مسلم دنیا، اکیسویں صدی اور مذہبی تعلیم

0

یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔

’مسلم دنیا میں مذہبی تعلیم‘، یہ ایک ایسا موضوع ہے جوکم ازکم پاکستان اور پڑوسی ممالک کے لیے نہایت متعلق اور مفید ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی تعلیم کا کوئی  ایک نمونہ ہے اور نہ ایسا ہے کہ اس پرکسی مکالمے کی ضرورت نہ ہو۔پاکستان میں تو مذہبی تعلیم کے کئی سماجی و فلاحی پہلو بھی ہیں جن سے عموما صرف نظر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی افادیت  عام لوگوں کی نظر میں کبھی کم نہیں ہوئی۔ مگر ظاہر ہے کہ تعلیم نوجوانوں کی ذہن سازی بھی کرتی ہے اور ان کے سامنے معاشرے کا اور دنیا سے متعلق کوئی نہ کوئی نقطہ نظر بھی پروان چڑھاتی ہے۔پھر اگر مذہبی تعلیم کا دائرہ صرف اخلاقیات کے ساتھ نہ جڑا ہو، بلکہ مذہبی اداروں سے وابستگی کا اظہار کرنے والی سیاسی و غیرسیاسی تنظیمیں بھی فعال ہوں ،تو ایسے میں مذہبی تعلیم اور اس کے اداروں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے، کہ وہ عملی سطح پر کیا کردار ادا کررہے ہیں اور ان کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

مذہبی تعلیم کا اگر محدود دائرے  میں بھی تجزیہ کیا جائے تب بھی اس کی نوعیت وڈھانچے پر نظرثانی یا اس کی تفہیم کی کوشش اس لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ تقریبا تمام معاشرہ جڑا ہوا ہے۔کیونکہ یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے،لہذا صرف طالب علم ہی نہیں، بلکہ معاشرے کی اکثریت مذہبی علوم و اداروں سے ایک تعلق رکھتی ہے۔

اصلاحات یا بحث و تمحیص کی متقاضی صرف مذہبی تعلیم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم اپنی عمومی حیثیت میں ہی مسائل کا شکار ہے۔تعلیمی پالیسیوں میں جو دعوے کیے جاتے ہیں ان پر کماحقہ عمل نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ملک میں کئی تعلیمی پالیسیاں تو ایسی بھی گزریں جن میں سرے سے مقاصدِ تعلیم کا ذکر ہی نہیں تھا۔تعلیمی ابتری کے باوجودملک کی سیاسی جماعتوں کے منشور میں تعلیمی اصلاحات کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا جاتا،نہ ہی تعلیمی شعبے میں اصلاحات سے متعلق قومی سطح پرکسی قسم کی بامعنی گفتگو کا سلسلہ دیکھنے میں آتا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں کا کلچرفرسودہ اور بے معنی ہوچکا ہے۔عام آدمی کو تعلیم میں کوئی کشش نظر نہیں آتی، کیونکہ اس میں عملی زندگی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہوتا۔ویسے تو قومی سطح پر ہر چند سال بعدتعلیمی اصلاحات کا راگ الاپا جاتا ہے، مگر کبھی نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے۔بہرحال اس موضوع پر تو بہت کتب لکھی گئی ہیں اور مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے،جن سے نمٹنے کے لیے ذمہ داران کوجلد یا بہ دیر اقدامات کرنے ہوں گے۔

اگر اصلاحات کی حد تک تھوڑا بہت تقابل کیا جائے تو مذہبی تعلیمی اداروں کا شعبہ اگرچہ الگ ہے، لیکن یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ان میں پچھلی دہائیوں کے دوران بہت تبدیلی آئی ہے،جو حیرت انگیز ہے۔ مدارس نے قانون، جدید معاشیات ، صحافت اور آرٹ میں بہت سے شعبے قائم کیے ہیں۔ حتی کہ اب تو بعض بڑے مدارس نے یونیورسٹیاں بھی قائم کرلی ہیں جن کی طرف نوجوانوں کا رجحان  توقع سے بڑھ کر ہے۔یوں اپنے حلقے تک تعلیمی تبدیلیوں کے نتائج کو بھی دیکھا جائے تو اہل مدارس نے کافی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔جبکہ  بعض حکومتی عصری ادارے وسائل کے باوجود زیادہ سست رفتار اور نتائج کے لحاظ سے بھی بہت پیچھے ہیں۔پرائیویٹ سیکٹر کچھ نہ کچھ عصری ضروریات پوری کر رہا ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں تعلیم صرف کاروبار کی شکل اختیارکرچکی ہے۔

تاریخی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ مسلم دنیا میں عوام کا رجحان مذہبی تعلیم کی طرف وقت کےساتھ  زیادہ ہوا ہے۔یہی وجہ ہے مذہبی تعلیمات جو ماضی میں صرف دینی مدارس تک محدود تھیں، اب  جدید یونیورسٹیوں کا  بھی لازمی جزو بن گئی ہیں۔اسی طرح  مسلم دنیا میں کئی معیاری اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جیسا کہ اسلامی یونیورسٹی  ام درمان(سوڈان)، مدینہ یونیورسٹی، امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض، اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔ پچھلی ایک دہائی میں ترکی کے اندر دینی مدارس /سکولوں کی مانگ اور تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔یہی حال بنگلہ دیش کا ہے جہاں بعض سیاسی حلقوں کی مخالفت کے باوجود مدارس کی تعداد روزافزوں بڑھی ہے۔انڈونیشیا، ملائشیا ، تیونس،عراق اور مصر بھی اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ خود پاکستان میں مدارس میں طلبہ کی تعداد ہر سال بڑھ رہی رہے  اور عصری جامعات کے اسلامیات کے شعبوں میں بھی داخلوں کی شرح اوپر جا رہی ہے۔اگرچہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات کے  شعبے اعلی معیارات قائم کرنے اور برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔اگر ہماری عصری جامعات کے اسلامیات کے شعبوں کا موازنہ باقی مسلم دنیا کے ہم پلہ ممالک کی جامعات سے کیا جائے تو تحقیق کے حوالے ہم پاکستانی جامعات کے شعبے مایوس کن ہیں۔ اس کے باوجود طلبہ کا رجحان حیران کن ہے،اور یہ اس امرکا متقاضی بھی ہے کہ انہیں بہتر کیا جائے۔

حال ہی میں ایک دوست نے پاکستان کی عصری جامعات کے اسلامیات کے شعبوں میں پچھلے کچھ برسوں میں ہونے والے تحقیقی مقالات کا اشاریہ مرتب کیا تھا۔اس اشاریے پر نظر ڈالتے ہیں آدمی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں موضوعات کا انتخاب ملتا جلتا ہے۔اسی طرح منتخب موضوعات کی اکثریت ایسی ہے جو محض نظری مباحث سے متعلق ہے، جبکہ پاکستان میں کتنے ہی ایسے جدید مسائل ہیں جن مذہبی نوعیت کے ہیں اور ان پر تحقیق کی ضرورت ہے۔قرآن کریم پر لکھے گئے زیادہ تر مقالات ایسے ہیں جو یا تو گرامر کی کسی بحث سے ہیں،یا پھر آسان سے کسی تفسیری پہلو پر مواد جمع کرنے سے متعلق۔ یہی حال حدیث کے شعبے میں بھی ہے۔فقہ میں یا تو کسی پرانے مسئلے پر بحث اور اقوال کو جمع کردیا جاتا ہے،یا پھر خالص نظری اختلافات کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا گیا ہے۔ہمیں عصری جامعات کے نظام کو وقت کے ساتھ اور عملی مسائل سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی تعلیم کا جب ذکر آئے تو ظاہر ہے  برصغیر میں مدارس ہی اولین مصداق ہوتے ہیں۔مگر اب چونکہ عصری ادارے بھی مذہبی تعلیم سے وابستہ ہیں تو اس لیے بات کرنا ضروری ہے۔

جہاں تک دینی مدارس کی بات ہے تو پاکستان بلاشبہ مذہبی اداروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک رکھتاہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اسے دیگر مسلم ممالک کے تجربات سے استفادے کی شدید ضرورت ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے اقدامات یہاں کیے گئے، وہ بھی قابل ستائش ہیں، مگر اتنا بڑا نیٹ ورک اور عوام کی بڑی تعداد کا اس طرف رجحان، تقاضا کرتے ہیں کہ جس پر پیمانے پر اصلاحات اور سیکھنے کی ضرورت ہے  اس سطح پر کام نہیں ہورہا۔ ویسے تو جو موجود ہے وہی کافی لگتا ہے، لیکن جب ایک نظر دیگر ممالک کے ماڈلز پر ڈالی جاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ تشنہ ہے۔

مثال کے طور پہ ،بنگلہ دیش کے دینی مدارس پر ہمارے ہاں جو کچھ معروف ہے وہ اس حد تک ہے کہ وہاں کا نصاب بہتر ہے، زبانیں سکھانے میں انہوں نے پیش رفت کی ہے، بعض مدارس ٹیکنیکل ایجوکیشن بھی دے رہے ہیں اور یہ کہ کچھ مدارس حکومت کے ساتھ الحاق کیے ہوئے ہیں۔ مگر جب ہم نے مزید جھانکنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ وہاں کے دینی مدارس نے خواتین کی خواندگی کے حوالے سے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ کسی تعلیمی انقلاب سے کم نہیں ہے۔اسی طرح کئی مسلم ممالک میں اقلیتی طبقات کے لیے طلبہ میں مثبت ہم آہنگی تشکیل دینے کی خاطر مذہبی تعلیم کے نصاب  میں جو کام کیا ہے وہ بہت قابل قدر ہے۔ایسے ہی شہری اقدار اور مرکزی دھارے کے ساتھ  مل کر چلنے سے متعلق جو تعلیمی اقدامات ہیں، وہ لائق تقلید ہیں۔

اسی طرح ابھی افغانستان میں خواتین کی تعلیم کا مسئلہ چل رہا ہے۔ اگر وہ اس کے لیے غیرمخلوط نظام لاتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔کئی مسلم ممالک میں خواتین کی تعلیم کے الگ ادارے قائم ہیں اور وہاں بحسن وخوبی ایسا انتظام چل رہا ہے۔ہماری رائے کہ افغان حکومت کو  ایسا نظام وضع کرنے میں وسائل و انتظام کے حوالے سے دنیا کو معاونت کرنی چاہیے۔اگر سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو انہیں اس پر بہ آسانی قائل کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ خود طالبان کے اندربہت سے ذمہ داران اس کے حق میں ہیں۔ شاید ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ الگ سے نئے ادارے بنانے اور پورا ڈھانچہ وضع کرنے کا بھی ہے۔اسلا م میں تعلیم نسواں کے بارے میں کبھی دو رائے نہیں ہوسکتیں۔

اس وقت عالم اسلام کی آبادی لگ بھگ ایک ارب بیس کروڑ ہے جس کا نصف خواتین ہیں۔ مسلم معاشروں کی خواتین کو باقی دنیا بھر کی خواتین سے بالکل علیحدہ حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے۔حالانکہ یہ ثقافتی مسئلہ ہے اور تعلیم کو متأثر کیے بغیر اسے چلایا جاسکتا ہے۔مسلم معاشروں اور اسلامی حلقوں میں خواتین کا کردار اب ساری دنیا میں تیزی سے بدل رہا ہے۔ خواتین سرگرم سماجی اور تحریکی کردار ادا کرنے کے لیے آگے آرہی ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات بھی انجام دے رہی ہیں۔ خواتین اور ان کے رول سے متعلق بعض رائج تصورات اور مقامی تہذیبی قدروں سے یہ رجحان کہیں کہیں متصادم بھی سمجھا جاتا ہے۔اس پس منظر میں درست اور متوازن اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت ایک اہم ضرورت ہے۔انڈونیشیا میں خواتین کی عالمات کی تنظیم KOPIنے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے۔ان کے مطابق علماء خواتین بھی ہوسکتی ہیں،وہ صرف مردوں پر انحصار کی بجائے،خود دینی نصوص کی تشریح کریں گی۔اسی طرح تیونس کی جماعت النہضہ میں بھی خواتین کا کردار نمایاں ہے۔ہمارےنزدیک گھر اور خاندان سے متعلق امور عورت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی سماجی کردار مطلوب نہیں ہے۔ اسلام کی تفہیم میں عورت ، سماج سے کٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ذمہ داررکن ہے۔

ملائیشیا نے تقریباً تین دہائیاں قبل ہی صنفی فرق کے مسئلے پر قابو پالیا تھا۔ بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی نمونہ نظر آتا ہے جہاں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں نہ تو مذہبی قدامت پسندی اور نہ ہی کوئی اور وجہ لڑکیوں کو اسکولوں سے دور رکھ سکی ہے۔’گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس‘ میں بنگلہ دیش 75 نمبر پر، سعودی عرب 127پر، ایران 130 اور پاکستان 135ویں درجے پر آتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم صنفی مساوات کے معاملے میں بنگاہ دیش سے کتنا نیچے ہیں۔

مذہبی تعلیم اپنے زمانے کی قدروں سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ اگر خودسکالرز، دانشور، علماء اور دینی اداروں کے ذمہ داران اس بابت کوئی مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں،ایک کمیٹی تشکیل دیں جو مسلم دنیا کے مختلف ماڈلز اور تجربات کا تجزیہ کرے،پھر اپنے معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے جائیں تو یہ بہت مفید ہوگا۔ بس ہمیں نظام تعلیم میں قدرے جدت طرازی کرکے طلبہ کو وسائل ومواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔