(یہ افکار پریشاں ہیں اس لئے چند بے ربط جملے ہیں )
افغانستان میں پاکستان سے ناراضگی کے اسباب گہرے، پیچیدہ اور قدیم ہیں۔ بادشاہ کے دور سے لیکر نجیب، پھر دیگر اور بعد میں تال بان کا دور اول یہ سلسلے جاری رہے جدید دور میں کرزئی اور اشرف غنی نے باقاعدہ ہندوستان کیساتھ مشترکہ کام کیا۔ تالبان کی حکومت آئی تو پاکستان کی امیدیں زیادہ تھیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں ۔ چونکہ ایسے سینکڑوں واقعات کا عینی شاہد ہوں کہ پاکستان نے کہاں پر اور کیسے سپورٹ کیا۔ اس لئے اس بحث میں نہیں پڑتا۔
جبکہ جس ٹائم تالبان رہنما قطر جاتے یا دنیا کے کسی ملک میں بھی ۔ ان کے جیب میں شناختی کارڈ پاسپورٹ پاکستان کا ہوتا۔ اور یہ سپیس بیشتر بااثر افغانیوں کو دی گئی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان شناخت جیب میں ہونے کے باوجود کئی بار میں نے پاکستان کیخلاف شدید ناراضگی کے مظاہرے دیکھے۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں مگر ضرور ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کو appreciate کیا ہے اور یہاں کے زندگی کو ۔
محترم امیرخان متقی صاحب نے جو ہندوستان میں بیٹھ کر اردو میں جو کچھ کہا وہ اردو زبان انہوں نے پاکستان کی درسگاہوں سے سیکھی ہے۔
افغانستان کم ازکم مستقل قریب دس پندرہ سالوں میں پاکستان کے اثر سے نہیں نکل سکتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔
پاکستان ان تمام خرابیوں کے باوجود جو کہ ہمارے افغانی دوست بیان کرتے ہیں آج بھی اس خطے کا مضبوط ترین ملک ہے ۔ اگر آج افغانستان میں پاکستان کی نیشنلٹی کا اعلان کیا جائے تو نوے فیصد افغانستان شفٹ ہونے کےلئے تیار ہیں ۔
سفارتکاری سمیت عالمی فورمز پر افغانستان کے حوالے سے اور موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے دو بڑی کوششیں ہوئیں دونوں عمران خان کے دور میں پاکستان نے کی۔
ایران نے کئی لاکھ افغانیوں کو بہ یک جنبش قلم نکال دیا مگر کوئی احتجاج نہیں دیکھا گیا مگر یہاں پولیس کے بدسلوکی کی افغان بھائی کی ویڈیو نکل آئے تو مشرق و مغرب میں کہرام مچتا ہے اور افغانی بھائی دنیا بھر میں مہم چلاتے ہیں ۔ حالانکہ پولیس کا رویہ ہم سب کیلے ایک جیسا ہے۔
اسی طرح ازبکستان سمیت کئی ممالک کا رویہ بہت سخت ہے۔
مگرپاکستان کیلئے کوئی رعایت نہیں۔
افغانستان کے ایک قد آور شخصیت نے مولانا فضل الرحمن صاحب سے شکایتوں کے انبار لگائے ۔ مگر مولانا صاحب نے بہت آسان بھاشا میں سمجھایا کہ ایک لسٹ بنائیں اور تجزیہ کریں کہ پاکستان کی اچھائیاں زیادہ ہیں یا برائیاں ۔
میں ہمیشہ افغان بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ سب کی امریکہ مخالف اور روس مخالف میڈیا ٹرینڈ ہمیں بہت کم نظر اتی ہے مگر پاکستان مخالف بہت زیادہ ۔حالانکہ یہ جنگ پاکستان نے شروع نہیں کی بلکہ پاکستان اس کا متاثر رہا ہے۔ اور ابھی تک اس کی قیمت چکا رہا ہے۔
CIA نے نیٹ فلیکس پر جوسیریز شروع کی ہے ملا عمر کی حکومت کا خاتمہ۔ وہ پاکستان سے نہیں بلکہ تاجکستان سے شروع ہوا۔ پاکستان بہت بعد میں وار ان ٹیرر کا حصہ رہا۔ ہندوستان کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کسی بھی بڑی طاقت امریکہ سے کنفرنٹیشن میں جانے کے روادار نہیں تھا اور نہ ہے۔
ہمارے دانشور دوست نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کا تعلق پشتونوں کے کزن ریلیشن جیسا ہے۔ جس میں رشتہ داری کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ لیکن اس مؤقف سے افغانستان والی سائیڈ سے اتفاق کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان سائیڈ پر نہیں ۔ کیونکہ پاکستانی پشتونوں نے ہمیشہ افغانیوں کا ساتھ دیا۔ بلکہ ہمیشہ افغانیوں کے حق میں اپنی حکومت کیخلاف بولتے رہے۔ مہاجرین کے بیدخلی پر پشتون قوم پرست، مذہبی اور تمام سیاسی جماعتیں سمیت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت افغانیوں کیساتھ کھڑی نظرآئی ۔ البتہ افغانستان میں ہمیشہ کزن والا معاملہ رہا ۔
ایسا نہیں ہے دونوں سائیڈ پر سنجیدہ و فہمیدہ لوگ نہیں ہیں ۔ لیکن افغانستان کے غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویے نے پاکستان میں افغان دوست سیاستدانوں ، دانشوروں ، صحافیوں ، قوم پرستوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا اور رفتہ رفتہ اب وہ افغانستان سے تعلقات کے حق میں اس طرح سرگرم نظر نہیں آرہے۔
افغانستان سائیڈ پر بھی پاکستان کے حوالے سے مثبت آوازیں موجود ہیں مگر وہاں جو ماحول ہے اس میں خاموشی ہے۔
اس تمام معاملے میں خلیفہ سراج صاحب وزیرداخلہ بھی ایک بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے شائد وہ بھی خاموش ہیں اور خاموشی کے وجوہات بھی گہرے ہیں ۔ ۔ سراج صاحب پاکستان کے مزاج کو بھی جانتے ہیں اور بات چیت کا طریقہ کار بھی۔ وہ میڈیا پر غیر سنجیدہ موقف کی بجائے ٹیبل ٹاک کے شخصیت ہیں ۔ اسی طرح دوحہ کی ٹیم بھی اب پس منظر سے غائب ہے جو کہ بات چیت کا ہنر جانتی تھی۔ !
ہمارے ہاں دیوبند کا وزٹ بہت ہائی لائٹ رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیوبند کا گزشتہ بیس سالہ موقف یہ رہا کہ تالبان دہشت گرد ہے اور رابطہ عالم اسلامی سمیت ہر عالمی فورم پر اجتماعی فتووں میں دیوبند نے افغان تالبان کے مسلح جدوجہد کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستانی دیوبندی اداروں نے اس جدوجہد کو سراہا ہے۔بلکہ میرے سامنے کئی صحافیوں نے مولانا سمیع الحق شہید پر اعتراض کئے کہ دیوبند اس مسلح جدوجہد کو غلط اور خلاف شریعت سمجھتا ہے مگر آپ کا ادارہ دیوبند ثانی اس کو جائز کیوں کہتے ہیں ؟ مولانا صاحب اس کے کئی جواب دیتے جو کہ آج بھی دماغ میں نقش ہے ۔
لیکن ایک دوست نے پوچھا کہ افغان وزیرخارجہ اور ملا بردار سمیت کئی اہم شخصیات نے دارالعلوم حقانیہ کا وزٹ کیا ہے ؟ میں نے معلومات کی تو نہیں کی۔ بلکہ یہ بتایا گیا کہ دو اعلی حکام کے بیٹے وہاں سے گریجویٹ ہوئے تو دستاربندی اکوڑہ خٹک کے کیمپ میں کی لیکن دارلعلوم حقانیہ تشریف نہیں لائے۔ ( شائد ان کے شان کے خلاف ہوگا یا کوئی اور حکمت ہوگی)
بہرحال افغان وزرا جہاں بھی جاسکتے ہیں لیکن اس کو پھر ایک جدید ریاست کا نام دیں ، جس میں وفاداری ، دوستی ، مذہبی وابستگی اور اسلامی روایات نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ مفادات پر تعلقات قائم رکھے جاتے ہیں ۔ اور اس کیلئے مسلمانوں کے قاتل اور کشمیریوں پر جبر کرنیوالا نریندر مودی کیوں نہ ہو۔ جہاں بابری مسجد کو مندر بنانے والے سے یاری کیوں نہ کرنی پڑی۔ جہاں BBC کے مطابق گجرات میں مسلمانوں ذبح کرنیوالا کیوں نہ ہو۔ بہرحال یہ مسئلہ اسی طرح پیچیدہ رہیگا لیکن یہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے حق میں بالکل نہیں ۔
افغانستان کے دوست نے پوچھا کہ چھ ہزار ٹی ٹی پی کے بدلے ہم چالیس لاکھ مہاجرین کو کیوں سولی پر چڑھایا جارہا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہزار بار سوچ کے باوجود یہ بات مجھےبھی سمجھ نہیں آتی ۔
آخری گزارش !
بہرحال باوجود اختلافات کے پاکستان اور افغانستان پڑوسی ہیں وہ ایک دوسرے کیلئے بہت اہم ہیں ۔ عوام کا بھی ایک دیرینہ تعلق ہے وہ اس طرح کے بیانات اور سطحی اقدامات سے خراب نہ کیا جائے۔
بلکہ دونوں طرف سے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئے۔
از اسرار مدنی