بہت سے تلامذہ اور احباب کا استفسار رہتا ہے کہ بین الاقوامی جامعات میں پی ایچ ڈی یا پوسٹ ڈاک کے لئے کیسے اپلائی کریں؟ سپروائزر کیسے تلاش کیا جائے؟ اگر کوئی مل جائے تو جواب نہیں آتا، اگر آتا ہے تو پھر”جواب”ہی آتا ہے!
اس تحریر میں مختصراً کچھ عرض کرتا ہوں کہ کسی بین الاقوامی ادارے یا یونیورسٹی یا پروجیکٹ میں کیسے شمولیت ممکن ہے؟متعلقہ پروفیسر کیسے تلاش کیا جائے؟ بعدازاں متعلقہ پروفیسر سے علمی ربط کیسے قائم کیا جائے؟اور کس طرح بین الاقوامی کانفرنسوں میں مؤثر شمولیت ممکن ہے؟؟؟
تو عرض کئے دیتا ہوں کہ اس مقصد میں کامیابی ، فقط علمی قابلیت یا اعلیٰ اسناد میں نہیں، بلکہ درست علمی رابطے (academic communication) اور تحقیقی تعلق (research networking) پر منحصرہے۔
میرے تجربات، خصوصاً جرمنی میں کارپس قرآنیکم کے ساتھ تحقیقی اشتراک کاحاصل یہ ہے کہ عالمی علمی برادری میں تعلق اُس وقت قائم ہوتا ہے جب آپ خود کو ایک "مانگت” یا Applicant کی بجائے، ایک علمی شریک (research partner) کے طور پر متعارف کرواتے ہیں ۔ برلن اکیڈمی کے محققین سے جب 2024ء میں میری ملاقات طے ہوئی، تو میں نے جرمنی جانے سے قبل ان کے پراجیکٹ کے شب و روز مطالعے پر دو ماہ صَرف کئے، ان کے تحقیقی مقاصد کو سمجھا، اور ان کے رابطہ کرنے سے قبل، دورانِ خط و کتابت یہ واضح کیا کہ میری تحقیق اُن کے جاری کام کی علمی قدر (academic value) میں اضافہ کر سکتی ہے۔ یہی امپریشن ،یورپ اور امریکہ میں میرے روابط کے لیے بنیادی اصول ثابت ہوا۔
اسی حوالے سے میرے ایک قریبی شاگرد، جو حال ہی میں آسٹریلیا میں $180,000مالیت کی فنڈڈ پی ایچ ڈی کے لیے منتخب ہوا، اپنا تجربہ بتایا کہ ابتدا میں اُس نے آسٹریلیا کے مختلف سپروائزرز کو ای میلز بھیجیں، مگر جواب نہ ملنے پر اپنی حکمتِ عملی بدلی۔ اُس نے سپروائزرز کے مضامین کو تفصیل سے پڑھا، ان کے تحقیقی رجحانات کو سمجھا، اور اپنی ای میلز میں ان کے کام سے حقیقی تعلق (genuine connection) پیدا کیا۔ پھر اس نے "فقط تین ای میلز”کی حکمتِ عملی اختیار کی:
1. پہلی ای میل میں متعلقہ پروفیسر/ سپروائزر کی تحقیق کو بنیاد بنایا اور اپنے کام کا ربط واضح کیا۔
2. دوسری ای میل میں اپنی تحقیقی صلاحیتوں اور منفرد علمی قدر (value proposition) کو اجاگر کیا۔
3. تیسری ای میل میں reminder کی بجائے نئی معلومات یا کسی متعلقہ مقالے کا حوالہ دے کر علمی مکالمہ (academic dialogue) جاری رکھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف یونیورسٹیوں کے سپروائزرز نے مثبت ردِعمل دیا، انٹرویوز طے ہوئے، اور بالآخر ایک معتبر ادارے نے اُسے Research Assistantship کے ساتھ Fully Funded PhD کی پیشکش کی۔
یہ تمام تجربات — خواہ میرے بین الاقوامی اداروں سے تحقیقی رابطہ و تعاون ہو، یا میرے شاگرد کی آسٹریلیا میں کامیابی — اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ بین الاقوامی علمی دنیا میں اثر انگیز رابطہ (effective connection) کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ خود کو “please accept me” کہنے والے طالب / درخواست گذار کے بجائے “here’s how we can work together” کہنے والے شریکِ تحقیق (collaborator) کے طور پر پیش کریں۔
اگر آپ کسی بین الاقوامی سپروائزر سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں، Post-Doc position کے لیے درخواست دے رہے ہیں، یا کسی عالمی کانفرنس میں شرکت کے خواہشمند ہیں، تو یہ چند اصول ہمیشہ یاد رکھیں:
1. آپ کا داخلہ مَیں یا کوئی اور نہیں کروا سکتا، یہ بھاری پتھر آپ کو خود اٹھانا ہے۔ کیونکہ آپ کے میدانِ تحقیق پر آپ سے زیادہ کوئی اور زیادہ نہیں جانتا، جانتا بھی ہے تو فقط مشورہ دے سکتا ہے، آپ کی خط و کتابت کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔
2. جس ملک یا یونیورسٹی یا پروجیکٹ میں جانا چاہ رہے ہیں، اس کو بالتفصیل پڑھیں، سمجھیں اور ان کی اور اپنی تحقیق کو ہم آہنگ کرتے ہوئے، اپلائی کرنے سے قبل، اس پر دو تین معیاری تحقیقی مقالات شائع کریں۔
3. ایک دفعہ پھر، سپروائزر یا ادارے کی تازہ ترین تحقیقات کا بغور مطالعہ کریں۔
4. اپنے کام اور ان کے منصوبوں میں واضح تعلق ثابت کریں۔
5. ای میل کا آغاز ان کی تحقیق سے کریں، اپنی کامیابیوں سے نہیں۔
6. کسی مخصوص تحقیقی سمت (research direction) یا مشترکہ منصوبے کی تجویز دیں۔
7. آپ کا پرپوزل موجود کام میں نئی علمی قدر کے طور پر دیکھا جائے۔
8. خود کو ایک research partner کے طور پر پیش کریں، desperate applicant کے طور پر نہیں۔
گویا، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عالمی تحقیق میں اصل کامیابی اُنہیں ملتی ہے جو “communicate value before asking for opportunity” کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ایک عام طالب علم کو ایک بین الاقوامی محقق بننے کی طرف لے جاتا ہے۔