انتخابات کے لیے مقرر کی گئی تاریخ8 فروری میں محض دو ماہ باقی ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈز کی وصولی اور خرچ کی شرح اپنی بلند ترین سطح پرہوتی ہے۔ ایک سیاسی جماعت انتخابی سال کے دوران دیگر اوقات کے مقابلے کئی گنا زیادہ اخراجات کرتی ہے۔ لہٰذا،یہ فطری امر ہے کہ سیاسی حلقے انتخابات کی تاریخ کے قریب فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے متنوع ذرائع کو استعمال کریں۔
فنڈز کی فراہمی کا ایک معروف ذریعہ تودرخواست کی فیس ہے جو پارٹی ٹکٹ کے خواہاں ادا کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے آئندہ انتخابات کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے پارٹی ٹکٹوں کے لیے بالترتیب 200,000 اور 100,000 روپے ناقابل واپسی’درخواست فیس‘ مقرر کی ہے۔
توقع ہے کہ یہ فیس کم از کم تین بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو قابل قدر فنڈنگ مہیا کرے گی۔’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی طرف سے ہر سال سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کے گوشواروں کے تجزیے منظر عام پر لائے جاتے ہیں،جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹکٹ کی درخواست کی فیس کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی سیاسی جماعتوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بنتی ہے۔
مثال کے طور پر، پی ٹی آئی نے سال 2018 کے انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواست کی فیس کی مد میں تقریباً 478 ملین روپے کمائے۔ یہ رقم مالی سال 2017-18 اور 2018-19 میں تحریک انصاف کی کل آمدنی کا تقریباً 45 فیصد تھی۔ اگرچہ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے 140 ملین روپے تحریک انصاف کی جمع کردہ رقم سے بہت کم تھے، لیکن پارٹی نے بظاہر درخواست کی فیس پر ہی زیادہ انحصار کیا، کیونکہ انتخابی سال 2017-18 کے دوران جماعت کی کل آمدنی کا 95 فیصد سے زیادہ کا ذریعہ یہی تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین مل کر صرف 95 ملین روپے اکٹھے کر سکےجو سال 2017-18 کے دوران ان کی آمدنی کا تقریباً 89 فیصد بنتا ہے۔
گویابنیادی طور پہ ٹکٹ کی درخواست فیس سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کیے گئے فنڈز کا ایک اہم حصہ ہے۔ گزشتہ 13 سالوں کے دوران،سیاسی جماعتوں کی کل آمدنی میں ٹکٹ فیس کا حصہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لیے بالترتیب تقریباً 19 فیصد، 33 فیصد اور 64 فیصد رہا۔
مسلم لیگ ن 2013 کے الیکشن کے وقت ٹکٹ فیس کی مد میں 59 کروڑ 60 لاکھ روپے جمع کرنے میں کامیاب رہی، جبکہ تحریک انصاف نے تقریباً 12 کروڑ 40 لاکھ روپے کمائے۔ یہ ترتیب 2018 کے عام انتخابات میں الٹی ہو گئی،کیونکہ تحریک انصاف کو 335 ملین روپے ملے، جب کہ مسلم لیگ (ن) صرف 125 ملین روپے اکٹھے کرسکی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ کی مانگ 2018 کے انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔
معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین امیدواروں سے ٹکٹ کی مد میں اورپارٹی ‘عطیات’ کے لیے غیرمعمولی رقم وصول کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں امیر اور انتہائی امیر امیدواروں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ فیس پر انحصار سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ ان جماعتوں میں نوجوان امیدواروں کی تعداد کم کیوں ہے۔ نوجوان افراد، جب تک کہ وہ امیر زمیندار یا صنعتی پس منظر کے حامل نہ ہوں، وہ پارٹیوں کو بڑے عطیات دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ اگرچہ نوجوان (35 سال اور اس سے کم) ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد کا تقریباً 45 فیصد ہیں، لیکن 10 بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں ان کی مجموعی نمائندگی محض 19 فیصد بنتی ہے۔
تحریک انصاف، جسے عام طور پر نوجوانوں کی جماعت سمجھا جاتا ہے، نے گزشتہ انتخابات میں16 فیصد سے کے آس پاس نوجوان امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جو مختلف سیاسی جماعتوں کی ‘عمر رسیدہ’ قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور نوجوانوں کو ان کی جگہ لینے کا موقع دینے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں،ان کی اپنی جماعت نے اپنے کل 727 امیدواران میں سے صرف 122،یعنی 17 فیصد سے بھی کم نوجوانوں کو ٹکٹ دیے۔ سال 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اور بھی مایوس کن تھی، کیونکہ اس نے تب 646 میں سے صرف 86، یعنی صرف 13 فیصد، نوجوان امیدوار کھڑے کیے تھے۔
پارٹی ممبر شپ فیس پر سیاسی جماعتوں کا انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ تحریک انصاف کے مطابق پچھلے 13 سالوں میں اس کی ممبرشپ فیس 21 ملین روپے رہی،یعنی اس کی کل آمدنی کا 0.6 فیصد پارٹی ممبرشپ فیس سے جمع ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کو11 ملین روپے،یعنی کل آمدنی کا ، 0.9 فیصد اس سے آیا۔جبکہ پیپلز پارٹی نے 41 ملین روپے ،یعنی اپنی کل آمدنی کا 9فیصد جمع کرکے قدرے بہتر حیثیت میں رہی۔
تاہم،وہ حلقے اور افراد جو جماعتوں کے ممبر نہیں،ان کی طرف سے چندہ سیاسی پارٹیوں کے لیے آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ تحریک انصاف گزشتہ 13 سالوں میں 2.5 ارب روپے کے عطیات وصول کر کے سرفہرست رہی، جب کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بالترتیب 641 ملین روپے (کل آمدنی کا 33 فیصد) اور 18 ملین روپے (کل آمدنی کا4 فیصد) جمع کیا۔
اگرچہ آئین کا آرٹیکل 17(3) سیاسی جماعتوں سے فنڈنگ کے ذرائع ظاہر کرنے اور ان کا جائزہ لینےکامطالبہ کرتا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کرائے گئے اکاؤنٹس کے گوشوارے عام طور پر عطیہ دہندگان کی شناخت ظاہر نہیں کرتے اور انہیں ‘عطیہ دہندگان’ یا ‘عطیہ کنندگان’ کے طور پر بتایا جاتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر، پی پی پی نے اپنے بینک ڈپازٹس پر تقریباً 24 ملین روپے کا سود حاصل کیا، جو کہ 2013-14 کے دوران اس کی کل آمدنی کا 90 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔ 13 سالوں میں کل بینک سود بھی 106 ملین روپے، یا اس کی کل آمدنی کا 23 فیصد بن جاتا ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس ضمن میں بہت کم کماتے ہیں، کیونکہ ان کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے 13 سالوں میں اس خاص ذریعہ سے انہیں جو حاصل ہواوہ ان کی کل آمدنی کا 0.49 فیصد اور 1.33 فیصدبنتا ہے۔
سیاسی حلقوں کی فنڈنگ تقریباً تمام ترقی یافتہ معاشروں میں ایک انتہائی حساس موضوع سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں سیاسی مالیاتی دستاویزات کو بہت احتیاط سے مرتب اور جمع کراتی ہیں،اور پاکستان میں الیکشن کمیشن کی طرح نگران ایجنسیاں بھی ان دستاویزات کی اتنی ہی سنجیدگی سے جانچ پڑتال کرتی ہیں۔البتہ ماضی میں، الیکشن کمیشن کے پاس اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے نبھانے کی نہ تو صلاحیت تھی اور نہ ہی شایدایسی کوئی خواہش ۔
تاہم، پچھلے دو سالوں میں، ایسا لگتا ہے کہ اس الیکشن کمیشن نے اپنے ’پولیٹیکل فنانس ونگ ‘کی تنظیم نو کی ہے اور اسے عملہ سے لیس کیا ہے اور FBR جیسے اداروں سے روابط بھی قائم کیے ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ انتخابی سال 2024 میں سیاسی مالیات کو کس سطح کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بشکریہ: روزنامہ ڈان