افغان طالبان پر ابوبکر ریگر کی پیشگوئی

از محمد دین جوہر

0

افغانستان سے امریکی انخلا اور کابل پر طالبانی قبضے کے بعد، ایک جرمن فلسفی جناب ابوبکر ریگر نے اس صورت حال پر ایک مضمون یکم ستمبر سنہ ۲۰۲۱ء کو شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا:

The Theory of the Partisan cathes up with the Taliban

جناب ابوبکر ریگر نے مغضوبِ زمانہ معروف جرمن سیاسی مفکر کارل شمٹ کی کتاب The Theory of the Partisan کے حوالے سے بات کرتے ہوئے افغانستان میں اس وقت ظہور پذیر صورت حال پر ایک بصیرت افروز تبصرہ اور پیش گوئی کی تھی۔ اس مضمون کا آخری پیرا یہاں زیربحث ہے۔ (یہ مضمون اسی عنوان سے نیٹ پر موجود ہے)۔ جناب ابوبکر ریگر کا خیال ہے کہ حقیقی امن عدل کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا طالبان ریاستی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے کوئی عادلانہ معاشی نظام اور قوانینِ تجارت وغیرہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ مسئلہ ایک ایسی شرعی معیشت اور قوانین کا ہے جو جدید عہد میں قائم نظام کی ٹکر اور پائے کے ہوں۔ اس حوالے سے جناب ابوبکر ریگر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان کے طرف سے ایسے کسی عادلانہ معاشی نظام کے قیام کا امکان بہت کم ہے کیونکہ وہ سابقے لاحقے استعمال کرتے ہوئے جدیدیت کے پیدا کردہ نظاموں کو ہی ”اسلامی“ قرار دے دیں گے۔ اپنے مضمون کے آخری پیراگراف میں انھوں نے نہایت پربصیرت بات کی ہے اور جس کی حیثیت ایک پیش گوئی کی ہے کہ اس طرح کی ”اسلامی“ حکومتیں نظامِ عدل کے قیام میں ناکامی کے بعد سیاسی طاقت کے ذریعے اخلاقیات (اور ایمانیات) کے ”نفاذ“ میں مصروف ہو جاتی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ یہ امر متفق علیہ ہے کہ عدل کا قیام شریعت کا بنیادی ترین مطالبہ ہے۔ عدل ایسا امر الٰہی نہیں ہے جسے تقویٰ کی طرح صرف انفرادی ارادے سے قابل حصول بنایا جا سکے۔ عدل، سیاسی طاقت کے ذریعے ہی قائم کیا جا سکتا ہے اور سیاسی طاقت کا حصول یہ نہایت جانگسل، طویل اور صبرآزما پروسث ہے۔ جب مذہبی تحریکیں مذہب کے نام پر اقتدار پر قابض ہو جاتی ہیں تو ان کی قائم کردہ حکومتیں سیاسی طاقت کو انسان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی کے ایسے منطقوں میں بروئے کار لاتی ہیں جن کے ساتھ اس کا سرے سے کوئی براہِ راست تعلق ہی نہیں ہے۔ مثلاً داڑھی رکھوانا، برقعہ پہنوانا، پتلون وغیرہ پر پابندی لگانا، عورتوں کے لیے امتیازی قوانین بنانا وغیرہ۔ یاد رہے کہ ایمانیات اور اخلاقیات کا تعلق براہ راست حریت انسانی سے ہے اور سیاسی طاقت کے ذریعے ان کا نفاذ نہ صرف کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ یہ جبر اور ظلم کو ایک روزمرہ حقیقت بنا دیتا ہے۔ سیاسی طاقت کو عدل کے قیام کی بجائے، ایمانیات اور اخلاقیات کے نفاذ کا ذریعہ بنانا مذہب کی بنیادوں کو ہی مسمار کر دینے کا عمل ہے۔

عصر حاضر میں مذہبی سیاسی تحریکوں کا بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ اجتماعی اور تہذیبی امور کو اخلاقی اور ایمانی امور سے منفصل کرنے اور سیاسی طاقت کا جائز دائرہ کار متعین کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔ سیاسی طاقت کا اصل دائرہ نظامِ عدل کا قیام ہے اور عدل سیاسی طاقت اور معیشت کے کچھ اوصاف کا نام ہے۔ یہ عدل ہی ہے جو دینی معاشرت کو ممکن بناتا ہے، اور ہر فرد بھلے اس کا عقیدہ اور اخلاقیات کچھ بھی ہو دینی معاشرت اور عدل کے ثمرات سے بہرہ مند ہو سکتا ہے۔ قانون سیاسی طاقت کا سلبی پہلو ہے جبکہ عدل سیاسی طاقت کا ایجابی پہلو ہے۔ عدل کا براہِ راست تعلق قانون سے نہیں ہے بلکہ سیاسی طاقت کی ہیئت حاکمہ اور معیشت کی ہیئت سرمایہ سے ہے۔ عدل کے معنی میں معاشی عدل اولیت لیے ہوئے ہے جیسے کہ سود کا خاتمہ کرنا، زکوٰۃ کا نظام قائم کرنا، آزاد مارکیٹ کو قائم کرنا، مطلق حقِ تملیک عطا کرنا، حدود کا نفاذ کرنا وغیرہ۔ مالیاتی نظام سے سود کے خاتمے کی طرح آج کے عہد میں مسلم اولی الامر پر یہ بھی لازم ہے کہ حقیقی معیشت (real economy) جس پیداواری عمل (productive process) پر قائم ہوتی ہے وہ اس میں سے بے گانگی کے انسان کش عوامل اور قدر زائد سے ارتکاز سرمایہ کے حقیقی رجحانات کا شرعی احکامات کے ذریعے خاتمہ ممکن بنائیں۔ اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والی اسلامی تحریکوں کے پاس چونکہ ہم عصر دنیا کی تفہیم کے لیے کوئی سیاسی تھیوری نہیں ہے اس لیے انھیں جدید ریاست کی سطح پر شرعی احکام کو بروئے کار لانے کے وسائل سوجھ نہیں رہے۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے پیداکردہ معاشی نظام نے انسانی معاشروں کو زیر و زبر کر دیا ہے اور عالمی قرضوں کے جو پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں وہ کسی بحر خوں میں غرقابی کے منتظر ہیں۔ موجودہ خوفناک عالمی صورت حال میں مذہبی سیاسی تحریکوں کے پاس کہنے کو کچھ نہیں کیونکہ وہ یہ بھی سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ سرمائے اور سیاسی طاقت کی عالمی حرکیات میں ایک معمولی اور آلاتی حیثیت ہی رکھتے ہیں۔ جنھیں اپنا کچھ پتہ نہیں وہ دوسروں کو کیا سجھائیں گے۔

جدید عہد میں ذاتی ملکیت کا تصور بہت بڑے مکالمے کا موضوع ہے جس میں بظاہر سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت میں بھی ایک نزاع نظر آتا ہے جبکہ اس معاملے میں ان کی وجودی پوزیشن ایک ہے۔ تملیک کا مطلب بنیادی طور پر شے کی یا پروڈکٹس کی تملیک نہیں یا خدمات سے استفادہ نہیں ہے۔ ذاتی ملکیت کا اصل تصور تملیک زر ہے جو حریتِ انسانی کا اصل تقاضا اور انسانی معاشرت کی طبعی اساس ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام تملیک زر کو ختم کر کے جس حکمی زر (fiat money) کو نافذ کرتے ہیں اس سے انسانی معاشروں میں ہر طرح کے ظلم اور جبر کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے، اور انسانی معاشرت کے تار و پود ہی بکھر جاتے ہیں۔ شریعت جس انسانی معاشرے کا مطالبہ کرتی ہے جدیدیت اس کی بنیادیں ہی باقی نہیں رہنے دیتی۔ حکمی زر دراصل انسانی شعور و وجود کے نہاں خانوں تک سیاسی طاقت کے توسیع کو ممکن بنا دیتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ افغانستان میں حکمران علما کی جماعت ایک سنہری موقعے کو ضائع کر رہی ہے اور اس ناکامی سے اسلام کو ہم عصر دنیا میں طرزِ حیات بنانے کے امکانات مخدوش ہوتے جاتے ہیں۔ یہی مسئلہ اس وقت ایران اور سعودی عرب میں بھی موجود ہے جہاں سیاسی طاقت اپنے جائز دائروں میں کوئی فرمانروائی نہیں رکھتی اور اخلاقیات اور ایمانیات کے نفاذ کا شوق فراواں رکھتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
۔۔۔