بنگلہ دیش: جبر کا اختتام یا جمہوریت کی ناکامی؟

0

گزشتہ روز بنگلہ دیش  میں کئی دنوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد  ملک کی وزیر اعظم حسینہ واجدنے استعفی دے دیا ہے اور وہ ملک چھوڑ کر بھارت جاچکی ہیں۔ لگ بھگ ایک مہینے سے چلنے والے مظاہروں کا انجام اس طرح ہوگا ، یہ شاید کسی نے توقع نہیں کی ہوگی۔ آثار نظر آرہے تھے کہ حسینہ واجد کو نوجوانوں کے مطالبات تسلیم کرنے پڑیں گے، اور  یہی سمجھا جا رہا تھا کہ حسینہ واجد کو پیچھے ہٹنا ہی پڑے گا۔ اس دوران اعلی عدلیہ اور باقی ریاستی اداروں کا رویہ بھی سامنے آیا جو مظاہرین کے حق میں تھا ، جس کے بعد واضح تھا کہ حسینہ واجد اب   مظاہرین کے خلاف مزید سخت  اقدام سے گریز کریں گی۔ لیکن حیران کن طور پہ  حکومت مسلسل  طلبہ تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتی رہی اور نتیجے میں تین سو سے زائد نوجوان  مارے گئے۔ اس کے بعد مظاہرین وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے اور آخرکار یہی ہوا۔

بنگلہ دیش میں  صورتحال اب کیا رُخ اختیار کرے گی، یہ تو ابھی تک واضح نہیں ہے اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اب  ملکی سیاست میں فوج کا براہ راست کردار کو پھر سے شروع ہوجائے گا۔ جس طرح کل بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے اعلانات کیے اور  ابتدائی طورپہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا عندیہ دیا ، اس سے بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ اب جو سیاسی ڈھانچہ تشکیل پائے گا اس میں فوج کا اثرورسوخ بہرحال پہلے سے زیادہ  ہوجائے گا۔

بنگلہ دیش میں 1975 سے 2008 تک، براہ راست یا بالواسطہ  سیاست میں فوج کی داخل اندازی رہی  ہے۔ اس کے بعد جب سے شیخ حسینہ واجد اقتدار میں آئیں تو فوج کا کردار کافی کم ہوگیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد نے اپوزیشن عناصر کو کچلنے کے لیے پولیس کازیادہ  استعمال کیا تھا۔

اگرچہ طلبہ تحریک نے  اعلان کیا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی دخل اندازی قبول نہیں کی جائے گی، مگر کیا یہ ممکن ہو بھی پائے گا،یہ آنے والے دنوں میں ہی واضح ہوسکے گا۔کم ازکم ابھی تک  تمام دنیا کی نظریں فوج پر ہی ہیں کہ وہ کیا قدم اٹھاتے ہیں اور فی الحال جو بھی  منظرنامہ تشکیل پائے گا ، وہ فوج کی آشیرباد سے ہی ہوگا۔

حسینہ واجد نے اگرچہ اپنے دور میں  ملک کو معاشی طور پہ مضبوط کیا ہے، مگران کی سیاست اپوزیشن مخالف  رہی اور اس میں جبر کا بھی عام استعمال ہوا۔بنگلہ دیش میں  جمہوری رویے  عوامی مزاج کا حصہ ہیں۔ یہ توقع موجود ہے کہ وہاں کا سیاسی نظام آخرکار مستحکم ہوجائے گا اور سیاست میں جمہوری  عنصر بھی مضبوط ہوجائے گا، مگر حالات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی  امید جلد نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ ملک میں بڑی اپوزیشن جماعت ’بنگلہ دیش نیشنل پارٹی‘ بالکل بکھر ہوچکی ہے ۔خالدہ ضیاء کو اگرچہ رہا کردیا گیا ہے مگر ان کی صحت اچھی نہیں۔ ملک میں اِس وقت  مذہبی جماعتیں  ہی منظم شکل میں موجود ہیں، جو ممکنہ طور پہ سیاست میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔حسینہ واجد کے استعفے کو جبرکا اختتام  کہا جا رہا ہے، مگر اس کا متبادل کیا منظرنامہ بنتا ہے، اسی سے  ہی اچھے یا برے کا اندازہ ہوگا۔

بنگلہ دیش کی صورتحال خطے کے ممالک پر بھی اثرانداز ہوگی۔ اس حوالےسے چین اور بھارت کو زیادہ دلچسپی  ہے اور وہ  مستقبل کے ڈھانچے کی تشکیل کے معاملے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی  کوشش کریں گے۔

خطے  میں اور عالمی سطح پر جس طرح کی صورتحال بن رہی ہے، اس میں پاکستان کے لیے بھی سیکھنے کے لیےے بہت اسباق ہیں اور ہمیں سنجیدگی سے ان تبدیلیوں کو دیکھنا اور ان کا تجزیہ کرنا ہوگا۔