flags ) جمع کرتے تھے۔ مختلف رسائل جمع کرتے تھے۔ اس سے ذوق جستجو کو تقویت ملتی ہے۔ کالج ان کی ہمت افزائی کرتا تھا۔ ایسے طلبہ اپنی اپنے نوادرات کا اہتمام کرتے تھے۔سب لوگ اس کو دیکھتے تھے۔
تفریحی اور تاریخی سفر
نوخیز طلبہ کے لیے تفریح بہت ضروری ہے۔ تفریح سفر میں صرف فرصت و مسرت ہی نہیں مشاہدہ اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے گاہے گاہے کالج انتظامیہ اس قسم کے تفریحی پروگرام طے کرتی تھی۔ استاد ساتھ ہوتے تھے۔
پکنک: سہانے موسم میں طلبہ نہر کنارے یا کسی باغ میں جاکر پکنک مناتے تھے۔ کھانے کا انتظام بھی وہیں کیا جاتا تھا۔
تفریحی سفر: بعض اوقات طلبہ استاد کی نگرانی میں ہوائی اڈوں، کارخانوں اور ملوں کا مشاہدہ کرنے جاتے تھے۔
تاریخی سفر: بعض اوقات طلبہ تاریخی مقامات کی سیر کے لیے جاتے تھے جیسے موہن جوداڑو، دیبل، منصورہ، ٹھٹھہ وغیرہ۔
تربیتی سوالنامہ
اصلاح و تربیت کی مختلف کوششیں اور سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی تھیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں طلبہ نے جو اثرات قبول کیے ہوں، ان کو معلوم کرنا اور ان کا جائزہ لیناایک مشکل کام ہے۔ سالوں غورو خوض کے بعد کالج انتظامیہ نے اس کے لیے تربیتی سوالنامہ مرتب کیا تھا۔ ایک سوالنامہ درجات ثانویہ کے طلبہ کے لیے تھا۔ اور دوسرا سوالنامہ درجات عالیہ کے طلبہ کے لیے تھا۔ یہ کھے سوالنامے تھے، جوسارا سال درس گاہ کے مختلف مقامات پر آویزاں رہتے تھے۔ یہ طلبہ کو یاد دہانی کراتے رہتے تھے کہ، کن کن اوصاف میں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جس کی انہیں تیاری کرنی چاہیے۔ اس طرح ایک لحاظ سے سارا سال طلبہ اپنا احتساب خود ہی کرتے رہتے تھے۔ اور اپنا طرز عمل زیادہ سے زیادہ ان سوالناموں کی روح کے مطابق بناتے رہتے تھے۔ ذاتی اصلاح کا یہ بھی ایک خاموش اور مؤثر ذریعہ تھا۔ سوالنامے یہ تھے :
عبادات
- کیا آپ مسجد میں اقامت سے پہلے پہنچتے ہیں؟
- کیا سنتیں پابندی سے پڑھتے ہیں؟
- کیا نماز سکون اور اطمینان سے ادا کرتے ہیں؟
- کیا باقاعدگی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں؟
آداب معاشرت
- کیا سلام کرنے میں سبقت حاصل کرتے ہیں؟
- کیا استادوں اور بڑوں کا ادب کرتے ہیں؟
- کیا کھانے پینے، نشست وبرخاست، گفتگو اور معاملات میں ضروری آداب کا خیال رکھتے ہیں؟
- کیا اسلامی وضع قطع اور لباس کی پابندی کرتے ہیں؟
- کیا مختلف مواقع کی ضروری دعائیں یاد کرتے ہیں؟
اخلاق و عادات
- کیا ہم جماعت طلبہ اور تمام ساتھیوں سے اچھا برتاؤ کرتے ہیں؟
- کیا دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں؟
- کیا اپنے ساتھیوں کو نیکی پر ابھارتے اور برائی سے روکتے ہیں؟
- دوست احباب کن کن عادات و اطوار کے حامل ہیں؟
- فراغت کے اوقات میں کیا کرتے ۃیں، کیا پڑھتے ہیں؟
- کیا جھوٹ، چوری، بدکلامی اور ضد سے پرہیز کرتے ہیں؟
احساس ذمہ داری
- کیا پابندی سے سبق اور آموختہ دیکھتے ہیں اور درسی کام پورا کرتے ہیں؟
- کیا صباحی خطبات میں وقت پر حاضر ہوتے ہیں؟
- درجہ میں بلاوجہ تو غیر حاضر نہیں ہوتے؟
- کیا تعطیلات کے بعد وقت پر درس گاہ میں پہنچ جاتے ہیں؟
- کیا غیر نصابی مشغولیات میں شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ مثلاً تقاریر، اجتماعات، کھیل وغیرہ؟
- کیا دوسروح کی اشیاء بلا اجازت تو استعمال نہیں کرتے؟
صفائی اور سلیقہ
- کیا وضو اور طہارت کے ضروری احکام پر عمل کرتے ہیں؟
- کیا جسمانی صفائی کرتے ہیں؟ مثلاً غسل کرنا، بال ترشوانا، ناخن ترشوانا، دانت صاف رکھنا۔ بالوں میں تیل ڈالنا کنگھا کرنا وغیرہ۔
- کیا لباس، صاف ستھرا اور معقول پہنتے ہیں؟
- کیا اپنا سامان ترتیب سے رکھتے ہیں؟ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟
سال کے آخر میں ناظم تربیت گاہ، استاد درجہ، استاد کھیل اور دوسرے متعلقہ استذہ جمع ہو کر ایک ایک طالب علم کا سال بھر کا کردار سامنے رکھ کر اس سوالنامے کے مطابق اس کو نمبر دیتے تھے۔ کم از کم چالیس فیصد نمبر حاصل کرنے والا طالب علم پاس ہوتا تھا، ورنہ فیل۔ اور اس پرچہ میں فیل طالبعلم کو اگلے درجہ میں ترقی نہیں دی جاتی تھی۔ درجہ اول میں پاس ہونے والے کو ’جید‘، درجہ دوئم میں پاس ہونے والے کو ’حسن‘، درجہ سوم میں پاس ہونے والے کو’مقبول‘ اور ناکام ہونے والے طالب علم کو’ردیء‘ کہتے تھے۔
سالانہ تقریب
سال میں ایک مرتبہ موسم بہار میں ایک ہفتہ تک سالانہ تقریبات منائی جاتی تھی، ہفتوں پہلے اس کی تیاری شروع کی جاتی تھی۔ کالج کے مختلف ادارے صفائی اور آرائش میں مشغول ہوجاتے تھے۔ طلبہ کی ورزشی کھیلوں میں اور تقاریروںکے مقابلے ہوتے تھے۔ تقریرں اردو، سندھی، انگریزی اور عربی زبان میں کی جاتی تھیں۔ باہر سے اہل علم کو صدارت کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ سال بھر کی کارگزاری ایک نظر میں دیکھنے کا اچھا موقع ہوتا تھا۔ لڑکوں کے والدیناور سابق طلبہ کثیر تعداد میں آتے تھے۔ سال بھر کی ہر نوع کی سرگرمیوں کا انعام اس موقع پر دیا جاتا تھا۔
- علم کا تمغہ زریں(نصف تولہ سونا)’’چوہدری غلام محمد مرحوم‘‘ سے موسوم تھا۔ وہ تعلیمی کاموں میں امتیازی حیثیت حاصل کرنے والے طالب علم کو دیا جاتا تھا۔
- کردار کا تمغہ زریں(نصف تولہ سونا)’’مولانا شفیع محمد نظامانی‘‘ سے موسوم تھا۔ یہ تمغہ کردار اور سیرت کے اعتبار سے کالج کے مقبول ترین طالب علم کو دیا جاتا تھا۔
- تمغہ ورزش۔ بہترین کھلاڑی کو دیا جاتا تھا۔
اس موقع پر مولوی فاضل میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو کالج کی جانب سے سندات تقسیم ہوتی تھیں۔ جو عربی زبان میں دیدہ زیب طبع شدہ ہوتی تھیں۔
دارالکتب
کالج میں دو چیزیں قابل دید تھیں۔ ایک دارالکتب دوسرا دارالآثار۔ کالج کے مکتبہ میں بارہ ہزار کتابیں تھیں۔ عربی، فارسی، اردو، سندھی اور انگریزی زبانوں میں۔ 450 کے قریب قلمی مخطوطے (Manuscripts ) تھے۔ جن میں بعض بڑے نادر تھے۔ کتب خانے میں اخبارات اور رسائلوغیرہ کا عمدہ ذخیرہ تھا۔ بعض سو سو سال پرانے تھے۔ کتب خانے میں تحریک مجاہدین خلافت تحریک، خاکسار تحریک، مسلم لیگ، جمعیت العلماء، احرار’’تحریک پاکستان‘‘ اور جماعت اسلامی سے متعلق کتابوں کا بڑا قیمتی ذخیرہ تھا۔ یہ کتب خانہ احباب اور کرم فرماؤں کا عطیہ تھا۔ ایک ایک ذرہ جمع کیا گیا تھا۔
دارالآثار
کالج میں دارالآثار کے نام سے ایک مختصر سا دارالنوادر عجائب خانہ تھا، جس میں ہزاروں سکے، آثار قدیمہ کی اشیاء اور اسلحہ وغیرہ، بہت سی اشیاء تھیں جن میں خصوصی اہمیت کی قابل ذکریہ ہیں۔
- عباسی خلیفہ بغداد منصور(772ء/ 158ء )کا دینار۔
- پرتھوی راج (581ء/1193ء )کاسکہ جو تانبہ اور چاندی کا ملا جلاتھا۔
- بابر بادشاہ کا فرمان جو 1537ء/ 933ء کا ہے۔
- زرہ بکتر اور تلواریں ۔
یہ واحد کالج تھا جس میں ایک دارالآثار تھا۔ یہ ملک کا واحد دارالآثار تھا جو پرائیویٹ ذرائع سے قائم کیا گیا۔ اور بیشتر احباب کے عطیات پر مشتمل تھا۔ جن کو بڑی محنت اور جستجو سے جمع کیا گیا تھا۔
دلی جو اک شہر تھا عالم میں انتخا ب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روز کار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے