ماحولیاتی صفائی اور سماجی رویے: ہماری ترجیحات کے پیچھے کیا نفسیات ہے؟
ماہ پارہ صفدر مشہور نیوز کاسٹر(پی ٹی وی) نے اپنی خود نوشت لکھی ہے۔ہمارے لئےاس میں بہت کچھ سیکھنے کے لیے ہے۔ایک انسان کی زندگی میں صرف اس کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی سبق ہوتا ہے۔اگر وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو ضبط تحریر میں لے آئے تو یہ قیمتی سرمایہ بن جاتا ہے جو ہمیشہ آنے والوں کے لئے بھی راہنمائی کا ذریعہ بنتا ہے۔
’’میرا زمانہ میری کہانی‘‘کے عنوان سے لکھی جانے والی’’خود نوشت‘‘میں پاکستان کی سیاسی تاریخ خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کا ذکر بھی ہے ۔اُن حالات کا ذکر تفصیل سے ہے کہ جب حکومت و حکمران بدلتے ہیں تو میڈیا پہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔پی ٹی وی ایسے سیاسی ماحول میں کن مشکلات سے گزرتا اور اس کا عملہ کس طرح Surviveکرتا اور ذمہ داریوں کو نبھاتا تھا،یہ سب کچھ اس میں ذکر ہے۔
میں ماہ پارہ صفدر کی خود نوشت سے ہی ایک بات یہاں نقل کر رہا ہوں۔ماہ پارہ اپنے دورہِ عراق کے بارے میں لکھتی ہیں۔اس دورے میں اُن کی ملاقات آیت اللہ سیستانی سے ہوئی۔ملاقات ہو گئی، تو آیت اللہ سیستانی نے پوچھا کسی کا کوئی سوال ہے تو وہ پوچھ لے۔وہ لکھتی ہیں کہ میں نے پوچھا’’مسلمانوں میں نظم و ضبط اور بیرونی طہارت و پاکیزگی کی کمی کیوں ہے جب کہ صفائی کو مسلمان کے لیے نصف ایمان قرار دیا۔تو آیت اللہ نے اِن شہروں کی صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور سہولتوں کے فقدان کا ذمہ دار صدام حسین کی حکومت کو قرار دیا۔‘‘
یہ ایک مختصر پیرا گراف ہے لیکن اِس میں تین باتیں قابل توجہ ہیں:
پہلی بات:
مسلمانوں میں نظم و ضبط کی کمی ہے۔ماہ پارہ صاحبہ چونکہ انگلینڈ میں رہتی ہیں انہیں اِس کی کمی محسوس ہوئی ہوگی کہ ہم مقدس مقامات پہ بھی نظم و ضبط کا مظاہرہ نہیں کرتے تو باقی مقامات میں کیسے نظم ضبط کامظاہرہ کرتے ہوں گے؟۔یہی صورت حال مزارات پہ ہوتی ہے۔یہاں تک کہ مسجد حرام میں کعبۃ اللہ کا طواف کر تے ہوئے اور حجر اسود کا بوسہ لینے کی کوشش میں نظم و ضبط اور ادب و احترام کے تقاضوں کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔حجر اسود کو چومنا سُنت اور مُستحب عمل ہے جب کہ ادب کرنا فرض ہے۔مسلمانوں کا اجتماع جس مقام پہ بھی ہو، اکثر وہاں نظم و ضبط کا خیال بہت کم رکھا جا تا ہے۔مذہبی راہنما معاشرتی زندگی کے ان مسائل کو اپنا موضوع بنائیں اور لوگوں کو آگاہ کریں کہ نظم وضبط ہو یا کوئی بھی ریاستی قانون، دین اس کی پیروی کا تقاضا کرتا ہے۔ریاستی قوانین کی پابندی کے ہم پابند ہیں، کیونکہ یہ ریاست اور شہری کے درمیان معاہدہ ہے۔معاہدے کو نبھانا دین کا حکم ہے۔
دوسری بات:
صفائی ستھرائی کا معاملہ بھی نظم و ضبط جیسا ہے۔آپ کسی بھی مزار پہ چلے جائیں،وہاں آس پاس صفائی کی صورت حال بہت ہی خراب ہوتی ہے۔صرف مزارات کے آس پاس ہی نہیں، پارکوں میں چلے جائیں ،تفریحی مقامات جیسے شمالی علاقہ جات میں،وہاں کی ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں کہ روز بروز گندگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔اگر دو قدم پہ کنٹینر ہے تو وہاں تک جانے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ وہاں جاکر کوڑا پھینک آئے۔یہ قومی مزاج ہے،اس کا تعلق تعلیم و جہالت ،امیر و غریب سے نہیں۔گزشتہ دنوں میری بہن یورپ سے پاکستان آئی، پاکستان سے وہ عمرہ کے لئے گئی۔۔اس کے تاثرات یہ تھے کہ جس طرح صفائی و ستھرائی کا انتظام مکة المکرمہ اور مدینة المنورہ میں ہونا چاہئیے،ویسا نظام نہیں تھا۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹی،فٹ پاتھ بنے ہوئے نہیں ہیں۔۔۔چلنے والوں کو بہت دقت کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔ایسے بہت سے مسائل وہ ذکر کررہی تھیں جن کا تعلق مقدس شہروں کے نظام صفائی سے تھا۔۔
تیسری بات:
آیت اللہ سیستانی کا وہی روایتی جواب ہے انہوں نے یہ ذمہ داری صدام حسین کی حکومت پہ ڈال دی جیسے ہم اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار حکمرانوں کو قرار دیتے ہیں۔اگر میں اپنے گھر کا کوڑا سڑک پہ پھینکتا ہوں۔۔میرے اس عمل کا ذمہ دار کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ایک سپریم لیڈر جس کے حکم اور بیان کو’’اطاعت اولی الامر‘‘کے زمرے میں خیال کیا جاتا ہے۔اہل تشیع جن کے فرمان پہ جان قربان کرنے کے لیئے تیار ہو جاتے ہیں۔وہ صدام حسین پہ اس ذمہ داری کو ڈالنے کے بجائے اگر یہ کہہ دیتے کہ میں ضرور زائرین کو اس کی تلقین بلکہ حکم دوں گا کہ وہ اس شہر کی پاکیزگی وطہارت کا خیال رکھیں۔
پاکستان کے ایک شہر میں بقیہ شہروں کی بنسبت زیادہ گندگی ہے۔میں جب اس شہر میں گیا تو میرے پاس تبلیغی جماعت میں شامل ایک رشتہ دار مجھے تبلیغ کرنے کے ارادے سے تشریف لائے۔وہ تبلیغ کر تے رہے میں سنتا رہا۔آخر میں، میں نے ان سے گزارش کی آپ کے شہر میں گندگی بہت ہے ۔ہر طرف غلاظت پھیلی ہوئی ہے،باہر نکلو تو بدبو سے انسان کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔آپ کے مُبلّغین کی بہت بڑی تعداد اس شہر میں موجود ہے۔لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔اگر آپ سب مل کر ایک مرتبہ اس علاقے کی صفائی کردیں اور چمکا دیں تو آپ کو لوگوں کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ،لوگ آپ کے پاس خود آئیں گے۔آپ کی بات سنیں گے اور عمل کریں گے۔
خیر! صفائی و پاکیزگی یا تو ہماری ترجیحات میں نہیں ہے یا ایسی باتوں سے اس لیئے پرہیز کیا جا تا ہے کہ اِس سے لوگ کم متاثر ہوتے اور کم متوجہ ہوتے ہیں۔۔
یورپ میں مسلم تنظیمیں بلا تفریق مسلک و مشرب چندہ اکھٹا کرتی ہیں۔خواہ کسی کا کاروبار حلال ہے یا حرام۔اُس نے قانونی طریقے سے کمایا ہے یا غیر قانونی طریقے سے۔اُس نے شراب وخنزیر سے کمایا،یا مخرب اخلاق لٹریچر کے ذریعے۔کسی تنظیم کو اِس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔تنظیمات کی پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو حلال کے بارے میں شعور دیں تا کہ اُن کی زندگی اور اسلام ہم آہنگ ہو سکیں۔اگر ایک مسلمان کی کمائی قانونی اور اسلامی بنیادوں پہ نہیں ہے تو اُس کی زندگی اوراس کے عقیدہ و فکر میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہو گی۔یہ بُعد اور اجنبیت اُسے کبھی ایک اچھا مسلمان نہیں بنا سکتے۔
مسلمان جہاں بھی رہنے والا ہو،اُس کا اجتماعی ماحول اکثر قابل مثال نہیں ہو تا ۔وہ دین کی بات کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے آس پاس کوڑے کا ڈھیر ہوتا ہے۔وہ جس مسجد میں نماز پڑھتا ہے اُس کے بیت الخلاء اِس قابل نہیں ہوتے کہ اُنہیں استعمال کیا جا سکے۔وہ جس گلی میں رہتا ہے،اُس کے نُکڑ پہ ہمسایوں نے اپنی طرف سے گندگی جمع کر رکھی ہوتی ہے۔وہ محفل میلاد کا انتظام کرتا ہے،اُس کے بعد اُس جگہ ہڈیاں اور چاول بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔گلی کی صفائی اس روز ہوتی ہے، جب کسی کی شادی ہو اور شادی کے بعد،اُس گلی کا کوئی ولی وارث نہیں ہوتا۔
ہمیں صفائی و پاکیزگی کا خصوصی اہتمام کرنے کا کلچر اور رویہ عام کرنا چاہیئے کیو نکہ اسلام نے باطنی اور جسمانی صفائی و پاکیزگی یہ اتنا اصرار کیا ہے کہ اِس کے ساتھ دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی وابستہ کردی ہے۔