اسلام – رحمت اللعالمین: انڈونیشیا میں تعبیرِدین کے اُصول(قسط اول)
’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ نے جب مجھے اپنے ایک مذہبی سفارت کاری کے پروگرام کے ضمن میں انڈونیشیا کے سفر کی دعوت دی تو میں نے حسب مزاج انہیں جواب دیا کہ میری روحانی ڈیوٹی مغربی ممالک کی طرف ہے اور میں مشرق کی طرف میلان نہیں رکھتا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ مشرق میں موسم اور خوراک عجیب ہے اور تاریخی لحاظ سے سیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے اصرار پر میں تیار ہو گیا۔ کچھ دوست بھی جا رہے تھے اور انڈونیشیا سے پاکستان کی بھی مماثلت ہے کہ وہاں بھی سماجی انتشار رہا ہے اور غیر جمہوری طاقتوں نے طویل حکمرانی کی ہے جبکہ اب وہاں سماجی ہم آہنگی مثالی ہے۔ جمہوریت ہے اور انڈونیشیا دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ انڈونیشیا کا یہ سفر ہم نے ایک گروپ کی شکل میں کیا جس میں علمائے کرام، سیاست دان اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل تھے اور اس دورہ میں حکومت انڈونیشیا نے خوب سہولت کاری کی۔
انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ اس کی آبادی 28 کروڑ ہے جبکہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہ ملک 17000 جزیروں پر مشتمل ہے جس میں جاوا اور سماٹرا سب سے بڑے ہیں۔ انڈونیشیا مین 1300 نسلی گروہ رہتے ہیں جبکہ 200 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کی آبادی کا 87 فیصد مسلمان ہیں جبکہ 10.5 فیصد عیسائی ہیں اور 1.7 فیصد اور 0.7 فیصد بدھ مت کے پیروکار ہیں۔اس لسانی، علاقائی اور مذہب اختلاف میں متحد انہوں نے ایک راہنما اصول بنا رکھا ہے، وہ ہے کثرت میں وحدت۔
انڈونیشیا اگست 1945ء میں آزاد ہوا۔ اس سے پہلے وہاں نیدر لینڈ نے کئی سو سال بطور استعمار حکومت کی اور پھر آخری دو سال جاپان نے وہاں قبضہ کر لیا تھا۔ انڈونیشای کے پہلے صدر جناب سکارنو تھے جبکہ 1968ء میں جرنل سہارتو نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس زمانہ میں کمیونسٹوں اور دیگر سیاستی جماعتوں اور گروہوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ 1998ء میں پھر وہاں جمہوریت قائم ہو گئی اور ملک معاشی اور سماجی ترقی کی طرف گامزن ہو گیا۔ ملک میں صدارتی نظام ہے۔ پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں جبکہ صدر کا براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ انڈونیشیا دنیا کی سولہویں بڑی معیشت ہے جبکہ فی کس آمدنی 5100 ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی معیشت چھیاسویں نمبر پر ہے جبکہ اس کی فی کس آمدنی 1470 ڈالر ہے۔
انڈونیشیا میں اسلام عرب تاجروں کی مدد سے پھیلا اور پھر تیرھویں صدی سے صوفیائے کرامؒ نے اثر ڈالنا شروع کیا جو زہادہ تر ہندوستان (گجرات) اور یمن (حضرموت) سے تشریف لائے تھے۔ انڈونیشیا ایک سیکولر ریاست ہے جس نے رسمی طور پر چھ مذاہب کو تسلیم کر رکھا ہے۔ بعض احوال کے مطابق تیرھویں صدی میں شمالی سماٹرا میں ایک مقامی مسلم سلطنت قائم ہو گئی تھی۔
انڈونیشیا مسلم دنیا کا ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے بارے میں مفکرین اکثر گفتگو کرتے رہتے ہیں اور اس کو ایک ماڈل کے طور پہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔وہاں کی تعبیرِ دین عام مسلم ممالک،خصوصا ً برصغیر سے کئی پہلوؤں میں مختلف ہے۔اس بابت ہمیں پہلے ہی بہت سی چیزوں علم تھا۔پھرچونکہ یہ دورہ خصوصی طور پہ وہاں کے دینی ڈھانچے کو قریب سے دیکھنے اور براہ راست ان کی مذہبی قیادت ،اہم جماعتوں اور اداروں کا جائزہ لینے کے لیے تھا،اس لیے بھرپور استفادے کا موقع ملا اور مزید کچھ ایسے پہلو تجربے سے گزرے جن کا ذکر کرنا مفید محسوس ہوتا ہے۔پہلے کچھ احوال کو بیان کرتے ہیں تاکہ دینی تعبیر کی عملی شکل سمجھ میں آجائے تو پھر اس کے فکری پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
1 – وسعت نظری کے مظاہر
جب ہم نے شہر میں ٹیکسی کی تو ڈرائیور خاتون ہے،جو نہایت باقار اور پردے کی حالت میں تھی۔وفد میں پاکستان کے دوتین دینی مدارس کی اہم شخصیات بھی ہمراہ تھیں۔ جب اس خاتون نے ہمیں گاڑی میں لے کر ہوٹل چھوڑا تو میں نے اُن علماء سے پوچھا کہ کیا اس سے کوئی مسئلہ یا قباحت پیدا ہوئی ہے؟،تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ان خاتون کا عمل بہت باوقار اور حدود کے اندر تھا۔ایسے ہی جب ہمیں بعد میں انڈونیشیا کے سب سے بڑی مذہبی جماعتوں نہضۃ العلماء اور محمدیہ کے دفاتر اور اداروں میں جانا ہوا تو وہاں بھی ہم نے دیکھا کہ ان کے انتظامی اور علمی شعبوں میں تقریبا آدھا عملہ خواتین پر مشتمل تھا۔بلکہ جن رضاکاروں نے ہمیں چائے وغیرہ پیش کی ان میں بھی خواتین شامل تھیں۔
اس کے علاوہ جب مساجد میں نماز ادا کرنے جاتے تو وہاں پیچھے خواتین نمازی بھی شریک ہوتی تھیں،اور یہ ایک معمول کی بات تھی۔وہاں پر خواتین مساجد میں بہ کثرت دیکھنے کو ملتی ہیں،کہیں کہیں تو ان کی تعداد مردوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی حال ماہ رمضان میں تراویح کے لیے بھی ہوتاہے کہ وہ اپنے مخصوص لباس میں مساجد آتی ہیں اور تراویح ادا کرتی ہیں۔مساجد میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ ہوتا ہے،اور پیچھے ان کی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔مساجد سے متعلقہ انتظامات میں بھی وہ حصہ لیتی ہیں۔انڈونیشیا میں مذہبی معاملات و تبلیغ کے شعبوں میں خواتین کی فعالیت حیران کن حد تک وسیع ہے۔معاشرے نے اسے قبول کیا ہوا ہے اور وہاں پر یہ چیز نارمل ہے۔ان کی یہ سوچ وہاں کی مذہبی تعبیر سے ہی پھوٹتی ہے۔
جب ہم نے معاشرے کے ہر شعبے میں خواتین کی معمول کی شراکت کو دیکھا اور ان سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ دراصل ان کی مذہبی تفہیم تھی کہ اللہ تعالی نے جو کچھ مرد کے لیے بنایا ہے ، وہی خواتین کے لیے بھی بنایا ہے۔اصول کے طور پہ دونوں اصناف میں برابری ہے۔ان کے مطابق، اگر مرد کما رہا ہے اور روزی رزق کا انتظام سنبھالتا ہے اور خاتون اس پہ انحصار کرتی ہے تو مرد ’قوام‘ ہے، اور اگر خاتون کماتی ہے اور مرد اس پر انحصار کرتا ہے تو ایسی صورت میں خاتون قوام سمجھی جائے گی۔یہ تعبیر ہمارے لیے بہت عجیب اور نئی تھی۔
یہ تو مذہبی ادروں میں خواتین کی سماجی فعالیت و شراکت کا پہلو تھا،جس پر ہم آگے مزید کچھ عرض کریں گے۔اِن مذہبی جماعتوں کے دفاتر اور ہیڈآفسز میں جب ہم نے ان کی قیادت سے ملاقاتیں کیں تو ایک مشترک امر یہ دیکھنے کو ملا کہ کرسی کے پیچھے دیوار پر انڈونیشیا کے صدر اور نائب صدر کی تصاویر آویزاں تھیں۔یعنی کہ ملک کے مرکزی دھارے کی مذہبی جماعتوں کے اداروں اور دفاتر میں ریاست کے سربراہان کی اہمیت اور حیثیت کو اسی طرح تسلیم کیا گیا تھا اور انہیں تکریم دی گئی تھی جس طرح ان کے عام سرکاری اداروں میں ہوتا ہے۔کم ازکم ہمارے یہاں کے مذہبی اداروں اور جماعتوں کے دفاتر میں یہ تصور بھی نہیں ہے کہ وہ ریاست کے سربراہان کی تصاویز آویزاں کریں۔اول تو کوئی بھی تصویر نہیں ہوگی کیونکہ وہ اسے جائز نہیں سمجھتے یا اگرکہیں ہوگی تو اپنے علماء کی تصویر لگائیں گے۔
اس دورہ میں ہمیں انڈونیشیا این جی او فورم آن انڈونیشیا ڈیویلپمنٹ (INFID) سے شرف میزبانی بخشا۔ یہ ادارہ بہت سے این جی اوز کا مشترکہ فورم ہے جو 1985ء میں قائم ہوا تھا جس کے بنانے میں نھدۃ العلماء کے لیڈر جناب عبدالرضی واحد (دس گر) جو انڈونیشیا کے چوتھے صدر (2021ء – 2019ء) سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے ملک میں جمہوری اقدار، مساوات، سماجی انصاف اور حقوق انسانی کے لیے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
ائیرپورٹ سے چیکنگ کے بعد جب ہم ہوٹل پہنچے تو ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔ ہم ہوٹل میں موجود مصلیٰ میں چلے گئے۔ انڈونیشیا میں مساجد دو طرح کی ہیں۔ ایک بڑی جامع مسجد جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہے جبکہ دوسری چھوٹی چھوٹی مساجد / کمرے جو ہر ہوٹل وغیرہ میں ہوتے ہیں جہاں لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ ان کو مصلیٰ کہتے ہیں۔ جب ہم وہاں گئے تو اس مصلیٰ میں جماعت ہو رہی تھی جبکہ پانچ چھ لڑکیاں بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ مصلیٰ (مسجد) میں نوجوان خواتین کی زیادہ تعداد دیکھ کر حیرانی اور خوشی بھی ہوئی۔ میں ان سے ملا۔ ان میں سے ازکا انتکا نے کہا وہINFID کی طرف سے ہیں جو ہماری میزبان ہیں۔ میرے لیے دوسری حیرانی یہ تھی کہ این جی او کی لڑکیاں مصلیٰ / مسجد میں نماز پڑھنے آئی ہوئی تھیں جس کا پاکستان میں رواج نہیں ہے۔
پاکستان کی این جی اوز کے لوگ زیادہ تر آزاد خیال ہیں جن کا مذہب کی طرف میلان نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب یہ پروگرام شروع ہوا تو یہی لڑکی سٹیج سیکریٹری تھی۔ اس پروگرام میں دو خواتین علما نے اپنی تقاریر کیں اور سوالوں کے جواب دیے۔ مجھے یہاں آ کر معلوم ہوا کہ پاکستان کی طرح انڈونیشیا میں مذہبی لوگوں اور این جی اوز غیریت نہیں ہے بلکہ باہمی اشتراک ہے اور مذہبی لوگوں نے بھی بہت سی این جی اوز بنا رکھی ہیں جو بہت زیادہ متحرک ہیں اور انہیں حکومت کی بھی سرپرستی اور مالی امدادحاصل ہے۔
اس تنظیم نے ہمیں بتایا کہ
(1) عالم سے مراد وہ شخص ہے جو علم کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی اور اجتماعی عمل میں تقویٰ رکھتا ہو اور اپنے عمل کو رحمۃ اللعالمین کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں کوتاہی نہ ہو جبکہ ہمارے ہاں کردار کے تقویٰ کو عالم کی تعریف میں شامل نہیں کیا جاتا۔
(2) خاتون عالم کی تعریف نظریہ کی بنیاد پر کی جاتی ہے نہ کہ جنس کی بنیاد پر۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مرد عالم جو خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرے وہ خاتون عالم کی تعریف میں شامل ہے۔ یہ کسی بھی چیز کی تعریف کے لیے ایک نئی جہت ہے۔ ہم اس سے سیکھ سکتے ہیں۔
(3) خواتین علما کونسل ایک دینی، سماجی، ثقافتی اور روحانی تحریک ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی جامعیت مفقود ہے۔ ہمیں اس سے سیکھنا چاہیے۔
(4) ان کی سوچ اسلامی، انسانی، قومی اور عالمی ہے۔
(5) اس تحریک کے نو اصول ہیں : (i) توحید، (ii) رحم دلی، (iii) انسانی مفاد، (iv) برابری، (v) باہمی تعاون، (vi) عدل، (vii) قومیت، (viii) انسانیت اور (ix) عالمیت
ان کے پروگرام میں شامل ہے: (i) خواتین کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانا، (ii) خواتین کو جبری شادی سے بچانا، (iii) خواتین کو جبری حمل سے بچانا وغیرہ
نہضۃ العلماء اور محمدیہ(جو علماء کی سب سے بڑی تنظیمیں ہیں) کے سربراہان کی داڑھی نہ تھی،بلکہ وہ پتلون شرٹ میں ہوتے تھے۔ہمیں بتایا گیا کہ ہم امام شافعی کے پیروکاروں میں سے ہیں، اور امام شافعی کے نزدیک داڑھی سنن عادیہ میں سے ہے۔
ایک اور چیز یہ نظر آئی کہ وہ مساجد میں جمعہ کی اذان کے ساتھ دف بجاتے تھے۔جس طرح پرانے زمانے میں مذہبی مواقع اور ثقافتی تہواروں پر دف بجائی جاتی تھی،یہ چیز انڈونیشیا میں اب بھی زندہ ہے۔وہ مساجد کے اندر دف بجانا سکھاتے بھی ہیں۔جب ہم نے علماء سے اس بارے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ عمل جائزہے، بلکہ مدینہ کی ریاست میں عام تھا۔
مزید حیران کن صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملی کہ جب ان مذہبی اداروں کے پروگرامز میں شرکت کے لیے ہمیں مدعو کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان مجالس میں اقلیتی گروہوں کے گروہ کے افراد بھی شریک تھے۔وہ بھی باقی لوگوں کی طرح آئے،ان سے بات چیت کی گئی اور جب نشست کا اختتام ہوا تو وہ چلے گئے۔
مذکورہ بالا چند مثالیں یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ انڈونیشیا کے علماء کا تفہیمِ دین اس سے بالکل مختلف ہے، جو برصغیر میں پایا جاتا ہے۔ان سے اس پر جب مکالمہ ہوتا تو وہ بتاتے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دین اسلام رحمۃ للعالمین ہے۔یہ دین دنیا کے تمام انسانوں اور طبقات کے لیے برابر طور پہ رحمت ہے،اور دین میں توسع ہے۔انڈونیشا کے عوام میں مذہبی مظاہر بہ کثرت دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ اسی طرح دین کے ارکان ادا کرتے ہیں جیسےہم کرتے ہیں۔نماز ، روزے کی پابندی کرتے ہیں۔حج کے لیے بہت اہتمام سے اور منظم ہوکر جاتے ہیں۔دینی لحاظ سے وہ سب مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں جو معروف ہیں، مگر اس کے ساتھ ان میں توسع اور تکثیریت پسندی کا عنصر بھی واضح نظر آتا ہے۔ہم نے ان کا لٹریچر دیکھا اورپروگرامز میں انہوں نے تفصیلات سامنے رکھیں کہ وہ اپنے معاشرے میں یہ چیز کس طرح لے کر آئے اور کیا کیا اقدامات کیے تو جو پہلو ہمارے سامنے آئے،ان پر ذرا اختصار کے ساتھ بات کرلیتے ہیں۔
جاری ہے