تم قاتل ہو مجاہد نہیں

0

 سہیل سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات ، تحقیق و تخریج ڈاکٹر سید شفیق اسسٹنٹ پروفیسر مردان ڈگری کالج

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین
اما بعد!

ہمارے حضرت شیخ مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ، ان کا خاندان، ان کا خانوادہ، دارالعلوم حقا نیہ کے تمام اساتذہ کرام، عزیز طلباء اور دارالعلوم حقا نیہ کے تمام متعلقین بشمول میرے، ہم سب تعزیت کے مستحق ہیں۔ اور حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہ ی د رحمہ اللہ کے بعد ابھی تو ان کی شہادت کا غم تازہ تھا کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک بہت بڑے سانحے کا سامنا کرنا پڑا، دارالعلوم حقا نیہ کے در و دیوار اس وقت سو گوار ہیں، ہر دل غمزدہ ہے۔ میں عمرہ کے سفر پر تھا اور مدینہ منورہ میں تھا جمعہ کے روز اطلاع ملی کے دارالعلوم حقا نیہ میں ایک بار پھر درد ناک سانحہ رونما ہوا ہے۔ یقیناً آپ تو یہاں پر صورتحال کو چشم دید دیکھ رہے تھے، لیکن ساری تصویر میرے سامنے تھی اور وہ میں جانتا ہوں یا میرا رب جانتا ہے کہ وہ لمحات کس قدر کرب کے لمحات تھے، کس قدر تکلیف کے لمحات تھے، لیکن ہمارا ایمان ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ تو موت کا وقت معلوم ہے نہ ہی موت کی جگہ معلوم ہے اور نہ ہی موت کا سبب معلوم ہے۔ اللہ تعالی کے فیصلے ہیں، دنیوی زندگی میں انسان ایک دوسرے سے مانوس ہوتے ہیں، ایک محبت کا تعلق ہوتا ہے اور ایک دم سی جب جدائی آتی ہے تو پھر ایک بشری تقاضہ ہے کہ وہ جدائی قابل برداشت نہیں ہوتی، لیکن بہرحال جو مقدر تھا اس سے تو مفر نہیں، اب اللہ کی طرف سے صبر ایک ایسا انعام ہے کہ جس کے لیے ہم اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور صبر کی ٹھنڈک سے ہمارے اندر کی غم و سوز کی جلن کو ٹھنڈا کر دے۔ سوائے صبر کے اور چارہ ہی کیا ہے۔

مجھے یوں احساس ہو رہا تھا جیسے یہ حملہ صرف حامد الحق پر نہیں ہوا بلکہ میرے گھر اور میرے مدرسے پہ ہوا ہے۔ میرے مادر علمی پہ ہوا ہے، مجھے یاد ہے آج میں پہلی مرتبہ آپ کے سامنے یہ بات کہہ رہا ہوں، کچھ میری معلومات تھیں کہ یہاں کوئی آپریشن کا پروگرام بن رہا ہے دارالعلوم حقا نیہ کے اوپر، اتفاق سے بڑے ریاستی ذمہ داروں کے ساتھ میری ایک ملاقات تھی، تو میں نے ان کے سامنے یہ بات کہی تھی کہ میری کچھ معلومات ہیں آپ کوئی اس طرح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ تو بڑی سری چیز ہوتی ہے کیسے اس کو پتہ چل گیا ہے، وہ خاموش ہو گئے اور میری طرف دیکھنے لگے، پھر میں نے ان سے کہا آپ کا اگر کوئی ایسا ارادہ ہے تو یہ جان لو کہ آپ کو بہت مہنگا پڑے گا اور میں نے کہا کہ ہر چند کہ ہم اس قسم کے تنازعات سے دور رہتے ہیں، جمعیت علمائے اسلام اسلحے کی سیاست نہیں کرتی، لیکن یاد رکھو اگر تم لوگوں نے دارالعلوم حقا نیہ کی طرف اس جرآت کی نظر سے دیکھا تو مقابلے میں فضل الرحمان کو پاؤ گے۔ یہ آپ کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔ الحمدللہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔

تو اس حوالے سے آج بھی میرے جذبات وہی ہے اور اس کو میں اپنے مادر علمی اپنے گھر اپنے عزت پر حملہ سمجھتا ہوں۔ حامد الحق ایک بے ضرر انسان، لیکن آج بھی میں نے کچھ دوستوں سے کہا کہ مسئلہ حامد الحق صاحب کا نہیں ہے۔ وہ ہمارا برخوردار تھا، لیکن دارالعلوم حقا نیہ کی نسبت ہے ایک بڑی خبر بنانی تھی انہوں نے، انسان کی جان سے کھیلنا پھر مسلمان کی جان سے کھیلنا اس کو بھی ہم جہا د کہیں گے، یہ بندوق جو مسلمان کے خلاف استعمال ہوتی ہے، جو ایک عالم دین کی خلاف استعمال ہوتی ہے، جو اسلام کے ایک علمبردار کے خلاف استعمال ہوتی ہے، یہ تمہارے جذبات تو ہو سکتے ہیں، یہ تمہاری تنگ نظری تو ہو سکتی ہے، یہ کسی سازش کا ایک سبب تو ہو سکتا ہے، ذریعہ تو ہو سکتا ہے لیکن جہا د نہیں ہو سکتا، یہ د ہشت گردی ہے۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،

لزوالُ الدُّنيا أهونُ على اللهِ من قتلِ مسلمٍ
( السنن الكبرى للبيهقي (٨/٢٣) ، أخرجه الترمذي (١٣٩٥)، النسائي (٣٩٨٧)

پوری دنیا تباہ ہو جائے یہ اللہ کے لیے ہلکا ہے اس مقابلے میں کہ ایک مسلمان کا خون بہایا جائے۔ ایک دوسری روایت میں ہے،

لهدمُ الكعبةِ حجرًا حجرًا أهونُ على اللهِ من قتلِ المسلمِ

(الشوكاني، الفوائد المجموعة (٢١٢) • یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ روایت نہیں، لیکن اس کا مفہوم اس حدیث : من آذى مسلما بغير حق فكأنما هدم بيت الله – رواہ الطبرانی – میں موجود ہے۔)

پورا کعبہ گر جائے اس کا اللہ تعالی کو اتنی پرواہ نہیں لیکن اس کے مقابلے میں ایک مسلمان کا خون بہے اور کعبے کو خطاب کرتے ہیں طواف کے دوران کہ تو عظمت والا گھر ہے لیکن مسلمان کا خون تیرے سے عظمت میں زیادہ ہے۔ اس کو ہم نے، اسلام کے نام لیواؤں نے اتنا ہلکا سمجھ لیا ہے، اتنا معمولی سمجھ لیا ہے یعنی یہ لوگ آخرت کے مواخذے سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ اور ایک مسلمان کے ق ت ل کو جہا د کہہ کر سمجھتے ہیں کہ ہم جنت میں جائیں گے، اس کو ذریعہ جنت سمجھتے ہیں۔

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء: 93)

بیک وقت اللہ تعالی اتنے غصے میں آکر پانچ سزائیں ایک مومن کے ق ت ل پر سناتا ہے۔ ہم اتنے غیر محتاط ہو گئے اس کو جہا د کہتے ہیں پھر ہم، یہ تو اسلام دشمنی ہے، یہ تو مسلمان دشمنی ہے یہی تو وہ یسفک الدماء ہے کہ جس کی وجہ سے ملائکہ نے اعتراض کیا تھا۔

قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ (البقرۃ: 30)

لیکن پھر جب انسان پیدا ہوا، انبیاء کرام علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل ہوا، تو جب مسجد میں لوگ بیٹھے اللہ کو یاد کرتے تھے تو فرشتے اس مجلس کو گھیر لیتے تھے اور اپنے بارے میں سوچتے تھے کہ اس انسان پر ہم نے یہ اعتراض کیا تھا، اس کے بارے میں ہم نے یہ کہا تھا۔ چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،

وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ کِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّکِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِکَةُ وَذَکَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ

صحیح مسلم (٢٦٩٩)، سنن أبي داود (١٤٥٥) سنن ابن ماجه (٢٢٥)، مسند أحمد (٧٤٢٧)۔

اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے کیا کیا نقد انعامات اللہ تعالی نے اعلان کیے۔ نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّکِينَةُ یہ پہلا انعام ہے نقد اور سکینہ ضد ہے اضطرار کا، پریشانی کا، رحمت ڈھانپ لیتی ہے اس مجلس کو، یہ نقد انعام ہے۔ فرشتے گھیر لیتے ہیں اور دوسری روایت میں آتا ہے آسمان تک تہہ بہ تہہ فرشتے اس منظر کو دیکھتے ہیں کہ اس انسان کی تخلیق پر جب ہم نے اعتراض کیا تھا یہ وہی انسان ہے جو اللہ کا کلام پڑتا ہے، دوسرے کو سمجھاتا ہے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتا ہے، قرآن کی تعلیم دوسروں کو دے رہا ہے، درس و تدریس کا معاملہ اس سے وابستہ ہے۔
آج ہم نے ان اداروں کو نشانہ بنا دیا۔ مسجد کو نشانہ بنا دیا، ابھی کوئی ہفتہ دس دن کا واقعہ ہے مجھے کسی نے بتایا کہ نماز کے اندر دو رکعت پڑھنے کے بعد جماعت میں کھڑے ہوئے مسلمان کو وہاں سے گھسیٹا اور مسجد سے باہر لا کر گولی مار دی گئی، اس کو بھی جہا د کہیں گے ہم، ابھی جو پرسوں بلوچستان میں واقع ہوا ہے ایک عالم دین تراویح پڑھ رہا ہے، اٹھارہ رکعت پڑھ چکا ہے، مصلے پہ اس کو شہ ی د کر دیا گیا یہ بھی جہا د کے زمرے میں شمار کیے جائیں گے، یہ بھی سرزمین وطن کے ساتھ محبت کی علامت ہوگی، کہیں کوئی ضمیر رہ گیا ہے کہ جس کے دروازے پر کوئی دستک دی جائے کہ کر کیا رہے ہو، عجیب بات ہے حضرت شیخ مولانا حسن جان کو شہ ی د کیا جائے میں اپنے شیخ اور اپنے استاد کو شہ ی د بھی کہوں گا اور اس کے قاتل کو مجا ہد بھی کہوں گا، استاد الاساتذہ مولانا نور محمد صاحب وزیرستان کے وہ شہ ی د ہوتے ہیں، میرے والد کے شاگرد رشید تھے وہ، علاقے کے بہت بڑے استاد تھے اور وہی شخصیت تھے جس کو عام لوگ اپنے الفاظ میں استاد کے لفظ سے پکارتے تھے۔ ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ اس کو شہ ی د بھی کہوں اور پھر قاتل کو مجا ہد بھی کہوں، مولانا معراج الدین جمعیت علماء اسلام کے ایک مضبوط توانا آواز تھے اور اس کے دماغ تھے وہ، میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کس قدر وہ خلوص سے بھرے ہوئے انسان تھے اس کو شہ ی د کیا جاتا ہے اب میں اس کو شہ ی د بھی کہوں گا اور اس کے قاتل کو مجا ہد بھی کہوں گا، باجوڑ کے ایک جلسے میں تحصیل لیول کا ایک جلسہ ہے چھوٹا سا جلسہ وہاں خودکش کیا جاتا ہے ہم نوے جنازے اٹھاتے ہیں ایک جلسے کے نوے جنازے، میں اپنے ان جوانوں کو شہداء کا نام بھی دوں گا اور اس کے قاتل کو میں کہوں گا کہ یہ مجاہد ہے۔ کم از کم میرے بھائیو، میرے دوستو اس تضاد کو سینے میں جگہ مت دیجئے، یہ کالی آندھیاں ہیں آتی ہیں گزر جائیں گے ان شاءاللہ۔ لیکن یہ مدارس رہیں گے، یہ علماء رہیں گے، جمعیت علماء رہے گی اور دین کا آواز سر بلند رہے گا ان شاءاللہ، اعلاء کلمتہ اللہ کی نیت سے کام کرو، بس یہی جہا د ہے۔ جو استطاعت آپ کو اللہ نے دی ہے اس سے زیادہ آپ کو مکلف نہیں کیا اور جو مشن آپ کے حوالے ہے اس کا نتیجہ آپ کے حوالے نہیں کیا۔ آپ کے حوالے صرف محنت اور وہ بھی اپنے استطاعت کے اندر، وفاق المدارس العربیہ کام کر رہا ہے، تمام مکاتب فکر کے مدارس کام کر رہے ہیں، علماء کام کر رہے ہیں، مساجد آباد ہیں، مدارس آباد ہیں، مولا سمیع الحق صاحب شہ ی د ہوئے کیا دارالعلوم کی کسی ایک طالب علم میں کوئی کمی آئی، اضافہ ہوا یا حامد الحق کو یا ان کے ساتھ جو شہداء ہیں میں ان سب کے لیے تعزیت کرتا ہوں۔ مولانا شفیع اللہ صاحب کی بھی بچے شہید ہوئے ہیں میں سب کی تعزیت کے لیے حاضر ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہو۔ کیوں اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہو کہ یہ تم کوئی جہا د لڑ رہے ہو، کوئی جہا د نہیں لڑ رہے ہو، تم سفاک ہو، تم قا تل ہو، تم مجرم ہو۔ افغا نستان کے علماء کا فتویٰ ہے، پاکستان کے علماء کا فتویٰ ہے یہ مولانا عبدالحق صاحب اس وقت موجود تھے جب ہم لکھ رہے تھے جامعہ اشرفیہ لاہور میں، کہ اس کے بعد یہ جنگ ہوگی جہا د نہیں ہوگی، پاکستان میں یہ چیز غیر شرعی ہے۔ حضرات علماء ہیں، طلباء ہیں، علمی بحث کرتے رہتے ہیں، کرتے رہو لیکن ایک فیصلہ جب آجاتا ہے تو عالم دین کا مقام یہ ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ میری ذاتی رائے ہے لیکن اجماع کے تابع رہوں گا۔ فضل الرحمن بھی ایک مولوی ہے، ایک مولوی کا بیٹا ہے اور ایسے مولوی کا بھی نہیں، میرے سامنے میرے والد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ تم جیسے مولوی جو ہے نا وہ تو ایک ہزار مولوی میں ایک لمحے میں بغل کے نیچے سے گزار لیتا ہوں۔ جن کے علمی مقام پر مولانا عبدالحق اعتماد کرتے تھے اور مولانا عبدالحق کی علمی مقام کو آپ نہیں جانتے آپ نے ان کو دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ میں نے یہاں کے تمام اس زمانے کے تمام ہم عصر اساتذہ کو سنا ہے اور آپ کو پتہ ہے کہ صحاح ستہ جب پڑھائے جاتے ہیں تو ایک حدیث مختلف کتابوں میں مکرر آتا ہے، بلکہ بعض دفعہ ایک کتاب میں بھی مکرر آجاتا ہے۔ ہمارے اساتذہ اس پہ بحث بھی کرتے تھے، جس دن مولانا عبدالحق صاحب بیٹھے تھے اور کوئی ایسی حدیث پڑھانی ہوتی تھی جو ہم پہلے سن چکے ہوتے تھے دوسرے اساتذہ سے، اس وقت پتہ چلتا تھا کہ مولانا عبدالحق کا مقام کچھ اور ہے، ان کی تحقیق کا انداز ہی کچھ تھا اور ہمارے حاجی صاحب تھے نوشہرہ میں حاجی شیر افضل خان بدرشی، زمیندار آدمی تھے، دنیادار آدمی تھے، ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ ہم سوٹڈ بوٹڈ لوگ دنیا دار لوگ جب آپس میں کبھی اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ لوگ علماء کے بارے میں ذرا کمزور باتیں کرتے ہیں اور علماء کو بڑا کمزور سمجھتے ہیں تو حاجی صاحب کہتے ہیں کہ میں پھر ان کو کہتا ہوں کہ تمہیں علماء کو دیکھا نہیں ہے، آؤ میں تمہیں دارالعلوم حقا نیہ لے جاتا ہوں مولانا عبدالحق صاحب کے درس میں تمہیں بٹھاتا ہوں اگر اس کا درس سن کر تم احساس کمتری میں جوتوں میں جا کر نہ بیٹھے میرا نام تبدیل کرنا، تو ہم نے تو ایسے آکابر کو دیکھا ہے، کتابیں لکھی جا رہی ہیں حضرت شیخ الہند گدلے پانی میں داخل ہو گئے تھے، مولانا حسین احمد علی نے ک ف ر کیا، مفتی کفایت اللہ نے ک ف ر کیا، مولانا عبیداللہ سندھی نے ک ف ر کیا، اتنی جرات، عبداللہ درخواستی نے ک ف ر کیا، احمد علی لاہوری نے ک ف ر کیا، مفتی محمود نے ک ف ر کیا، ہوتے کون ہو تم لوگ، جاہل کے بچوں، کہ تم اتنے بڑے اکابرین کے بارے میں اس قسم کی ہرزہ سرائی کرتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی، کتابیں لکھتے ہو، میں ایسی کتابوں کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں پھینکتا ہوں، کوئی ایسی نہیں ہے۔ مجھے اپنے آکابر پر اعتماد ہے۔ میرے پاس حدیث کی اور دین کی سند انہی کی ہے اور میں ان کی سند کو اتنا بڑا مقام دیتا ہوں کہ اگر ان اکابرین کی تشریحات کے مطابق کوئی حدیث پڑھائے گا تو میری اجازت اس کو ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔
تو ان اکابرین کو جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ابھی لوگ زندہ ہیں، ہم نے خود دیکھے ہیں، ہم نے خود سنے ہیں، تم کیا چیز ہو کیا تمہاری حیثیت ہے۔ بارود تمہارے پاس، اڑا دوں گے ہمیں، تو پھر ہمارے اڑانے کے بعد ایک ایک قطرے سے جو ہمارے نظریات کی صدا اٹھے گی، جو ہمارے مشن کی صدا اٹھے گی، جو ہمارے آکابر کی صدا اٹھے گی، تمہیں اس کا بھی اندازہ ہے۔

تو بہرحال ہم ایک راستے پہ چلے ہیں اور یہ ہمارے آکابر کا راستہ ہے، اس کو ہم امانت سمجھتے ہیں۔ میرے پاس آکابر کے دو چیزیں ہیں۔ پوری جمعیت علماء اسلام کے پاس دو چیزیں ہیں میرے اکابر کی بطور امانت، ایک آکابر کا نظریہ عقیدہ و نظریہ اور دوسرا اس عقیدے و نظریے کے لیے کام کرنے کا منہج اور رویہ، مجھے انہوں نے عقیدہ بھی بتلایا ہے نظریہ بھی بتلایا ہے اور کام کرنے کا منہج بھی بتلایا ہے، نہ تم مجھے ان کے عقیدے سے ہٹا سکو گے نہ ان کے منہج اور رویے سے ہٹا سکو گے۔ یہ دونوں امانتیں ہیں ہمارے پاس، لیکن اپنی آخرت خراب کرو، اب تو دل بھی نہیں چاہتا یقین جانیے ایک ایک درجہ ایسا آجاتا ہے کہ آدمی کہتا ہے یا اللہ ان کو ہدایت دے، یا اللہ ان کو ہدایت دے، یا اللہ ان کو ہدایت دے۔ اب تو ہماری طبعیت میں مصدر اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ دل سے دعا نکلتی ہے ہدایت تو دور کی بات ہے ہم ان کی ہلاکت کی دعائیں کرتے ہیں، علماء کرام کی ان مظلوموں کے دلوں سے جو بد دعائیں نکلتی ہیں تمہارے لیے، آہیں نکلتی ہیں، ان مظلوموں کے آہو سے ڈرو ان کی بد دعاؤں سے ڈرو، ان کی بددعاؤں کے نتیجے میں سوائے ہلاکت کے تمہارا کوئی اور انجام نہیں ہوگا۔ دنیا بھی تباہ اور آخرت میں بھی تباہ، یہ وہ لوگ ہیں،

اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (الکہف: 104)

کبھی اپنے اندر تذبذب مت پیدا کرو، پورے خود اعتمادی کے ساتھ رہو اور یہ کہو کہ میں اپنے آکابر کے عقائد نظریات ان کے منہج کا آمین ہوں، اس سے صحیح راستہ اور ہو نہیں سکتا۔ ہر علاقے کے اپنے حالات ہوتے ہیں، دوسرے ملک کے حالات پر اپنے آپ کو قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جو حالات آپ کو درپیش ہے انہی حالات کے تحت آپ نے فیصلے کرنے ہے۔

تو اللہ تعالی ہمیں اپنے آکابر کے راستے پر چلنے کی اور ان کے مشن کو زندہ رکھنے کی اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے، ان شاءاللہ یہ مدارس رہیں گے، یہ دارالعلوم حقا نیہ رہے گا، یہ دوسرے مساجد مدارس اور علماء رہیں گے، یہ داڑھیاں اور پگڑیاں رہیں گی، یہ علوم کا سلسلہ رہے گا اور دشمن دانت پیستا رہے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ہم نے تو ان کو ختم کرنے کا سوچا تھا اور یہ تو ابھی بھی زندہ ہے، پہلے سے زیادہ زندہ ہے۔ ان شاءاللہ ہم زندہ رہیں گے اور یہ مشن زندہ رہے گا ہماری مادی زندگی کا کوئی حساب نہیں ہے، لیکن ہمارا مشن چلتا ہے۔ آکابر کو پتہ تھا کہ فضل الرحمان پیدا ہوگا، مولانا سمیع الحق سے پیدا ہوگا، حامد الحق پیدا ہوگا ان کو تو پتہ نہیں تھا۔ لیکن آج ان کا مشن ان کے نام کے ساتھ زندہ ہے۔ اسی طرح کام کریں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ میں ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے پورے خانوادے سے، آپ تمام طلباء اور اساتذہ سے، شہداء کے ورثاء سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور تاخیر سے آنے کا عذر آپ کو معلوم ہے جو عیاں ہے۔ آپ عذر کو قبول فرمائیں گے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔