یورپ کی دائیں بازو کی جماعتیں امن کے لیے کیسے خطرہ ہیں؟

0

یورپی معاشروں میں اسلامی شعائر کی توہین ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہےجس کے تدارک کے لیے اب سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہوگئے ہیں۔ یورپ کے دائیں بازو کے دائیں بازو کے عناصر وقت کے ساتھ زیادہ فعال اور مقبول ہوتے جارہے ہیں۔عید الاضحی کے پہلے روز اور حج کے اختتام کے موقع پرسویڈن  میں قرآن کریم کی بے حرمتی اور اس کو جلانے کا واقعہ اسی کا تسلسل ہے۔ 2005ء سے لے کر اب تک یورپی ممالک میں صرف قرآن کریم کی بے حرمتی کے 19 واقعات پیش آچکے ہیں جن میں سے 9 واقعات پچھلے چار سالوں میں رونما ہوئے ہیں۔

یورپی معاشروں میں آزادیِ اظہارِ رائےکے نام پر ایسے واقعات کی اجازت یا اس ضمن میں نرمی پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی سبب بنتی ہے، اس کے ساتھ تشدد کو ہوا دینے اور امن کو داؤ پر لگانے کا بھی باعث بنتی ہے۔پچھلے کچھ عرصہ سےپوری دنیا کے معتبر تھنک ٹینک اور حقوق کے ادارے مغربی حکومتوں کوتسلسل کے ساتھ متنبہ کررہے ہیں کہ اسلاموفوبیا کا بڑھتا رجحان اور یورپ کی دائیں بازو کی جماعتوں کی مضبوطی شدید بدامنی کے بحران کو جنم دے رہی ہے جس سے نمٹنے کے لیے پالیسی وضع کرنے اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

یورپ  کی دائیں بازو کی جماعتیں اسلام مخالف ذہنیت کی نشوونما کرنے اور ایسے میلانات رکھنے والے افراد کی پناہ گاہ بن گئیں ہیں۔اہانت اسلام کے واقعات اب انفرادی نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ تنظیمی اور جماعتی سطح پر انجام دیے جارے ہیں جوکسی بھی طرح آزادی اظہار ائے کی ترجمانی نہیں،بلکہ مسلمانوں کو تکلیف دینا مقصد ہے۔دہری شہریت کا حامل سلوان مومیکا جس نے چند روز قبل قرآن کریم کی بے حرمتی کی وہ پہلے عراق کی مقامی مسلح تنظیموں کا رکن رہا اور ایک جماعت ’صقورالسریان‘ کی بنیاد بھی رکھی۔ پانچ برس قبل وہ سویڈن منتقل ہوگیا جہاں وہ اب سخت گیر دائیں بازوکی ایک جماعت کے ساتھ منسلک ہے۔اس نے قرآن کریم کا نسخہ جلانے کے لیے حکام سے اجازت طلب کی تھی۔ پولیس نے انکار کردیا تھا، جبکہ عدالت نے اسے اس عمل کی اجازت دیدی۔ اس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا تھا’یہ جمہوریت ہے، اگر مجھے اس احتجاج کی اجازت نہ دی گئی تو یہ خطرے کی بات ہے۔‘ اس واقعے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ مغرب کی آزادی اظہار کی حدود ہونی چاہئیں، کیونکہ ایسے کام واضح طور پہ اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور بدامنی کو فروغ دینے کا سبب ہیں۔ایسے اقدامات جس طرح سے مشتہر کیے جاتے ہیں اور جس انداز میں انہیں بروئے کار لایا جاتا ہے یہ محض مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں۔

اس واقعے کے بعد تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) نے شدید احتجاج کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ مذہبی منافرت کے قوانین کو لاگو کرتے ہوئے مغربی ممالک ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری کوششیں کریں۔اس کے علاوہ مسلم ممالک سے مطالبہ  کیا گیا کہ وہ اس حوالے سے سخت موقف اپنائیں اور تدارک کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔او آئی سی کے اعلامیے کے بعد سویڈن کی حکومت نے اعتراف کیا کہ یہ واقعہ اسلام مخالف تھا،ہم آزادی اظہارِ رائے کے حق میں ہیں لیکن  اس طرح کا کوئی بھی واقعہ کو سرکاری تائید حاصل نہیں ہے، اور ہم اس پر تحقیق کررہے ہیں۔

مسیحیت کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے مغربی حکام کو بارہا متنبہ کیا ہے کہ سخت گیر عناصر مذہبی انتہاپسندی او رنسل پرستی کو فروغ دے رے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حالیہ واقعے کی بھی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ نفرت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جائے۔

یورپ کی دائیں بازو کی جماعتوں کے تصرفات کا ادنی سا جائزہ بھی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام مخالفت ان کے اہداف کا حصہ ہے، اور آزادی اظہارِ ائے کے نام پر اایک شدید بحران کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔