جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے،اس وقت سے تسلسل کے ساتھ خواتین کی تعلیم کا مسئلہ دنیا میں ہر جگہ زیربحث ہے۔وہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کی تعلیم ضروری نہیں ہے، یا بعض حلقے خواتین کی تعلیم کو شریعت کے منافی خیال کرتے ہیں۔جبکہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شرعی حدود و ضابط کے اندر رہتے ہوئے خواتین کی تعلیم کا حامی ہے،جس میں بنیادی چیز غیرمخلوط نظام اور حجاب ہے۔اگر خواتین شرعی ضوابط کے اندر رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو یہ کتنا ممکن ہے اور کیا یہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔اس مضمون میں انڈونیشیا کی مثال سامنے رکھتے ہوئے افغانستان کی رہنمائی کی گئی ہے اور عالمی برادری کو بھی کچھ تجایز دی گئی ہیں۔مضمون نگارماہر تعلیم ہیں اور ملائشیا کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔یہ مضمون ’دی ڈپلومیٹ‘ میں شائع ہوا۔ (اشاعت: تحقیقات پرنٹ2023ء)
اِس وقت افغانستان میں کتنے دینی مدارس ہیں، اس بابت حتمی معلومات موجود نہیں ہیں۔ البتہ گزشتہ حکومت میں کچھ مدارس ایسے تھے جنہیں افغان حکومت نے سرکاری طور پہ رجسٹر کیا تھا۔اُس وقت ان رجسٹرڈکی تعداد 5 ہزار تھی۔ان میں سے 250 مدارس کابل میں کام کر رہے تھے۔ان پانج ہزار مدارس میں طلبہ کی تعداد 380,000 تھی۔ان میں سے 55 ہزار خواتین تھیں۔ان رجسٹرڈمدارس میں نصاب کا 70 فیصد حصہ مذہبی تعلیم پر مرکوز تھا،جبکہ باقی 30 فیصد تعلیمی موادجدید تعلیم پر مشتمل تھا۔تاہم اب جبکہ ملک میں پچھلے ڈھائی برسوں سے طالبان کی حکومت آچکی ہے، تو اس وقت معلومات نہیں ہیں، کہ مدارس کی تعداد میں مزید کتنا اضافہ ہوا ہے،رجسٹرڈمدارس اور ان کے نصاب کی کیا صورتحال ہے۔
پچھلی حکومت کے اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو اُس وقت بھی رجسٹرڈ دینی مدارس میں خواتین کا تناسب بہت کم تھا۔اب خواتین کے تعلیمی ادارے تقریبا بند ہوچکے ہیں۔ طالبان کو خواتین کی تعلیم پر کچھ خدشات ہیں۔اس لیے انہوں نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔طالبان کے اس اقدام پر مسلم ممالک کی طرف سے تنقید کی گئی ہے، کہ اسلامی لحاظ سے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اسلام میں خواتین کی تعلیم کو غیرمخلوط نظام کے تحت اور الگ فریم ورک میں جاری رکھنے پر پابندی نہیں ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال انڈونیشیا کی ہے جس سے طالبان استفادہ کرسکتے ہیں۔
نڈونیشیا میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی نظام تعلیم پایا جاتا ہے۔ غیر ریاستی مذہبی تنظیمیں مدارس کا ایک وسیع ملک گیر نیٹ ورک چلاتی ہیں۔ ان اسلامی اسکولوں نے دور دراز اور پسماندہ کمیونٹیز میں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے اسکول کی تعلیم کے مواقع کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انڈونیشیا کا تجربہ افغانستان کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے جہاں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے تعلیم کے شعبے کی “اسلامائزیشن” پر تشویش بڑھ رہی ہے۔طالبان کی جانب سے صنفی حوالے سے الگ الگ نظام تعلیم نافذ کرنے، خواتین کی گھروں سے باہر سرگرمیوں کو محدود کرنے، حجاب کے اصولوں کو نافذ کرنے اور اسکولوں کو روایتی مدارس سے تبدیل کرنے کے منصوبوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔
دنیا بھر میں، لاکھوں لڑکیوں کو اسی طرح کے نظام میں تعلیم دی جارہی ہے، جہاں شرعی قانون کی تشریحات لاگو ہیں۔ خاص طور پر، انڈونیشیا طالبان کے لیے ایک اہم ماڈل کے طور پر کام کر سکتا ہے کہ کس طرح مسلم ممالک اور مذہبی تنظیمیں لڑکیوں کی تعلیم کوآگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور نے ملک کی دو سرکردہ مسلم تنظیموں، اصلاح پسند سنی تنظیم ’نہضۃ العلماء‘، اور تعلیمی وسماجی خیراتی ادارے ’محمدیہ‘ کے ساتھ مل کر مدارس سے تعلیم یافتہ خواتین کا ایک ملک گیر نیٹ ورک بنایا ہے۔ نظریاتی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، دونوں تنظیموں نے تاریخی طور پرہمیشہ طالبات کو مدارس میں خوش آمدید کہا ہے۔اگرچہ ان مدارس کے نظام ونصاب سے جڑے پہلوؤں پر بحث ہوتی رہی ہے، لیکن انڈونیشیا کے مدارس نے تعلیمی سطح پر صنفی برابری کا ہدف حاصل کیاہے۔وہاں ثانوی سے اوپر کے درجات میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ غیر رسمی یا روایتی اسلامی رہائشی مدارس (پیسنٹرین) میں بھی تعلیم کے حوالے سے صنفی توازن موجود ہے۔
افغانستان کے اندر کئی علاقے ایسے ہیں جو بالکل الگ تھلگ اور دوردراز جگہوں پر واقع ہیں۔وہاں ناقص انفراسٹرکچر،ڈیجیٹل سہولیات کی عدم فراہمی اور سرکاری مروج اسکولوں کی کمی کا مطلب ہے کہ ان کے پاس مدارس ہی لڑکیوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کا واحد قابل عمل آپشن ہیں۔ امریکی حکومت کی طرف سے کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے بعد بھی، افغانستان میں ثانوی اسکول جانے کی عمر کی تقریباً دو تہائی لڑکیاں اسکول جانے سے محروم تھیں۔ انڈونیشیا کا ماڈل ریاستی حکام کے لیے لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع پیدا کرنے کے لیے ایک کم لاگت حل ہو سکتا ہے۔
ایسے ہی،ایک اور مسلم ملک بنگلہ دیش نے بھی سرکاری سطح پر مدارس کے ساتھ شراکت داری کے انڈونیشی ماڈل کی پیروی کی ہے۔ آج بنگلہ دیش میں ثانوی تعلیم میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔مزید یہ کہ،طالبان نے تو غیرمخلوط تعلیمی نظام اور مخصوص لباس کے ساتھ خواتین کی تعلیم کی بات اب کی ہے، انڈونیشیا کی حکومت نے 2014 میں اسکول کی لڑکیوں پر بھی اسی طرح کے مخصوص لباس پر مبنی ضابطے نافذ کیے تھے۔لہٰذا، دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک کے طور پر انڈونیشیا سے افغانستان کے لیے ایک اہم سبق یہ ہے کہ شرعی قوانین کی بھی لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم دینے کے مقصد میں حائل نہیں ہوسکتے،بلکہ ان کا لحاظ رکھا جاسکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ دنیا تعلیم سے جڑے دیگر سماجی و شہری حقوق سے جڑے امور کو طالبان اور افغانستان کے عوام کے مابین چھوڑ دے، وہ وقت کے ساتھ ان کو کیسے حل کرتے ہیں،اس کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔لڑکیوں کو تعلیمی نظام میں لانا،البتہ اس وقت اہم اور اولین ترجیح ہونی چاہیے،کیونکہ تعلیم یافتہ خواتین خود مستقبل کی سماجی تبدیلی کے لیے بہترین قوت ثابت ہوں گی۔
انڈونیشیا میں، حال ہی میں متعدد خواتین اور والدین نےمختلف مقامات پر حجاب کے اصولوں کو نافذ کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس طرح کا احتجاج اگرچہ بڑی سطح پر نہیں ہوتا، لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر تعلیم جاری رہے،تو لوگوں میں پڑھنے اور شعور حاصل کرنے کی راہ بنی رہتی ہے۔انڈونیشیا نے 1970 کی دہائی سے بڑے پیمانے پر تعلیم میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے نتیجے میں انڈونیشیا کی لڑکیوں اور خواتین میں شہری سرگرمیوں، آوازاٹھانے اور بااختیار ہونے کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ، وقت کے ساتھ ساتھ، تعلیم یافتہ خواتین میں ایک ایسا حلقہ تشکیل پالیتا ہے جو مشترکہ مفادات کے لیے متحرک ہو سکتا ہے اور اپنی خواندگی کو ریاستی حکام کے ساتھ بہتر حقوق کے حصول میں بات چیت کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر، انڈونیشیا میں احتجاج کے مسلسل چھوٹے چھوٹے اقدامات کے نتیجے میں رواںسال کے شروع میں ایک تاریخی فیصلہ ہوا، جب انڈونیشیا کی حکومت نے ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں لڑکیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے پر پابندی لگا دی۔
انڈونیشا تجربہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ صرف اسلامی روایات ہی خواتین کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہیں۔لہٰذا، افغانستان میں،جوکہ جنگ سے تباہ حال ملک ہے اور جہاں معاشی ترقی کا طویل سفر کرنا باقی ہے، عالمی برادری کو طالبان سے بس یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ لڑکیوں کوتعلیمی نظام میں لے آئیں۔ اگرچہ اسلامی روایات اور قوانین کے تحت ہی کیوں نہ ہو۔دنیا کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو مذہب سے جوڑ کر نہ دیکھے اور نہ اس کی کسی خاص شکل پر ہی زور دے۔اس سب سے قطع نظر،بس تعلیم کو ترجیح دی جانی چاہیے۔اگر خواتین کو تعلیم کی آزادی مل جائے تو یہ چیز افغان خواتین کورفتہ رفتہ بااختیار بنائے گی اور انہیں مستقبل میں مزید جامع تعلیمی نظام کے لیے بات چیت پر مزید متحرک کرنے میں مدد دے گی۔