مغرب میں دستور: تاریخ، ارتقاء اور مسائل
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور دستوری بحران‘ (2024ء) میں شائع ہوا ہے۔
مغربی اور یورپی ممالک میں آجکل مذہب کو چونکہ ریاستی معاملات سے الگ رکھا جاتا ہے، اس لیے دستور سازی میں بھی مذہب کے اثرات نظر نہیں آتے، کہ یہ ایک بنیادی عمرانی معاہدہ ہے۔ اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چرچ اور ریاست کے تعلقات میں تبدیلیاں آئیں اور سیکولرازم کے بڑھتے اثرات کے ساتھ چرچ کا اثر کم ہوتا گیا، پھر بھی کئی یورپی ممالک میں مذہبی ادارے ریاست کے امور میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ مثال کے طور پر، اسپین اور اٹلی جیسے ممالک میں اب بھی مذہب اور ریاست کے درمیان تعلقات موجود ہیں، جہاں آئینی اور قانونی معاملات میں کیتھولک چرچ کا اثر اور دخل ہوتا ہے۔
ذیل میں پہلے مغربی تناظر میں آئین سازی اور مذہب کے تعلق کا ایک تاریخی جائزہ پیش کیا جاتا ہے، اس کے بعد موجودہ مغربی دساتیر کو درپیش مسائل پر بھی اختصار سے تبصرہ کیا جائے گا۔
مذہب کی بنیاد پر ابتدائی آئین سازی
قدیم تہذیبوں میں مذہب کو ریاستی قوانین اور آئینی ڈھانچے کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا تھا۔ ان معاشروں میں مذہب اور سیاست ایک دوسرے کے ساتھ مربوط تھے، اور مذہبی اصولوں کو ریاستی زندگی میں بھرپور طریقے سے نافذ کیا جاتا تھا۔
رومی تہذیب
روم کے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں مذہب کا اہم کردار تھا۔ رومی حکام نے مذہب کو نہ صرف عوامی زندگی میں بلکہ حکومتی فیصلوں میں بھی شامل کیا۔ "پانتھین” (Pantheon)کے طور پر جانے جانے والے رومی معبد خانے اور مذہبی ادارے، ریاستی امور کی تنظیم میں ایک فعال کردار ادا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رومی آئین میں مذہبی قوانین اور اقدار سے لاتعلقی جرم تھا، اور ان قوانین کی پابندی ریاست کے مستحکم نظام کا ایک اہم جزو تھی۔
یونانی تہذیب
یونانی تہذیب میں بھی مذہب اور ریاست کی تفریق نہیں تھی۔ یونانی فلسفہ میں مخصوص مذہبی نظریات کو معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں ضم کیا گیا تھا۔ "افلاطون” اور "ارسطو” جیسے فلسفیوں نے سیاسی حکمرانی کے نظریات کو مذہبی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ ان کی کتابوں میں اکثر مذہب کو ریاستی حکمرانی کے اصولوں کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے، تاکہ عوامی زندگی میں اخلاقی اور دینی اصولوں کو تحفظ حاصل ہو سکے۔
مذہبی اداروں کی ریاستی اختیارات میں شراکت
قدیم تہذیبوں میں مذہبی ادارے صرف روحانی رہنمائی تک محدود نہیں تھے، بلکہ ریاستی اقتدار میں بھی ان کی ایک اہم جگہ تھی۔ رومی سلطنت میں مذہبی رہنما، جیسے ” Priest” اور ” Auguste” (مذہبی عہدیدار)، حکومتی مشیر کا کردار ادا کرتے تھے اور ریاستی فیصلوں میں ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ یونانی معاشرے میں بھی مذہبی ادارے مختلف ریاستی امور میں مشورہ دیتے تھے اور ان کی رہنمائی پر فیصلے کیے جاتے تھے۔
مذہب اور قانون میں ہم آہنگی کا تصور
ان قدیم معاشروں میں، قوانین اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ تھے، جس کا مقصد معاشرتی استحکام اور اخلاقی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا تھا۔ مذہبی اصولوں کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کے ذریعے حکومت نے شہریوں کو اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کا شعور دیا۔
قرون وسطیٰ کے دوران یورپ میں ریاست اور چرچ کے درمیان جو قریبی تعلق تھا، وہ آئین سازی کے عمل میں مذہبی قوانین کی پیروی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔چرچ نے حکومتی معاملات پر گہرا اثر ڈالا، اور آئین سازی میں اس کا کردار ایک لازمی جزو بن چکا تھا۔ ریاستی نظام کو مذہب سے جڑا ہوا سمجھا جاتا تھا اور حکومت کے قوانین کو مذہبی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جاتا تھا۔اس وقت کے بیشتر یورپی ممالک میں ریاستی آئین اور قوانین مذہبی تعلیمات پر مبنی ہوتے تھے۔ "پاپائیت” ایک اہم ادارہ تھا، اور پوپ کو ریاست کے معاملات میں بھی اثر و رسوخ حاصل تھا۔ مثال کے طور پر، ” رومن ایمپائر” میں پوپ اور بادشاہ کا ایک خاص قسم کا تعلق تھا، جہاں پوپ نہ صرف مذہبی امور کے لئے ذمہ دار تھا بلکہ سیاسی فیصلوں میں بھی مداخلت کرتا تھا۔ یہ اتحاد ایسی نوعیت کا تھا کہ کسی بھی بادشاہ کو تخت پر بیٹھنے سے پہلے پوپ کی باقاعدہ تائید درکار ہوتی تھی۔
چرچ کا آئینی عمل میں اثرورسوخ
مذہبی اداروں کی ریاستی امور میں مداخلت نے آئین سازی کے عمل میں مذہبی قوانین کے نفاذ کو ممکن بنایا۔ ریاستی آئین میں مذہب کے اثرات کے تحت قوانین مرتب کیے جاتے تھے تاکہ وہ چرچ کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ اس کی ایک نمایاں مثال "کینن لاء” (Canon Law) ہے، جو کیتھولک چرچ کا مذہبی قانون تھا اور جس کا اثر یورپ کے ریاستی آئینی ڈھانچے پر نمایاں تھا۔ کینن لاء نے قانون کی تفصیلات اور حکومت کے عملی اصولوں کو مذہبی عقائد کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، اس طرح چرچ اور ریاست کا اختلاط زیادہ مستحکم ہوا۔
16 ویں صدی میں، "ہنری ہشتم”( Henry VIII) کے دور میں انگلینڈ میں چرچ اور ریاست کے اتحاد کو قانونی طور پر مضبوط بنایا گیا۔ ہنری ہشتم نے انگلینڈ کو کیتھولک چرچ سے الگ کرنے کے بعد "چرچ آف انگلینڈ” قائم کیا، لیکن پھر بھی چرچ کو ریاست کے امور میں اثر و رسوخ حاصل رہا۔ اس وقت انگلینڈ میں بادشاہ کو اپنی سلطنت کے معاملات میں چرچ کی تائید حاصل کرنا ضروری تھا۔
آئین سازی میں چرچ کے فرامین کو اس وقت کے سیاسی رہنماؤں کے توسط سے نافذ کیا جاتا تھا۔ "اقتدار اعلی” کا تصور بھی چرچ کے اثر سے وابستہ تھا، جس کے مطابق تمام ریاستی اختیارات خدا کی مرضی سے ہونے ہوتے اور ریاستی حکام کو چرچ کی رہنمائی کے تحت فیصلے کرنا ضروری تھا۔ اِس دور کے آئین میں روحانی اور مذہبی رہنماؤں کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔
نشاۃ ثانیہ اور سیکولر آئینی تحریک
نشاۃ ثانیہ کے دور میں مغربی دنیا میں ایک فکری انقلاب آیا جس نے ریاست اور مذہب کے تعلقات میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کیں۔ اس دور کی خصوصیت یہ تھی کہ انسانی فکر میں نیا جذبہ پیدا ہوا اور مذہب کی تقدیس کے ساتھ ساتھ عقل اور سائنس کو بھی اہمیت دی جانے لگی۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں ریاست اور مذہب کے علیحدہ ہونے کے تصورات ابھرے، اور اس نے مغربی آئین سازی میں مذہب کی جگہ کو چیلنج کیا۔ چرچ کے اختیارات کو محدود کیا گیا اور ایک سیکولر آئینی نظام کی بنیاد رکھی گئی جو بعد میں دنیا بھر کے آئینوں میں ایک اہم ماڈل بن گیا۔
نشاۃ ثانیہ کا آغاز
نشاۃ ثانیہ کا آغاز 15ویں صدی کے آخر میں ہوا، جب یورپ میں علمی، فنی اور ثقافتی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں۔اس دور کا آغاز خصوصاً اٹلی کے شہر فلورنس میں سے شروع ہوئی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ ہی چرچ کا سماجی، سیاسی اور ریاستی امور میں اثر کم ہونے لگا۔ اس دوران "مذہب سے علیحدگی” کے تصورات کی اہمیت بڑھ گئی، جس کی ایک اہم مثال "مارتن لوتھر” کی تحریک ہے۔ 1517 میں لوتھر نے اپنے 95 نکات پیش کیے، جن میں چرچ کی اجارہ داری کو چیلنج کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ افراد کو اپنے مذہبی معاملات میں آزادانہ اختیار حاصل ہونا چاہیے۔لوتھر کی تحریک نے چرچ کے طاقتور اثرات کو محدود کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو مذہبی معاملات میں براہ راست خدا کے ساتھ تعلق رکھنے کا شعور دیا۔ اس طرح، ریاستی حکام نے اپنے اختیارات کو مذہبی اداروں سے آزاد کرنے کی کوشش کی، جس نے مغربی ممالک میں آئین سازی کے عمل کو ایک نیا رخ دیا۔اس کا ایک بڑا اثر انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والی آئینی اصلاحات پر پڑا۔ سیکولر دساتیر میں مذہب کو ریاستی معاملات سے علیحدہ کر دیا گیا اور اس کی جگہ شہری آزادی، مساوات، اور جمہوری اقدار کو اہمیت دی گئی۔
فرانس کی انقلابی تحریک اور سیکولر آئین
فرانس کا انقلاب (1789) ایک اہم موڑ ثابت ہوا،جہاں ریاست اور مذہب کی علیحدگی کو عملی طور پر نافذ کیا گیا۔ فرانس کا جدید "آئین 1791” منظور کیا گیا، جس میں ریاستی معاملات سے چرچ کو علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ اس آئین میں مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیا گیا اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں تھا، جس سے فرانس میں سیکولر آئین سازی کا آغاز ہوا۔ 1790 میں "کلیسیائی آئین” (Civil Constitution of the Clergy) کو منظور کیا گیا جس کے تحت چرچ کے تمام روحانی افعال کو ریاستی سطح پر قابو کیا گیا۔اس انقلاب نے صرف فرانس کی تقدیر بدلی بلکہ دنیا بھر کے آئینی ماڈلز اور ریاستی نظاموں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس دور میں، فرانس میں مذہب اور ریاست کے تعلقات میں جو تبدیلی آئی، وہ بعد کے تمام سیکولر آئینی ماڈلز کی بنیاد بن گئی۔ اس آئین کے تحت، فرانس میں مذہب کا کوئی سرکاری کردار نہیں تھا اور چرچ کی ریاستی معاملات میں مداخلت کو روک دیا گیا۔ اس آئین میں شہریوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی، مگر حکومت اور ریاست کو مذہبی معاملات میں مداخلت سے آزاد رکھا گیا۔اسےآئینی سیکولرازم کا نقطہ آغاز کہا جا سکتا ہے۔ اس میں حکومتی عملداری کو صرف انسانی حقوق اور انصاف کی بنیاد پر استوار کیا گیا، نہ کہ مذہبی عقائد یا چرچ کی ہدایات پر۔
مغربی دساتیر میں سیکولر تشریحات
نشاۃ ثانیہ اور فرانس کے انقلاب کے اثرات نے مغربی دساتیر میں سیکولر تشریحات کو تقویت دی۔ 18ویں اور 19ویں صدی کے دوران آئینی اصلاحات میں مذہب کے بجائے انسانی حقوق، آزادی، اور مساوات کو مرکزی اہمیت دی گئی۔ امریکہ کا آئین (1787) بھی اس کی ایک اہم مثال ہے ۔ ’’آئین امریکہ‘‘ میں کہا گیا کہ حکومت کسی بھی مذہب کی تائید نہیں کرے گی اور عوام کو مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔
سیکولر دستوری ماڈلز کا عالمی پھیلاؤ
نشاۃ ثانیہ اور اس کے بعد کی سیکولر تحریک نے مغربی دنیا کے دستوری ماڈلز کو عالمی سطح پر متاثر کیا۔ بہت سے ممالک نے اپنے آئین میں مذہب اور ریاست کو علیحدہ کرنے کے اصولوں کو اپنایا۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں شروع سے ہی آئین کی رو سے مذہب کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں اور ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ اسی طرح ترکی نے 1923 میں اپنے آئین میں مذہب کو ریاستی امور سے علیحدہ کر لیا اور اسے سیکولر آئینی ماڈل میں ڈھالا۔ اس کے علاوہ، لاطینی امریکہ میں کئی ممالک نے بھی فرانس کی انقلاب سے متاثر ہو کر اپنے آئینوں میں سیکولر اصول اپنائے اور مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ کیا۔ ان میں میکسیکو، ارجنٹینا اور چلی جیسے ممالک شامل تھے ۔
خلاصہ یہ کہ نشاۃ ثانیہ اور سیکولر آئینی تحریک نے مغربی ممالک میں سیکولر ریاستی ماڈلز کی بنیاد رکھی اور دنیا بھر میں آئینی اصلاحات کو ایک نیا رخ دیا۔
معاصر نسل پرستانہ نظریات اور آئینی چیلنج
پچھلی دو دہائیوں سے،یورپی ممالک میں سفید فام بالادستی اور انتہاپسندی کے نظریات نے آئینی اور قانونی ڈھانچوں کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کیا ہے۔ اگرچہ یورپ میں زیادہ تر ممالک نے انسانی حقوق، مساوات اور عدل و انصاف کو اپنی آئینی بنیادوں میں شامل کیا ہے، لیکن سفید فام بالادستی اور نسل پرستانہ نظریات کے حامل افراد ان اصولوں کے خلاف سرگرم رہتے ہیں اور معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سفید فام بالادستی کی تحریکیں اکثر یورپ میں اپنی نسل کو برتر سمجھتی ہیں اور دیگر نسلوں یا اقوام کو کمتر گردانتی ہیں۔ اس قسم کی انتہاپسندی نے تاریخی طور پر کچھ ممالک میں دستوری اصولوں اور قوانین کو متاثر کیا اور بعض خطوں میں نسلی بنیادوں پر امتیاز کی پالیسیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
قوم پرستی اور نسلی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل
یورپ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران قوم پرستی کے ابھرنے سے سفید فام بالادستی کے خیالات نے زور پکڑا۔ کئی ممالک میں آئینی ڈھانچے ایسے بنائے گئے جس میں قومی تشخص کو فوقیت دی گئی، اور یہ قوم پرستی کی سوچ بعض اوقات دیگر نسلوں اور قومیتوں کے خلاف امتیازی رویوں کا باعث بنی۔مثال کے طور پر، نازی جرمنی میں ہٹلر کی قیادت میں آئین اور دیگر قانونی ڈھانچوں میں ایسی ترامیم کی گئیں جس سے جرمن نسلی برتری کو آئینی جواز ملا۔ یہ آئینی تبدیلیاں یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف قانونی بنیاد پر امتیاز اور ظلم کا سبب بنیں۔
امیگریشن قوانین میں سختی
سفید فام بالادستی کے حامی ممالک میں اب امیگریشن قوانین میں سختی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان ممالک نے اپنے آئینی ڈھانچے اور قوانین میں تبدیلیاں کر کے تارکین وطن کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں تارکین وطن، خاص طور پر مسلم ممالک سے آنے والے افراد کے خلاف قوانین میں سختی لائی گئی۔فرانس میں 2000 کے بعد سے کئی ایسی قانونی اصلاحات دیکھنے میں آئیں جن کا مقصد تارکین وطن کی آمد کو کنٹرول کرنا تھا۔ اگرچہ بظاہر یہ قوانین سیکیورٹی اور معاشی مقاصد کے لئے بنائے گئے تھے، لیکن سفید فام بالادستی کے حامی حلقے ان قوانین کو اپنی برتری کے نظریے کو فروغ دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
آزادی اظہار پر پابندیاں اور نسلی منافرت
کچھ ممالک میں انتہاپسند گروہوں نے آزادی اظہار کی آڑ میں نسلی منافرت اور امتیاز کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس کا اثر آئین اور قانونی ڈھانچوں پر بھی پڑا، اور مختلف ممالک میں نسلی بنیاد پر تشدد یا نفرت انگیز تقاریر پر دستوری سطح پہ پابندیاں عائد کی گئیں۔ اس کا مقصد مختلف مذاہب اور قومیتوں کے حقوق کا تحفظ تھا، لیکن سفید فام بالادستی کے نظریات رکھنے والے افراد ان پابندیوں کے مخالف ہیں اور انہیں آزادی اظہار پر قدغن سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر، برطانیہ میں نسلی منافرت سے متعلق قوانین کو 1965 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ ان قوانین کا مقصد یہ تھا کہ نسلی منافرت کے خلاف قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے، لیکن سفید فام بالادستی کے حامی حلقے ان قوانین کو اپنے نظریات کے خلاف سمجھتے ہیں۔
انتہا پسندی اور آئینی استحکام
موجودہ دور میں مذہبی انتہا پسندی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے نہ صرف مسلم دنیا، بلکہ دنیا کے مختلف حصوں میں سیاسی اور آئینی استحکام کو چیلنج کیا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی، جہاں آئینی اصولوں کی بنیاد سیکولر اور جمہوری نظریات پر رکھی گئی ہے، مذہبی انتہا پسندی نے وہاں بھی آئینی ڈھانچوں کی جڑوں کو ہلا دیا ہے۔ شدت پسند مذہبی نظریات اور گروہوں نے ان ممالک کے آئینی نظام کو نہ صرف آزمائش میں ڈالا ہے بلکہ اس نے حکومتی اداروں اور ریاستی پالیسیوں پر بھی اثر ڈالا ہے۔ ان کے آئین میں امتیاز اور اقلیتوں کو دبانے پر پابندی عائد ہے، لیکن عملی سطح پر سیاست میں بھی بڑے پیمانے پر اس آئینی تقاضے کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
آئینی استحکام کے لیے قوانین کا کردار
مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر نے مغربی ممالک کو اپنی آئینی دفعات کی از سر نو تشریح کرنے پر مجبور کیا۔ ان ممالک میں آئین کا بنیادی مقصد فرد کی آزادی، انسانی حقوق اور عوامی امن کا تحفظ کرنا ہے۔ اسی لیے اب پچھلے چند برسوں سے آئین میں ایسے قوانین شامل کیے گئے ہیں جو شدت پسند گروپوں کی سرگرمیوں کو محدود کرتے ہیں، اور کسی بھی گروہ کو تشدد یا دہشت گردی کے ذریعے اپنے عقائد کو دوسروں پر مسلط کرنے سے روکتے ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے بعض مغربی ممالک نے اپنے آئینی قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں، جن میں مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ عوامی مفاد کی حفاظت کے لیے مخصوص حدود متعین کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، بلجیم اور جرمنی میں مسلمانوں کے مذہبی گروہوں کو سرکاری نگرانی میں رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے تاکہ ان گروہوں میں شدت پسندی کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ یہ تمام اقدامات آئینی سطح پر کیے گئے ہیں ۔