مذہبی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں کے حقوق

0

مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ چونکہ زیادہ تر اسلامی نظام کی بات بھی کرتی ہیں تو عام طور پہ ان سے متعلق یہ تأثر بن گیا ہے کہ ان کا اقتدار اقلیتوں کے لیے غیرمحفوظ ہے۔حالانکہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے اقلیتوں کے حقوق کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنایا ہوا ہے اور پانچ سال صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت بھی کرچکی ہیں جہاں انہوں نے اقلیت کو تحفظ فراہم کیا۔ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان جماعتوں کو اقلیتوں کے حوالے سے کھل کر اور زیادہ واضح انداز میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زیرنظر مضمون میں اسی سے متعلق تفصیل بتائی گئی ہے۔ محمد اعجاز، امپیریل کالج آف بزنس سٹڈیز، لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

پاکستان میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، چاہے مذہبی ہوں یا غیرمذہبی، ان سب کا ایک جماعتی منشور ہوتا ہے۔ اس میں ملک کے اہم معاملات بارے جماعت کا موقف درج ہوتا ہے۔ اسی طرح سے اقلیتوں سے متعلق بھی ان کا نقطہ نظر شامل ہوتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں کئی مذہبی سیاسی جماعتیں فعال ہیں تو ان کے ہاں بھی اس بارے موقف پیش کیا جاتا ہے۔ ذیل میں ان  جماعتوں کے موقف کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اختصار کے ساتھ تجزیہ بھی کیا جائے گا۔

جمعیت  علمائے پاکستان:  اقلیتوں کے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں  کوئی مداخلت نہیں دی جائے گی۔ انہیں اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ البتہ کسی اسلامی اصول  کے خلاف تبلیغ و اشاعت کی  اجازت نہ ہوگی۔ [1]

جمعیت  علمائے اسلام پاکستان: پاکستان کی موجودہ  غیر مسلم اقلیت کو اسلام کی طرف سے  عطا کردہ مذہبی آزادی، شہری حقوق اور  حصول انصاف کےمواقع بلا امتیاز  اور یکساں طور پر حاصل رہیں گے۔[2]

جماعت اسلامی : جماعت اسلامی اقلیتوں کو  پاکستان کی آبادی کا اہم جزو سمجھتی ہے۔    ہماری حکومت اقلیتوں کو آئین کے مطابق  حقوق اور مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔  اقلیتوں کے شخصی معاملات اور   ان کی مذہبی اقدار اور رسوم کو ترجیح دی جائے گی۔ ان کو تعلیم، روزگار اور  دیگر شہری حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور  احترام کا خصوصی خیال کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ  غیر منصفانہ  اور غیر  مناسب سلوک کا ازالہ کیا جائے گا۔ اقلیتوں کے ووٹ ڈالنے اور نمائندے چننے کا  آسان اور مؤثر طریقہ وضح  کیا  جائے گا۔

 جمیعت اہل حدیث : اقلیتوں کو اسلام کے عطا کر دہ  جملہ شہری سماجی و  سیاسی حقوق دئیے جائیں گے۔[3]

 تحریک جعفریہ پاکستان: تحریک جعفریہ پاکستان   کے منشور میں یہ شق شامل ہے کہ ہر شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق  عقیدہ اور مذہب کے اختیار کی آزادی ہوگی۔[4]

 عوامی تحریک پاکستان: عوامی تحریک پاکستان کے منشور میں ہے کہ یہ تحریک ایسے معاشرے کی خواں ہے کہ  جہاں انسانی حقوق اور  ان کی سیاسی، مذہبی،ثقافتی اور سماجی آزادیوں کا پورا پورا  احترام اور تحفظ ہو۔[5]

پاکستان میں  مذہبی سیاسی جماعتوں کے  منشور میں اقلیتوں کے حقوق پہ ہونے والا علمی تحریری کام  پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کے منشور میں  اقلیتوں کے حقوق کو تحریرا ًواضح کرنے  کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ ذیل  میں  ان کی   علمی کاوش کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

منشور جماعت اسلامی پاکستان:  جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں  اقلیتوں کے حقوق کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے بانی  سید ابو الا علی مودودی اور  دوسرے رہنماؤں نے بھی لٹریچر میں  مختلف جگہ پہ تحریری کام کیا ہے۔ مثال کے طور پہ:

1 – اسلامی ریاست:

مولانا مودودی اقلیتوں کے حوالے سے اپنی کتاب   اسلامی ریاست میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ذمیوں کی دو اقسام ہیں:

  • پہلی قسم جو اسلامی حکومت کا ذمہ قبول کرتے وقت کوئی  معاہدہ کریں۔
  • دوسرے وہ جو بغیر کسی معاہدہ کے ذمہ میں داخل ہوں ۔

پہلی قسم کے ذمیوں کے ساتھ تو وہی معاملہ کیا جائے گا  جو معاہدہ میں ہوا ہے اور دوسری قسم کے  کے ذمی، تو ان کا ذمی ہونا ہی  اس بات کو مستلزم ہے کہ  ہم ان کی جان اور مال اور آبرو کی  حفاظت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہوں گے۔ ان کے خون کی قیمت وہی ہوگی، ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔ ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا اور اسلامی تعلیم ان   پر جبر اً نہیں ٹھونسی جائے گی۔ مولانا مودودی اقلیتوں کے پرسنل لا ء کی وضاحت یوں کرتے ہیں:

’’جہاں تک ذمیوں کے پرسنل لاء  کا تعلق ہے تو وہ ان کی مذہبی  آزادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس لئے اسلامی حکومت ان کے قوانین کو جو ملکی قانون (Law of the land) سے نہ ٹکراتے ہوں، ان پر جاری کرے گی اور صرف  ان امور میں ان کے پرسنل لاء کے  نفاذ کو برداشت نہ کرے گی  جن میں ان کا برا اثر دوسروں پر پڑتا ہو۔ مثال کے طور پر سودی لین دین کی اجازت نہ ہوگی‘‘۔[6]

2 – مولانا  امین احسن اصلاحی  اپنی کتاب  اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی  وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:

’’اسلامی قانون کے معاہد  اہل ذمہ اور مفتوح اہل ذمہ (اہل عزوہ)  میں جس نوعیت کا فرق کیا ہے  اور جس بنا پر کیا ہے اس کو میں نے،  جس حد تک غیر مسلموں سے متعلق مسائل سمجھنے میں  اسے ضروری سمجھا تھا واضح کر دیا ہے۔ اس کو پیش نظررکھ کر  اب اس سوال پر غور کریں۔ پاکستان کے غیر مسلموں کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ ان کی حیثیت معاہد اہل ذمہ کی ہوگی یا  ان کو مفتوح اہل ذمہ کے حکم میں رکھا جائےگا؟  اس سوال کا جواب متعین ہوجانے کے بعد ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریوں کا فیصلہ کرنا  نہایت آسان ہو جائے گا۔

میرا خیال ہےکہ اس حقیقت سے شاید ہی کوئی  انکار کرسکے کہ پاکستان کے غیر مسلموں کو  مفتوح اہل ذمہ قرار دینے کے لئے کوئی  معمولی سی وجہ بھی موجود نہیں ہے۔ نہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے کوئی جنگ کی ہے اور نہ حکومت پاکستان کے حصہ میں  آئے ہیں  اور اس تقسیم کے متعلق  ہر شخص جانتا ہےکہ یہ تقسیم دونوں  قوموں کے  ذمہ دار لیڈروں کے باہمی  راضی نامہ سے ہوئی ہے، نہ کہ کسی جنگ یا فتح و تسخیر کے ذریعہ سے۔  اس وجہ سے تنہا یہی بات کرنی چاہئے کہ  یہ غیر مسلم ایک   باہمی راضی نامہ کے تحت  ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔

اس کے لئے کافی ہے کہ ان کو مفتوح و مغلوب رعایا کے زمرہ میں نہ رکھا جائے۔ بلکہ معاہد اہل ذمہ کے  زمرہ میں رکھا جائے، لیکن یہاں یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ  اور بھی وجوہ ہیں جو ان کے معاملہ میں قابل لحاظ ہیں اور جن کی بنا پر ان کا معاہد ہونا بالکل متعین اور  طے ہو جاتا ہے۔‘‘

پھر اس کے بعد قانونی طور پر پاکستان میں  ان کے تحفظ کی تفصیل بیان کرتےہیں۔

پاکستان میں غیر مسلموں کو خراج سے بری قرار دیتے ہیں۔ جذیہ اور ٹیکس میں بھی مشروط چھوٹ دیتے ہیں۔[7]

مولانا مودودی اپنی کتاب الجہاد فی الاسلام میں  اقلیتوں کے حقوق کے متعلق مزید لکھتے ہیں:

’’امصار مسلمین میں ذمیوں کے جو معبد پہلے سے موجود ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔  اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ  دوبارہ  بنا لینے کا حق ہے۔ لیکن نئے معبد بنانے کا حق نہیں۔ اسی طرح جو مقامات امصار مسلمین نہیں ہیں  ان میں ذمیوں کو نئے معبد بنانے کی بھی عام  اجازت ہے۔ اسی طرح جو مقامات ’’مصر‘‘ نہ رہے ہوں، یعنی امام نے ان کو ترک کرکے اقامت  جمعہ و اعیاد اور  اقامت حدود کا سلسلہ بند کر دیا ہو ان میں بھی نئے معابد کی تعمیر  اور اظہار ِشعائرجا  ئز ہے‘‘۔[8]

مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں مختلف جگہوں پہ اقلیتوں کے  حقوق کی وضاحت کی ہے۔ فقہی کتب کے حوالہ جات کے ساتھ سیرت رسولﷺ اور خلفائے راشدین  کے دور کے حوالہ جات بھی دیے ہیں۔

21 نومبر 2014 کو نائب امیر جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس   کا  نوائے وقت میں ایک کالم بعنوان ’اسلام اور رواداری‘ شائع ہوا، اس کالم میں مصنف نے نبی اکرمﷺ کی زندگی کی مثالوں سے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کو  احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی ضلع قصور میں مسیحی جوڑے کو  زندہ جلا دینے پر ماورائے عدالت  قتل کی سخت مذمت بھی کی ہے۔[9]

منشور عوامی تحریک پاکستان: جماعت کے منشور میں  اقلیتوں کے حقوق کوواضح بیان کیاگیا ہے۔’اسلام میں اقلیتوں کے حقوق‘ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب ہے۔ جو بہت عمدہ و اعلی تحقیقی انداز سے لکھی ہوئی ہے۔ مصادراسلام سے اقلیتوں کے حقوق کو بیان کیاگیا ہے۔ فقہی کتب کے حوالہ جات تفصیل سے دیے ہیں۔   کتاب میں لکھتے ہیں :

’’ حضور نبی اکرمﷺ کی ان تعلیمات کی روشنی  میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپﷺ   سے لے کر ہر اسلامی حکومت میں  غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ رہا۔ اقلیتوں سے حضور نبی اکرمﷺ   کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ  ان کا برتاؤ بھی آپﷺ کے ساتھ احترام پر مبنی تھا۔ ایک جنگ میں آپﷺ کا حلیف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے اس کا وارث کون ہو گا؟ تو اس یہودی نے کہا محمد رسول اکرمﷺ میری جائیداد کے وارث ہوں گے۔ یہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے حسن سلوک  کا ایک غیر مسلم کی طرف سے اعتراف تھا۔ آپﷺ کا اہل کتاب کے علاوہ مشرکین (بت پرست اقوام) سے بھی جو برتاؤ رہا اس کی بھی تاریخ میں  نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپﷺ پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب  مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپﷺ کے ایک انصاری کمانڈر سعدبن عبادۃ نے  ابو سفیان سے کہا: اليوم يوم الملحمة۔’’آج لڑائی کا دن ہے‘‘۔ یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا  تو آپﷺ ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر  ان کے بیٹے قیس کے سپرد کردیا  اور ابو سفیان سے فرمایا: اليوم يوم المرحمة۔ ’’(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے ) کا دن ہے‘‘۔[10]

اسی طرح جمیعت علمائے پاکستان کے منشور میں اقلیتوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔[11]

اسی طرح جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے منشور میں بھی تحریراً اقلیتوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔[12]

مزیدبرآں تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے نمائندے  پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہونے والے  پروگرامات میں شرکت کر کے  ان کے حقوق پہ بات کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دکھ درد میں شرکت کرتے ہیں، بعض پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتیں  اقلیتوں کا ذیلی نظم بھی رکھتی ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کےرسائل، جرائد اور اخبارات میں اقلیتوں کے تحفظ و  حقوق  پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ برطانوی پرنس چارلس کے اپنی اہلیہ کے ساتھ دورے  پہ آنے پر گورنر ہاؤس میں 2 ستمبر 2006 میں مختلف مذاہب کے نمائندگان کے ساتھ  نشست کا اہتمام کیا گیا جن میں تمام مذاہب کے مندوبین نے اپنے مقالہ جات پیش کیے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے  نمائندوں نے اس میں شرکت کی اور اقلیتوں کے حقوق پر قرآن و سنت سے مزین مقالہ جات پیش کیے۔[13]

اقلیتی اُمور میں مذہبی سیاسی جماعتوں سے عدم تحفظ کیوں؟

مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان میں غلبہ اسلام اور تبلیغ اسلام کی  ترویج کے لئے کوشاں ہونے کا دعوی کرتی ہیں۔ تاہم چونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اس لیے  یہ جماعتیں جمہوریت کے ذریعے اقتدار کی خواں ہیں۔ پارٹی منشور پر اقتدار  کے حصول کے بغیر کلی عمل نا ممکن ہوتا ہے۔ مگر بعض دفعاتِ منشور ایسی ہوتی ہیں جن پر بغیر اقتدار کے بھی عمل ممکن ہوتا ہے ان میں وہ حقوق ہیں جو  ہر انسان پر عائد ہوتے ہیں جیسے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ۔

مذہبی سیاسی جماعتوں نے اقلیتوں کو  اپنے منشور میں انہی حقوق کا تحفظ دیا ہے  جن کا تحفظ اسلام نے اقلیتوں  کے  حقوق کے ضمن میں دیا ہے۔

عموما مذہبی سیاسی جماعتوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں یہ  جماعتیں  اگر اقتدار میں آگئی تو دہشت گردی اور بد امنی بڑھے گی۔ اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گی اورایسے میں  ان کے حقوق کی ضمانت کون دے گا۔ لیکن مشاہدہ اس کی صداقت نہیں کرتا۔مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار  صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کے دوران وضح طور پر نظر آیا۔ پورےپانچ سالہ دورے اقتدار 2002 تا 2007 میں پانچ جماعتی سیاسی اتحاد کی  حکومت  میں اقلیتیں پہلے سے زیادہ  پر امن رہی ہیں۔ آج بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کے  قائدین اقلیتوں کے تحفظ کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ بعض جماعتوں نے باقاعدہ  اقلیتوں کے حوالے سے ذیلی نظم بھی بنایا ہوا ہے۔

پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور  غیر اسلامی ممالک  کی  مذہبی جماعتوں کے منشور کا تقابلی جائزہ لیا جائےتو پتا چلتا ہے کہ پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتیں زیادہ پرامن اور اقلیتوں کے حقوق کی محافظ ہیں۔ اس امر کی دلیل یہ ہے کہ ان جماعتوں کا منشور   اسلام کے بتائے ہوئے  اصول و قوانین کے مطابق  غیر مسلموں اور  اقلیتوں کو جتنے حقوق  عطا کرتا ہےمروج غیرمسلم مذہبی جماعتیں وہ کم ہی تسلیم کرتی ہیں مغرب میں اسلاموفوبیا اس کی بڑی مثال ہے۔

پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کے منشور میں  جہاں اقلیتوں کو آزادی دی گئی ہے وہاں اقلیتوں   کو اسلام کے خلاف ہرزہ رسائی سے روکا بھی گیا ہے ۔ پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کے منشور  اس بات کی بھی اقلیتوں کو اجازت نہیں دیتے کہ  وہ قول، فعل یا تحریر سے کوئی ایسا قدم اٹھائیں یا ایسے اقدام کا حصہ بنیں جس میں اسلام اور  انسانیت کے مسلمہ اصول کی خلاف ورزی ہو۔

اقلیتوں کی بھی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ مسلمانوں کے جذبات اور ایک دوسرے  کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ پاکستان میں ہندو، مسیحی، یہودی، سکھ اور دوسری اقوام تقریباً دس فیصد موجود ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے عقائد اور مذہبی رسومات و شعائر  کا خیال رکھنا ہوگا۔

اگرچہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کی گئی ہیں، پھر بھی ان کے  منشور میں از سر نو اقلیتوں کے حقوق کا جائزہ لیتے ہوئے ترمیم و اضافے کے ساتھ صراحت و وضاحت کی مزید ضرورت ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں قومی اور بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ، مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں کئی اہم چیزوں کو  واضح کرنا چاہئے اور اقوام عالم کو اعتماد میں لینا چاہئے کہ ان کے اقتدار میں آنے سے اقلیتوں  کے تحفظ  حقوق کو تقویت ملے گا، اقوام عالم کے خدشات دور ہوں گے۔ اس سےان جماعتوں کے بارے میں شدت پسندی کا تأثربھی کم ہو جائے گا۔

تجاویز

ا- مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو  اجاگر کرنے کے لیے تحریرو تقریر کے ذریعے عملی اقدامات کریں۔

ب- مختلف جگہوں پر پروگرام منعقد ہوں اور بین الاقوامی مذاہب میں اقلیتوں کے  حقوق کا  تحفظ کے موضوع پر سیمینار ہوں۔

ج- بین المذاہب سطح پر مذہبی رواداری، اقلیتوں کے  حقوق کا تحفظ جیسے  عنوانات پر لیکچر ہوں۔

د- اپنے منشور کے ان حصوں کو  جن میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے،زیادہ واضح کریں اور کھل کر ان کو  انتخابی اجتماعات کا حصہ بنائیں۔

حوالہ جات

محمد عثمان، پروفیسر، پاکستان کی سیاسی جماعتیں، لاہور، سنگ میل  پبلی کیشر، س، ن، ص:557

منشور اکل پاکستان، مرکزی جمعیت علمائ  اسلام و نظام اسلام، کراچی انور حیہ  ،س، ن، ص: 19

بخاری، تنویر،  پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپ، ایور بک نیو بک  پیلس، س، ن، ص: 78

محمد عثمان، پروفیسر، پاکستان کی سیاسی جماعتیں ،  لاہور،  سنگ میل پبلی کیشر، س، ن، ص:

تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک کا منشور(urdu/ 13775.8-6-2020/ ww.mining,org) ۔

مودودی، ابو الاعلی، سید، اسلامک پبلی کیشنز، شاہ عالم مارکیٹ،لاہور جنوری 1967 ، ص: 548

اصلاحی ، امین احسن، مولانا، دارالتذکیررحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور سن 2006 ، ص: 222

مودودی، سید، ابوالاعلی، ادارہ ترجمان القرآن غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہورسن 2014 ، ص: 284

روزنامہ نوائے وقت لاہور، 21 نومبر 2014

طاہر القادری، ڈاکٹر، منہاج القرآن، اشاعت اول نمبر 2006

منشور، جمیعت علمائےپاکستان، دفتر لاہور، 1987 ، ص: 22

محمد عثمان، پروفیسر، پاکستان کی سیاسی جماعتیں، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز،س، ص:780

ماہنامہ محدث، حسن مدنی، اکتوبر 2006 جلد:38