افغانستان ڈائری: امارتِ اسلامیہ میں ہمارے مشاہدات (قسط سوم)

0

اس قسط میں ہم امارتِ اسلامیہ کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کے  بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔یہ اس لیے اہم ہے کہ اس سے متعلق لوگوں میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ جانے سے قبل کچھ لوگوں سے ہم نے سنا تھا کہ امارت اسلامیہ  میں ایک رہبرِشوری ہے جو احکامات جاری کرتی ہے اور وزراء اور ادارے ان پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔مگر جب ہم وہاں پہنچے اور لوگوں سے مستند معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ اس نظام میں سب سے اوپر سپریم لیڈر ہے جو امیرالمؤمنین ہے۔ اس کے بعد رئیس الوزراء یعنی وزیراعظم کا درجہ آتا ہے۔اس کے بعد پھر ایک کابینہ ہے جو وزراء پر مشتمل ہوتی ہے۔ہر وزارت میں ایک وزیر اور اس کے ساتھ معاون وزیر ہوتا ہے۔پھر اس کے ساتھ ہی ایک رئیسِ عمومی ہوتا ہے  جس طرح ہمارےیہاں کسی بھی ادارے کا اکیس بائیں گریڈ کا کوئی سیکرٹری ہوتا ہے اور پھر اس کے نیچے مکمل ایک نظام ہوتا ہے جو پورے ملک میں کام کرتا ہے۔ وزرات سے متعلقہ تمام امور پورے ملک سے پہلے رئیسِ عمومی کے پاس آتے ہیں۔پھر نائب وزیر اور بعدازاں وزیر کے پاس جاتے ہیں۔

اسی طرح حکومت چلانے کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے  جسے وزراء کی شوری کہا جاتا ہے۔ ابھی رہبر شوری کا کوئی وجود نہیں ہے۔کابینہ کے اجلاس ہی کو شوری کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر وزیر کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔اگر وہ دستیاب نہ ہو تو معاون وزیر موجود ہوتا ہے۔ شوری میں تمام اہم امور زیربحث آتے ہیں اور بحث کے بعد احکامات جاری کیے جاتے ہیں جو تمام وزارتوں کو پہنچتے ہیں۔البتہ عام طور پر دو طرح کے امور ایسےہیں جو کابینہ اجلاس میں زیربحث آنے کے بعد حتمی فیصلے کے لیے امیرالمؤمنین کے پاس بھجوائے جاتے ہیں۔ ایک تو ایسے امور جو خارجہ پالیسی سے متعلق ہوتے ہیں، اور دوسرے وہ شرعی امور جن میں شریعت کا کوئی واضح حکم نہیں ہوتا اور متعدد آراء موجود ہوتی ہیں۔ایسے احکامات میں حتمی رائے معلوم کرنے کے لیے امیر المومنین کو بھیج دئیے جاتے ہیں اور امیر المؤمنین  دو سے تین دنوں میں حتمی رائے دیتے ہیں جو نافذالعمل ہوتی ہے۔ان کے علاوہ باقی تمام امور میں وزارتیں اور کابینہ تقریباً بااختیار ہوتی ہیں۔ امیر المؤمنین کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے پاس کوئی غیر ضروری مسئلہ نہ آئے اور وزارتیں خود معاملات حل کریں۔البتہ ہر وزارت اور پورے نظام میں امیرالمؤمنین نے کچھ خفیہ اہلکار متعین کیے ہوتے ہیں جو وزارت کی کارکردگی کو امیر المؤمنین کو رپورٹ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ریاستی معاملات کو چلانے کے لیے جو اہم تقرریاں ہوتی ہیں، انہیں امیرالمؤمنین خود دیکھتے ہیں۔اسی لیے امیر المؤمنین بہت زیادہ مصرورف ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وزارتیں خود اچھے سے کام کریں۔ صبح فجر کی نماز کے بعدسے رات بارہ بجے تک امیر المؤمنین مصروف رہتے ہیں۔ان کی مصرصورفیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر کوئی وزیر ان سے براہ راست ملاقات کرنا چاہے تو اسے اکثر و بیشتر دس سے بارہ دن کاوقت لینا پڑتا ہے۔

بیوکریسی اور وزارتوں کے لیے جو گزشتہ حکومت میں سیکرٹریٹ اور عمارتیں مختص تھیں، لگ بھگ انہیں مقامات پر ہی موجود وزارتیں کام کر رہی ہیں اور انہیں مقامات پر ہی موجودہ وزراء بیٹھتے ہیں۔ہر وزارت کا ایک خاص طریق کار اور مضبوط سکیورٹی سسٹم ہے  جو اچھی طرح سے فعال ہے۔ہر وزیر کو ملنے کے لیے وقت لینا پڑتا ہے۔بیوروکریسی میں کام کرنے والے گزشتہ حکومت کے اہلکاروں میں جو قابل اعتماد اور اچھے لوگ تھے کوشش کی گئی ہے وہ اپنا کام جاری رکھیں۔ بلکہ جن لوگوں کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ انہوں نےحکومت کی تبدیلی کے بعد کام چھوڑ دیا ہے ان سے رابطوں اور ان کی بحالی کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا ہے جو ان سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔کئی اداروں میں تو وہی پرانے لوگ ہی کام کررہے ہیں، جیسے امیگریشن اور ٹریفک وغیرہ کے ادارے۔البتہ چند وزارتیں ایسی ہیں جو حساس قسم کی ہیں۔ جیسے امربالمعروف یا وزارت داخلہ، تو ان کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ان میں صرف اپنے لوگ بھرتی کیے گئے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جوامیر المؤمنین کے  خاص اور قریبی سمجھتے جاتے ہیں جن سے وہ اہم شرعی و خارجہ امور میں مشاورت کرتے ہیں۔یہ کوئی پانچ چھ افراد ہیں۔ ان میں سرفہرست شیخ خالد حقانی ہیں، اسی طرح شیخ فرید صاحب ہیں۔حاجی یوسف وفا ہیں۔ شیخ عبدالحکیم حقانی اور نورمحمد ثاقب ہیں۔ایسے ہی جو بھی شخص قندھار کا گورنر ہوتا ہے وہ ان کے قریبی لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قندھار کے گورنر پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،کہ وہاں خود امیر المؤمنین  مقیم ہوتے ہیں اور جو بھی اہم شخصیات ان سے ملاقات کے لیے آتی ہیں ان کے معاملات وہ دیکھتے ہیں۔ قندھار کا یہ منصب اس لیے بہت خاص سمجھا جاتا ہے حتی کہ گورنر کو کوئی بیماری بھی لاحق ہو تو اس کاصحیح  علاج کرانے کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔

طالبان کی حکومت نے عمارتی اور ادارتی  پرانے ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا،بلکہ اس کو باقی رکھتے ہوئے اسی میں کام کیا جا رہا ہے۔جب طالبان اقتدار میں آئے تو کچھ لوگوں میں خدشات تھے کہ شاید سختیاں زیادہ کی جائیں گی، مگر اس مرتبہ سختیاں عام طور پہ نظر نہیں آتیں۔ چند امور کہ جن سے متعلق پچھلی قسط میں بھی ذکر ہوچکا کہ ان میں کچھ مسائل ابھی ہیں۔ جیسے خواتین کی تعلیم کا مسئلہ بہت سنگین نوعیت کا ہے خودی طالبان کے اندر اس حوالے سے شدید اختلاف رائے موجود ہے اکثریت کے رائے میں خواتین کو تعلیم سے نہیں روکنا چاہیے۔ ایسے ہی خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے بھی ایک مسئلہ موجود ہے۔ جو خواتین سرکاری اداروں میں کام کر رہی تھیں انہیں گھر بیٹھنے کا حکم جاری کردیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق انہیں حالیہ دسمبر تک گھر پہ تنخواہیں مل رہی تھیں،مگر اب انہیں بتا دیا گیاہے کہ جنوری سے انہں تنخواہیں نہیں ملیں گی۔اس کے علاوہ عمومی حیثیت میں  خواتین باہر نظر آتی ہیں۔کئی ایک  ہوٹلوں کے استقبالیے پر پردے میں خواتین موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح بازروں میں بھی نظر آجاتی ہیں۔باہر تمام خواتین پردے میں یاان کا  چہرہ چھپا ہوا نہیں ہوتا،بلکہ کچھ خواتین  کا چہرہ کھلا بھی ہوتا ہے۔

امر بالمعروف کے اہلکاروں سے میری تفصیلی بات ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ 78 کلومیٹر کے اندر اندر خواتین کو اگر کوئی کام ہے تو وہ بغیر محرم کے سفر کرسکتی ہیں، لیکن 78 کلومیٹر سے زیادہ کی مسافت بغیر محرم کے طے نہیں کرسکتیں۔ایسے ہی اگر کہیں ایسے کام ہورہے ہوں جو گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتے ہوں تو امربالمعروف  کی وزارت پہلے اسے خط لکھتی ہے،دوسری مرتبہ وضاحت طلب کرتی ہے،تیسری مرتبہ تنبیہ جاری کی جاتی ہے، اور چوتھی مرتبہ تادیبی کاروائی کی جاتی ہے۔غیرشرعی کام کہیں پہ ہو رہا ہو، اس کی روک تھام کے لیے امربالمعروف کے ادارے کو ہی اطلاع کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی متعلقہ ادارہ ہی بتائے گئے پراسس کے ساتھ کام کرتا ہے۔جبکہ پچھلی بار کی طالبان حکومت میں انفرادی سطح پر بھی یہ کام کیے جاتے تھے۔

اسی طرح ان کی پچھلی حکومت کے دوران طالبان کی 80  سے 85 فیصد رقبے پر اقتدار تھا، مزاحمتی تحریکیں اور جماعتیں بھی موجود تھیں، مگر اس بار پورے افغانستان پر بلاشرکت غیر طالبان کی حکومت قائم ہے، اور کوئی بڑی مزاحم قوت موجود نہیں ہے۔ اسی لیے طالبان کو بھی احساس ہے کہ لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے تو انہیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانی ہوں گی۔

دو تین مسائل کے علاوہ کہیں پہ کوئی خاص سختی والا ماحول نہیں ہے۔ حجام کی دکانیں کھلی رہتی ہیں۔اسی طرح اگر گاڑی میں مرد اور خاتون ہوں تو ان سے رشتے اور تعلق کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا کہ تم آپس میں کیا لگتے ہو۔شروع  کے دنوں میں سکیورٹی مسائل اور حساسیت کے سبب کچھ تھوڑی بہت پوچھ گچھ ہوتی تھی، مگر پچھلے چند ماہ سے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

جاری ہے