کیا کرسمس کی مبارکباد دینا جائز ہے؟

مفتی منیب الرحمان

0

حالیہ کرسمس کے موقع پر ایک اخبار نے Happy Christmas کہنے کے بارے میں مختلف مسالک کے علماء سے آراء طلب کیں، اُن میں سے بعض نے کسی وضاحت اور فرق کے بغیر اِسے حرام قرار دیا اور بعض نے کفر و شرک قرار دیا۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ کفر و شرک کا فتویٰ صادر کرنے میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہیے، کیونکہ دینی حکمت سے عاری فتویٰ پر بعض اوقات منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

Happy Christmasکا معنی ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘‘۔ پس اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی پاکستانی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے کہ اُس پر کوئی فتویٰ صادر کیا جائے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مخلوق ہیں، حادِث ہیں اور اللہ کے بندے ہیں، جبکہ خالق کی ذات ازلی و ابدی ہے، قدیم ہے، اپنے آپ سے ہے، اُس کے تمام کمالات ذاتی ہیں، مخلوق خالق کا جز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات باپ، بیٹے اور بیٹی کی نسبت سے پاک ہے۔ الغرض پیدائش کی نسبت سے ہی خدا ہونے یا اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہوجاتی ہے۔ سو فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔

رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشور کا روزہ رکھ رہے ہیں، آپﷺ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟، انہوں نے کہا: اِس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعونیوں کو غرق کر دیا تھا، تو اُس کے شکرانے کے طور پر موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ہمارا تعلق موسیٰ سے تمھارے مقابلے میں زیادہ ہے، سو آپ نے خود بھی یومِ عاشورکا روزہ رکھا اور اُس کا حکم بھی فرمایا. (سنن ابن ماجہ:1734)‘‘۔

دوسرے مقام پر ہے : جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھا اور اُس کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب آئندہ سال آئے گا تو ہم اِن شاء اللہ نو محرم کو بھی روزہ رکھیں گے. (صحیح مسلم:2555)‘‘۔ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’یومِ عاشور کا روزہ رکھو اور اِس میں یہود کی مخالفت کرو، (اس مشابہت سے بچنے کے لیے) اُس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لیا کرو. (مسند احمد: 2154)‘‘۔

اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ جو کام اپنی اصل کے اعتبار سے پسندیدہ ہے، اُسے محض اہلِ کتاب کی مشابہت کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایسی تدبیر کی جائے کہ وہ پسندیدہ عمل بھی ادا ہوجائے اور مشابہت سے بھی بچ جائیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُن (یحییٰ علیہ السلام) پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ، (مریم:15)۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جائوں گا، (مریم:33)‘‘۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت، یومِ وفات اور قیامت کے دن اُن کے اٹھائے جانے کی نسبت سے اُن پر سلام بھیجا اور اِسی نسبت سے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر سلام بھیجا۔

علامہ جوزی لکھتے ہیں:’’حسن بصری نے بیان کیا :حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی ملاقات ہوئی، حضرت یحییٰ و عیسیٰ علیہما السلام نے ایک دوسرے سے کہا: ’’آپ مجھ سے بہتر ہیں‘‘، پھر حضرت عیسیٰ نے کہا: بلکہ آپ مجھ سے بہتر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر خود سلام بھیجا ہے اور میں نے خود اپنے اوپر سلام بھیجاہے. (زاد المسیر ج:3،ص: 123)‘‘۔

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں، اگر ایسا بھی ہے، تو مسلمان کا موحِّد ہونا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ اس طرح کے باطل نظریات سے پاک ہے۔ الغرض جائز حد تک مدارات کی رخصت دی جا سکتی ہے، البتہ مدارات کے نام پر ان کی عبادت گاہوں میں جا کر ان کی مذہبی رسوم میں شرکت کرنا بلاشبہ حرام ہے اور ان کے مذہبی شِعار کو اختیار کرنا بھی حرام ہے، اس میں کوئی اعتقادی یا عملی چیز اگر شرک و کفر پر مبنی ہے، تو شرک و کفر ہے، ورنہ بر سبیل تنزل حرام ہے اور اس میں مدارات کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ یہ مداہنت ہے اور حرام ہے۔ جیسے مسیحیوں کی طرح صلیب لٹکانا یا ہندووں کی طرح زنار باندھنا وغیرہ۔ اسلام میں بھی عید کی مشروعیت تشکرِ نعمت باری تعالیٰ اور اجتماعی شِعار عبادت کے لیے ہے اور مسلمانوں کی حقیقی عید یہی ہے۔ ہم جو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دیتے ہیں، یہ شِعار بھی سنت رسول سے ثابت نہیں ہے، لیکن یہ ایک مستحسن امر ہے، تو اسے ہم جائز قرار دیں گے۔

بشکریہ، روزنامہ دنیا