خلافتِ عثمانیہ کے بعد سیاست اور مذہبی انتہاپسندی

0

انسانی دانش کی معلوم تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ کچھ اہم اور بنیادی نوعیت کے سوالات پر تمام بڑے دماغوں نے ہمیشہ غوروفکر کیا ہے اور ہر ایک نے اپنی عقلی اور فکری استعداد کے مطابق ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام سوالوں کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ سوالات مندرجہ ذیل تین چیزوں سے متعلق دکھائی دیتے ہیں (۱) انسان (۲) کائنات اور (۳) خدا۔

دنیا بھر کے تمام مفکرین، دانشوروں، فلسفیوں، انبیاء کرام، صوفیاء عظام اور سائنسدانوں نے جن انسانی سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے، ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح ان تین بنیادی چیزوں سے ہی بنتا ہے اور جیسے ان کے جواب ہوں گے ویسا ہی انسان کا زاویہ فکر اور عمل و کردار ہوگا۔ ان سوالات کا تعلق کسی خاص طبقہ سے نہیں ہے اور نہ ہی کسی مخصوص مکتب فکر کے یہ سوالات ہیں بلکہ یہ سوالات انسان کے ہیں۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقہ اور زمانہ سے ہو۔سوالات یکساں ہونے کے باوجود ان کے جواب میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں کیونکہ جواب کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے گئے اور ان ذرائع کو مختلف نام دیئے گئے۔ ان ذرائع کو مناہج علم کہا جاتا ہے۔ ان مناہج کو اگر جمع کیا جائے تو یہ تین مناہج ہمارے سامنے آتے ہیں:

۱- عقل:جس پر خالص فلسفی اعتماد کرتے ہیں

۲- مشاہدہ اور تجربہ : جس پر سائنسدان اعتماد کرتے ہیں

۳- وجدان، الہام، وحی اور کشف: جس پر انبیاء کرام اور اہل مذاہب نے اعتماد کیا

اگر ہم ان سوالوں پر غور کریں تو ہم بآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ کچھ سوالوں کا تعلق فلسفیوں سے، کچھ کا سائنسدانوں سے اور کچھ کا اہل مذہب سے ہے۔ کیونکہ ہر سوال کے جواب کیلئے کسی ایک منہج علم پر اعتماد کرنا اور اس سے تمام سوالوں کے جواب طلب کرنا، ناممکن ہے۔ جس سوال کا تعلق جس منہج سے ہے، اس کا جواب اس سی ہی دیا جاسکتا ہے اور اگر اس کیلئے کسی دوسرے منہج کو اختیار کیا جائے گا تو جواب غلط بھی ہوسکتا ہے۔

انسان کے ان سوالوں میں سے کچھ اہم اور بنیادی سوالوں کے جواب کیلئے خدا نے انبیاء کرام مبعوث کیے اور بذریعہ وحی ان پر ان کے جواب نازل فرمائے اور مذہب بایں معنی انسان کیلئے خدائی ہدایت نامہ ہے، اس ہدایت نامہ کی تفہیم میں انسانوں میں اختلاف فکر و نظر کا پیدا ہوجانا ایک فطری بات ہے، کیونکہ ہر انسان کا علمی معیار، رحجان طبع اور غوروفکر کا انداز دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی نص کی تفہیم میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ جس طرح کائنات میں اختلاف اور تنوع حسن ہے بعینہ اختلاف فکر و نظر بھی حسن ہے، جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

خدا کی طرف سے جو آخری ہدایت نامہ قرآن مجید کی شکل میں اتارا گیا، اپنے زمانہ نزول سے آج تک اس کی تشریح و تفسیر بیان کی جارہی ہے۔ چونکہ اس کا مخاطب انسان ہے اور انسان شعوری، فکری، سائنسی، سماجی اور علمی طور پر مسلسل ارتقاء کررہا ہے، اس لیے قرآن کا متن مکمل محفوظ ہونے کے باوجود اس کی تشریح میں ہمیں بہت زیادہ تنوع نظر آتا ہے۔ اسی طرح چونکہ ہر مفسر اپنے زمانہ اور زمانے کے فکری مسائل سے آگاہ ہوتا ہے اس لیے ہمیں تفسیروں میں مفسر کا اپنا ذاتی علمی اور فکری رحجان نیز اس زمانہ کے علمی اور فکری اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی معیوب اور قابل مذمت بات نہیں ہے۔ اسی لیے ہمیں قرآن پاک کی فقہی، سیاسی، کلامی، ذوقی، سائنسی اور کلامی تفاسیر ملتی ہیں۔ کسی مفسر کا رحجان تصوف کی طرف کسی کا فقہ کی طرف، کسی کا کلام کی طرف، کسی کا سیاست کی طرف اور کسی کا سائنس کی طرف ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمیں ان کی تفاسیر میں یہ مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی چونکہ انقلابات اور نظاموں کی لڑائی کی صدی تھی، اور مسلمان نشاۃ ثانیہ کیلئے جدوجہد میں مصرف تھے۔ اس لیے اس صدی کی اکثر تفاسیر میں ہمیں انقلاب اور نظام کا تصور زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔

عثمانی خلافت کے زوال کے بعد مسلم مفکرین دوبارہ سے احیاء خلافت اور اسلامی نظام کے قیام کے نصب العین کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف میدانوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ بہت سارے مسلم مفکرین نے اگرچہ قیام خلافت کو مطمح نظر نہیں بنایا، مگر نشاۃ ثانیہ کیلئے جس علم اور فکر کی ضرورت تھی اس سے وہ آگاہ تھے اور اسی کے حصول کے لیے وہ سرگرداں رہیں۔ اس عرصے میں جن مسلم مفکرین نے اسلام کو بطور نظام پیش کیا، انہوں نے اس کے لیے بہت ساری آیات سے استدلال پیش کیا۔ ان حضرات کے نزدیک اسلام کا نصب العین اور مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ اور بندہ مسلم کی بنیادی ذمہ داری اور اس کا نصب العین اسی ہدف اصلی کا حصول تھا جو ان حضرات نے قرآن سے استنباط کرکے اخذ کیا تھا۔ اسلام کی اس تعبیر کو اہل علم ‘‘اسلام کی سیاسی تعبیر’’ سے موسوم کرتے ہیں۔ اس تعبیر کی رو سے تزکیہ نفس، عقائد، اخلاق اور عبادات کا مقصد اصلی اس بنیادی ہدف کا حصول قرار پاتا ہے۔ اسلام کی یہ سیاسی تعبیر ہمیں سب سے پہلے ان حضرات کے ہا ں ملتی ہے۔ جن کا تعلق اہلسنت فکر سے تھا۔

اہل تشیع کے ہاں ہمیں یہ تصور بعد میں نظر آتا ہے، خاص طور پر امام خمینی نے ولایت فقیہ کے تصور کو بنیاد بنا کر شدت کے ساتھ فقیہ کی ولایت عامہ کا تصور پیش کیا۔ اسی لیے مابعد امام خمینی فکر میں ہمیں اسلام کی وہی سیاسی تعبیر غالب نظر آتی ہے، جو امام خمینی نے پیش کی تھی ۔ یہاں پہنچ کر شیعی اور سنی فکر نیز آزاد خیال مسلم مفکرین میں یک گونہ اتحاد نظر آتا ہے۔ ان تینوں کے سامنے اب مسلمانوں کی زندگی کا مقصد حقیقی ایک اسلامی ریاست کا قیام رہ جاتا ہے۔ وہ ریاست کس طرح قائم کی جائے گی نیز اس کی باقی تفصیلات کیا ہیں، اس میں اگر چہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ مگر نصب العین سے متعلق یہ سب متفق دکھائی دیتے ہیں۔ آگے چل کر جن لوگوں نے اس نصب العین کے حصول کیلئے مسلح جدوجہد شروع کی۔ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ نظام جہاد و قتال کے ذریعہ ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے وہ مسلم مفکرین جنہوں نے اسلامی نظام کے قیام کو مسلمان کی زندگی کااہم ترین اور بنیادی مقصد قرار دیا، کیا وہ بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ یہ نظام جہاد کے ذریعے ہی قائم کیا جائے گا یا پھر اس کا کوئی پر امن طریقہ بھی موجود ہے ؟ یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس پر تحقیق کی کوشش کی گئی ہے۔

شاہ ولی اﷲ نے بھی نظام خلافت پر بحثیں کی ہیں، مگر اس کو قرآنی آیات سے استدلال کرکے فرض عین، مسلمان کی زندگی کا مقصد اور امت مسلمہ کا مشن نہیں بتایا۔ اسی طرح سید جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، سرسید احمد خان وغیرہ کا تذکرہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ ان حضرات کو جن مسائل کا سامنا تھا، وہ کچھ اور تھے۔ اسی لیے ان حضرات نے اسلامی ریاست کے قیام کو بطور نصب العین پیش نہیں کیا۔ ان کے بعد جب دنیا میں نظاموں کی لڑائی شروع ہوئی تو بہت سے اہل علم آئے جنہوں نے اسلام کو بطور نظام پیش کیا۔ لہذا اس کتاب میں زیادہ تر ذکر انہی بزرگوں اور اصحاب علم و دانش کا ہوگا۔ انہی بزرگوں کی تحریروں میں ہمیں بار بار اسلامی نظام، حکومت الہٰیہ، اقامت دین یا ولایت فقیہ کے الفاظ نظر آتے ہیں ۔ ان سب کا مفہوم یہی ہے کہ اسلام ایک نظام ہے اور نظام کو بطور قوت نافذہ کسی جگہ نافذ اور قائم کرنا ہے۔ اسی کو اسلام کی سیاسی حاکمیت یا سیاسی غلبہ یا خدا کی سیاسی حاکمیت یا پھر توحید حاکمیت کا عنوان بھی دیا جاتا ہے۔ اس تعبیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے باقی تمام احکامات کی تعبیر اسی اساسی تعبیر کو پیش نظر رکھ کر کی جانے لگی۔ دور جدید کے کچھ اہل علم کو اس کا احساس ہوا۔ جنہوں نے اس طرز تعبیر پر تنقید کی ہے۔ صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بزرگ اسلامی نظام کے قائل ہیں۔

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس تصور پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’دوسری انتہا پسندی بعض ایسے افراد نے اختیار کرلی جنہوں نے سیکولر ازم کی تردید اس شدت کے ساتھ کی کہ سیاست ہی کو اسلام کا مقصود اصلی قرار دیدیا، یعنی یہ کہا کہ اسلام کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ سیاسی نظام قائم کیا جائے، اور اسلام کے باقی سب احکام اس مقصود اصلی کے تابع ہیں۔ لہذا جو شخص سیاست کے میدان میں دین کی سربلندی کیلئے کام کررہا ہے، بس وہ ہے جس نے دین کے مقصود اصلی کو پالیا ہے، …… لیکن تنہا اس کو دین کا اصل مقصود قرار دینے سے ترجیحات کی پوری ترتیب الٹ جاتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ بات ذہن میں بیٹھ جائے کہ دین کا اصل مقصود سیاست و حکومت ہے تو اس ذہنیت سے متعدد خرابیاں جنم لیتی ہیں‘‘

(عثمانی، مفتی محمد تقی، اسلام اور سیاسی نظریات، مکتبہ المعارف کراچی، طبع جدید 2016ء،ص نمبر194)

مفتی صاحب اگرچہ اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کے قائل ہیں مگر ان کے نزدیک ان حضرات کا نقطۂ نظر درست نہیں جو اسلام کی سیاسی حاکمیت ہی کو اسلام کا نصب العین اور مقصود حقیقی سمجھتے ہیں۔ موصوف کے نزدیک اس نظریے کو مان لینے سے دین کی پوری ترجیحات ہی الٹ جاتی ہیں، نہ صرف ترجیحات الٹ جاتی ہیں بلکہ اس سے متعدد خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں، اس کے بعد مفتی صاحب نے پانچ خرابیوں کا تفصیلی ذکر بھی فرمایا ہے۔مفتی صاحب کے خیال میں وہ پانچ خرابیاں مندرجہ ذیل ہیں:

۱- جب سیاست مقصود اصلی ہو گئی تو باقی ساری چیزیں اس کی تابع بن گئیں۔

۲- سب عبادتیں اس اعلیٰ مقصد یعنی سیاست و حکومت حاصل کرنے کے ذرائع ہیں۔

۳- ان ذیلی مقاصد میں سے کسی کی قربانی دینی پڑجائے تو کوئی حرج نہ سمجھا جائے۔

۴- جو لوگ عبادت وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں، انہیں دین کے اصل مقصد سے غافل سمجھا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات ان کی تحقیر اور ان کے ساتھ استہزاء کا معاملہ کیا جاتا ہے۔

۵- اس تصور کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء کرام تشریف لائے، ان کی اکثریت دین کے اصل اور بنیادی مقصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

مفتی صاحب کی پیش کردہ مندرجہ بالا خرابیوں کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ اسلام کی انقلابی سیاسی تعبیر کرنے والے اکثر علماء ومفکرین کی تحریروں میں ہمیں یہ ساری باتیں نظر آتی ہیں۔ البتہ پانچویں خرابی جو کہ ایک بڑا اعتراض اور سوال بھی ہے،کے بارے میں یہ جدید اہل علم کوئی خاص اور اطمینان بخش جواب نہیں دے پاتے۔

اسی طرح برصغیر کے ایک اور بہت بڑے عالم اور مفکر مولانا ابوالحسن ندوی صاحب نے اپنی کتاب ‘‘العقیدۃ والعبادۃ و السلوک’’ میں پہلے تو انبیاء کرام کی بعثت کے مقاصد پر مفصل گفتگو فرمائی ہے۔ جس میں موصوف نے اسلامی حکومت کے قیام کو شامل نہیں کیا ہے۔ پھر اس کے بعد لکھتے ہیں :

‘‘ مذکورہ بالا شرک جلی کی اہمیت کو نئے دعوتی و اصلاحی تقاضوں اور زمانہ کی ضروریات کے نام پر کم کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ اور اس اہم ترین مسئلہ کو ضمنی قرار دینا یا سیاسی اطاعت اور انسانوں کے بنائے ہوئے کسی نظام کے قبول کرنے کو اور غیر اﷲ کی عبادت کو ایک درجہ میں رکھنا اور دونوں پر یکساں حکم لگانا یا یہ سمجھناکہ شرک، جاہلیت قدیم کی کوئی بیماری، خرابی اور جہالت کی کریہہ شکل ہے’’۔ (الندوی، ابوالحسن، علی الحسنی، العقیدۃ والعبادۃ والسلوک، دارالقلم، کویت، الطبعۃ الثانیۃ 1983، ص نمبر75)

ندوی صاحب نے بعثت انبیاء کے مقاصد بتاتے ہوئے اس مسلم روایت کو سامنے رکھا ہے جس میں انبیاء کی بعثت کے یہی مقاصد بتائے گئے ہیں پھر اس کے بعد ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو اسلام کو بطور نظام پیش کرنے کے بعد ساری تعلیمات خاص طور پر شرک اور توحید وغیرہ کی وہ تعبیر پیش کرتے ہیں جس کے بعد اسلام ایک مذہب کے بجائے ایک انقلابی سیاسی نظریہ بن جاتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور ابوالحسن ندوی کی رائے پیش کرنے کا مقصد یہی تھا کہ یہ دکھایا جائے کہ وہ علماء جو خود بھی اسلام کو نظام مانتے ہیں، مگر جب اسلام کی تعبیر و تشریح اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر کی جائے تو ان حضرات کو بھی اس تعبیر سے اختلاف ہوجاتا ہے۔

سیاسی اسلام، اسلام کا تصور جہاد و قتال، دہشتگردی اور اسلام جیسے موضوعات پر ہمارے ہاں کچھ تحقیقات ہوئی ہیں۔ مگر خاص اس موضوع پر اس انداز سے کوئی تحقیق مجھے ابھی تک نہیں ملی۔ جس میں معاصر جہادی اور احیائی تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہو۔ شیعہ اور سنی تنظیموں اور ان مفکرین کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہو جنہوں نے حکومت اسلامی کے قیام کو نصب العین بنا کر جہاد و قتال کو اسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ بتایا ہو۔ ان موضوعات پر کچھ کتابوں میں مختصر مواد موجود ہے۔ البتہ سیاسی اسلام پر کافی کتابیں اور تحقیقی مضامین عربی زبان میں موجود ہیں۔ ان کتابوں میں زیادہ اصرار سید مودودی اور سید قطب پر ہے۔ امام خمینی وغیرہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح جہاد و قتال کو اسلامی نظام کے قیام کے لیے ذریعہ اور علت القتال میں کفریہ نظام کا خاتمہ اور ا سلامی نظام کے قیام پر بھی کوئی تحقیقی کام میری نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ کچھ کتابوں میں ضمنی مباحث کے طور پر اس پر اظہار خیال ملتا ہے۔ اسی طرح جدید اور معاصر سنی اور شیعہ اہل علم اور تنظیموں کے افکار اور تفسیری آراء کا قدیم اہل علم اور مفسرین کی تفسیری آراء سے تقابل پر بھی کوئی تحقیقی کام نظر سے نہیں گزرا۔ مولانا وحید الدین خان نے ‘‘تعبیر کی غلطی’’ نامی کتاب میں کچھ آیات کا اس انداز سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ مگر اس میں تمام استدلالی آیات کو پیش نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی جہاد و قتال والی آیات پر بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح شیعہ فکر کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے

نصوص کے فہم میں ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور یہ اختلاف فکر و نظر بہت ہی قابل قدر اور قابل تحسین بات ہے۔ البتہ اختلاف فکر و نظر اور اختلاف رائے کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر، تفسیق، تضلیل، غیر علمی رویہ اور انتہاپسندی ہے جس سے دہشتگردی جنم لیتی ہے جو کہ نہایت ہی قابل مذمت فعل ہے۔ اپنی تعبیر کو حرف آخر، حتمی اور معیار حق و باطل ماننا اور صرف اسی کی تعلیم اور نشرواشاعت کرنا اور دوسری تعبیرات کو ضلالت و گمراہی پر مبنی سمجھ کر رد کرنا یا ان کے بارے میں منفی اور متعصبانہ رویہ اپنانا اور ان تعبیرات کی تعلیم اور نشرواشاعت کا راستہ روکنا انتہا پسندانہ سوچ ہے۔ اگر ایسے لوگوں کو موقع ملاتو یہ حضرات اپنے نظریات اور اپنی تعبیر و تفہیم کو جبر اور زبردستی کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کریں گے، اور اس کے لیے ہر وہ حربہ اور ذریعہ استعمال کریں گے جو ان کے لیے ممکن ہوگا۔ مخالفین کو ہر طرح سے دبانے کی کوشش کریں گے اور ان کے افکار و نظریات کا قلع قمع کرنا چاہیں گے اور اس کے لیے معاشرے کے امن و سکون کو غارت کریں گے اور یہی دہشتگردی ہے۔

لہٰذا ماحول اور حالات ساز گار ہوں تو انتہاپسندی کا لازمی نتیجہ دہشتگردی ہوگا۔ یہ انتہا پسندی رنگ، نسل، زبان، مذہب، عقیدہ اور مسلک سمیت کسی بھی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ مگر آج ہم جس انتہاپسندی سے دوچار ہیں، وہ مذہبی انتہاپسندی ہے۔