یہ بات سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ کشیدگی یا جنگی کیفیت کو محض دو پڑوسی ممالک کے درمیان ایک روایتی تنازع یا ’’بین الاقوامی جنگ‘‘ کے طور پر دیکھنا ایک بڑی فکری غلطی ہے۔
یہ معاملہ جغرافیے یا سرحد کا نہیں بلکہ نظریات، تاریخی پیچیدگیوں، داخلی سیاست، اور علاقائی طاقتوں کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔
سرحد کے دونوں جانب بسنے والے لوگ ایک ہی ثقافت، زبان، مذہب اور قبائلی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہی باہمی قربت اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے، کیونکہ یہاں دشمنی محض ریاستوں کے درمیان نہیں بلکہ بیانیوں کے درمیان ہے۔
افغان طالبان کا جو بیانیہ گزشتہ برسوں میں مضبوط ہوا ہے، اسے سمجھے بغیر اس پورے قضیے کو سمجھنا ممکن نہیں۔ ان کے چند بڑے بیانیے درج ذیل ہیں۔
1. خودمختاری اور آزادی
طالبان اپنے وجود کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کرتے ہیں جو غیر ملکی اثر و رسوخ، خصوصاً پاکستان اور مغرب، دونوں سے مکمل آزادی چاہتی ہے۔
جب پاکستان ان کے بھارت سے بڑھتے ہوئے تعلقات پر اعتراض کرتا ہے تو ان کا فوری جواب یہی ہوتا ہے:
"کیا ہم خودمختار ملک نہیں؟”
یہ سوال بظاہر سادہ ہے مگر اس کے پیچھے ایک گہری سیاسی نفسیات کارفرما ہے۔
یقیناً افغانستان ایک خودمختار ملک ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ خودمختار افغانستان کی تشکیل میں پاکستان نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اس حقیقت کو نظرانداز کرنا اس پورے تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
2. اسلامی نظام کا نفاذ
طالبان خود کو تو بظاہر افغانستان کے حدود تک محدود کہتے رہتے ہیں لیکن در حقیقت وہ خود کو ایک نظریاتی تحریک سمجھتے ہیں جو قومی سرحدوں سے بالاتر ہو کر اسلامی نظام کے نفاذ کو اپنا مشن قرار دیتی ہے۔
اسی وجہ سے وہ پاکستان کے موجودہ سیاسی و قانونی نظام کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتے۔
یہی سوچ ان کے ٹی ٹی پی سے روابط اور تعاون کی بنیاد ہے۔
اگرچہ امارتِ اسلامیہ افغانستان باضابطہ طور پر کہتی ہے کہ وہ کسی خارجی گروہ کو سپورٹ نہیں کرتی، لیکن پاکستان کی جانب سے بارہا پیش کیے گئے شواہد کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لیے افغان سرزمین محفوظ پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔
امارتِ اسلامیہ کے اندر دو بڑے دھڑے موجود ہیں:
ایک وہ جنگجو طبقہ جو خود کو جہاد کے تسلسل کا وارث سمجھتا ہے، اور دوسرا وہ سیاسی طبقہ جو قطر مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔
سیاسی دھڑا رسمی طور پر اعلان کرتا ہے کہ ’’ٹی ٹی پی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے‘‘، مگر عملی طور پر جنگجو طبقہ ٹی ٹی پی کو مجاہدینِ پاکستان سمجھتا ہے جو اپنے ملک میں ’’شریعت‘‘ کے نفاذ کے لیے برسرپیکار ہیں۔
اسی سوچ نے امارت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کو جنم دیا اور افغانستان طالبان نا صرف مالی معاونت کرتے ہیں بلکہ بذات خود بھی اس لہر کا حصہ ہے ۔
3. ڈیورنڈ لائن کی غیرتسلیم شدگی
یہ وہ مسئلہ ہے جو ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
نا صرف افغان قوم پرست بلکہ افغان طالبان کی قیادت بھی اسے ایک ’’عارضی‘‘ لکیر سمجھتی ہے، جسے وہ تاریخی طور پر ماننے کو تیار نہیں۔
اور میرے خیال میں اس وقت یہ واحد چیز ہے جس پر نا صرف طالبان بلکہ تقریباً ہر افغان سیاسی و قومی گروہ متفق ہے ۔
اسی وجہ سے پاکستان کے خلاف تمام افغانستان بلکہ خصوصاً پختون بیلٹ میں نفرت اور شکوک بہت زیادہ ہیں ۔
4. سوشل میڈیا کا دباؤ اور پروپیگنڈا
طالبان کے برسرِ اقتدار آتے ہی افغانستان میں یہ بیانیہ شدت سے ابھرا کہ طالبان ’’پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار‘‘ ہیں۔
اس تاثر کو ہمارے ایک سابق جنرل کی طالبان قیادت کے ساتھ تصویر نے مزید تقویت دی۔
نتیجتاً، طالبان نے اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی مہم شروع کی کہ انہوں نے اپنی قوتِ بازو سے امریکہ کو شکست دی ہے، نہ کہ کسی کی مدد سے۔
اس عوامی دباؤ نے امارت کے اندر پاکستان مخالف جذبات کو مزید ہوا دی۔
جو بھی شخص پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتا نظر آیا، اس کے خلاف شدید ردعمل اور کردارکشی کی گئی، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات تیزی سے بگڑتے گئے اور پاکستان کےتوقعات کے برعکس امارت اور پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے جو کہ شدید بد اعتمادی اور نفرت پر منتج ہو گئے ۔
5. پاکستان کی ’’دوہری پالیسی‘‘ کا تاثر
افغانیوں کے نزدیک پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے انہیں سہارا بھی دیا اور وقتاً فوقتاً ان کے خلاف اقدامات بھی کیے اس عمومی تاثر سے سوشل میڈیا اور میڈیا کے پریشر کی وجہ سے موجودہ افغان طالبان بھی شدید متاثر ہوئے اور ان کے نزدیک یہ تضاد ان کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔
اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان سے دوغلی پالیسی اپناتے ہیں تو یہ دراصل ’’جواباً انصاف‘‘ ہے۔
ان کے نزدیک پاکستان نے ماضی میں یہی رویہ اپنایا، لہٰذا اب وہ اسے عین جائز سمجھتے ہیں۔ لہذا خلاصہ یہ ہیکہ
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس تنازع کو اکثر لوگ ’’پاکستان بمقابلہ افغانستان‘‘ کے خانوں میں تقسیم کر کے دیکھتے ہیں،
جبکہ حقیقت میں یہ جنگ نظریات، مفادات، اور نفسیات کی ہے ۔
ایک طرف ریاستی نظم و قانون کا بیانیہ ہے،
اور دوسری طرف انقلابی مذہبی تعبیر کا۔
یہی وہ دو بیانیے ہیں جن کی باہمی کشمکش نے دونوں ممالک کے تعلقات کو خون اور غلط فہمیوں کی نذر کر دیا۔
اس جنگ کا حل توپ و تفنگ میں نہیں، بلکہ سوچ، فہم، اور بیانیے کی اصلاح میں پوشیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ دونوں ملکوں کو صبر و تحمل کی توفیق عطا فرمائے اور اس جنگ کو امن میں تبدیل کرے آمین یارب العالمین ۔