انسانی سمگلنگ کے دلخراش المیے
پاکستان سے دنیا بھر میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کوئی نیا موضوع نہیں۔ لیکن، گزشتہ چند دہائیوں سے اس میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اب اِس ہفتے ہونے والا واقعہ اس سلسے میں ایک نیا اضافہ ہے۔ پاکستان دنیا کے ان سرفہرست 20 ممالک میں شامل ہے جہاں سے غیرقانونی طور پہ لوگ دیگر ملکوں میں جاتے ہیں۔رپورٹس کے مطابق ہر سال پاکستان سے لگ بھگ بیس ہزار سے زائد نوجوان بہترزندگی کی تلاش میں یورپ اور دیگر ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہوتے ہیں جو راستے کی مشقت،بیماری یا سرحدی محافظین کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
چند ماہ قبل ہی ایک اور کشتی حادثے میں پاکستان کے 60 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں قومی ہاکی ٹیم کی کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں۔ اُس وقت اقوام متحدہ نے پاکستان سے انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے حکومت کو دس سفارشات پیش کی تھیں جن پر عملدرآمد کرکے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان اقوام متحدہ کے ان تمام قوانین وضوابط کا پابند ہوجائے گا جن کے تحت اس کی سرحدوں سے غیرقانونی نقل وحمل کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ آئے روز جنم لینے والے ان المیوں کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر سنجیدہ عملی اقدامات کرے اور مقامی سطح پر اس مسئلے کی سماجی ومعاشی جہات پر بھی توجہ دے۔
انسانی سمگلنگ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی، بے روزگاری اور غیرمحفوظ سرحد ہے۔پاکستان سے انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک تو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور دوسرا ملک سے باہر جانے کے لیے قانونی سطح پر مراکز کھولنے کے ساتھ ساتھ آگہی پھلائی جانی چاہیے۔اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔