پاکستان میں مذہبی آزادی کا سوال: دستوری مباحث

0

پاکستان کے وجود میں آنے اور اس کے قیام کے لیے تحریک چلانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بطور اقلیت مسلمانوں کو ہندو اکثریتی سماج میں مشکلات پیش آئیں گی اور انہیں مساوی حقوق سے محروم کیا جائے گا۔ اس لیے مسلمانوں نے ایک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔بانیانِ پاکستان نے اسی لیے پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے وعدے کیے اور عملی طور پہ اقلیتوں کو عہدے بھی دیے۔لیکن وقت کے ساتھ ملک میں اقلیتوں کے لیے مسائل پیداہوئے جس پر ماہرین اپنی مختلف آراء دیتے ہیں۔ اس مضمون میں پاکستان کے دستوری و قانونی مباحث کے تناظر میں اختصار کے ساتھ ایک عمدہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ظفراللہ خان ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات‘(PIPS) کے سابق سربراہ اور’  قومی کمیشن برائے انسانی حقوق‘ کے ممبر رہے ہیں۔ آج کل وہ تھنک ٹینک ’’وِژن 2047 ء‘‘کے سربراہ ہیں۔

عصرِحاضر میں مذہب وریاست کا تعلق

مذہب اور ریاست کا آپس میں کیاتعلق ہے؟یہ ایک قدیم سوال ہے۔ مختلف الہامی مذاہب اور ادیان میں ریاست کا کیا تصور ہے اور انسانی فکر سے تشکیل پانے والے مذاہب اور عقائد  اس سوال کو کیسے ڈِیل کرتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی جستجو ہمیں 21 ویں صدی کی  جدید ریاست میں مذہبی آزادی کے سوال اور  جواب کی کھوج میں معاونت کر سکتی ہے۔ تاریخ اور سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں نے  مذہب اور ریاست  کے سوال پر تھوڑی بہت تحقیق کی ہے۔ ابراہیمی مذاہب میں یہودیت قدیم ترین ہےاور ڈیوڈ اور گولیاتھ کی کہانی – قصہ سناتی ہے کہ کس طرح کمزور ظالم پر غالب آسکتے ہیں۔ ڈیوڈ(داؤدؑ)  کے بیٹے سلیمانؑ کے تخت کے قصے ہمیں بائبل اور قرآن مجید میں ملتے ہیں ۔ گویا یہودیت میں دنیاوی حکمران کا تصور موجود تھا۔ عیسائیت کی تاریخ دیکھیں تو حضرت عیسیؑ کو صلیب پر مصلوب ہونے سے  آسمان پر اٹھائے جانے کی روایات اور عقائد موجودہیں۔ لیکن دنیا میں مسیحیت کا چراغ سینٹ پیٹر کی نگر نگر تبلیغ کی بدولت زندہ رہا۔ مسیحیت کو پہلی دنیاوی ریاست اس وقت نصیب ہوئی جب شہنشاہ کانسٹنٹائن نے مسیحیت اپنائی ۔

آخری الہامی دین ،اسلام کے مکی اور مدنی ادوار میں ہمیں ہجرت حبشہ، ہجرت مدینہ، میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ،معاہدہ نجران اور خطبہ حجتہ الوداع کی صورت میں  جدید ریاست کے وہ سارے خدوخال ملتے ہیں  جو مختلف العقائد  افراد کےمابین  رواداری، برداشت اور بقائے باہمی کے جدید ترین اصول فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دستاویز میں مذہبی  اور نسلی قومیتوں کے وجود کا آئینی اور سماجی اقرا راور سماج کی نمو کے لئے  ایک لچکدار رویہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اگر دنیاوی افکار (کم از کم ان کا الہامی اقرار موجود نہیں) سے تشکیل پاتے عقائد کی بات کریں تو ہندومت میں ریاست اور ’’ڈنڈے‘‘ کا تصور نمایاں نظر آتا ہے جس کا اظہار آج کے ہندوستان میں ہمیں ’’ہندومت کی اصلیت کی تلاش میں‘‘ جابجا ملتا ہے۔ سکھ مت میں بھگت پر زور تھا لیکن اب ہمیں اس میں سیاسی بھگت/شکتی کی سعی بھی نظر آتی ہے۔بدھ مت بادشاہت سے  سدھارتا کی جستجو کا سفر ہے۔ شہزادہ  گیان کی آرزومیں تخت سے دور ہوا۔ تاہم آج بدھ مت بھی سری لنکا اور دیگر  چند ممالک میں عصری سیاست میں گیان کی تلاش میں نظر آتی ہے۔میرا محدود مطالعہ اس سے  زیادہ لکھنے کی اجازت نہیں دیتا تاہم یہ اشارے اہل علم کو  اس موضوع پر غور و فکر کی دعوت ضرور دیتے  ہیں۔ اور میں تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے  اپنی اصلاح کے لئے دستیاب ہوں۔ تاہم اپنے ناقص مطالعہ اور فہم کی بنیاد پر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ  اسلام واحد الہامی دین ہے جو ابتداء سے ہی اپنی سوچ اور اپروچ  میں کثیر الفکر ہے۔ چارٹر آف مدینہ  جسے  دنیا  کا پہلا تحریری دستور گردانا جاتا ہے اس میں دیگر عقائد کی نشوونما اور سماجی بقاء کی بات کی گئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نبی مہربانﷺ کو رحمت العالمین کہا جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے پس منظر میں مذہبی آزادی

کہا جا سکتا ہے کہ قدیم ریاست فاتحین کا  سب کچھ قبول کرنے اور  مفتوحین کو ہر طرح سے زیر کرنے کا نام تھا۔ لیکن آج ہم جدید ریاست کے شہری ہیں۔ قومیت کے تصور کے اردگرد جدوجہد کثیر العقائد ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں ہمیں مولانا ابو الکلام آزاد دوسری صف میں کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ دلت رہنما جوگندراناتھ منڈل  پاکستان کے قیام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ مسیحی سیاست دان دیوان بہادر  ایس پی سنگھا پنجاب اسمبلی کے  اسپیکر کی حیثیت سے پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔  ان اشاروں کی مدد سے دلیل بنائی جا سکتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں قیام پاکستان میں برابر کی شریک تھیں لہذا انہیں ’’ذمی‘‘نہیں بنایا جا سکتا ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک کثیرالفکر اور کثیرالمذاہب ملک ہے جہاں شہریوں کو باہم مل جل کر رہنا ہوگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ 10  اگست 1947 ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا تو جوگندراناتھ منڈل اس کے عبوری صدر تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر رہنما اس سے بڑا  پیغام نہیں دے سکتے تھے۔ 11 اگست 1947ء کی تاریخی تقریر میں بانی  پاکستان  نے اس بات کی واشگاف الفاظ میں وضاحت  کر دی:

’’مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ ہندوستان کی تقسیم سے متفق نہیں ہیں اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے بھی اتفاق نہیں رکھتے۔ اس کے خلاف بہت کچھ کہا جا چکا ہے لیکن  اب  کے اسے منظور کر لیا گیا ہے۔

ہم سب کا فرض ہے کہ وفاداری کے ساتھ  اس فیصلہ پر قائم رہیں اور جو معاہدہ حتمی طور پر ہو چکا ہے اور جس کے ہم سب پابند ہیں۔ اس معاہدہ کا احترام کریں اور اس کے مطابق عمل کریں  لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے،  آپ حضرات کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو عظیم انقلاب  ہمارے درمیان رونما ہوا ہے تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جہاں کہیں ایک فرقہ کے لوگ اکثریت میں ہوں اور دوسرے فرقہ کے لوگ اقلیت میں ہوں تو ان دونوں کے درمیان جس طرح کے احساسات پائے جاتے ہیں انہیں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہوا ،کیا اس کے برعکس ہونا، ممکن یا قابل عمل تھا؟ تقسیم بہرحال ہونی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں  ملکوں میں آبادی کے ایسے حصے موجود ہیں، جو اس سے متفق نہ ہوں گے اور  جو اسے پسند نہ کرتے ہوں گے۔ لیکن میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا  اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل کی تاریخ سے  اس فیصلہ کی توثیق ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ خود ہمارے تجربوں سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ  ہندوستان کے آئینی مسئلہ کا واحد  کا حل یہی تھا۔ متحدہ ہندوستان کا کوئی بھی تصور  ہرگز قابل عمل نہ ہوتا اور میں  اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کا نتیجہ ہمارے لیے  خوفناک تباہی کی صورت میں نکلتا۔ ممکن ہے وہ نظریہ درست ہو، ممکن ہے، وہ درست نہ ہو۔ یہ تو بعد میں ظاہر ہو گا۔ بہر حال یہ بات غیر ممکن تھی کہ ا س تقسیم  کے دوران، ایک یا دوسری ریاست کے اندر اقلیتوں کے معاملہ کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ یہ سوال تو نا گزیر تھا۔ اب اس کا کوئی حل نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ پھر ہم کیا کریں؟ پاکستان کی عظیم ریاست کو اگر ہم آسودہ، خوشحال اور ثروت مند بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں عوام کی فلاح پر تمام تر توجہ مرکوز کرنی  پڑے گی اور ان میں بھی  عام لوگوں بالخصوص نادار آبادی کی فلاح مقدم ہے۔ اگر آپ نے ماضی کی تلخیوں کو فراموش کر کے اور ناگواریوں کو دفن کر کے ، باہم تعاون سے کام  کیا تو آپ کی کامیابی یقینی ہے اگر آپ نے ماضی کی روش بدل دی اور آپس میں مل جل کر اس جذبہ کے ساتھ کام کیا کہ  آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ کسی بھی فرقہ سے ہو ،خواہ ماضی میں آپ کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کچھ بھی رہی ہو۔   اس کا رنگ، ذات یا  مسلک کچھ بھی ہو ، وہ شخص اول و آخر اس  ریاست کا شہری ہے  اور اس کے حقوق ، مراعات اور فرائض برابر کے ہیں،تو یاد رکھئے کہ آپ کی ترقی کی کوئی حدو انتہا نہ ہوگی۔

میں اپنی بات اس سے زیادہ شدو مد سے نہیں  کہہ سکتا۔  ہمیں اسی جذبہ کے ساتھ کام شروع کرنا چاہئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ، اکثریتی اور اقلیتی فرقے،ہندو فرقے اور مسلمان فرقے کے یہ سارے امتیاز ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان میں بھی آپ کے درمیان پنجابی، پٹھان، شیعہ ، سنی اور  بہت سے امتیاز اور ہندوؤ میں برہمن،   وشنو ، کھتری ، اس کے علاوہ بنگالی اور مدراسی  وغیرہ کے اختلاف موجود ہیں، اور  اصل میں  اگر مجھ سے  پوچھیں تو میں یہی کہوں گا کہ ہندوستان کے لئے آزادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی تھی، اورا گر یہ امتیازات نہ ہوتے تو ہم لوگ مدتوں پہلے آزاد ہو گئے ہوتے۔کوئی طاقت کسی قوم کو اور وہ بھی چالیس کروڑ  باشندوں کی قوم کو اپنا غلام بنا کر نہیں رکھ سکتی۔ کوئی فرق، آپ کو فتح نہیں کر سکتا اور اگر یہ حادثہ ہو بھی چکا تھا تو کسی بھی عرصہ کے لئے اپنا تسلط برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔بشرط یہ کہ تفرقہ کی  یہ صورت نہ ہوتی۔ لہذا اس تجربہ سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ آپ آزاد ہیں، آپ کاملاً آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں۔ آپ کو پوری آزادی ہے اپنی مساجد کا رخ کریں۔ یا پاکستان کی ریاست میں جو بھی آپ کی عبادت گاہیں ہیں ، ان میں آزادی سے جائیں۔ آپ کا کوئی بھی مسلک، ذات یا مذہب ہو سکتا ہے۔ ریاست کے امور سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ، تاریخ سے ظاہر ہے کہ  کچھ عرصہ پہلے برطانیہ میں  بھی اس ملک کے حالات ، ہندوستان کے موجودہ حالات سے کہیں بدتر تھے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ  دونوں ایک دوسرے پر عذاب توڑتے تھے۔  حتی کہ اب بھی بعض ریاستیں مو جود ہیں، جہاں کسی خاص طبقہ کے خلاف امتیاز برتا جاتا ہے۔ اور اس پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، خدا کا شکر ہے کہ  ہم نے اپنا آغاز اس  دور میں نہیں کیا۔ بلکہ ہم نے ابتدائے کار اس دور سے کی ہے، جب دو فرقوں کے درمیان کوئی تخصیص اورکو ئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ ایک ذات یا ایک عقیدہ اور  دوسری ذات یا دوسرے عقیدہ کے لوگوں میں  کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہم اپنے معاملات کا آغاز اس بنیادی اصول کے ساتھ کر رہے ہیں کہ  ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں۔  برطانیہ کے باشندوں کو وقت گزرنے کے ساتھ، حالات کے حقائق کا مقابلہ کرنا پڑا اور  برطانوی حکومت کی جانب سے جو ذمہ داریاں اور فرائض ان پر عائد ہوتے تھے،  ان سے عہدہ برا  ہونا پڑا۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے، وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے گئے۔  آج آپ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ  اپنا جداگانہ وجود نہیں رکھتے۔ موجودہ حقیقت یہ ہے کہ  ہر شخص برطانیہ کا شہری ہے، برابر کا شہری ہے اور سبھی افراد ایک قوم کے ارکان ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اس حقیقت کو ہمیں بھی بطور مثال پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندو، ہندو نہیں رہیں گےاور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں ، کیونکہ یہ تو ہر فرد کے نجی عقیدہ کا معاملہ ہے۔ بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بنا  پر سیاسی معنوں   میں۔‘‘

میں نے  جان بوجھ کر بانی پاکستان کی 11 اگست 1947 ء کا یہ طویل اقتباس اہل علم و دانش کے سامنے رکھا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہندوتوا کی سیاست  کے بعد جناح کا ویژن تاریخ کے کٹہرے میں  ایک سچائی ثابت ہوا۔ تاہم دکھ کی بات یہ ہےکہ  جناح کے پاکستان میں بھی فکری اور سماجی  زوال بے مثال ہے۔ ہم اپنی محدود سی اقلیتوں کو بھی  اچھی جمہوری ڈیل اور  بھرپور سماجی تحفظ نہیں دے سکے۔

پارلیمانی کلچر اور مذہبی اقلیتیں

اگر آج پاکستان میں پارلیمانی آکائیوز کا کلچر ہوتا تو  ہمارے پاس  ممبران  کاوہ کا رجسٹر بھی ہوتا جس پر 10 اگست 1947 ء کو پہلے جوگیندراناتھ منڈل اور  دوسرے نمبر پر قائداعظم محمد علی جناح نے دستخط کئے۔ 12 اگست 1947 ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں بنیادی حقوق اور اقلیتی امور پر پہلی پارلیمانی کمیٹی بنی۔ اس کمیٹی کے کام سے یہ سامنے آیا کہ برہمن ہندو جو کہ پاکستان  نیشنل کانگریس کی نمائندگی  کرتے تھے، سیکولر ریاست کی طرف مائل تھے۔ یہ تاریخ ہماری قومی تاریخ سے  اسمبلی کی کاروائیوں تک غائب ہے۔تاہم مسلم لیگ کا میلان شودر اور دلت طبقات کے حقوق کی  طرف تھا۔  اس امر کا اعتراف اور اظہار ہماری پارلیمانی کاروائی میں ملتا ہے۔ یہ بات 1956 ء کے دستور میں طےہوئی کہ  چھوت چھات  کا خاتمہ اسلامی جمہوریہ پاکستان  میں بنیادی حق ہوگا۔ جب دو نومبر 1953 ء کو  پاکستان کا نام باقاعدہ طور پر  اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تو کم و بیش  وہی پارلیمانی مباحث سامنے آئے جو مارچ 1949 ء میں قرار داد  مقاصد پر بحث کے دوران سامنے آئے تھے۔ تاہم قرار داد مقاصد میں  مذہبی اقلیتوں کو  آزادانہ طور پر  اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کا حق دیا گیا تھا جو کہ 1985 ء  میں جنرل ضیاءالحق  کی چھتری تلے 8 ویں ترمیم کے ذریعہ چھین لیا گیا  اور یہ 2010 ء میں 18 ویں آئینی ترمیم  کے ذریعہ واپس آیا  ۔ تاہم اس وقت تک سماج میں آزادانہ تبلیغ و ترویج کی گنجائش سکڑ کر صفر تک پہنچ چکی تھی۔لیاقت نہرو پیکٹ اگرچہ ایگزیکٹو  کی سطح پر ہوا  تاہم اس کے بعد ہمیں ’’لااکراہ فی الدین‘‘کے سرکاری اشتہار نظر آئے اور یرغمال بچے اور عورتیں رہا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مذہبی اقلیتوں کے لئے  جداگانہ طریقہ کار برقرار رکھنے پر بھی  سیاسی اور پارلیمان تنازعات سامنے آگئے۔دوسری دستور ساز اسمبلی میں سی گبن کو ڈپٹی اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا،تاہم پارلیمنٹ میں ان کی تصویر 21 ویں صدی ہی میں لگ پائی ۔ شاید ہم مذہبی اقلیتوں کے سیاسی اور پارلیمانی  کردار   کے  اعتراف سے گریزاں ہیں۔

پہلے دستور میں تو مذہبی اقلیتیں کسی نہ کسی  انداز میں  موجود تھیں، تاہم 1962 ء  کی اسمبلی میں دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والا  ایک بھی ممبر پارلیمانی اداروں میں موجود نہ تھا۔ یہ روش 1969 ء تک رہی ۔ 1970 ء میں بالغ رائے دہی پر ہونے والے  انتخابات میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے  اشخاص کی کامیابی انتہائی محدود تھی۔ جب اپریل 1972 ء میں  پاکستان کی اسمبلی نے کام کرنا شروع کیا تو  اس میں واحد ایک راجہ تری دیو رائے تھے  جن کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ اس موقع پر اسلام اور نظریہ پاکستان سے وفاداری پر مبنی  حلف آیا تو مولانا مفتی محمود  نے اس کی مخالفت کی۔  بعد ازاں  اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔ 1985 ء میں غیر جماعتی  انتخابات کے موقع پر  مذہبی اقلیتوں کے لئے جداگانہ انتخابات کا  نظام رائج ہوا اور پورا  ملک ان کےلئے حلقہ انتخاب تھا۔ 1985ء میں قومی اسمبلی میں عام نشستیں 207 اور خواتین کی نشستیں 20 تھیں جو آج بڑھ کر 272 عام اور خواتین کی 60 نشستیں ہوچکی ہیں۔ جبکہ مذہبی اقلیتوں کی نشستیں 1985 ء سے آج تک 10 ہی ہیں  جیسا کہ ان کی آبادی میں کوئی اضافہ ہی نہیں ہوا۔ ویسے اگر 2017 کی مردم شماری کے نتائج دیکھیں تو  واقعی مذہبی اقلیتوں کی تعداد پاکستان میں کم ہو رہی ہے۔

مذہبی اقلیتوں کو سیاسی آزادیاں تو قانون اور آئین کے مطابق حاصل ہیں ۔ آئین  پاکستان کے کم از کم 17 آرٹیکل  انھیں تحفظ دیتے ہیں  کہ ان کے مذہب کے خلاف ان پر ٹیکس نہیں لگ سکتا، نہ ہی انہیں ان کے مذہب کے خلاف تعلیم دی جا سکتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔

مساویانہ شہریت کا تقاضا

دنیا میں 54 سے زائد ممالک کے دساتیر میں مذہب کا ذکر ہے تاہم شہریت میں مساوات کا تصور  بالکل وہی ہے جو بانی پاکستان نے  اپنی 11 اگست 1947 ء کی تقریر میں دیا تھا۔ ملازمتوں میں اقلیتوں کے کوٹہ سے پہلے بھی  دیگر عقائد کے لوگ ملازم تھے ۔ مخصوص سیاسی نشستوں سے پہلے بھی  دیگر عقائد سے تعلق رکھنے  والے افراد سینیٹر تھے آج ہماری قومی اسمبلی میں ایک اقلیتی رکن براہ راست رکن قومی اسمبلی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اقلیتی کوٹہ کی مساوات سے آگے بڑھ کر قدم ہے۔

آج پاکستان میں 11 اگست کو اقلیتوں کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے حالانکہ اس دن یہی پاکستان کی شہریت میں مساوات کے دن  کے طور پر منایا جانا چاہیے۔

پاکستان کے دستور اور آئین کے مطابق مساویانہ شہریت پر مبنی  سماج کی اچھی خاصی گنجائش موجود ہے۔ تاہم سماجی سطح پر تلخیاں بڑھ چکی ہیں۔ سندھ میں ہندو عقیدہ سے تعلق رکھنے والے اچھے خاصے لوگ ہیں اور 21 ویں صدی  میں وہاں ایک براہ راست قومی اسمبلی ، دو براوہ راست ممبران صوبائی اسمبلی اور ایک خاتون سینیٹر براہ راست موجود  ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کی سیاسی جماعت کا میلان اور اقلیتوں کی نسبتاً مضبوط معیشت ہے۔ کرسچن آبادی کو ان کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو  قومیائے جانے کے بعد  اچھا خاصا دھچکا لگا۔ آج بھی ان کی زیادہ تر آزمائشیں چرچ پراپرٹی پر قبضوں کے حوالے سے ہیں۔ پاکستانی سکھوں کے لئےکرتار پور کے بعد  سیاسی اور سماجی فضا نسبتاً بہتر ہے۔

پارلیمان کا کردار

پاکستانی پارلیمنٹ نے  اقلیتوں کے عصری مسائل کے حوالے سے  بہت کم بحث و مباحثہ کیا ہے۔ اگر چہ سپریم کورٹ آف پاکستان اقلیتوں کے  حقوق کے تحفظ کے حوالے سے کبھی  ایک اہم فیصلہ دے چکی ہے جس کا باقاعدہ مانیٹرنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم باوجود کوششوں کے متروکہ وقف  املاک کا آج تک کوئی سربراہ  مذہبی اقلیتوں سے نہیں آسکا حالانکہ  یہ لیاقت نہرو کے معاہدہ کی روح تھی  اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اس بابت رائے دے چکی ہے۔ اس طرح اقلیتوں کے حوالے سے حقوق کمیشن  ایگزیکٹو   کے دائرہ عمل میں ہے اور باوجود مطالبات کے کوئی آزاد کمیشن نہیں بنایا جا سکا۔ اس طرح مذہبی اقلیتوں کو جبری   تبدیلی مذہب اور  تعلیمی نصاب کے حوالے سے شکایات ہیں۔ پارلیمان جبری تبدیلی مذہب کا  جائزہ لینے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنا چکی ہے جس کے نہ دانت ہیں نہ ہاتھ پاؤں۔ اس طرح اقلیتوں کے حوالے سے قانون سازی بھی  مشکلات کا شکارہے  تاہم پرسنل لاء کے حوالے سے یہ مسائل  ان مذاہب کے مختلف فرقوں کے مابین فکری  تنازعات کی وجہ سے ہیں۔

پارلیمنٹ اور عدلیہ کے علاوہ ایگزیکٹو میں بھی  وزارت مذہبی امور کا ایک اہم ترین حصہ  بین المذاہب ہم آہنگی ہے۔

اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر مسائل جوں کے توں ہیں تو  یہ اہل فکر کے لئے سوچنے کا وقت ہے کہ وہ کیا اقدامات اٹھائے جائیں کہ ہم اپنی 3 فیصد  مذہبی اقلیتوں کو اچھی سیاسی و سماجی اور معاشی ڈِیل دے سکیں۔

یہاں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ آج کی گلوبل دنیا میں انسانی حقوق کا کوئی بھی معاملہ کسی ملک کا اندرونی یا ذاتی معاملہ نہیں۔ عالمی نظام میں کوتاہیوں پر تنقید اور پابندیوں کا کلچر موجود ہے۔ پاکستان تو قائم ہی مسلمان  اقلیتوں کے حقوق کے لئے ہوا تھا،  کیا وجہ ہے کہ آج ہم اپنی محدود سی  مذہبی اقلیتوں کو تحفظ اور  پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم نہیں کر سکتے۔