مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی تحریکِ آزادی میں مثالی جد و جہد
تحقیقات کے زیراہتمام ویب سائٹ پر ایک زمرہ (category) ’مذہبی میڈیا‘ کے نام سے بنایا گیا ہےجس کے تحت پاکستان کے مختلف مذہبی جرائد سے وقتا فوقتا مضامینن شائع کیے جائیں گے۔ یہ مضمون ماہنامہ ’الحق‘ کی طرف سے بھیجا گیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔اس میں مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی کی تحریک آزادی میں جدوجہد کے حوالے سے تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور بہت سے اہم تاریخی پہلوؤں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نور اللہ مرقدہ کی حیات و خدمات، سوانح و تذکرہ ایک مکمل تالیف کا متقاضی ہے لیکن حق پھر بھی ادا نہیں ہو سکتا، ان کی ہمہ جہت عظیم خدمات میں سے ان کی ملک کی آزادی میں مثالی جد و جہد پر چند گزارشات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اس عنوان پر بات کو آگے کرنے سے پیشتر چند تاریخی حقائق کا تذکرہ یہاں ضروری سمجھتا ہوں جو ہمیں آزادی کی تحریکات میں اپنے اکابر کا اعلی کردار تاریخ ساز اور عہد آفریں جدو جہد سے ملتے ہیں کیونکہ
تقریرسے ممکن ہے ،نہ تحریر سے ممکن وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
۱۔ غیر ملکی تسلط سے نجات کے لیے آزادی کی تحریکات میں عملی جدو جہد حریت پسندوں کا قومی ملی ، انسانی اور حب وطن کاتقاضا ہوتا ہے۔
۲۔ آزادی، انسان کا فطری حق ہے اور جب اس کے ساتھ اس کا عقیدہ و مذہب بھی حریت کا درس دیتا ہو تو پھر یہ اس کا دینی وند ہی فریضہ بھی قرار پاتا ہے۔
۳۔ کسی بھی جابرانہ تسلط سے قومی آزادی کی تحریکوں میں یہ اندازہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا دورا نیہ مختصر ہو گا یا طویل، اس کی خاطر قید و بند کی صعوبتوں اور قربانیوں کے بعد آزادی کی صبح کب طلوع ہوگی ؟
۴۔ آزادی کے حصول کی خاطر بھڑکتی ہوئی آگ میں بے خطر کو د جانے والے نہ تو اپنے اقتدار کے خواہش مند ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی انعام ، تحفے یا شیلڈ کے امیدوار ہوتے ہیں۔
۵۔ آزادی کی تحریکات میں کچھ ایسے سر فروش ، جانباز شامل ہوتے ہیں جن کا نہ کوئی نام جانتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی قومیت اور شہریت سے واقف ہوتا ہے بعد میں گمنام مجاہد کے نام سے انکی یاد گاریں تعمیر ہوتی ہیں
۶ انقلاب کا کوئی متعین ضابطہ نہیں ہوتا ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا نے والوں کی جان لے لیتا ہے اور ”انقلاب مردہ باد” کی آواز لگانے والوں کے سینوں کو تمغوں سے سجا دیتا ہے۔
۷۔ پابندیاں، بیڑیاں، چھکڑیاں، قید و بند ، کالی کوٹھریاں ، پھانسیاں ، گولیاں ، مالٹا انڈیمان اور کالا پانی وغیرہ کی جلا وطنیاں جائیدادوں کی ضبطیاں کبھی بھی آزادی کے لیے بھڑکتی آگ کو بجھا نہیں سکتیں بلکہ مزید بھڑکاتی ہیں۔
۸۔ آزادی بے بہا قربانیوں کے بعد ملتی ہے اور اس نعمت کی قدرو قیمت کا پاس ولحاظ ان کو ہوتا ہے جنہوں نے آزادی کی لیلی کے لیے مجنوں کی طرح بھوک پیاس برداشت کی ہو اور شب و روز کی آبلہ پیمائی کے مراحل سے گزرے ہوں مگر آزادی کی نعمت کو بر قرار ومحفوظ رکھنا اور اس کے ثمرات سے قوم کو بہرہ مند رکھنا زیادہ کٹھن آزمائش ہوتی ہے اور وہ آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔
۹۔ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ بلا تعصب اور غیر جانبدارانہ گیا مرتب کی جائے تو حریت و آزادی کے علمبرداروں میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ علمائے حق کے نام ہوں گے جنہوں نے چار مرتبہ جہاد بالسیف کے ذریعہ وطن کی آزادی اور اسلامی اقدار کی سر بلندی کے لیے منظم جدوجہد کی، مئی ١٨٣١ء میں تحریک آزادی شہدا بالا کوٹ، ١٨٥٧ء کی تحریک ١٨٨٦ء میں تحریک آزادی علماء صادق پور اور ١٩١٤ء میں حضرت شیخ الہند مولا نا محمود حسن کی تحریک ریشمی رومال ۔
۱۰۔ جب ١٩١٤ء میں جنگ عظیم اول نے دنیا کی نہ صرف سیاست بلکہ جغرافیہ کا بھی نیا نقشہ مرتب کیا، اس وقت تحریک آزادی ہند کے سرخیل حضرت شیخ الہند نے بھی تحریک کو نئے جہت سے مرتب کرنے کی ہدایات جاری فرمائیں وہ خود اپنے رفقا کے ہمراہ جزیرہ مالٹا میں قید فرنگ میں تھے اس حقیقت کے پیش نظر کہ ہر کام کی انجام دہی کے لیے اگر ایک طریقہ نا کام ہو تو اس مقصد تک پہنچنے کے لیے حکمت عملی تبدیل کرنی پڑتی ہے اور یہی کام حضرت شیخ الہند نے انجام دیا، آپ کی ہدایت پر نومبر ١٩١٩ء میں جمعیت علماء ہند کی تشکیل ہوئی اور اس صورت میں علمائے امت نے سیاسی جدوجہدکے ذریعہ آزادی کی منزل تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
۱۱۔ انگریز اور اس کے ایجنٹ اس خیال خام میں تھے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کے کم و بیش نو سو سالہ حکومت کے زوال کے بعد
٭ ہندوستان سے اسلام اس کی تعلیمات اسلام اور تہذیب کا خاتمہ ہوگا۔
٭ یہاں عیسائیت کو فروغ ہوگا جس کیلئے عیسائی پادریوں اور مشتریوں کی یلغار کر دی گئی تھی ۔
٭ صرف انگریزی نہیں بلکہ نام نہاد بہی خواہاں ملت بھی یورپین تہذیب و کلچر کومسلمانوں کی ترقی کا ذریعہ قرار دینے پر زور دے رہے تھے ۔
اگر انگریزوں اور ان کے کاسہ لیسوں کا مقابلہ کیا تو ان نہتے ، خالی ہاتھ علماء ربانی نے کیا، جو اپنی لازوال اور بے مثال قربانیوں کی بدولت اسلام، مسلمانوں ، اسلامی تعلیمات، اسلامی تہذیب کے تحفظ کے لیے کمر بستہ ہوئے ، عیسائیت کے فروغ کو روکا اور پادریوں کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا اور انگریز سرکار کے منصوبوں کو خاک میں ملایا ۔
۱۲۔ انگریز کی پالیسی Devide and Role کی تھی کہ تقسیم کرو اور اسکے نتیجے میں اپنی حکومت کو دوام دو، ہمارے اکابر نے ان کی اس پالیسی کو رد کیا اور ہندوستانیوں کی مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر تقسیم کو جنگ آزادی کو نا کام کرنے کا حربہ قرار دیا۔
۱۳۔ تاریخ کے ایک اہم سبق کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے الفاظ میں جو انہوں نے دار العلوم دیوبند میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا، یہاں تحریر کرتا ہوں:
”میرے عزیزو!اسلام میں تجدید و اصلاح کی پوری تاریخ اولو العزمی کی تاریخ ہے، کہنے کوملی اور اجتماعی تاریخ ہے اور بے شک ہے لیکن عملاً یہ از اول تا آخر افراد کی صلاحیتیوں کے عزم وہمت کی نمود ہے جب کبھی اسلام کیلئے موت وحیات کی کوئی کشمکش پیش آئی جب کسی طرف سے دین اسلام کو للکارا گیا تو کوئی فرد کامل کوئی صاحب عزم ہستی سامنے آگئی ایسے موقع پر نہ کوئی کونسل بیٹھتی ہے نہ کوئی مشورو ہوتا ہے کوئی صاحب یقین سامنے آجاتا ہے اور حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیتا ہے۔
ان ہستیوں میں جو عزم و یقین سے مالا مال ہوں اور ہمیشہ و جرات سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہوں وہ مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن صاحب ہیں ، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب کا سال ولادت (١٣١٨ھ ۔١٩٠١ء)ہے، آپ کا اصلی نام”معز الدین”تھا، حفظ الرحمن آپ کا تاریخی نام ہے اور اسی تاریخی نام سے آپ کو شہرت ملی، آپ کا وطن سیو ہارہ ضلع بجنور تھا، آپ کے والد ماجد کا نام مولوی شمس الدین صدیقی ہے، مولانا حفظ الرحمن صاحب نے تعلیم کا آغاز جامعہ قاسمیہ جامع مسجد شاہی مراد آباد سے کیا تھا پھر مدرسہ فیض عام سیوہارہ میں زیر تعلیم رہے تھے جبکہ دور حدیث کے لیے آپ نے دارالعلوم دیو بند میں داخلہ لیا تھا اور حضرت علامہ مولانا محمد انور شاہ کشمیری ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا مفتی عزیز الرحمن سے علمی استفادہ کیا تھا، دارالعلوم دیو بند میں آپ کو تدریس کا شرف بھی حاصل رہاہے۔
مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب نے ہندوستان کو انگریزوں کے غاصبانہ قبضے اور جابرانہ تسلط سے آزادی کے لیے آزادی کی تحریک میں شمولیت کب اختیار کی ؟ اس وقت ہندوستان کے حالات کیا تھے ؟ اور وہ کیا اسباب و وجوہ تھیں کہ ایک نوخیز نو جوان آزادی کی شمع کو فروزاں رکھنے کے لیے میدان میں کو دے تھے ؟ اس کے متعلق عظیم مؤرخ سید الملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب لکھتے ہیں :
”آزادی ہند کی تاریخ اگر چہ بہت پہلے سے شروع ہو چکی تھی اور اگر یہ دعوی کیا جائے کہ جیسے ہی یورپ کے بنیوں نے دو کا نداری کو حکمرانی کی شکل دی آزادی کی تحریک شروع ہو گئی تھی تو واقعات اس دعوی کا بھی نا قابل تردید ثبوت پیش کر دیں گے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلی جنگ عظیم (١٩١٣۔١٩١٧ء)کے بعد تحریک آزادی نے ایک صورت اختیار کی جو پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی جب دیش با پو گاندھی نے ”ستیہ گری ” کا راستہ اختیار کیا اور عدم تشدد آہنسایا مقاومتہ بالصبر کی طاقت کو جنگ آزادی کا حربہ قرار دیا جب وہ تجویزیں جو خفیہ انجمنوں میں منظور کی جاتی تھیں بر ملا اسٹیجوں پر پیش کی جانے لگیں اور مقابلہ کے وقت میدان جنگ فوجوں سے پاٹ دینے کی بجائے رضا کاروں سے جیل خانوں کو بھرا جانے لگا یہ پروگرام جنگ آزادی کے پہلے طریقوں سے اتنا مختلف تھا کہ عام طور پر اس کو تحریک آزادی کا آغاز قرار دیا گیا۔”
حضرت مولانا محمد میاں صاحب مزید لکھتے ہیں :
”بیسیوں صدی کا بیسواں سال(١٩١٩ء) ہمیشہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ”صبح صادق” تسلیم کیا جائے گا کیونکہ اسی سال ١٩١٩ء کے مارچ میں ”ستیہ گری”کی تجویز منظور کی گئی اور اسی سال جلیا نوالہ باغ کا وہ مشہور حادثہ پیش آیا جس میں تقریبا ڈیڑھ ہزار ہندوستانیوں نے جنگ آزادی کی مردہ تحریک میں اپنے مظلوم ومحکوم خون کے انجکشن سے جان ڈالی اور ایک کامیاب تحریک کی آبیاری کی،سیوہارہ کے قریب ٹرین کا حادثہ اسی سال یا اس سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا جو نو خیز نو جوان ایکسپریس کے حادثہ میں ہمدردانہ ایثار و فدائیت کے جوہر دکھا کر ہر ایک صاحب بصیرت کو حیرت زدہ کر چکا تھانا ممکن تھا کہ جلیا نوالہ باغ کے حادثے کا سن کر اس کی رگ حمیت میں جوش نہ آتا اور عواقب و نتائج سے بے پرواہ ہو کر خدمت خلق اور آزادی ملک کے میدان میں مردانہ وار قدم نہ بڑھاتا چنانچہ یہ خود ساختہ والنٹیئرجس نے ایکسپریس کے حادثہ میں اپنے مونڈھوں پر لاشیں اٹھائی تھیں جب جنگ آزادی کا بگل بجا تو وہ خدمت خلق اور ہمدردی ملت کے میدان میں سب سے آگے تھا،مختصر یہ کہ ابھی تک مولانا حفظ الرحمن صاحب جو درجات عربی کے طالب علم تھے پوری طرح تحصیل نہیں کر سکے تھے کہ جنگ آزادی نے دلوں میں تڑپ پیدا کی جن جانبازوں اور سرفروشوں نے آگے بڑھ کر ہتھکڑیوں کو بوسہ دیا ان میں مجاہد ملت کا نام سب سے روشن ہے۔ (الجمعیة” دہلی ، مجاہد ملت نمبر ص٤٠۔٤١)
حضرت مجاہد ملت اپنی عمر کے ساتھ ساتھ اپنی فطری او صاف کمال میں بھی روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہے تھے، اب وہ ایک با کردار شخصیت ، بلند پایہ عالم دین ، صاحب فکر و نظر مصنف اور اعلی خطیب و مقرر بن کر ہندوستان کی افق پر نمودار ہو رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ اس منصب جلیل کی طرف قدرت کے ہاتھوں بلند ہورہے تھے جو ان کی زندگی کا مقصد اور ان کی تخلیق کا منشاء تھا۔
مجاہد ملت کی قومی ، سیاسی اور جماعتی سرگرمیوں کا آغاز١٩١٩ء سے ہو گیا تھا جبکہ ملک کے چپہ چپہ میں تحریک خلافت کا غلغلہ تھا، خلافت زندہ باد کے نعرے ہر طرف بلند ہورہے تھے اور آزادی ہند کی تحریک بھی ملک بھر میں وسیع پیمانے پر منظم ہو رہی تھی ، حریت و آزادی کے علمبر دار علماء نے انہی دنوں ایک منظم جماعت جمعیة علماء ہند کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا ، مولانا حفظ الرحمن کی جد و جہد آزادی اسی زمانہ میں شروع ہوئی تھی اور تحریک آزادی کی پاداش میں اسی سال ١٩٢٢ء میں گرفتار بھی ہوئے تھے،١٩٢٤ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حجاز مقدس کے سفر کے اسباب بنائے اور آپ حج وزیارت حرمین شریفین سے بہرہ مند ہوئے ،حج کی واپسی کے چند مدت بعد اپنے استادمحترم شیخ الحدیث مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے ساتھ ڈابھیل ضلع سورت تشریف لے گئے تھے حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی اور حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب کے ساتھ جامعہ ڈابھیل میں تقریبا تین برس (١٩٢٨ء سے١٩٣٠ء)حضرت مجاہد ملت نے وہاں درس و تدریس کی خدمات انجام دی تھی، ڈابھیل کے قیام سے آپ کی سیاسی سرگرمیاں زیادہ تر کا نگریس کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئی تھیں اور یہ وہی دن تھے جب گاندھی جی نے ڈانڈی مارچ کی تحریک ١٣ مارچ١٩٣٠ء کو نمک پر محصول کے بائیکاٹ کا پروگرام شروع کیا تھا، ان دنوں گاندھی جی کا قیام دھراشٹہ میں تھا، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن صاحب اور مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب ڈابھیل سے چل کر دھراشٹہ گاندھی جی سے ملنے کیلئے گئے تھے اور تحریک میں اپنی پوری خدمات پیش کی تھیں گاندھی جی دونوں علما کے جذبات اور تعاون کے پیشکش سے بہت متاثر ہوئے تھے ، ان ہی دنوں میں بارد ولی میں سردار پٹیل نے کانگریس کا ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کرایا تھا اس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عدم ادائیگی ٹیکس کی وجہ سے برٹش گورنمنٹ نے پبلک کی جو جائیدادیں ضبط کرنے اور سستے داموں نیلام کرنا کا حکم دیا ہے عوام اس کے خریدنے سے بازر ہیں، یہی موقع تھا جب حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب نے فقہاء کرام کی کتابوں کے حوالہ سے مشہور فتویٰ صادر کیا تھا جس میں ضبط شدہ جائیدادوں کو نیلام میں خریدنے کی شرعی لحاظ سے ممانعت کا حکم تھا، اس فتویٰ کی پاداش میں حضرت مفتی صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے اور جس پریس میں وہ فتویٰ چھپا تھا اس کو ضبط کر دیا گیا تھا جبکہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاری صاحب پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے تھے ، ابھی حضرت مفتی مولا نا عتیق الرحمن صاحب کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تھی کہ گاندھی ارون پیکٹ ہو چکا تھا اور اسکی وجہ سے تمام وارنٹ حکومت نے واپس لے لیے تھے۔
بہرحال! ان دونوں بزرگوں کی سیاسی سرگرمیوں سے جامعہ ڈابھیل کے منتظمین کو بڑی پریشانی لاحق ہوگئی تھی جس کو ان حضرات نے بھی محسوس کیا تھا، حضرت مفتی صاحب نے چند ماہ بعد استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ رہائی کے بعد مولانا حفظ الرحمن واپس جامعہ ڈابھیل نہیں گئے ہوں دونوں حضرات کا جامعہ ڈابھیل سے تعلق منقطع ہو گیا تھا، مولانا حفظ الرحمن صاحب یوں تو ابتدا ہی سے جمعیہ علما ء ہند کے رکن تھے لیکن ڈابھیل سے انقطاع تعلق کے بعد جمعیة علماء میں ان کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں، حریت و آزادی کا ایسا جذبہ پروردگار عالم نے ان کو ودیعت فرمایا تھا کہ سخت سے سخت صعوبتوں اور کڑی سے کڑی آزمائشوں میں بھی ان کے قدم لڑکھڑا سکے تھے اور نہ ان کے عزم مصم میں اضمحلال پیدا ہو سکا تھا اور نہ قید و بند کی سختیاں ان کے ارادوں کو کمزور کرسکی تھیں بلکہ رہا ہوتے ہی وہ نئے جوش اور نئے عزم کے ساتھ پہلے سے زیادہ سرگرم عمل ہو گئے تھے ۔
١٩٣٠ء میں جیل سے رہائی کے بعد مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہا ردی امروہہ پہنچ کر جمعیة علمائے ہند کے اجلاس منعقد ٣،٤،٥،٦مئی ١٩٣٠ء مطابق ٣،٤،٥،٦ذی الحجہ ١٣٤٨ھ میں شریک ہوئے اس اجلاس کی صدارت علامہ شاہ معین الدین احمد اجمیری نے کی تھی جبکہ خطبہ استقبالیہ جناب ابو انظر رضوی امروہوی نے پڑھا تھا، یہ بہت معرکة الآرا اجلاس تھا، خطبہ صدارت اور خطبہ استقبالیہ بجائے خود بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں، اس اجلاس میں حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ، حضرت مولانا احمد سعید صاحب ، حضرت مولانا سید سلیمان ندوی صاحب، مولانا ابولحا سن سید محمد سجاد صاحب، مولاج عبد العلیم صدیقی صاحب، حضرت مولانا احمد علی لاہوری صاحب ، حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب ، مولا نا محمد نعیم لدھیانوی صاحب، مولانا محمد علی جو ہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی صاحب و دیگر رہنما یان قوم شریک تھے ، اس اجلاس میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے ایک اہم تجویز درج ذیل قرارداد کی صورت میں پیش کی، جس سے جنگ آزادی میں جمعیة علماء ہند کا موقف متعین کر دیا گیا تھا۔
(الف) چونکہ نیشنل کانگریس نے اجلاس لاہور میں مکمل آزادی کا اعلان کر دیا ہے جو جمعیة علماء کا پہلے سے نصب العین ہے اور نہرورپورٹ کو جس سے جمعیة علماء نے شدید اختلاف کیا تھا کا لعدم کر دیا ہے اور ایک تجویز میں یہ طے کر دیا ہے کہ آئندہ کوئی دستور اساسی اس وقت تک کانگریس قبول نہ کرے گی جس سے متعلقہ اقلیتیں پورے طور پر مطمئن نہ ہو جائیں، اس لئے جمعیة علماء کے اس اجلاس کے نزدیک بحالت موجودہ مسلمانوں کے لیے کانگریس سے علیحدہ رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
(ب) مسلمانوں کے مذہبی و قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اجلاس اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہے کہ کانگریس کا کوئی آئندہ عملی پروگرام اس وقت مسلمانوں کے لیے آخری فیصلہ نہ ہوگا جب تک جمعیة علماء ہند اس کی تصدیق نہ کر دے۔
(ج) چونکہ شاردا ایکٹ (SARDA ACT)بحق اہل اسلام صریح مداخلت فی الدین ہے اور اسلامی پرسنل لاء پر شدید حملہ ہے اور حکومت ہند نے انتہائی احتجاج و تنبیہ کے بعد بھی مسلمانوں کو بھی آج تک اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح اس حکومت نے ملک پر جابرانہ قبضہ کر کے تمام اہل وطن کو غلام اور مفلس و بے کس بنا دیا ہے اور ظالمانہ قوانین کے وضع ونفاذ اور اخلاق و معاشرت کی تخریبی حکمت عملی پر اسے اصرار ہے، اسی طرح وہ اب اسلامی پرسنل لا کے واجب الحفظ قلعہ کو بھی مسمار کر کے دین وملت کو بھی برباد کر دینا چاہتی ہے جو تمام اہل ملک اور خصوصا مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت ہے اور ان تمام مفاسد کے سدباب اور ناموس شریعت کی حفاظت کے لیے آخری صورت یہ ہے کہ ملک و ملت کو حکومت مسلط کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد کر لیا جائے ، اس لیے یہ اجلاس مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ ملک وملت کی آزادی اور اپنے پرسنل لا کی حفاظت کے لیے پورے جوش اور کامل استقلال سے احکام شرعیہ کے موافق کا نگریس کے ساتھ اشتراک عمل کرتے ہوئے سرفروشانہ پر امن جنگ آزادی کی راہ پر گامزن ہوں۔
(د) یہ اجلاس حسب ذیل تین حضرات کی کمیٹی منتخب کرتا ہے جو مخصوص ملی نظام کے ماتحت حصول آزادی اور تحفظ پرسنل لا کے واسطے مفصلہ ذیل امور کا تعمیری لائحہ اور سول نافرمانی کا پروگرام مرتب کرے اورمسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دے۔
(۱) ضبط شدہ فتاوی لٹریچر کی اشاعت (٢) شراب اور دیگر مسکرات کے استعمال و تجارت پر احتساب (٣) ولایتی مال کا عموما اور کپڑے کا خصوصا مقاطعہ اور دیسی مال و کپڑے کے استعمال و ترویج کی سعی بلیغ اور ہر ممکن جگہ پر انتظام ۔
(و) جمعیة علماء کو امید ہے کہ اگر انڈین نیشنل کانگریس اس شک وشبہ کا بھی ازالہ کر دے جو بعض مسلمانوں کے قلوب میں اس کی طرف سے پیدا ہو گیا ہے اور ان کو پورا اطمینان دلا دے تو پھر متفقہ جدو جہد کے بروئے کار آنے میں کوئی مانع باقی نہ رہے گا اور کامیابی بھی سریع اور یقینی ہو جائے گی۔
ارکان کمیٹی : (١) مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب صدر جمعیة علمائ(٢) مولانا محمد نعیم صاحب لدھیانوی (٣)مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری امیر شریعت صوبہ پنجاب۔
محرک : مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی
مؤیدان: مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولا تا ابوالمحاسن سید محمد سجاد صاحب وغیرہم
مولانا حفظ الرحمن نے پوری قوت اور جوش و جذبہ کے ساتھ اپنا نقطہ نظر اس تجویز کی صورت میں پیش کر دیا تھا آپ کے زور بیان اور قوت استدلال نے اجلاس کے شرکا کو بے حد متاثر کیا تھا اور جب حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ان کی تائید میں ولولہ انگیز تقریر فرمائی تو پھر آخر کار یہی قرارداد اجلاس کا آخری فیصلہ قرار پایا تھا۔
اجلاس امروہہ کے اس فیصلہ کی روشنی میں کانگریس کی ١٩٣١ء میں تحریک سول نافرمانی میں جمعیة علماء ہند اور اس کے رہنماؤں اور اراکین نے بھر پور حصہ لیا تھا اس تحریک کا طریقہ یہ تھا کہ جمعیة علماء کی طرف سے ایک ڈکٹیٹر متعین کیا جاتا تھا جو ایک جلوس کی صورت میں پورے جوش و خروش اور نعروں کی گونج میں اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا تھا، جمعیة علماء کی طرف سے پہلے ڈکٹیٹر حضرت مولانا کفایت اللہ (صدر جمعیة علماء ہند) قرار پائے تھے جنہوں نے ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے دہلی کے آزاد پارک میں گرفتاری پیش کی تھی اور١٨ ماہ جیل میں رہے تھے حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کے بعد مولانا بشیر احمد کٹھوری اور تیسرے ڈاکٹر مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہا روی منتخب ہوئے تھے جن کی قیادت میں گرفتاریاں عمل میں آتی تھیں، ان میں حضرت مدنی کو دیو بند سے دہلی آئے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا اور سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا حبیب الرحمن ڈکٹیٹر شپ کے نظام سے پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے تھے ان میں بعض حضرات کو دو، دو سال تک سزائیں سنائی گئی تھیں ، ایک اندازہ کے مطابق تقریباً٩٠ ہزار حریت پسند اس تحریک سول نافرمانی میں گرفتار کیے گئے تھے جن میں چوالیس ہزار پانچ سو مسلمان تھے۔
(جاری ہے)