اسلامی تانیثیت کی تفسیری بنیادیں
اسلامی تانیثیت (Islamic Feminism) ایک علمی اور عملی تحریک ہے جو مسلم معاشروں میں خواتین کے حقوق، صنفی مساوات، اور شریعت کے دائرے میں عدل و انصاف کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس تحریک کی بنیاد صرف عصری سماجی اور سیاسی حالات پر نہیں بلکہ قرآن و سنت کے دقیق مطالعہ، اسلامی فقہ کی تنقیدی تشریح، اور تاریخی تجربات پر بھی ہے۔ اسلامی تانیثیت کی تفسیری بنیادیں اس مفروضے پر قائم ہیں کہ اسلام ایک عدل پسند اور مساوات پر مبنی دین ہے، اور اس کے اصلی پیغام میں خواتین کے حقوق اور ان کی سماجی، سیاسی، اور اقتصادی شمولیت کے لیے واضح اصول موجود ہیں۔
اسلامی تانیثیت کی بنیادیں درج ذیل نکات پر مرتکز ہیں:
1 . شان نزول اور مخصوص سماج کےتناظر میں نصوص کی تفہیم :
مسلم فیمنسٹ مفکرین نصوص کی تفہیم کے لئے تاریخی سیاق و سباق کو اہمیت دیتی ہے کہ کسی بھی آیت کو سمجھنے کے لئے اس آیت مبارکہ کے پسِ منظر یعنی شان نزول کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ عمومی اور خصوصی آیات کے درمیان فرق کرتے ہوئے یہ پہچانا جا سکے کہ ایسی کون سی آیات ہیں جن کا تعلق خاص تاریخی حالات سے ہے اور کون سی آیات ایسی ہیں جو عام انسانوں پر لاگو ہوتی ہیں؟روایتی مسلم فکر میں بھی شان نزول کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شان نزول ہی کے ذریعے اس کا بات کا علم ہوتا ہے کہ نص میں ذکر حکم کا دائرہ کار کیا ہے؟اس سلسلے میں فیمنسٹ ماہرین مختلف نصوص کو اسی تناظرمیں دیکھتے ہوئے تعبیرِ نو کرتی ہیں۔ جیسے قرآن کریم میں ذکر تصور قوامیت کے متعلق فیمنسٹ تھیالوجسٹ کو کافی خدشات لاحق ہوچکے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ عصر حاضر میں مر د کی قوامیت ثابت نہیں کیونکہ آج کا سماج اور معاشرہ چودہ سو سال پہلے کے سماج و معاشرہ سے یکسر مختلف ہے۔
قرآن کریم میں ذکر قوامیت کے تصور کو مخصوص سماج میں سمجھنا ہے کیونکہ ان کے ہاں آیت کی تفہیم کے لئے سیاق و سباق اور سماجی حالات کو مدنظر رکھنا ضرورہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مرد کی قوامیت کا بیان فرماتے ہیں کہ:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ[1]
مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے۔
مشہور مسلم فیمنسٹ آمنہ ودود اس آیت کے شانِ نزول اور ساتویں صدی عیسوی کے مسلمسماج ومعاشرہ کو سامنے رکھ کر قرآن کے تصور قوامیت پر بحث کرتی ہیں کہ مرد کی قوامیت مطلق نہیں بلکہ مشروط ہے۔آمنہ ودود رقمطراز ہیں کہ:
Many men interpret the above passage’ as an unconditional indication of the preference of men over women(in strength and reason),Faddala cannot be unconditional.All men do not excel over all women in all manners۔[2]
بہت سے مرد مذکور بالا اقتباس کی تشریح، مردوں کی عورتوں پر (قوت اور عقل میں) غیر مشروط ترجیح کے طور پر کرتے ہیں۔ فَضَّلَہ کا لفظ غیر مشروط نہیں ہو سکتا۔ تمام مرد ہر معاملے میں تمام عورتوں سے برتر نہیں ہوتے۔
آمنہ ودود کے ہاں مرد کی قوامیت دو شرائط کے ساتھ ثابت ہے کہ پہلی شرط تو فضلیت ہے اور دوسری شرط مالی کفالت ہے۔ جس کے متعلق خود آمنہ ودود لکھتی ہیں کہ:
In this verse it means that men are qauwamuna ‘ala women only if the following two conditions exist. The first condition is ‘preference’, and the other is that they support the women from their means. ‘If either condition fails, then the man is not ‘qawwam over that woman’.[3]
اس آیت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں صرف اسی وقت جب درج ذیل دو شرائط موجود ہوں۔ پہلی شرط "فضیلت” ہے اور دوسری یہ کہ وہ عورتوں کو اپنے مال سے نان و نفقہ فراہم کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بھی شرط پوری نہ ہو تو مرد اس عورت پر قوام نہیں ہے۔
ودود کے ہاں فضیلت کا تصور کسی مخصوص جنس سے وابستہ نہیں، بلکہ یہ انفرادی صلاحیتوں، قابلیت اور خصوصیات پر مبنی ہے۔یہ ضروری نہیں کہ تمام مرد ہر لحاظ سے تمام خواتین پر فضیلت رکھتے ہوں، بلکہ یہ انفرادی اہلیت اور کارکردگی پر منحصر ہے۔ قرآن مجید میں مردوں کی فضیلت کا ذکر ان کی مخصوص معاشرتی ذمہ داریوں کے تناظر میں کیا گیا ہے، جیسے مالی کفالت اور دیگر سماجی فرائض۔ یہ فضیلت درحقیقت ایک ذمہ داری ہے اور اسے کسی کی ذاتی برتری یا غیر مشروط فوقیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ودود اس تصور کو محدود اور مشروط کرتے ہوئے اسے اسلامی انصاف اور انسانی برابری کے اصولوں سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ معاشرتی عدم توازن کو دور کیا جا سکے اور حقیقی مساوات کا قیام ممکن ہو۔اسی پہلو کو لیکر آمنہ ودود لکھتی ہیں کہ:
Although the Quran states that some prophets are preferred over others,it also states that no distinction is made between them. This intdicates that, in the Quraniq usage, preference is relative. Faddala cannot be unconditional. All men do not excel over all women in all manners, because verse does not read they are preferred over them, It reads ba’d(some) of them over bad.[4]
"اگرچہ قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ کچھ نبیوں کو دوسروں پر فضیلت دی گئی ہے، تاہم یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن کے اسلوب بیان میں فضیلتِ نسبتی کا بیان ہے، غیر مشروط فضیلت نہیں ہو سکتی۔ تمام مرد تمام عورتوں پر ہر معاملے میں برتری حاصل نہیں کرتے، کیونکہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ ‘وہ ان پر فضیلت رکھتے ہیں’، بلکہ یہ پڑھا جاتا ہے کہ ‘بعض (کچھ) ان میں سے بعض پر۔”
یعنی یہ آیت مردوں کی برتری کو عالمی طور پر بیان نہیں کرتی اور نہ ہی ہر صورت میں مردوں پر نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد کرتی ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین پر اضافی ذمہ داریوں جیسے بچوں کی پیدائش کا بوجھ نہ ہو۔ لیکن، "قوامہ” یا اقتصادی فراہمی کا مردانہ کردار ہمیشہ جدید معاشرتی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ قرآن نے دونوں کو باہمی ذمہ داری قرار دیا ہے تاکہ صنفی مساوات پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ باہمی ذمہ داری کسی خاص وقت یا جگہ تک محدود نہیں ہے، لہذا جدید معاشروں میں بھی اس کا اطلاق ممکن ہے۔یہ وہ پہلی بنیاد ہے جس پر تعبیرِ نو کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔
(جاری ہے:)
[1] سورہ النساء:34
[2]Amina Wadud, Quran & Woman, New york Oxford ,University Press 1999,p#71
[3] Amina Wadud, Quran & Woman, New york Oxford ,University Press 1999,p#70
[4] Amina Wadud, Quran & Woman, New york Oxford ,University Press 1999,p#71