گزشتہ کئی سالوں سے انتہاپسندی کی اذیت ناک لہر نے مسلم ممالک کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص ایک گرداب میں ڈال رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان مجموعی طور پر عسکریت پسندی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اسلام کے ساتھ اس کا دور کا رشتہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، جہاں تک انفرادی طور پہ ایسے کچھ عناصر یا جماعتوں کا تعلق ہے جواس کا حصہ بنتے ہیں یا اس کی خاموش حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں تووہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں ہے۔انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان میں بہت سے اقدامات کیے گئے، جن میں ایک پہلو تعلیمی اصلاحات کا بھی ہے۔اس ضمن میں کئی نجی اداروں نے فروغِ امن کے لیے نصاب بھی وضع کیے اور سفارشات بھی مرتب کیں۔ اس مضمون میں ایسی ہی چند کاوشوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے تعلیمی اداروں کی اہمیت
انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے تعلیمی اداروں کا کردار بہت بنیادی سمجھا جاتا ہے۔پاکستان ایک طویل عرصے سے شدت پسندی کے مسئلے سے دوچار ہے اور اس ضمن میں جہاں دیگر بہت سے پہلوؤں پرتجاویز وسفارشات دی جاتی ہیں اور حل کے لیے اقدامات پیش کیے جاتے ہیں، وہیں ایک تجویز یہ بھی رہی ہے کہ انسدادٍ ِدہشت گردی کے لیے نصاب بھی تیار کیے جائیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر طاہر القاادری کا مرتب کردہ نصاب سب سے تفصیلی اور معروف ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی کئی اداروں اور شخصیات نے ’امن نصاب‘ مرتب کیے ہیں،یا کچھ کتب تیار کی ہیں جن کے ذریعے نوجوانوں کی ذہن سازی کی جاسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق،تعلیمی اداروں میں امن کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے ایک تو غیر نصابی سر گرمیوں کا انعقاد ،کھیلوں کی سرگرمیاں،سٹو ڈنٹس سوسائٹیزکا قیام جیسے اقدامات اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، مزید برآں نصاب میں پائیدار ترقی کے اہداف،امن، بنیادی انسانی حقوق اور آئین کے متعلقہ موضوعات شامل کیے جانے چاہیئں، جن سے نہ صرف نوجوانوں کی معلومات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے،بلکہ وہ موثر اور باخبر شہری کی حیثیت سے معاشرے کی بہتری میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو ان اہم مو ضوعات پر سیمینار ، کانفرنس، ورکشاپ ،تقریری مقابلہ جات ،مضمون نویسی اور شارٹ کورسز کا انعقاد کروانا چاہئے ۔پاکستان کو اس وقت بہت سے سیاسی ، سماجی، لسانی ،مذہبی ماحولیاتی اور فرقہ وارانہ تنازعات کا بھی سامنا ہے،جن سے نمٹنے کے لئے تعلیمی اداروں کوامن کاری پر کام کرنے والےمتعلقہ اداروں کے ساتھ شراکت داری بھی کرنی چاہیے،کیونکہ اس سے ان اہم مسائل کی تفہیم اور ان پر مکالمے کی فضا ہموار ہوگی۔ امن کے قیام اور تنازعات کے حل سے ہی پائیدار معاشی ترقی اورموثر جمہوریت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے اور ان کے ثمرات سے عوام براہ راست مستفید ہو سکتے ہیں۔
تعلیم انسانوں اورمختلف قومیتوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کے لئے ایک فعال ذریعہ ہے، جبکہ تعلیمی اداروں کوجن خیالات ،جدت طرازی اور تخلیقی علوم کا محور مانا جاتا ہے، وہ امن، برداشت ،ہم آہنگی،انسانیت کا احترام جیسی روایات کو پروان چڑھانے اور نوجوان نسل میں ان کے بارے میں آگاہی کے لئے کلیدی کردار کے حامل ہیں۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ پاکستانی اعلی تعلیمی اداروں میں مقامی تنازعات کے اسباب جاننے اور ان کے حل کے لئے تحقیق کی جانی چاہیے،اورسماجی علوم کے ماہرین کو اس کاوش میں شامل کرنا چاہئے ۔
امن نصاب
امن نصاب کے حوالے سے ایک کاوش ’ادارہ امن وتعلیم‘ نے بھی ہے کہ انہوں نے اس پر ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں حل تنازعات، مکالمہ اور رواداری جیسے موضوعات پر آسان زبان میں مواد شامل کیا گیا ہے۔ ’تعلیم، امن اور اسلام‘ نامی اس کتاب میں درج ذیل ابواب حصہ ہیں:
- تنوع: کائنات ا حسن
- اختلاف: اصول اور آداب
- امن اور سلامتی، معاشرے کی بنیادی ضرورت
- تعمیرِ امن اور حلِ تنازعات،اسلامی اقدار اور اصول
- تنازع کے بنیادی تصورات
- تنازعات کے دوران رویے
- تنازع اور تشدد کی صورتیں
- تنازع کے مراحل اور اسباب
- تنازعات کے حل کے مختلف اسالیب
- گفتگو کے آداب
- مکالمہ کی اہمیت اور اس کے اصول
- حقوق العباد کی ادائیگی ،امن کی ضمانت
- آئین پاکستان میں بیان کیے گئے بنیادی حقوق
- فرقہ واریت کا سدباب
مدارس کی سطح پر اقدامات
اس کے علاوہ کئی دیگر اداروں نے مدارس کے اندر بالخصوص کچھ اقدامات کرنے کی تجاویز دی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:
(1) مدارس کے اندرجملہ مکاتب فکر کے مابین ’مشترکات‘ کو فروغ دیا جائے۔
(2) جملہ مکاتب فکر غیرتربیت یافتہ افراد کو اپنی اپنی مساجد کے منبر و محراب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
(3) فرقہ واریت کے اسباب کا سدِباب کیا جائے۔
الف۔ دل آزار تحریروں اور تقریروں پر پابندی عائد کی جائے۔
ب۔ فتویٰ نما نعروں سے تمام علماء اپنے اپنے پیروکاروں کو روکیں۔
(4) اختلافات کے ہوتے ہوئے باہمی احترام اور برداشت کو فروغ دیا جائے۔
(5) تمام مکاتب فکر کے عقائد پر مشتمل، ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس میں ہر مسلک کا عقیدہ خود انہی کے جید علماء کرام پیش کریں۔
(6) ملکی سطح پر ایک ایسا فورم تشکیل دیاجائے جو تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام پر مشتمل ہو اور فتویٰ جاری کرنے کا اختیار اسی فورم کے پاس ہو۔
(7) مذہبی ہم آہنگی اور باہمی روابط و مکالمہ کا عمل دینی مدارس کے طلبہ کی سطح سے شروع کیا جائے۔
(8) دینی مدارس، جامعات اور مساجد کے نام عمومی اور قابلِ قبول ہونے چاہئیں جو مسلکی اختلافات کا تاثر نہ دیتے ہوں۔
(9) علماء کرام دین کی تبلیغ کو مقدم رکھیں، مسلک کے پرچار کو ترجیح نہ دیں۔
(10) ملکی سا لمیت اور امن و امان کو پیشِ نظر رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔
(11) فرقہ واریت کے نقصانات، خطرات اور تباہ کاریوں کی تقریری اور تحریری صورت میں نشاندہی کی جائے۔
(12) مسلکی ہم آہنگی کے لیے دوسرے مسالک کا مبنی بر انصاف تعارف شامل نصاب کیا جائے۔
(13) دینی مدارس اور عالمی دینی یونیورسٹیوں میں تعاون اور رابطے میں اضافہ کیا جائے۔
(14) تکفیر، خروج اور دیگر مسائل میں رائے دینے کے لیے تمام مسالک کے جید علماء اور اسکالرز پر مشتمل ایک فورم بنایا جائے۔
(15) مختلف مذہبی ایام پر مدارس و مساجد میں مشترکہ اجتماعات منعقد کیے جائیں۔
نصاب برائے فروغِ امن و انسدادِ دہشت گردی
پاکستان کو لگ بھگ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی لہر کا سامنا ہے۔اس صدی کے شروع میں جب پاکستان کو اس آگ کی تپش محسوس ہونا شروع ہوئی تو چونکہ یہ ایک نیا مسئلہ تھا، اس لیے اس کے مختلف پہلوؤں پر بحثیں ہونے لگیں۔ سال 2008 کے بعد جب یہ مسئلہ شدید ہونے لگا تو امن و امان کو بحال کرنے اور ملک میں انتہاپسندی کے خیالات کا توڑ کرنے کے وسائل و ذرائع پر بھی باتیں ہونے لگیں۔ علماء میں ڈاکٹر طاہر القادری وہ شخصیت تھے جنہوں نے اس مسئلے پر علمی و دینی تناظر میں تفصیلی موقف پیش کیا۔انہوں نے دہشتگردی و انتہا پسندی کے خلاف جامع فتوی دیا جو کہ 2010ء سے کتابی شکل میں دستیاب ہے۔ اس فتوی کاانگریزی، عربی، ہندی، سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے موضوع پر درجنوں کتابچے اور مقالات شائع کیے۔ پھر بعد میں جب آرمی پبلک اسکول کا سانحہ رونما ہوا تو انہوں نے باقاعدہ ایک تعلیمی نصاب مرتب کیا جس کا عنوان ہے ’نصاب برائے فروغِ امن و انسدادِ دہشت گردی‘۔ یہ نصاب بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، جو ملک کے مختلف طبقات کی تربیت کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔اگر عملا اس نصاب کو سرکاری سطح پر کہیں لاگو نہیں کیا گیا، لیکن اپنے مواد ، اہداف اور موضوعات کے لحاظ سے یہ ایک بہترین کاوش ہے۔ یہ نصاب کالجز، یونی ورسٹیز اور دیگر تعلیمی اِداروں کے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ اِنتہا پسندانہ فکر سے متاثر ہونے کے بجائے اِسلام کے تصورِ اَمن و سلامتی سے رُوشناس ہو کر معاشرے کے ذِمہ دار اور کارآمد اَفراد بن سکیں۔
آج نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے بہت بڑا چیلنج دہشت گردی ہے۔ اور بدقسمتی سے دہشت گردی کو آج اسلام اور جہاد سے جوڑا جارہا ہے۔ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے اسلامی نصاب کو پیش کرنے کا مقصد مسلم و غیر مسلم ہر فرد کو اسلام کی اصل تعلیمات سے روشناس کروانا ہے۔ دہشت گردی کے فروغ کے متعدد اسباب ہیں۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی، نظریاتی، ان تمام اسباب کا قلع قمع کرنے سے ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری کا یہ نصاب بہت ہی عمدہ کا وش ہے جس میں ان تمام اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اسلامی نقطہ نظر کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے تربیتی کورس تیار کیا گیا ہے۔
ذیل میں مختلف طبقات کی تربیت و ذہن سازی کے لئے تیار کئے گئے ’’قومی نصاب برائے فروغ امن‘‘ کے اغراض و مقاصد اور اجمالی خاکے درج کئے جارہے ہیں:
1۔ کورس برائے مسلح اَفواج
اَغراض و مقاصد
یہ کورس مسلح افواج کے جوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مسلح افواج کے جوانوں کی دہشت گردی و انتہا پسندی کے حوالے سے علمی و فکری تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہونے کی تحریک دینا ہے۔اس کے بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:
- اَفواجِ پاکستان میں دہشت گردی اور اِنتہا پسندی کے صحیح تصور کو اُجاگر کرنا۔
- دہشت گردوں کے خلاف عملی اِقدامات کا جذبہ پیدا کرنا۔
- دہشت گردی کے خلاف جنگ کی شرعی حیثیت واضح کرنا۔
- اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے حق میں اِستعمال کیے جانے والے مذہبی دلائل کے ردّ میں مذہبی آگہی فراہم کرنا۔
- اِس بات کو راسخ کرنا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ حقیقی جہاد ہے۔
دورانیہ:
یہ کورس تین دنوں کی تدریس پر مشتمل ہوگا۔ اس کو روزانہ آٹھ گھنٹے (دو گھنٹے کا ایک سیشن) کی صورت میں تین دن میں مکمل کروایا جائے گا۔
شرکاء کی تعلیمی قابلیت:
یہ کورس مسلح افواج کے افسران اور جوانوں کے لیے ہے۔
معلمین کی تعلیمی قابلیت:
مذکورہ مقاصد کے حصول کا انحصار مبلغین و معلمین کی فکری پختگی پر ہے۔ ٹریننگ کے لیے ایسے ماہرین ہونے چاہییں جو دینی علوم پر کامل دسترس کے ساتھ ساتھ بین المسالک،بین المذاہب،اور بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے عصری و تہذیبی مسائل کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
کورس کا اجمالی خاکہ
- اسلام کا تصورِ امن و سلامتی۔
- تنگ نظری سے انتہا پسندی، انتہا پسندی سے دہشت گردی تک کے تدریجی مراحل۔
- دہشت گردی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے مختصر جوابات۔
- حسن نیت سے بدی نیکی نہیں بن سکتی۔
- بغاوت کیا ہے اور باغی کون ہوتا ہے؟
- بغاوت اور اس کی سزا۔
- فاسق حکومت کے خلاف قتال کی شرعی حیثیت۔
- دہشت گردی اور بغاوت کے خلاف ائمہ اربعہ اور دیگر اکابرینِ اُمت کے فتاویٰ۔
- باغیوں کے بارے میں معاصر علماء کے فتاویٰ۔
- فتنہ خوارج، عصرِحاضر کے دہشت گرد خوارج ہیں۔
- خوارج، دہشت گرد اور فرامین رسول۔
- خوارج کے خلاف جہاد کی فضیلت۔
- جہاد اور قتال میں فرق۔
- فرضیت جہاد کے مراحل۔
- شرائط و آدابِ جہاد۔
2۔ کورس برائے اساتذہ کرام
اَغراض و مقاصد:
یہ کورس اساتذہ کرام کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد اساتذہ کرام کو دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف علمی و فکری تربیت دینا ہے تاکہ وہ مستقبل کے معماروں کو دہشت گردوں کے مذموم مقاصد سے آگاہ کر سکیں اور اُنہیں اَمن پسندی کی تعلیم دے سکیں۔ اس کورس کے بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:
- اساتذہ کرام کو بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ضروری مواد کی فراہمی۔
- انسانی جان کی تکریم و حفاظت اور اس کو ناجائز تلف کرنے کی حرمت پر قرآن و حدیث سے دلائل کی دستیابی اور متعلقہ لٹریچر کا تعارف۔
- دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی طرف سے دیے گئے مذہبی دلائل کا علمی ردّ۔
- تمام مذاہب و مکاتب کے کبار اَئمہ کی طرف سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت پر فتاوی جات سے مختصر آگہی دلانا۔
- جہاد کے حقیقی تصور سے روشناسی تاکہ عوام الناس کو غلط تعبیرات و تشریحات سے بچایا جاسکے۔
- سیاست، جمہوریت، مخلوط تعلیم، مغربی دنیا اور اس سے متعلقہ دیگر انتہا پسندانہ اَفکار میں اِعتدال پیدا کرنا۔
- دہشت گردی کے حرام ہونے اور اس کی مذمت کے حوالے سے اساتذہ کرام کی ذہن سازی کرنا تاکہ وہ دوران تدریس طلباء و طالبات کو اس بارے کماحقہ آگاہ کرسکیں۔
دورانیہ:
یہ کورس تین دنوں کی تدریس پر مشتمل ہوگا اس کو روزانہ آٹھ گھنٹے (دو گھنٹے کا ایک سیشن) کی صورت میں تین دن میں مکمل کروایا جائے گا۔
شرکاء کی تعلیمی قابلیت:
یہ کورس سکول اور کالجز کے اساتذہ کے لیے ہے۔
کورس کاجمالی خاکہ
- اسلام کا تصور اَمن و سلامتی
- مسلمان اور مومن: فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں
- حقیقی تصورِ دین
- دہشت گردی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالوں کے مختصر جوابات
- حسن نیت سے بدی نیکی نہیں بن سکتی
- دہشت گردی کے بارے میں ائمہ متقدمین کے اقوال
- دہشت گردی کے بارے میں معاصر علماء کے فتاویٰ
- مسلمانوں کے قتل کی ممانعت
- مسلم ریاست اور نظمِ اِجتماعی کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت
- بنیادی اِنسانی حقوق
- تفرقہ پروری کی موت کفر کی موت ہے
- غیر مسلموں کے حقوق
- اِسلام میں ممالک کی تقسیم (معاہدات و مواثیق کے تناظر میں)
- جہاد کا حقیقی تصور
- اسلام، خدمتِ انسانیت کا مذہب ہے
- دعوتِ فکر و اِصلاح
3۔ کورس برائے ائمہ و خطباء
اَغراض و مقاصد:
یہ کورس اَئمہ و خطباء کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد علماء کی دہشت گردی و انتہا پسندی کے حوالے سے علمی و فکری تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں تقریری اور تحریری مواد فراہم کرنا ہے۔اس کے بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:
- مساجد کو بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے استعمال کرنا۔
- دہشت گردوں اور اِنتہا پسندوں کی طرف سے دیے گئے مذہبی دلائل کا علمی ردّ
- اِسلام کی رحمت و شفقت، لطف و کرم، عفو و درگزر والی تعلیمات کو اُجاگر کرنا تاکہ اِنسانی سوچوں سے تنگ نظری اور اِنتہا پسندی کو ختم کیا جا سکے۔
- علماء و خطباء کو اُمہات الکتب کی طرف مراجعت اور ذوقِ تحقیق کی ترغیب دلانا
- محافل و مجالس اور جمعات کے خطابات کے لیے معروضی حالات کے مطابق عنوانات کی اہمیت اُجاگر کرنا تاکہ قومی سطح پرانسدادِدہشتگردی کی تحریک برپا کی جا سکے۔
- علماء کو نظم ریاست، ملکی قانون، اقوام متحدہ کے متعلقہ قوانین سے متعارف کروانا تاکہ وہ جدید عصری تقاضوں کے مطابق اِسلام کے بہترین ترجمان ثابت ہوسکیں۔
- علماء کو دین کی حکمت و مصلحت (Diplomacy of Islam) اور عالمی سیاسی و مذہبی نزاکتوں سے روشناس کرنا۔
- ریاست، فوج، قومی سلامتی کے اداروں کے تحفظ و احترام پر علماء کو مؤثر مذہبی مواد مہیا کرنا۔
- انسانی جان کی تکریم و حفاظت اور اس کو ناجائز تلف کرنے کی حرمت پر قرآن و حدیث سے دلائل کی دستیابی اور متعلقہ لٹریچر کا تعارف
- تمام مسالک و مکاتب کے مستند و معتمد اَئمہ (authentic scholars) کی طرف سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت پر فتاوی جات سے آگہی
- جہاد کے حقیقی تصور سے روشناسی تاکہ عوام الناس کو غلط تعبیرات و تشریحات سے بچایا جاسکے۔
- سیاست، جمہوریت، مخلوط تعلیم اور مغربی دنیا وغیرہ کے بارے میں انتہا پسندانہ نظریات میں اعتدال و توازن(moderation) پیدا کرنا۔
دورانیہ:
یہ کورس چوبیس گھنٹے کی تدریس پر مشتمل ہوگا اور اس کو روزانہ آٹھ گھنٹے (دو گھنٹے کا ایک سیشن) کی صورت میں تین دن میں مکمل کروایا جائے گا۔
شرکاء کی تعلیمی قابلیت:
یہ کورس اَئمہ و خطباء کے لیے ہے۔ اس کورس میں درس نظامی اسکالرز، علما، خطبا اور اسلامیات/عربی میں کم از کم بی اے تعلیمی قابلیت کے حامل افراد شرکت کر سکتے ہیں۔
کورس کااجمالی خاکہ
- اسلام کا تصور اَمن و سلامتی۔
- تنگ نظری سے انتہا پسندی، انتہا پسندی سے دہشت گردی تک کے تدریجی مراحل۔
- حُسنِ نیت سے بدی نیکی نہیں بن سکتی۔
- بنیادی اِنسانی حقوق۔
- تفرقہ پروری کی موت کفر کی موت ہے۔
- فرقہ پرستی کے خاتمے کا ممکنہ لائحہ عمل۔
- مسلمانوں کے قتل کی ممانعت۔
- غیر مسلموں کے قتل عام اور ایذا رسانی کی ممانعت۔
- مسلم ریاست اور نظمِ اِجتماعی کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت۔
- دہشت گردی کے خلاف ائمہ اربعہ و دیگر اکابرینِ اُمت کے فتاویٰ۔
- فتنہ خوارِج اور عصر حاضر کے دہشت گرد۔
- خوارج کے خلاف جہاد کی فضیلت۔
- سیرتِ نبوی کی روشنی میں اَہلِ کتاب اور غیر اَہلِ کتاب میں فرق۔
- غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے ساتھ تعلقات کے شرعی احکام۔
- اِسلام میں ممالک کی تقسیم (معاہدات و مواثیق کے تناظر میں)
- خلافت و جمہوریت۔
- جہاد کا اسلامی تصور۔
- عصر حاضر میں علماء کی ذمہ داریاں۔
- تکفیریت کا خاتمہ۔
- مسلم ریاست میں اِعلائِ کلمہ حق کا پُراَمن طریق۔
4۔ کورس برائے طلباء و طالبات کالجز و یونیورسٹیز
اغراض و مقاصد:
یہ کورس کالجز و یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد طلباء کو دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف علمی و فکری مواد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ دوران تعلیم بھی اور اپنی عملی زندگی میں بھی دہشت گردوں کے عزائم سے واقفیت کی بناء پر ان کے آلہ کار نہ بن سکیں۔ اس کورس کے بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:
- طلبہ کو اسلام کے حقیقی تصور جہاد سے روشناس کرانا۔
- بنیاد پرستی سے انتہاپسندی اور انتہاپسندی سے دہشت گردی جنم لینے کی تعلیم سے آگہی دلانا۔
- فتنہ خوارج اور عصر حاضر کے دہشت گردوں کے عقائد و نظریات سے متعلق معلومات دینا۔
- قرآن و سنت کے ذریعے دہشت گرد خوارج کی علامات بتا کر دہشتگردی کے خاتمے کا اہتمام کرنا۔
- اْمت مسلمہ کے زوال کے اسباب کو اجاگر کر کے عروج کیلئے خدمت دین اور احیاء اسلام کا جذبہ پیدا کرنا۔
- قیام امن اور محبت کے کردار کو اجاگر کرنا۔
- قلوب و اذہان میں رحم دلانہ جذبات و احساسات پختہ کرنا۔
- بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینا۔
- اعلی اخلاقی اقدار سے مزین ہو کر معاشرے کی اصلاح کا جذبہ پیدا کرنا۔
- مخرب اخلاق و کردار اشیاء سے اجتناب کا داعیہ پیدا کرنا۔
- ناامیدی و مایوسی کے رجحانات کا خاتمہ کرنا۔
- ملک و ملت کی تعمیر اور انکی شان و شوکت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کا جذبہ پیدا کرنا۔
- بزرگان دین کے احوال زندگی کے مطالعے کا شوق پیداکرنا۔
دورانیہ:
یہ کورس 15گھنٹے کی تدریس پر مشتمل ہو گا۔ایک کلاس ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل ہو گی اسطرح یہ کورس پانچ دن میں مکمل ہو گا۔
شرکاء کی تعلیمی قابلیت:
یہ کورس کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لئے ہے۔
معلمین کی تعلیمی قابلیت :
اس کورس کو پڑھانے والے کالج و یونیورسٹی کے ایسیاساتذہ، لیکچرار، پروفیسر حضرات ہونگے جو پہلے سے عربی، اسلامیات، اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھا رہے ہوں گے۔ ان افراد کو ترجیح حاصل ہوگی جنہوں نے اساتذہ کے لئے ترتیب دیا گیا نصاب ہذا باقاعدہ پڑھا ہوگا۔
کورس کا اجمالی خاکہ
- اسلام کا معنی و مفہوم
- اعتدال، بنیاد پرستی، انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی کا تصور
- غیر مسلموں کے قتل عام اور ایذا رسانی کی ممانعت
- مسلم ریاست اور نظمِ اجتماعی کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت
- فتنہ خوارج اور عصر حاضر کے دہشت گرد
- قرآن میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم
- قومی زندگی کا اجتماعی نصب العین
5۔ کورس برائے عامۃ الناس
اغراض و مقاصد:
یہ کورس عامۃ الناس کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد عوام الناس کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے عزائم سے واقفیت دلانا اور اسلام کی تعلیمات امن کو فروغ دینا ہے تاکہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے معاشرے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ اس کورس کے بنیادی مقاصد درج ذیل ہیں:
- دین اسلام کو بطور دین امن وسلامتی، عامۃ الناس میں متعارف کرانا
- دہشت گردی کے حوالے سے بنیادی معلومات فراہم کرنا
- جنت اور دوزخ کے حقیقی تصور کو اجاگر کرنا
- تصور جہاد اور تصور فساد کی وضاحت کرنا
- دینی تعلیمات کی روشنی میں عامۃ الناس کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے نظریات سے محفوظ رکھنا
- عامۃ الناس میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کیلئے اجتماعی جدوجہدکا شعور بیدار کرنا
- معاشرے میں قیام امن کے لئے اسلام کے انقلابی کردار سے روشناس کرانا
دورانیہ:
یہ کورس 6گھنٹے کی تدریس پر مشتمل ہو گا۔ایک کلاس 2 گھنٹے پر مشتمل ہو گی اس طرح یہ کورس3 دن میں مکمل ہو گا۔
شرکاء کی تعلیمی قابلیت:
یہ کورس عامۃ الناس اور چھٹی کلاس سے دہم کلاس تک کے طلبہ و طالبات کے لئے ہے۔
معلمین کی تعلیمی قابلیت:
اس کورس کو پڑھانے والے اسکول کے ایسے اساتذہ حضرات ہوں گے جو پہلے سے عربی، اسلامیات، اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھا رہے ہوں گے۔ اس کے علاوہ درس نظامی کے اسکالر،علماء، خطباء، اسلامیات /عربی میں کم از کم بی اے تعلیمی قابلیت کے حامل افراد بھی اہل ہوں گے۔ اُن اساتذہ اور ائمہ و خطباء افراد کو ترجیح دی جائے گی جنہوں نے اساتذہ اور ائمہ و خطباء کے لئے مرتب کردہ نصاب ہذا باقاعدہ پڑھا ہوگا۔
کورس کا اجمالی خاکہ
- دین اسلام کا تصور امن و سلامتی
- اسلام کا حقیقی تصور جہاد
- دہشت گردی، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی سے جنم لیتی ہے
- غیر مسلموں کے قتل عام، بدسلوکی اور ایذا رسانی کی ممانعت
- بغاوت کیا ہے اور باغی کون ہوتا ہے؟
- فتنہ خوارج اور عصر حاضر کے دہشت گرد، قرآن حکیم کی روشنی میں
- مسلم ریاست میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیلئے اجتماعی جدوجہد