بھارت میں مسلم اقلیت: آئینی اور انتظامی ڈھانچے کا تجزیہ
ڈاکٹر ایم کے صدیقی، پروفیسر اقبال انصاری
بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔1976ء میں ایک آئینی ترمیم کے بعد یہ ایک سیکولر ریاست ہے اور اس کے تحت یہ عہد کیا گیا ہے کہ اس ملک میں بسنے والی تمام قوموں اور ادیان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا۔ لیکن ایک عرصے سے اس میں موجود مذہبی اقلیتوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ بالخصوص مسلمان اقلیت کے لیے پچھلی دو دہائیوں سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی سطح پہ کئی ایسے قوانین بھی بنانے کی کوشش کی گئی جس کا مقصد مسلمان اقلیت کو نشانہ بنانا تھا۔ اکثریت کی طرف سے یہ سخت گیر رویہ مسلمانوں کے مستقبل کو مزید مخدوش بناتا جارہا ہے اور ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے اور انہیں کس طرح نچلے درجے میں دھکیلا جارہا ہے، زیرنظر مضمون میں اسی پر گفتگو کی گئی ہے۔دونوں مضمون نگار دہلی میں مقیم ہیں۔ سماجی کارکن اور دانشور ہیں۔
مسلمان سب سے پیچھے
بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے اور اس کا دستوری تشخص بھی سیکولر کا ہے۔ وہاں بہت سی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں۔ تاریخی طور پہ ماضی میں اقلیتوں کی صورتحال قدرے بہتر رہی ہے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے وہاں سخت گیر عناصر اوپر آگئے ہیں جس کی وجہ سے اقلیتوں کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ بالخصوص مسلمان اقلیت کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔عمومی طور پہ بھارت میں حکومتی اشرافیہ اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتی ہے، تاہم اقلیتوں کے بارے میں غالب طبقہ کے کیا عزائم ہیں انہیں واضح نہیں کیا جاتا، نہ سیاسی پالیسی کے طور پر انہیں بیان کیا جاتا ہے بلکہ خفیہ طور پر ریاستی اداروں کے ذریعہ انہیں اس انداز سے بروئے کار لایا جاتا ہے کہ وہ مقاصد خود بخود حاصل ہو جائیں ۔ دستور میں قابل قدر دفعات موجود ہونے کے باوجود ریاستی مشینری اس انداز سے کام کرتی ہے کہ جس سے غالب اور اقلیت کے منقسم تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے ۔ صورتحال پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہےکہ :
1 – جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی تعداد ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی سے تناسب کے لحاظ سے بہت کم ہے۔
2 – دوسرے فرقوں کے مقابلے میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔
3 – مسلمانوں کا پیشہ ورانہ ڈھانچہ اکثریتی طبقہ کے مقابلے میں مختلف ہے۔ اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سرکاری سرپرستی کی کمی یا محرومی بھی شامل ہے۔ دوسرے طبقات کے مقابلہ میں مسلمانوں میں دستکار یعنی خود اپنا کام کرنے والوں کا تناسب زیادہ ہے۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ مسلمانوں کو روزی روٹی کے مواقع فراہم کرنے میں ان کی مدد کی بجائے ریاست ان کی حریف بن جاتی ہے۔
4 – تعلیمی اعتبار سےمسلمان دیگر غیر مسلم طبقات سے بہت پیچھے ہیں۔ اعلی اور تکنیکی تعلیم میں مسلمان مرد اور خواتین کا تناسب بالکل غیر اہم ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ بہت کم ہوتا ہے۔ تعلیمی اعتبار سے مسلمانوں کی اس پسماندگی کا سبب ان کے پاس وسائل کا نہ ہونا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے جو اوقاف ہیں، حکومت ان اوقاف کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتی۔بلکہ حکومت ان کے وسائل کو برباد کرانے اور خیانت و غبن وغیرہ کے ذریعہ بے اثر کر دیتی ہے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے روزگار کی فراہمی میں مدد دینے کی بجائے ریاست ان کی حریف بن کر انہیں اقتصادی میدان سے خارج کرنے کا کام کرتی ہے۔
5 – لا اینڈ آرڈر مشینری (انتظامیہ) اکثر مسلم نوجوانوں کی تاک میں رہتی ہے ۔ فرضی اور ناجائز طور پر انہیں پھنسایا جاتا ہے، انہیں بے پناہ اذیتیں پہنچائی جاتی ہیں، فرضی Encounterکا شکار بنایا جاتا ہے اور ان کی خواتین کو بھی بخشا نہیں جاتا ہے۔
6 – ملک کے مختلف حصوں میں اکثر وبیشتروسیع پیمانے پر تشدد بھڑک اٹھتا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک مہاراشٹرا، اترپردیش، بہار وغیرہ میں تشدد کے ایسے ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں جن میں ریاست کا ہاتھ بھی دیکھا گیا ۔ خطا کار پولیس افسران کو مشکل سے ہی سزا ملتی ہے، بلکہ وہ ترقی سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں، متعلقہ مجرموں کو عبرت ناک سزائیں کبھی کبھار ہی دی جاتی ہیں۔
7 – مسلمانوں کے خلاف ہونے والی تشدد کے انکوائری کمیشنوں کی رپورٹیں انتہائی تاخیر سے پیش کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر بابری مسجد انہدام کی رپورٹ۔ اس سے مسلم اقلیت کے بارے میں انتظامیہ کے رویہ کا پتا چلتا ہے کہ تاخیر کا مطلب ہوتا ہے انصاف سے محروم کردینا۔
8 – مسلم پرسنل لا میں اصلاح کے نام پر بار بار مداخلت سے مسلمان حیرت زدہ ہیں۔ کیونکہ یہ اقدامات تکثیری معاشرہ کی روایات کے خلاف ہیں۔ اس سے ملک کے دستور کی روح بھی مجروح ہوتی ہے۔
9 – مسلمانوں میں تعدد ازدواج اور کثرت اولاد کے بارے میں مفروضہ اعدادو شمار کو لے کر بہت شورمچایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ہندو آبادی سے بھی زیادہ آبادی ہوجانے کے مفروضے سے اکثریت خطرہ محسوس کرتی ہے اور ان کے دلوں میں منفی جذبات پرورش پاتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت سے صرف نظر کیا جاتا ہے کہ ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ کا تناسب مسلمانوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
دستوری حقوق
آزادی کے بعد ہندوستان کا ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جس میں بنیادی طور پر اس ملک کو سیکولر قرار دیا گیا اور یہ سیکولرازم دستور کا ایک ایسا اصولی اور اساسی حصہ قرار پایا جس کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا۔ دستور کےابتدائیہ میں یہ کہا گیا ہے:
’’ہم ہندوستان کے عوام ہندوستان کو ایک خود مختار سوشلسٹ، سیکولر عوامی جمہوریہ کے طور پر قائم کرنے کا مقدس عہد کرتے ہیں، اور اس کے تمام شہریوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف حاصل ہو گا۔ تمام شہریوں کو اظہار خیال اور عقیدہ ، ایمان اور عبادت کی آزادی حاصل ہو گی۔ سب کو منصب اور مواقع کی برابری حاصل ہوگی اور ان کے درمیان بھائی چارہ بڑھایا جائے گا۔ ہر فرد کی عزت کی ضمانت دی جائے گی اور ملک کے اتحاد و سالمیت کو برقرار رکھا جائے گا‘‘۔
دستور ہند کے ابتدائیہ کے علاوہ بنیادی حقوق کے دفعات /14 – 15 – 16 – 19 – 21 – 25 – 26 – 27 – 28 میں برابری، عدم امتیاز، اظہار رائے اور مذہبی آزادی، اقلیتوں کو ان کے اپنے مذہبی و رفاہی ادارے قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح دفعہ/ 29 – 30 میں زبان، رسم الخط اور ثقافتی اداروں کے قیام اور اس کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہےاور سیکولرزم کو یہاں کی مختلف لسانی، مذہبی اور علاقائی گروہوں کی دینی، مذہبی، لسا نی اور ثقافتی تنوع کی بنیاد پر ملک کی لازمی ضرورت سمجھتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔
اقلیت عدم تحفظ کا شکار کیوں ہوتی ہے؟
آزادی کے بعد سے اقلیت و اکثریت پر بحث ہوتی رہی ہے۔ یہاں اقلیت کی اصطلاح میں وہ تمام غیر دستاویزی گروہ شامل ہیں جو ملک کی کسی بھی ریاست میں اپنی مستقل شناخت رکھتے ہیں اور جو اپنی نسلی، مذہبی اور لسانی روایات و خصوصیات میں باقی ماندہ آبادی سے مختلف ہیں ۔ہندوستان میں عام طور پر مذہبی اقلیتوں میں مسلم، سکھ، مسیحی، پارسی، بدھ مت، جین مت وغیرہ شامل ہیں۔
اقلیتوں کے حالات پر غور کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ کسی بھی ملک میں جہاں اقلیتیں آباد ہیں انہیں مختلف طرح کے خطرات و مشکلات درپیش ہوتے ہیں، خاص طور پر معاشی ترقی، سماجی مساوات، زندگی و املاک، سلامتی اور ثقافتی و مذہبی شناخت کے بارے میں وہ عدم تحفظ کے شکار ہوتے ہیں۔ اکثریت کی طرف سے عملی طور پر اگر انصاف میں کوتاہی ہوتی ہے تو نہ صرف مذہبی و لسانی اقلیتیں عدم تحفظ میں مبتلا ہوتی ہیں ؛بلکہ اس کے ساتھ احساس محرومی کا بھی شکار ہو جاتی ہیں اور اس طرح کے ماحول میں سماجی طور پر دھتکارے ہوئے دیگر طبقہ کے افراد بھی مذہبی اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہندوستان میں آج بھی مذہبی اعتبار سے ہندو ہونے کے باوجود وہ ذاتوں میں تقسیم کا شکار ہیں۔ اس لیے یہی نہیں کہا جا سکتا کہ صرف اقلیتیں ہی ناانصافی کا شکار ہوتی ہیں بلکہ عددی اکثریت کےباوجود ذات و قبائل کی بنیاد پر بھی افراد سماجی ناانصافی کا شکار ہیں۔ اس لیے یہ لازمی نہیں ہے کہ کوئی اقلیت احساس محرومی کا ہمیشہ شکار ہو بلکہ مواقع ملنے پر وہ ترقی کی اونچی منزل پر بھی پہنچتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمان
آزادی کے بعد دستوری تحفظ کے باوجود مسلمان آبادی پسماندگی کا شکار ہوئی، اس بارے میں مختلف کمیٹیوں اور افراد نے جو جائزے لیے ہیں وہ تشویش ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں چند تأثرات درج کیے جاتے ہیں:
گوپال سنگھ پینل نے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کی محرومی کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:
’’مسلمان بطور ایک گروہ ہر معاملہ میں قومی اوسط کے لحاظ سے پسماندہ ہیں، ان کی سماجی کامیابی، ملکی معاملات میں ان کی شرکت، ان کی آمدنی کی سطح ، ان کی بچت کی سطح، ان کی تعلیمی کامیابی بالعموم بہت کم ہے۔ ان کے درمیان اسکول چھوڑنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور کامیابی کی شرح نیچی ہے، اور یہ چیزیں بلا استثناء ہر علاقے اور ہر سطح کے لوگوں کے درمیان ہے‘‘۔
ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی دہلی کے زیر اہتمام سید شمیم شاہ نے مسلمانوں کےذریعہ چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کا ایک سروے کیا تھا جس کی رپورٹ میں انہوں نے مسلمانوں کی محرومی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’ماضی قریب کے بعض سیاسی اور تاریخی واقعات کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کے تمام میدانوں میں تعلیم کی کمی اور ملکی سطح پر ہر جانب ہونے والی ترقی سے عدم واقفیت اور خود کی معاشی پستی کی وجہ سے وہ دائمی طور پر ظلم و محرومی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جماعت پیچھے رہ گئی ہے۔ دراصل یہ برادری دھیرے دھیرے فائن آرٹ، سائنس و ٹیکنالوجی اور زبان و ثقافت میں ہونے والی تمام ترقیات سے محروم رکھی گئی ہے ‘‘۔
2004 ء میں لندن اسکول آف اکنامکس کے مشہور ماہر معاشیات لارڈ بھیکو پارکھ نے اپنے مطالعہ میں کہا:
’’ اگرچہ انہوں نے آزادی کے بعد بالخصوص 1980 ء کی دہائی کے بعد ترقی کی ہے مگر وہ زندگی کے ہر دائرہ میں قومی اوسط سے بہت نیچے ہیں۔ ان کے اندر جہالت اور اسکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ان کی بہت چھوٹی تعداد ہی کالج تک کی تعلیم پوری کر پاتی ہے۔ ان کی اوسط آمدنی ہندوؤں سے کم ہے اور معاشی طور پر خوشحال اور دولت مند مسلمانوں کی تعداد کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ ان کی معاشی طاقت کی کمی خود ان کی معاشی حیثیت سے جھلکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ نسبتاً کم سماجی قوت رکھتے ہیں ‘‘۔
2006 ء میں سچر کمیٹی(Sachar Commitee) نے اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے:
’’ہمارے تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ریاستوں کے حالات میں (اور ان مسلمانوں کے حالات میں جو اپنے آپ کو او بی سی (Other Backward Class) اور دیگر طبقوں میں شمار کرتے ہیں) قابل لحاظ فرق پایا جاتا ہے، اور یہ کہ مسلم فرقہ ترقی کے عملاً تمام مظاہر میں خسارے اور محرومیوں سے دو چار ہے، در حقیقت زیر غور تمام اشاریوں کے لحاظ سے مسلمانوں کی حالت کم و بیش ایس سی، ایس ٹی(پسماندہ ترین طبقات،Scheduled Castes and Scheduled Tribes) سے کچھ بہتر مگر ہندو او بی سی، دیگر اقلیتوں اور عام ہندوؤں (بیشتر اعلی ذات والے)سے بدتر ہے۔ کثیر مسلم آبادی والی ریاست مغربی بنگال، بہار، اترپردیش اور آسام میں یہ صورت حال بطور خاص سنگین ہے، لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان خساروں اور محرومیوں کے باوجود مسلمانوں میں نوزائدہ بچوں کی شرح اموات اور صنفی تناسب کم ہے۔ ترقیاتی خسارے کے علاوہ مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر یہ احساس موجود ہے کہ ان کے خلاف امتیاز برتا جاتا ہے اور انہیں الگ تھلگ رکھا جا رہا ہے، اس سے مسئلہ سنگین تر ہو جاتا ہے ‘‘۔ [1]
آزادی کے بعد مسلمانوں کی سماجی، معاشی، سیاسی، تعلیمی اور دینی صورتحال کے تفصیلی جائزہ اور اس پر بحث کی ضرورت ہے۔
سماجی حالت
جہاں تک سماجی صورتحال کا تعلق ہے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ سماجی طور پر ہندوستانی مسلمان کئی طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ پہلا یہ کہ ان کے رہائشی علاقے ترقیاتی مواقع سے محروم ہیں۔ تشویشناک حد تک غربت نے اکثریت کو گھر کے لئے زمینوں سے محروم کر رکھا ہے۔ ان کے اپنے گھر کے لیے زمین پچاس فیصد کے پاس بھی نہیں ہے۔ غربت نے کئی طرح کی سماجی و معاشرتی خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ ان کے گھروں کا ماحول دینی تعلیم کے فقدان کی وجہ سے اسلامی نہیں رہا۔ رہن سہن، تہذیب و ثقافت اور شادی بیاہ کے رسوم میں وہ مقامی معاشرہ کے اثرات قبول کرتے جا رہے ہیں۔ ان کے اندر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی، شریعت کے مطابق موروثی جائیداد کی تقسیم اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے جذبات میں کمی کا واقع ہونا قابل توجہ ہے۔ ان میں اخلاقی خرابیاں جیسے شراب نوشی، کاروبار میں سچائی سے دوری، انصاف اور ہمدردی کی کمی صاف دکھائی دیتی ہے؛ اگرچہ بہت حد تک یہاں کے بسنے والے دیگر طبقات کے مقابلے میں اچھے اخلاق کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ گھریلو اعتبار سے بعض حساس علاقوں میں پینے کے صاف پانی اور صفائی کی عدم موجودگی نے صحت کے علاوہ انہیں کئی طرح کے سماجی، نفسیاتی مسائل جیسے ذہنی تناؤ، ڈپریشن وغیرہ میں مبتلا کر دیا ہے۔بعض علاقوں میں ان کی حالت ایسی ہے جیسے جانوروں کی ہوتی ہے۔ یہ سب امور انتہائی تشویشناک ہیں ۔ خاص طور پر ایسی آبادیاں جہاں یہ تھوڑی تعداد میں ہیں اور غربت میں مبتلا ہیں ان کی معاشرتی زندگی بھی ویسی ہی ہے۔ جیسی ایس سی اور ایس ٹی کی زندگی ہے۔
سماجی صورتحال کی بیشتر خرابیاں بدتر معاشی حالت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اور ان کی معاشی حالت مختلف میدانوں میں انتہائی تشویشناک ہے۔
معاشی حالت
مسلم معیشت کا جہاں تک تعلق ہے تو معاشرے کا یہ پہلو بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی آمدنی قومی سطح کی آمدنی سے کافی کم ہے۔ وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ ایجنسیا ں مسلمانوں کو تعاون دیں تاکہ وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکیں۔شہریوں کے اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے قرضے ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں، لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ملازمتوں میں ان کی حصہ داری چاہے سرکاری شعبے میں ہو یا غیر سرکاری شعبےمیں بہت کم ہے۔ اس طرح بینکوں سے ملنے والے قرضوں کی صورتحال کچھ زیادہ امید افزا نہیں ہے۔ مختلف رپورٹوں سے معلوم ہوتاہے کہ صرف چار فیصد افراد کو بینک قرضوں تک رسائی ہے۔ بلکہ قابل لحاظ مسلم آبادی والے بیشتر علاقوں کو بینکوں نے منفی علاقہ قرار دے دیا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کو بینک قرض نہیں دیتے۔ یہی حال وزیراعظم کے پندرہ نکاتی پروگرام کے تحت قرضوں کی سہولت کا ہے، وہاں بھی مسلمان فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح قومی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن ، نیشنل بیک ورڈ کلاس، فائنانس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور دیگر مالیاتی اداروں کی طرف سے دئیے جانے والے قرضوں کا جہاں تک تعلق ہے تو یہاں بھی بالعموم مسلمانوں کو محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تعلیمی حالت
جہاں تک مسلمانوں کی عمومی تعلیم کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مختلف رپورٹوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مسلم طلبہ اور عام مسلمانوں کی خواندگی کی شرح قومی شرح خواندگی سے کم ہے۔ یہ فرق دیہی علاقوں کے مقابلہ میں شہری علاقوں میں زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 6سال سے 14 سال کی درمیانی عمر والے 25 فیصد مسلم بچے یا تو کبھی اسکول جاتے ہی نہیں اور جاتے ہیں تو درمیان میں ہی تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔ یہی حال اعلی تعلیم کا ہے ۔دیگر تمام طبقوں کے مقابلہ میں خاص طور پر شہری علاقوں کے مردوں میں گریجویشن مکمل کرنے کا امکان ایس سی ایس ٹی سے بھی کم ہوتا ہے، اور جو گریجویٹ ہوتے ہیں ان میں دیگر طبقوں کے مقابلے مسلم طبقے میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ جہاں تک خواتین کی تعلیم کا تعلق ہے شہری علاقوں میں یہ فرق کافی نمایاں ہے۔ دیگر پسماندہ طبقات کے مقابلے مسلم خواتین کی شرح خواندگی کافی کم ہے۔ اس کی ایک وجہ مسلم علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول کی عدم موجودگی ہے ، کالج تو اور بھی کم ہیں ، اسی لیے مسلمان طلبا و طالبات ہائر سکینڈری اور کالج کی سطح پر نسبتاً زیادہ نقصان میں ہیں۔
تحفظ اور شناخت
مسلمان مذہبی اور ثقافتی طور پر اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ لباس میں عورتیں پردہ کے لیے نقاب استعمال کرتی ہیں اور مرد داڑھی رکھتے ہیں اور ٹوپی استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ اپنی شناخت کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر تحفظ کے مسائل سے دوچار ہیں۔ بعض ریاستوں میں یہ شکایت ملتی ہے کہ کسی داڑھی اور ٹوپی والے کو بازاروں ، ریلوے اسٹیشنوں اور عوامی جگہوں سے انکوائری کے بہانے پولیس اٹھا کر لے گئی ہے۔ اسی طرح نقاب پوش مسلم عورتوں کو شکایت ہے کہ بازاروں، ہسپتالوں اور اسکولوں میں ان کے ساتھ سخت نازیبا سلوک کیا جاتا ہے؛ یہاں تک کہ پبلک سیکٹر ٹرانسپورٹ بھی محفوظ نہیں ہے۔اس تناظر میں مسلمانوں کے لیے بعض علاقوں کو انتہائی غیر محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ان کے خلاف ہر سطح پر آوازیں کسی جاتی ہیں اور انہیں شک کے دائرہ میں رکھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ کسی داڑھی والے مسلمان کو برملا آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دینے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔دہشت گردی سے متعلق کسی بھی سانحہ کے بعد پولیس کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کا اغوا عام بات ہے ۔ مسلم خواتین کی عزت و عصمت خاص طور پر فسادات کے موقع پر بالکل غیرمحفوظ ہوجاتی ہے۔
دینی حالت
ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی حالت کو بھی کسی طرح قابل اطمینان نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی رہائش ہندوستان کے ایسے شہری اورر دیہی گاؤں اور محلوں میں ہےجہاں عام طور پر نہ مساجد ہیں، نہ مکاتب، نہ اس میں علماءو مبلغین کی آمد و رفت ہے۔بہت سی آبادیوں میں یہ تھوڑی تھوڑی تعداد میں موجود ہیں وہ اپنی غربت اور جہالت کی وجہ سے دین سے ناآشنا ہیں اور ان کے ایمان کو خطرات لاحق ہیں بعض جگہوں پر تو صرف ختنہ اور نکاح کی حد تک ہی مسلمان ہیں۔وہ حلال و حرام پاکی و ناپاکی یا نماز، روزے سے بھی ناآشنا ہیں۔ اگر ہم جمعہ اور عیدین میں شریک ہونے کی بات کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ کل مسلم آبادی کے نصف حصے سے کم اس میں شریک ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے اس میں مسلمان مرد ہی شریک ہوتے ہیں، خواتین جمعہ اور عیدین سے بھی محروم ہوتی ہیں۔پنجگانہ نمازوں میں دس ہی فیصد مردوں اور عورتوں پر مشتمل اس کی پابندی کرتےہیں۔ رمضان کے روزے البتہ نوے فیصد سے زیادہ افراد رکھتے ہیں جس میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔ جن لوگوں پر زکوۃ فرض ہے پورے ملک میں غالباً چالیس فیصد افراد ہی اس فریضہ کی ادائیگی پر عمل کرتے ہیں، یہی حالت دیگر احکام شریعت اور ان کی اخلاقیات کا ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ جو دس فیصد افراد میں جو دینی پختگی ہے ان میں سے پانچ فیصد تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے باضابطہ دینی مدارس میں تعلیم پائی ہے۔
مسلمانوں کی دینی تعلیم
انگیزوں کے غلبے کے بعد انیسویں صدی میں برصغیر ہند کے مسلمان جن سنگین مسائل سے دوچار ہوئے تھے ان میں دینی مدارس اور تعلیم کے نظام کا خاتمہ بھی تھا۔ اس لیے علماء کے سامنے ایک بڑا مسئلہ دین اور تعلیم دین کی حفاظت و فروغ اور دینی شناخت کی بقاء کاتھا؛ چونکہ پہلے سے جن مدارس میں علماء خدمات انجام دے رہے تھے نظام حکومت بدلنے سے وہ مدارس زوال کا شکار ہو گئےیا انگریزوں نے ان علماء کو قیدو بند کی صعوبتیں دے کر مدارس پر روک لگانے کی کوشش کی، مدارس کی جاگیریں اور اوقاف کو ضبط کرکےذرائع آمدنی کو مسدود کر دیا جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اس ملک کے مدارس بند ہوگئے۔
اس کے بعد علماء نے محسوس کیا کہ مدارس کو عوامی شکل دی جائے اور اسے سرکاری سرپرستی سے الگ رکھا جائے۔چنانچہ علماء نے 1857 ء کے بعد دینی مدارس قائم کرنے کی تحریک شروع کی اور اس کی بنیاد عوامی چندے پر رکھی،خاص طور پر حضرت مولانا قاسم نا نوتویؒ نے 1866 ء میں دارالعلوم دیوبند قائم کیااور دیگر اکابر علماء نے اس تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس کے ذریعہ مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ یہ کوشش انیسویں صدی سے لے کربیسویں صدی تک جاری رہی اور اکیسویں صدی میں بھی یہ تحریک جاری ہے۔ اس مدت میں مدرسے قائم کیے گئے اس کے اثرات مسلمانوں میں دور رس ہوئے اور مسلمانوں میں نسل در نسل علم دین سے وابستگی کا علماء کا منصوبہ کامیاب رہا۔ اس کی وجہ سے انیسویں اور بیسویں صدی میں یہاں کے مسلمان اپنی دینی شناخت کو برقرار رکھنے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ اس تحریک کو دنیا کے ان دیگر ملکوں میں بھی پہنچایا جہاں کے مسلمان بے دینی کا شکار ہو گئے تھے اور جہاں کے مسلمان مدارس کی حکومتی سرپرستی کے ختم ہونے کے بعد دینی تعلیم کا نظام ختم ہونے سے مشکلات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ علماء نے صرف مدارس ہی قائم نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ ان کی ذات مسلسل طور پر علم اور تعلیم کا مرجع بنی رہی، ان کا گھر لوگوں کے لیے تعلیم گاہ کا کام کرنے لگا، اور اس تعلیمی تحریک سے اسلامی معاشرہ کے ہر طبقہ نے فیض اٹھایا۔
ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کی دینی ضرورتیں انہی سے پوری ہوتی رہی ہیں۔ مدارس ہی سے مساجد کے امام، مکاتب کے معلم، مفتی، قاضی اور دعوت و تبلیغ کے کام کرنے والے افراد ملتے ہیں بلکہ مدارس سے صحافی، اسلامی اسٹڈیز کے اسکالر اور دنیاوی کاموں میں بھی یہاں کے افراد ملتے ہیں جیسے سفارت خانے، ریڈیو، برآمدی تجارت، امور خارجہ اور ثقافتی اداروں کے لیے اردو اور عربی کے افراد مدارس ہی سے آتے ہیں۔ بلکہ کمپیوٹر جاننے کی بنیاد پر اردو اور عربی کے کمپورز بھی یہی سے ملتے ہیں۔ ملک کے اندر کی دینی ضرورتیں انہی سے پوری ہوتی ہیں۔اس تعلیم و تربیت کے نظام کو اور زیادہ مفید بنایا جا سکتا ہے۔ امکانات سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے مسلسل مشترکہ غور و فکرکی ضرورت ہے، تاکہ ان مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کا علمی معیار اور بلند ہو اور مدارس سے ایسے فقہاء ملت تیار ہوں جو موجودہ دور کے نئے مسائل پر مجتہدانہ نگاہ ڈالیں اور شریعت اسلامی کی ابدیت کو دنیا کے سامنے علمی و عملی طور پر پیش کریں ۔ اس سمت میں جو کام ہونا چاہیے اس میں بہت کمی ہے، اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دینی تعلیم کے اس نظام کو اور پھیلائیں اور ان تمام قصبات اور محلوں میں دینی مکاتب کے نظام کو قائم کریں تاکہ وہاں کی نئی نسل دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ ہو۔
[1] سچر کمیٹی رپورٹ/ 231