پوپ فرانسس
بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بلند ہونے والی ایک توانا آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔
خورشید ندیم
پوپ فرانسس عالمِ مسیحیت کے سوادِ اعظم‘ کیتھولک مسلک کے امام العصر تھے۔ یہ منصب کبھی یورپ سے باہر نہیں گیا۔ یہ پہلے غیر یورپی پوپ تھے جن کا تعلق لاطینی امریکہ سے تھا۔ وہ بارہ برس اس منصب پر فائز رہے۔ اپنے بعض امتیازات کے باعث وہ مسیحی دنیا میں منفرد تھے۔ وہ دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ منصب اگرچہ غیر سیاسی ہے مگر وہ عالمی سیاسی امور پر بھی اظہارِ خیال کرتے تھے۔ تاہم وہ اپنا مؤقف ہمیشہ مذہبی پیرائے ہی میں بیان کرتے تھے۔
انہیں مذاہب کے باہمی تعلقات سے بہت دلچسپی رہی اور اس باب میں انہوں نے بہت مثبت کردار ادا کیا۔ مسیحی مسلم تعلقات کے باب میں ان کا کردار قابلِ تحسین رہا۔ انہوں نے مسلم دنیا کے کئی دورے کیے۔ مصر میں جامعہ ازہر کے شیخ سے مل کر انہوں نے باہمی احترام کے جذبات کو آگے بڑھایا۔ ان کا انڈونیشیا کا دورہ بھی اہم تھا جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ مسیحیوں کو بھی ان کی نصیحت یہی تھی کہ وہ جس ملک میں رہیں‘ مقامی آبادی کے ساتھ اچھے سماجی تعلقات استوار کریں۔
توہینِ مذہب کے بارے میں بھی ان کا مؤقف بڑا واضح تھا۔ فرانس میں ایک بدنصیب نے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے خاکے بنائے اور اس کے نتیجے میں تشدد کی ایک لہر اٹھی۔ اسی لہر میں رسالے کا مدیر اور کچھ دیگر افراد قتل ہو گئے۔ پوپ فرانسس نے عمل اور ردِعمل‘ دونوں کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آپ دوسروں کی مقدس شخصیات کی توہین کریں گے تو آپ کو جوابی وار (punch) کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس پر وہ تنقید کا ہدف بھی بنے کہ انہوں نے مذہبی تشدد کی حمایت کی۔ تاہم اس کے ساتھ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ خدا کے نام پر قتل کا اختیار بھی کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ایک مذہبی راہنما کا متوازن طرزِ عمل تھا۔
وہ غزہ کی صورتِ حال پر بھی افسردہ تھے۔ پوپ فرانسس دو ریاستی ماڈل کو مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ علاقہ تمام ابراہیمی مذاہب کے لیے مقدس ہے‘ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اس کے دروازے کسی پر بند نہ ہوں۔ وہ جنگ کے شدید خلاف تھے۔ ایک مذہبی راہنما کے حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ جنگ کی مخالفت کی۔ وہ عام شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو ضروری سمجھتے تھے اور تشدد کے شدید خلاف تھے۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی کبھی حمایت نہیں کی۔ تاہم وہ تشدد کی وجہ سے حماس کی حکمتِ عملی کو بھی درست نہیں سمجھتے تھے۔
ایک مذہبی راہنما کو میرا خیال ہے کہ اسی مقام پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ایک طرف وہ اپنے ہم مذہب گروہ کو مذہبی راہنمائی فراہم کرے اور دوسری طرف عالمی سطح پر مسائل کو اخلاقی بنیادوں پر مخاطب بنائے تاکہ مذہب کا حقیقی کردار سامنے آئے۔ مذہب کی انسانی زندگی میں مداخلت اخلاقی ہے۔ مذہب ایک مابعد الطبیعیاتی تصورِ حیات ہے جو ایک خالق پر ایمان اور اس کی ہدایات کے تحت تعمیرِ زندگی کے لائحہ عمل پر مبنی ہے۔ اس کا پیغا م گروہی یا مسلکی نہیں ہے۔ وہ عالمگیر ہے۔ میرے علم کی حد تک اس وقت صرف کیتھولک مسیحیت ہے جو اس پہلو سے عالمی سطح پر متحرک ہے۔ پوپ جب کوئی پیغام جاری کرتے ہیں تو عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے‘ وہ ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ اس کی وجہ عالمِ مسیحیت کی وسعت بھی ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا مذہب ہے۔
مسلمانوں میں مذہبی اعتبار سے کوئی ایسا منصب موجود نہیں ہے۔ ماضی میں شیخ الاسلام کا منصب ہوا کرتا تھا مگر جدید مسلم ریاستوں میں یہ منصب کہیں نہیں ہے۔ ہماری بہت سی شخصیات کے لیے یہ لقب استعمال ہوتا ہے لیکن وہ ان کے متاثرین کا عطا کردہ ہے۔ اس کی کوئی ریاستی حیثیت نہیں۔ تاہم مسلم معاشروں میں مذہی شخصیات کا اثر موجود ہے۔ اکثر شخصیات کا حلقۂ اثر ان کے مسلک تک محدود ہوتا ہے لیکن بعض حضرات اپنی شخصی وجاہت کی وجہ سے تمام طبقات اور ریاست کے لیے باعثِ تکریم ہوتے ہیں اور وہ ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔ یہ سماج کی اخلاقی تعمیر کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مذہب کو اس وقت جو چیلنج درپیش ہے وہ لامذہبیت کا ہے۔ اس حوالے سے سب مذاہب کا مقدمہ ایک ہے۔ بالخصوص ابراہیمی مذاہب کا۔ اسلام کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ ابراہیمی مذاہب میں آخری ہے اور اس طرح قدیم مذاہب کی شفاف تعلیمات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اگر ہمارے مذہبی راہنما عالمی سطح پر اسی نوعیت کی اخلاقی مداخلت کے لیے کوئی نظام بنائیں تو اس سے مذہب کو بحیثیت مجموعی فائدہ ہو گا اور یہ اندازہ ہو گا کہ مذہب ایک مثبت قوت ہے جو سماجی تعمیر میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
غزہ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا ایک پہلو اخلاقی ہے۔ مسلم دنیا کا کوئی فورم ایسا نہیں ہے جو اس باب میں اخلاقی سطح پر اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہو۔ مثال کے طور پر انسانی آبادیوں پر اسرائیلی حملے غیر اخلاقی ہیں۔ بچوں اور غیر متحارب افراد کا قتل ایک جرم ہے۔ ہسپتال اور عباد ت گاہوں کو ہدف بنانا غیر اخلاقی ہے۔ عام شہریوں کو یرغمال بنانا بھی مذہب کی نظر میں قابلِ قبول نہیں۔ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی مذہبی نقطہ نظر سے بھی جرم ہے۔ اگر ہماری طرف سے اخلاقی حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس پر بھی اظہارِ ناپسندیدگی ہو۔ اسلام صرف مسلمانوں کی غیر مشروط حمایت کا نام نہیں‘ یہ اخلاقی قدروں اور خدا کی ہدایت کا نام ہے جو عالمگیر ہے۔
مغرب میں جب مسیحیت کا کردار محدود ہوا تو اہلِ مذہب نے کوئی انقلابی تحریک نہیں چلائی۔ اسی طرح ریاستوں کی مذہبی تشکیل کو بھی ہدف نہیں بنایا۔ انہوں نے اس حیثیت کو قبول کیا جو عالمگیر سیاسی نظم نے ان کے لیے تجویز کی۔ ویٹیکن نے خود کو اخلاقی مداخلت تک محدود کرتے ہوئے‘ اپنے وجود کو بر قرار رکھا۔ اس طرح مسیحیت بطور مذہب کے زندہ رہی‘ اس کے باوجود کہ اسے بھی الحاد کا چیلنج درپیش تھا۔ آج پوپ کی آواز کو سنا جاتا ہے اور وہ موضوعِ بحث بنتا ہے۔ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں پوپ فرانسس کا دور بہت اہم رہا۔ انہوں نے نہ صرف عالمِ مسیحیت کو متحد رکھا بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے دنیا کو بھی پیغام دیا کہ مسیحی مذہب کیا ہے۔ مسیحی روایت کو اگر دیکھیں تو سیدنا مسیح علیہ السلام کو انہوں نے محبت کا عالمگیر استعارہ بنا دیا۔ اب ان کی شخصیت سے کوئی ایسی بات منسوب نہیں جو اس تصورِ محبت سے متصادم ہو۔ مسلمان عالمی سطح پر اسوۂ حسنہ کی وہ خدمت سر انجام نہ دے سکے کہ نبیﷺ رحمت کا عالمگیر استعارہ بن جائیں‘ جن کے بارے میں عالم کے پروردگار نے یہ اعلان فرمایا کہ وہ عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ مطلوب یہ آگاہی تھی کہ اللہ کے سب پیغمبر انسانیت کے لیے باعثِ شرف ہی نہیں‘ اس کے سب سے بڑے خیر خواہ بھی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا طرزِ عمل اس سے متصادم ہے۔ ہمارے ہاں مذہب کے بعض نادان دوستوں نے اپنی کوتاہی سے مذہب کو خوف کی علامت بنا دیا۔
پوپ فرانسس نے مذہبی راہنماؤں کے سامنے ایک قابلِ تقلید مثال پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مذہبی راہنما کا دائرۂ کار کیا ہے اور مذہب کیسے اخلاقی مداخلت کرتا ہے۔ ہر مذہبی راہنما اپنے اپنے مذہبی پس منظر کے ساتھ اس مثال کو سامنے رکھ سکتا ہے۔