سِکھ برادری ریاست سے مایوس کیوں ہے؟
پاکستان میں اقلیتی برادری کوتحفظ فراہم کرنا ریاست کے لیے ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ حکومت نے قانونی طور پہ تو ایسے کئی ضوابط وضع کیے ہیں جو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہیں لیکن انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔خصوصاخیبرپختونخوا میں سکھ اقلیتی برادری کی ٹاگٹ کلنگ ایک بنیادی مسئلہ ہے جس پر کئی سالوں سے قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس طرح کے واقعات پوری دنیا میں پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں ۔
گزشتہ روز پشاور کے علاقے یکہ توت میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سکھ تاجر منموہن سنگھ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔یہ پشاور شہر میں دو دنوں کے دوران سکھ برادری پر ہونے والا دوسرا حملہ تھا،اس سے قبل ترلوک سنگھ کو بھی نشانہ بنایا گیا جو زخمی ہوگئے۔
حالیہ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کی لہر کے دوران سکھوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ صوبے میں لگ بھگ دس ہزار کے قریب سکھ افراد رہائش پذیر ہیں جو وقت کے ساتھ یہاں سے ہجرت کررہے ہیں اور صوبے میں ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
اس طرح کے کسی بھی سانحے کے بعد حکومت اس عزم کا اظہار کرتی ہے کہ اس مسئلے پر قابو پالیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوتا۔ سکھ برادری کے قتل کے واقعات ہر سال ہوتے ہیں لیکن ان میں کبھی کوئی ملوث شخص گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔ سکھ برادری صوبے کے اندر ایک آسان ہدف ہے۔ اس لیےہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے اندر عدم اعتماد اور عدم تحفظ کے احساسات میں اضافہ ہورہا ہے
پاکستان میں تمام شہری مساوی آئینی حقوق رکھتے ہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی قیام پاکستان سے پہلے اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہائی کرائی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے جو پہلی کابینہ بنائی اس میں ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنا کر عزت سے سرفراز کیا۔ 1950ء میں شہید ملت لیاقت علی خان انڈیا گئے تو دونوں ممالک کے درمیان اقلیتوں کے تحفظ کے لیے لیاقت نہرو پیکٹ دستخط کر کے آئے۔ مسلم لیگ کے تیار کردہ 1956ء کے آئین میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور مذہبی احترام اور فلاح و بہبود کے لیے کئی دفعات رکھی گئیں اور اقلیتوں کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا۔ پاکستان کے موجودہ آئین 1973ء میں بھی اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہیں اور ان کے استحصال کو روکنے کے لیے ہر طرح کے امتیازات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
اسلامی شریعت میں بھی اقلیتوں کے تحفظ کو ریاست کی ذمہ داری بتایا گیا ہے اور انہیں کوئی بھی نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ملک میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔
خیبرپختونخوا کی سکھ برادری مایوسی کا شکار ہے۔ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور ان میں یہ اعتماد بحال کریں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ جس طرح معاشرے نے سانحہ سیالکوٹ پر آواز بلند کی تھی اسی طرح سے ایسے واقعات پر بھی سکھ برادری کی حمایت کی جانی چاہیے، تاکہ ریاست ان کے دکھ کا مداوا کرنے کے لیے حقیقی اقدامات اٹھائے۔