سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے طویل عرصے بعد ترکی جیسے ملک کا پھر سے ایک مضبوط معیشت، دنیاوی اور دینی تعلیم اسی طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے صف اول کے ممالک کے ساتھ کھڑا ہونا ایک معجزہ سے کم نہیں۔ دراصل کسی بھی قوم کی ترقی میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا شانہ بشانہ کھڑا ہونا اور اپنی خدمات پیش کرنا نمایاں کردار کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ دنیاوی امور سے متعلق تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترک خواتین کا اپنی خدمات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دینی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی ان کا کردار قابل ستائش ہے۔اس ملک میں خواتین کے اندر دینی تعلیم کے حصول کا رجحان بھی کافی بڑھا ہے۔اس مضمون میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون نگار ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ میں پراجیکٹ مینیجر ہیں۔
ترکی کے اندرسرکاری اور عوامی اوقاف کے زیر انتظام چانے والے تمام اداروں کی تعلیمی بنیادوں سے لے کر علمی فضاؤں تک ہر جگہ خواتین اپنے حصے کی محنت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس محنت اور کاوش کی بنیادی وجوہات میں سے ایک، ترکی جیسے اسلام پسندحجاب پر سے پابندی اٹھایا جانا ہے ۔ اس لیے چاہے امام حاطب سکول اور کالجز ہوں (جس میں عصری علوم کے ساتھ ساتھ قرات، تجوید، تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت وغیرہ جیسا دینی مواد بھی بکثرت پایا جاتا ہے)، چاہے یونیورسٹیوں میں شعبہ علوم اسلامیہ ہو اور اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں قرآن کورس کے نام سے بنائے گئے سرکاری مراکز ہوں یا انفرادی اور تنظیموں کے زیر انتظام تعلیمی ادارے ہوں ان تمام اداروں میں ،واتین کی شرکت اور خدمات کاتناسب مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
دینی اداروں میں خواتین کی اکثریت کے اسباب
دینی اداروں میں عورتوں کی اکثریت کی بنیادی وجوہات جو سامنے آئی ہیں ان میں سے د و وجوہات زیادہ قابل ذکر ہیں۔ وہ یہ کہ ترک خواتین ماسٹر لیول تک تعلیم حاصل کرنے پر اپنی ازدواجی زندگی نبھانے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے حصول کے بعد اپنی نئی نسل کی دینی تعلیم کی فکر دامن گیر ہوتی ہے جس کے لئے وہ مختلف مراکز میں خدمات سرانجام دیتی ہیں کیونکہ ان کے سامنے اس بات کا قوی اندیشہ موجود ہے کہ اگر اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے روشناس نہیں کرایا تو پھر سے وہ وقت دوبارہ پلٹ سکتا ہے جس میں دینی تعلیم کے حصول پر ہر طرف سے پابندیاں تھیں اور عورت کی عزت کسی طرح محفوظ نہیں تھی۔
دینی تعلیم کے حصول کے لیے اداروں کی تقسیم
ترکی میں خواتین کے لیے دینی تعلیم کا حصول دو صورتوں میں ممکن ہوتا ہے۔ ایک تو سرکاری اور رسمی اداروں میں ہے، جن میں مخلوط اور غیر مخلوط امام حاطب سکول اور کالجز(جن کے نصاب میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرات، تجوید، تفسیر، حدیث، سیرت، فقہ وغیرہ جیسا دینی مواد بھی بکثرت پایا جاتا ہے)، اور ان کے بعد یونیورسٹیوں میں الہیات(علوم اسلامیہ) کے نام سے مختلف دینی علوم میں پی ایچ ڈی تک کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ان تعلیمی اداروں میں خواتین کے شرکت کا تناسب مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں حجاب پر سے پابندی اٹھائی جانے کے بعد اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر قرآن کورس کے نام سے لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی مراکز قائم کیے گیے ہیں، جن میں ناظرہ قرآن، حفظ قرآن، بنیادی دینی علوم کی تدریس کی جاتی ہے۔ خواتین کے لیے مخصوص ان رہائشی اور غیر رہائشی اداروں میں بچیوں اور خواتین کی تدریس کی خدمات خواتین معلمات ہی سر انجام دیتی ہیں۔
دوسری شکل انفرادی، یا تنظیموں کےزیر انتظام تعلیمی اداروں کی ہے جن میں خواتین کے لیے ناظرہ قرآن، تجوید اور حفظ قرآن کا انتظام ہے۔ دینی علوم کے مختصر کورسز کے ساتھ ساتھ، طویل المعیاددینی کورسز بھی پڑھائے جاتے ہیں۔جن کی تدریس کی مکمل ذمہ داری خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔
ان سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ انفرادی سطح پر بھی خواتین دین کی نشر واشاعت میں سرگرم عمل ہیں۔
ترکی کی جامعات میں خواتین کی تعلیم اور دینی خدمات
ترکی میں اس وقت سرکاری، غیر سرکاری جامعات کی تعداد 206 ہے،جن میں تقریباً 87 جامعات میں کلیہ علوم اسلامیہ(الہیات) دینی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ان جامعات میں دیگر کلیات کے مقابلہ میں علوم اسلامیہ کے شعبہ میں ایم اے لیول تک کی تعلیم کے حصول میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔لیکن اس کے برعکس ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر کم ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اسلامی علوم پڑھنے والی لڑکیاں ایم اے تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ازدواجی زندگی کو ہی ترجیح دیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے آگے تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں ترکی حکومت کی طرف سے ہر شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں لڑکیوں کے لیے قرآن کورسس کے نام سے ادارے بنائے گئے ہیں جس میں لڑکیوں کو قرآن کی تعلیم کے ساتھ اسلام کی بنیادی اور شعبہ ہائے زندگی سے متعلق موضوعات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جب کہ اس میں پڑھانے والی معلمات کے لیے ایم اے اسلامیات تک کی تعلیم کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ایم اے اسلامیات کرنے بعد لڑکیوں کے لیے سرکاری سطح پر پڑھانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کی اکثریت آگے مزید تعلیم جاری رکھنے کی بجائے شادیوں کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں پڑھانے اور کام کرنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن پھر بھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد علوم تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف ، کلام اور دیگر موضوعات میں ایم اے کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم مکمل کرچکی ہیں۔ ا
لبتہ کچھ سالوں سے اعلی تعلیم کے حصول کے میدان میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ترکی کی موجودہ حکومت کی طرف تعلیم کے حصول کے مواقع کا فراہم کرنا ہے۔ ترکی کی موجودہ حکومت سے پہلے جامعات میں سکارف پہننا ممنوع تھا جی کی وجہ ے دینی علوم کی طرف لڑکیوں کا رجحان کافی کم تھا لیکن سکارف کی پابندی کے ختم ہونے کے بعد لڑکیوں کے لیے دینی ماحول میں رہ کر آسانی اور خوشی کےساتھ دینی علوم کا حصول ممکن ہوا جس کی بناء پر آجکل شعبہ علوم دینیہ میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
عصری جامعات میں دینی علوم کے شعبے
ترکی کی اسلامک فیکلٹیز(الہیات) شعبہ جات کے حوالے سے بہت وسیع ہے چنانچہ الہیات کے فیکلٹی میں بنیادی طور پر تین شعہ جات ہیں پھر ان میں مزید بہت سارے شعبہ قائم ہیں۔
پہلا شعبہ ’’اسلام کے بنیادی علوم‘‘کے نام سے ہے۔ اس میں پھر یہ 8 شعبے ہیں: شعبہ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، تصوف، عربی، قرآن کریم اور علم قرآت۔
دوسرا شعبہ’’فلسفہ اور مذہبی علوم‘‘ کے نام سے ہے۔ اس میں پھر یہ 8 شعبے ہیں: شعبہ علوم دینیہ، شعبہ دینی فلسفہ، شعبہ مذہبی نفسیات، شعبہ مذہبی سماجیات، شعبہ مذاہب کی تاریخ، شعبہ تاریخ فلسیہ، اسلامی فلسفہ اور شعبہ منطق۔
تیسرا شعبہ’’تاریخ اسلام اور آرٹ‘‘ کے نام سے ہے۔ اس میں 4 شعبے ہیں: شعبہ تاریخ اسلام، ترکی کی پرٹ کی تاریخ، ترک اسلامی ادبیات اور ترک دینی میوزک۔
الہیات کی فیکلٹی میں شعبے تو بہت قائم کیے ہیں لیکن طلبہ اور طالبات کا رجحان تفسیر، حدیث اور فقہ کی طرف زیادہ ہے۔
ترکی کی جامعات سے فارغ التحصیل طالبات کی دینی خدمات اور سماجی سرگرمیاں
ترکی میں ایم اے اسلامیات، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم مکمل کرنے والی لڑکیاں اگر سرکاری سطح پر دینی خدمات ادا کرنا چاہیں تو ان پانچ مقامات میں سے کسی ایک میں دینی خدمات خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے سکتی ہے:
- قرآن کورسس کے نام سے بنائے گئے اداروں میں تدریسی خدمات سرانجام دے سکتی ہے۔
- وفاقی ادارہ شعبہ علوم دینیہ کے مراکز میں(یہ مراکز تقریباً ہر شہر میں قائم ہیں)۔
- شعبہ دعوت و تبلیغ میں(ان اداروں میں کام کرنے والی معلمات شہروں میں جگہ جگہ عورتوں کے لئے وعظ اور نصیحت کے نام سے پروگرام منعقد کرتی ہیں)۔
- جامعات کے شعبہ علوم اسلامیہ میں ریسرچ اسسٹنٹ لیکچرار اور پروفیسر کے عہدوں پر تدریس کے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔
- امام حاطب کے نام سے قائم کئے سرکاری سکولز اور کالجز میں بطور معلمات کے دینی خدمات سرانجام دے سکتی ہیں۔
دینی علوم میں اختصاص کے ادارے
ترکی میں دینی علوم میں مہارت اور متخصص ہونے کے لیے الگ سے بھی دینی مدارس قائم کیے گیے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں 1970ء میں استنبول میں سب سے پہلا ادارہ قائم ہوا۔ رفتہ رفتہ دیگر بڑے شہروں میں بھی قائم ہوئے ابھی اس وقت (2017ء میں)ٹوٹل 10 ادارے قائم ہیں۔ جس میں صرف 2 ادارے خواتین کی تعلیم کے لیے خاص ہیں۔ البتہ سب اداروں میں تعلیم کا دورانیہ ، کتابیں، امتحانات، درس، تدریس کا انتظام وغیرہ ایک جیسا ہے۔
ان اداروں میں داخلے کی بنیادی شرائط چار ہیں:
- ایم اے اسلامیات تک کی تعلیم کا مکمل ہونا ضروری ہوتا ہے۔
- سرکاری طور پر کسی سکول، کالج میں اور یا کسی قرآن کورس میں پڑھاتی ہو(یعنی حاضر سروس ہونا ضروری ہے) کیونکہ ایسی صورت میں حکومت کی طرف سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 3 سال چھٹی مع تنخواہ دی جاتی ہے۔
- 40 سال سے عمر زیادہ نہ ہو۔
- ادارے کی طرف سے داخلے کے لیے تحریری اور زبانی امتحانات کا پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ان اداروں سے تعلیم مکمل کرنے والی خواتین کی مستقبل میں ذمہ داریاں
ان اداروں سے فارغ التحصیل خواتین کئی جگہوں میں سرکاری طور پر دینی خدمات سرانجام دے سکتی ہیں۔
دارالافتاء میں بطور نائب مفتی کام کرسکتی ہیں۔ عصر حاضر میں ترکی کی سرکاری دادالافتاء میں خواتین کے لیے بھی کوٹہ رکھا ہوا ہے تاکہ خواتین کے مسائل کو صحیح طریقے سے حل کر سکے۔ جبکہ آجکل عملی طورپر ہر دارافتاء میں تعیناتی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
ترکی میں خواتین کی خصوصی تربیت کے لیے جگہ جگہ وعظ اور نصیحت کے عنوان سے سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں جس کے لئے خصوصی طور پر خواتین مبلغین مقرر ہوتی ہیں۔ تو ان اداروں سے فارغ التحصیل خواتین بطور خطیب کے کام کرسکتی ہیں۔
وفاقی مذہبی امور کے زیر نگرانی ادارہ امور دیانت کے مراکز میں دنی خدمات سرانجام دے سکتی ہیں۔ 2017ء میں پہلی بار ایک خاتون(جو اسلامک سٹڈیز میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں) ادارہ امور دیانت کے مدیر کی پرسنل سیکرٹری مقرر کی گئی ہے۔
خلاصہ یہ کہ ترکی کے دینی مراکز میں ترک خواتین کی دینی اور سماجی سرگرمیاں آج کل اپنی عروج پر ہیں۔ خواتین مبلغین، خواتین کی خصوصی تربیت کے لی ے جگوہ جگہ وعظ اور نصیحت کے عنوان سے سیمینار منعقد کرتی ہیں۔ خواتین کے مسائل کے لیے الگ سے خواتین مفتیان کرام کا انتظام کرنا ایک ایسا قدم ہے جوکہ آج کل بہت سے اسلامی ممالک میں ناپید ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ تصنیفات کے میدان میں بھی ترک خواتین اپنا لوہا منوانے کے لئے دن رات ایک کئےہوئے نظر آتی ہیں۔ترکی کے دینی مراکز میں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کے اندر پائی جانے والی صفات میں سے ایک اہم ان خوایتن کا دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم سے کافی حد تک روشناس ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیاوی زندگی سے متعلق تمام سرگرمیوں میں دیگر خواتین سے کسی حد تک پیچھے نہیں رہتی۔ اس لئے دور حاضر میں ترکی کے ماحول میں دینی اور سماجی پہلو سے سامنے آنے والے فوائد اور اثرات کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں