مذہبی آزادی کا مسئلہ: مسلم مذہبی تحریکات کا کردار

0

 

پوری دنیا میں جب مسلم تحریکات اپنا سیاسی یا مذہبی ایجنڈہ پیش کرتی ہیں تو اپنے منشور میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بھی موقف کو واضح کرتی ہیں۔ عام طور پہ یہ دیکھا گیا ہے کہ معاصر تحریکات اسلاف کے فقہی وتاریخی لٹریچر سے استفادہ کرتے ہوئے مذہبی آزادی کے حق میں رائے دیتی ہیں۔ لیکن یہ ان تحریکات کا معاملہ ہے جو مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتیں اور ایک پرامن تحریکی سعی کرتی ہیں۔ جبکہ بعض جماعتیں ایسی بھی ہیں جو مذہبی آزادی کے حوالے سے سے یہ موقف نہیں اپناتیں۔ اس ضمن میں ان کے اپنے دلائل اور فکری مناہج ہیں۔ زیرنظر مضمون میں مسلم معاصر تحریکات کے لٹریچر سے مذہبی آزادی کی حدود و حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ مضمون نگار نوجوان عالم اور دانشور ہیں۔ان کی کتاب ’مذہبی انتہاپسندی:اسلامی انقلاب و حکومت اور جوابی بیانیہ‘ شائع ہوچکی ہے جو اپنے موضوع پہ ایک اہم دستاویز ہے۔

مذہبی آزادی کا مفہوم اور تاریخ ریک

مذہبی آزادی کا مطلب ہے اپنی آزادانہ مرضی سے کسی بھی مذہب کو اختیار کرنا، ترک کرنا، کسی بھی مذہب  کی  تبلیغ  کرنا اور اپنے مذہبی مراسم اور اعمال  کی ادائیگی کی مکمل آزاد ی حاصل ہونا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے متفقہ  چارٹر میں مذہبی آزادی کو ہر انسان کا پیدائشی حق تسلم کیا گیا ہے۔  آج ہم جس مذہبی آزادی سے واقف ہیں انسان یہاں تک بہت طویل سفر کے بعد پہنچا ہے۔ انسان کی معلوم تاریخ میں جن مختلف تہذیبوں  سے ہم واقف ہیں اور جن کے بارے میں کچھ تاریخی شواہد موجود ہیں ،ان کا سرسری مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ مختلف ادوار میں انسانوں کو مختلف طریقوں سے  محکوم اور غلام بنایا گیا۔ انسانوں کو مختلف قسم کے جبر میں جکڑا گیا۔ انہی میں سے ایک جبر مذہبی، اعتقادی اور فکری جبر بھی ہے۔ جس مذہب، مسلک، اعتقاد اور فکر والے کو جہاں غلبہ ملا اس نے اپنے سے مختلف مذہب، اعتقاد اور فکر رکھنے والوں پر جبر کیا اور لوگوں کو اپنی مرضی سے مذہب رکھنے یا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگرچہ استثنائی طور پر مذہبی آزادی کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں مگر جبر کا دور زیادہ نظر آتا ہے۔ خاص طور پر مذہب اور عقیدہ کے باب میں ۔

ہمارے مذہبی اہل علم  کا یہ دعوی ہے کہ اسلام سے قبل ہر جگہ مذہبی جبر کا دور دورہ تھا۔ مکہ میں لوگوں کو عقیدہ کی تبدیلی پر جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یہی حال روم، ایران اور انڈیا میں  غالب مذہب والوں کا اپنے مخالفین کا ساتھ تھا۔  ہجرت سے قبل اہل اسلام کے لئے عدم تشدد اور  محض     برداشت کا حکم تھا۔ مدینہ میں جاکر مسلمانوں کو اجازت ملی کہ اب وہ اپنے دفاع کے لئے اسلحہ استعما ل کرنے میں آزاد ہیں۔

کیا اسلام نے مخالفین کو مذہبی آزادی فراہم کی ہے؟

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام  نے اپنے مخالفین کو مذہبی آزادی دی ہے یا پھر یہاں بھی مخالفین کو مذہبی آزادی سے محروم کیا گیا ہے۔  جمہور مسلم مفکرین، متکلمین اور فقہاء کا نقطہ نظر یہی ہے کہ اسلام  میں مذہبی آزادی کا نہ صرف تصور ہے بلکہ اس کی بہت زیادہ حمایت پائی جاتی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک قرآن مجید کی بیشمار آیات اور سیرت  رسول سے مذہبی آزادی کی بھرپور حمایت ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام میں معروف معنوں میں مذہبی آزادی  کا  تصورنہیں ہے، خاص طور پر  مذہبی آزادی کا جو تصور اب پایا جاتا ہے اس کی اسلام میں گنجائش نہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے اسلام کے تصور جہاد ، جزیہ اور قتل مرتد سے استدلال کیا جاتا ہے۔

جہاد کا مقصد

اسلام کے تصور جہاد پر  بیشمار اعتراضات کئے جاتے ہیں ، ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اسلام میں جہاد کا ایک مقصد کفار کو مسلمان کرنا بھی ہے۔  جہاد پر اس قسم کے اعتراضات کو سمجھنے اوران کے جواب کےلئے ضروری ہے کہ علت قتال کو سمجھا جائے۔ مسلم فقہاء کے ہاں علت قتال پر بہت مفصل بحث پائی جاتی ہے۔ اسلامی جہاد سے مذہبی جبر کا تصور صرف اسی وقت ابھرتا ہے جب صرف کفر کو علت قتال مانا جائے ورنہ جہاد کے تصور سے مذہبی  جبر  کی تائید نہیں ہوتی۔ ڈکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کتاب’ فقہ الجہاد‘ میں اس موضوع پر بہت تفصیلی بحث کی ہے  اور امام شافعی کے تصور  کی کمزوری کو بیان کرتے ہوئے امام  شافعی کے ماننے والوں سے درخواست کی ہے کہ وہ  اس معاملے میں جمہور علماء کی رائے کو اپنائیں تاکہ جہاد سے مذہبی جبر کے تصور اور  ہمیشہ حالت جنگ میں رہنے کے تصور کا خاتمہ ہو سکے۔ اسی طرح اہل تشیع کے تصور جہاد کی ایک تعبیر بھی یہی سامنے آتی ہے۔ جمہور شیعہ فقہاء کے نزدیک جہاد ابتدائی کے لئے امام معصوم کی موجودگی اور اجازت ضروری ہے۔

ان حضرات کے خیال میں  مرتد کی سزا سے مذہبی جبر کے تصور کی تائید ہوتی ہے، کیوں کہ مذہبی آزادی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر انسان کو جس طرح مذہب اختیار کرنے  کی آزادی حاصل ہے اسی طرح مذہب کو ترک کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔  اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی شق نمبر ۱۸ میں مذہب قبول کرنے اور ترک کرنے کو انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔

معاصر اہل علم کے ہاں ارتداد اور جزیہ

اسی لئے دور  جدید  کے کچھ مذہبی   اہل علم نے قتل مرتد  کی سزا کا یا تو بالکل انکار کیا ہے یا پھر اس کی مختلف توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلا اس سزا کو قانون اتمام حجت سے مخصوص کرنا یا پھر ارتداد کو موجودہ  دورکے  تصور غداری سے تشبیہ دینا۔  یعنی جس طرح ملک سے غداری کی سزا ہے اسی طرح ارتداد بھی محض مذہب ترک کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد بغاوت اور غداری ہے۔   علامہ رحمت اللہ طارق، ڈاکٹر حمید اللہ، مفتی ابو زہرہ مصری ، راشد الغنوشی وغیرہ کا یہی موقف ہے۔

قتلِ مرتد کے ساتھ ساتھ جزیہ کے تصور کو بھی کچھ لوگ مذہبی آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں ، یعنی کسی انسان پر ایک مخصوص ٹیکس محض اس  بنیاد پر عائد کرنا کہ وہ آپ کے مذہب پر نہیں ہے۔ جزیہ پر بھی دور قدیم سے لے کر آج تک بحثیں جاری ہیں۔ جزیہ ہے کیا ؟ مقدار کتنی ہے؟ کن سے لیا جائے گا؟ کیا ہر غیر مسلم پر لاگو ہوگا یا پھر صرف اہل کتاب اور شبہ اہل کتاب پر؟  مشرکین پر لاگو ہوگا یا پھر ان کو اسلام اور موت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے؟  نیز جزیہ  کوئی ابدی قانون ہے یا پھر اس کا تعلق بھی قانون اتمام حجت سے ہے؟    مسلم فقہاء اور اہل دانش کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جزیہ سے مذہبی جبر کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مذہبی ٓزادی کی واضح مثال ہے۔ کیوں کہ اس صورت میں غیر مسلم کو اپنے مذہب پر رہنے کی مکمل آزادی ملتی ہے۔ اور جزیہ کا  مقصد محض وہی نہیں ہے جو معروف ہے۔

جمہور فقہاء کا نقطہ نظر

بہر حال  اسلام کی مجموعی تعلیم  اور آزادی اور حریت سے متعلقہ آیات کو سامنے رکھا جائے تو جمہور فقہاء کے نقطہ نظر  کی تائید ہوتی ہے۔  سورہ البقرہ کی آیت نمبر  ۲۵۶، تو اس معاملے میں بہت  واضح اور دو ٹوک ہے اسی لئے جن اہل علم کے خیال میں  علت قتال کفر ہے ان کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔  اسی طرح اور بھی بیشمار آیات ہیں جن میں  جبرا کسی کو ایمان پر لانے کو خدائی اسکیم کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے فقہاء عظام نے قرآن و سنت سے جب ان فروعی مسائل کا استنباط کیا تھا وہ دور سیاسی غلبے کا دور تھا اس لئے اس پر دور غلبے کی نفسیات  کا اثر واضح نظر آتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ دور سلطنتوں اور بادشاہتوں کا دور تھا، اس لئے آج کے جمہوری اور قومی ریاستوں کے عہد میں   بہت سارے فروعی نکات ایسے ہیں جن پر مذہبی جبر کا اطلاق ہو سکتا ہے اور ان نکات کو مذہبی آزادی کے مفہوم سے متصادم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس دور میں غیر مسلموں کے یہ حقوق بیان ہوئے ہیں اس دور کے لحاظ سے یہ حقوق ایسے ہیں جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔

راشد الغنوشی نے اپنی کتاب’ الدیمقراطیۃ و حقوق الانسان فی الاسلام‘ میں اسلام میں مذہبی آزادی کے تصور پر تفصیلی بحث کی ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ جدید اور معاصر مسلم مفکرین نے سورہ البقرہ کی آیت  ۲۵۶ سے یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کر لی ہے کہ اسلام کی رو سے عقیدہ اور مذہب کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔ جن مفسرین نے آیت قتال سے اس آیت کو منسوخ ہونا مانا ہے ان کی رائے مکمل طور پر غلط ہے۔ اس مقام پر غنوشی صاحب نے تفسیر المنار، تفسیر المیزان اور تفسیر فی ظلال القرآن کے حوالے دیے ہیں۔ [1]

اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق

ہمارے قدیم فقہاء اور جدید مسلم مفکرین نے ایک اسلامی معاشرہ یا اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق پر کافی سیر حاصل بحثیں کی ہیں۔ ان کے نزدیک غیر مسلموں کو اپنے مذہب اور عقیدہ اور مذہبی احکام پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ اس آزادی پر بھی اگرچہ کچھ حدود اور قیود ہیں۔  اسی طرح غیر مسلموں کو اپنے مذہب کی نشر و اشاعت اور  حق تبلیغ   کی آزادی بھی محدود ہوگی۔  اسی طرح ان کے سیاسی حقوق بھی مسلمانوں کے مقابلے پر محدود ہوں گے۔ وہ  ملک کے اعلی عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتے۔

محترم یوسف قرضاوی صاحب اپنی کتاب’’ اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق و فرائض‘‘ میں غیر  مسلموں کے مذہبی  آزادی  کے تحت لکھتے ہیں:

’’ اسلام کی جانب سے ذمیوں  کو عطا کردہ حقوق میں آزادی کا حق بھی شامل ہے۔ ذمیوں کو جو آزادیاں دی  گئی ہیں ان میں سرفہرست اعتقادات و عبادات کی آزادی بھی ہے۔ کسی بھی دین ومذہب سے تعلق رکھنے والا شخص اپنے  عقیدہ پر کاربند رہ سکتا ہے اور اسے اپنا دین چھوڑ کر کوئی دوسرا دین اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس پر حلقہ بگوش اسلام ہونے کے لئے دباو ڈالا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔ اسلام نے  ہمیشہ غیر مسلوں کی عبادت گاہوں  کی حفاظت کی اور ان کے مذہبی شعائر کا خیال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن نے جن اسباب پر قتال کی اجازت دی ہے ان میں آزادی عبادت کی حفاظت کو بھی شامل کیا ہے۔ ۔۔۔۔ اسلام غیر مسلموں سے صرف اس قدر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کی حرمات کا خیال رکھیں ۔ اس لئے اپنے مذہبی شعائر اور صلیبوں کا ممالک اسلامیہ میں مظاہرہ نہ کریں اور کسی ایسے شہر میں جہاں پہلے گرجا گر موجود نہ ہو نئے گرجا گر تعمیر نہ کریں مبادا کہ مسلمانوں کے احساسات و جذبات سے بے پروائی کا تاثر پیدا ہو۔۔۔‘‘[2]

مذکورہ بالا عبارت میں جس مذہبی آزادی کا ذکر ہے وہ سلطنتوں اور بادشاہتوں کے دور کے حساب سے بہت اعلی اور متاثر کن ہے مگر آج کے دور میں اور آج کے دور کے تصور مذہبی آزادی کی رو سے اس پر بہت سے اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور مذہبی آزادی کے دور حاضر کے تصور سے متاثرین کے لئے اس میں کوئی خاص کشش نہیں ہے۔

اسلامی ریاست میں غیر مسلموں  کے حق تبلیغ سے متعلق سید ابوالاعلی مودودی مرحوم کا نقظہ نظر بھی ملاحظہ فرمائیں۔سید صاحب ،رسائل و مسائل جلد چہارم میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’جہاں تک غیر مسلموں کی تبلیغ کا معاملہ ہے اس کے بارے میں یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک ہم بالکل خود کشی کے   لئے ہی  تیار نہ  ہو جائیں ہمیں یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے کہ اپنے ملک  کے اندر ایک طاقتور اقلیت پیدا ہونے دیں جو غیر ملکی سرمایہ  سے پرورش پائے اور بڑھے اور جس کی پشت پناہی بیرونی حکومتیں کر کے ہمارے لئے وہی مشکلات پیدا کرین جو ایک مدت  دراز تک ترکی کے لیے عیسائی اقلیتیں پیدا کر رہی ہیں‘‘۔  [3]

اسی طرح رسائل و مسائل جلد اول میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سید صاحب  غیر مسلموں کے لیے تبلیغ کی تین شکلیں بیان کرتے ہیں: ایک یہ کہ اپنے عوام کے لیے اپنے مذہب کی تعلیم ، یہ حق تما م مذاہب کو حاصل ہوگا۔ دوسری شکل یہ کہ دوسرے مذاہب والوں کے سامنے اپنے مذہب کی تبلیغ اور دیگر مذاہب سے اپنے اختلافات کو علمی حیثیت میں پیش کرنا، اس کی بھی اجازت ہوگی، مگر کسی مسلمان کو اسلامی ریاست میں اپنے دین کی تبدیلی کی اجازت نہیں ہوگی۔   اس کے بعد تیسری شکل کے تحت لکھتے ہیں:

’’تیسری شکل یہ ہے کہ  کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنیاد پر ایک منظم تحریک ایسی اٹھائے جس کی غرض یا جس کا حال یہ ہو کہ ملک کا نظام زندگی تبدیل ہوکر اسلامی اصولوں کے بجائے اس کے اصولوں پر قائم ہو جائے۔ ایسی تبلیغ کی اجازت ہم اپنے حدود  اقتدار میں کسی کو نہیں دیں گے‘‘۔[4]

یہ جدید دور کے دو عظیم مسلم مفکرین کی رائے ہے جس سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ  ان حضرات کے فہم اسلام کی رو سے غیر مسلموں کو کتنی مذہبی آزادی حاصل ہے اور ان کو ان کے  مذہب کی وجہ سے کون سے مذہبی اور سیاسی حقوق حاصل ہوں گے۔ یہ صرف اسلامی نظام یا اسلامی ریاست سے متعلق بات نہیں ہے بلکہ تمام نظریاتی ریاستوں کی یہی حالت ہے ۔ ان ریاستوں میں غیر نظریاتی لوگوں اور گروہوں کو یا تو برداشت ہی نہیں کیا جاتا یا پھر ان کو نظریاتی ریاست کے طے کردہ حدود وقیود میں رہنا ہوتا ہے۔ جس میں ان لوگوں کے کافی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

جدید مسلم تحریکات

اس وقت دنیا میں موجود اکثر اسلامی تحریکات کا موقف وہی ہے جو ہمارے قدیم فقہی ذخیرے میں بیان ہوا ہے۔ ان کے نزدیک  غیر مسلموں کو ایک اسلامی معاشرے یا ریاست میں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔  دوسرے درجے کے شہری کا مطلب ہے کہ ان کو وہ تمام مذہبی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو خود مسلمانوں کو مذہب کی وجہ سے حاصل ہوں گے۔  البتہ دیگر شہری اور انسانی حقوق ان کو ملیں گے ۔  البتہ جدید یت کے علمبردار اور  قدیم تعبیرات سے اختلاف رکھنے والی تحریکات اور مفکرین کا نقطہ نظر اس حوالے  سے بالکل مختلف ہے۔ ان حضرات کے نزدیک  موجودہ تصور مذہبی آزادی نہ صرف اسلام سے متصادم نہیں ہے بلکہ یہ عین اسلامی ہے۔

ان اسلامی تحریکات میں سے  ایک تحریک کا موقف پیش خدمت ہے جن کے نزدیک مذہبی آزادی کا وہ مفہوم  ہی درست ہے جو قدیم فقہ میں موجود ہے۔ ان کے نزدیک اسلام قبول کرنے کے معاملے میں جبر سے کام نہیں لیا جائے گا۔ غیر مسلموں کو یا تو اسلام قبول کرنا ہوگا یا پھر جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس صورت میں بھی ان کو وہ مکمل مذہبی آزادی نہیں ملے گی جس کا تصور  اقوام متحدہ کے منشور میں دیا گیا ہے  اور آج کے دور میں جس کو مذہبی آزادی کے نام سے ہم جانتے ہیں۔  یہاں تحریک طالبان پاکستان کا موقف پیش خدمت ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان کا موقف

تحریک طالبان پاکستان کا دعوی ہے کہ وہ پاکستان سے غیر اسلامی نظام کو ختم کر کے حقیقی اسلامی نظام کے قیام کے لئے سرگرم عمل ہے، اس لئے ان کا غیر مسلموں کے مذہبی آزادی سے متعلق موقف جاننا ضروری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اپنا رشتہ فقہ حنفی سے جوڑتے ہیں اس لئے ان کے موقف سے اس نوع کی باقی تحرکات کے موقف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ریاست پاکستان نے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ  تشدد کے سد باب کے لئے پیغام پاکستان نامی ایک متفقہ دستاویز تما م مکاتب فکر کے علماءکے فتوی پر مبنی شائع کیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کا مفصل جواب  بعنوان’ پیغام پاکستان شریعت کی عدالت میں‘ لکھا ہے۔  ۱۹۱ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے صفحات، ۱، ۳۵،۳۶، ۸۴، ۹۵، ۱۲۴، ۱۳۹، ۱۸۴، اور ۱۸۵ پر غیر مسلموں کے حقوق، غیر مسلموں کے لئے مذہبی آزادی ، اقوام متحدہ کے  انسانی حقوق کے منشور میں مذہبی آزادی کی شق پر  بحث موجود ہے۔

کتاب کے مترجم ابو محمد عبد الرحمان حماد ص ۱ پر لکھتے ہیں:

’’ کفار کے لئے قرآنی  قانون یہ تھا کہ وہ مسلمان ہو جائیں ، اگر مسلمان نہیں ہوتے تو قرآن کے سایہ میں زندگی گزارنا قبول کریں ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں‘‘۔ [5]

ان حضرات کے نزدیک غیر مسلموں کو زندہ  رہنے اور اپنے مذہب پر عمل پیرا رہنے اور محفوظ رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہیں۔ اس صورت میں انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی مگر مکمل مذہبی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ اپنے مذہب پر رہنے اور عمل کرنے کے لئے انہیں ایک خاص ٹیکس دینا ہوگا۔ [ جزیہ کی مکمل بحث اور اس کی جملہ تفصیلات میں قدیم فقہاء  کا آپس میں اور جدید اہل علم کا آپس میں اور قدیم فقہاء سے اختلافات ہیں۔ اس کا ایک ہی متعین مفہوم اور متفقہ اطلاق نہیں پایا جاتا]

اسی طرح شیخ خالد حقانی   آگے چل کر اقوام متحدہ کے منشور میں درج تصور مذہبی آزادی پر بہت سخت تنقید کرتے ہوئے اسے اسلام سے متصادم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آج پاکستان جس معاہدے کے تحت وقت گزار رہا ہے اس میں  اقوام متحدہ کا منشور تسلیم کرنا ہے جبکہ اس کے متعدد جانب ہیں[ حقوق انسانی کا چارٹر] جو کسی بھی صورت اسلامی نہیں ، بلکہ بعض انسانی حقوق صراحتا کفر ہیں ، اور بعض کو تسلیم کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور انہیں مختلف ناموں سے تقسیم کرنا لازم آتا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت مذہبی آزادی بھی آتی ہے جو خالصتا غیر اسلامی [ کفری] ہے،  چونکہ اس میں ہر کسی کو کفر اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے ، لہذا اس معاہدے کا اعتبار نہین ۔ ۔۔ اور ساتھ میں غیر مسلموں سے جزیہ کی وصولی پر بھی پابندی لگائی گئی ہے، چناچہ آرٹیکل ۲۱ میں ہے ‘‘۔ [6]

اس مقام پر فاضل مولف نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور سے  شق ۱۸ اور شق ۲۱ کو پیش کیا ہے  موصوف کے نزدیک یہ دونوں شقیں اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں بلکہ کفریہ دفعات ہیں۔ اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ حالانکہ اسلام نے کبھی بھی اسلامی ریاست میں کفار کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے دین کی طرف دعوت دیں    ، بلکہ امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ جب فرق باطلہ اپنے دین کی طرف دعوت دینا شروع کر یں تو انہیں قتل کیا جائے گا ،لیکن آج پاکستان میں بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں کے چینل اور دیگر مشنری ادارے موجود ہیں‘‘۔[7]

تحریک طالبان  کے  خیال میں پاکستان میں موجود غیر مسلموں کو جو آزادیاں حاصل ہیں، ان سے جو جزیہ وصول نہیں کیا جا رہا، ان کو اپنے مذہب  کی تبلیغ کی جو اجازت ہے، مرتد مسلمان کو سزائے موت نہیں دی جا رہی تو یہ سب غیر اسلامی امور ہیں اور اس کی وجہ پاکستان کا غیر اسلامی ریاست ہونا اور اقوام متحدہ کے کفریہ منشور کو تسلیم کرنا ہے۔

اس قسم کی  تنظیموں اور تحریکات کے علاوہ جو سیاسی مذہبی تنظیمیں ہیں ان میں بھی غیر مسلموں کے مسلمہ حقوق کی  پامالی کے حوالے سے کسی قسم کی حساسیت نہیں پائی جاتی۔ ان کے حقوق کے لئے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ بلکہ جب ان میں سے کسی کا کوئی کیس سامنے آتا ہے تو ان تنظیموں کا رویہ نہایت عجیب وغریب ہوجاتا ہے۔ مسیحیوں اور ہندووں  کے حواے سے اگرچہ سب مانتے ہیں کہ غیر مسلم اقلیت ہونے کی وجہ سے ان کے حقوق ہیں مگر ان کے حقوق کی پامالی پر کوئی موثر آواز نہیں اٹھتی۔

[1] راشد الغنوشی،  الدیمقراطیۃ و حقوق الانسان فی الاسلام، ص  ۱۸۰،۱۸۱

[2] یوسف القرضاوی، اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق و فرائض، ترجمہ،  قیصر شہزاد، ص  ۲۱ تا ۲۴

[3] مودودی، سید ابو الاعلی، رسائل و مسائل، ج  ، چہارم ص ۴۶۱

[4] یضا، ج ۱، ص ۲۶۹،۲۷۰

[5] شیخ خالد حقانی، پیغام پاکستان شریعت کی عدالت میں

[6] ایضا، ص  ۸۴ ،۸۵

[7] ایضا ، ص ۸۵