شناخت کا قتل: اقلیتوں کو درپیش مسائل کی فنِ مصوری سے عکس بندی

0

گزشتہہ دنوں 18 سے 22 ستمبرکے دوران  ’پاکستان یو ایس ایلومنائی نیٹ ورک‘(PUAN) کے تحت اسلام آباد میں ایک فیلوشپ پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔اس میں ماسٹر کلاس کے لیے شرکا کو پانچ گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا اور اور ہر گروہ  کسی ایک سماجی تبدیلی سے متعلقہ فن کی ایک شکل کے لیے وقف تھا۔اس پروگرام میں ڈاکٹر دانش خٹک بھی شامل تھے، جو پیشے کے اعتبار سے یوں تو پلاسٹک سرجن ہیں لیکن انہیں فنون لطیفہ سے عشق کی حد تک گہرا شغف ہے۔

ان پانچ دنوں میں شعبہ آرٹ میں ڈاکٹر دانش خٹک  کی صلاحیت کھل کر سامنے آئی  جس نے تمام شرکاء کو حیران کردیا۔انہوں نے اپنی طرف سے ایک ایسی پینٹنگ پیش کی جو دیکھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتی اور اس پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ یہ نہایت دو ٹوک اور بامعنی قسم کی مصوری تھی جس کی کسی نے توقع نہیں کی تھی۔

ڈاکٹر خٹک کے کینوس سے ابھرنے والا مصوری کا فن پارہ پشاور میں اقلیتی برادری کو درپیش چیلنجز کی گہرائی سے عکاسی کرتا ہے۔ ان کی پینٹنگ میں ایک کھوپڑی کو دکھایا گیا ہے جس کے سر میں گولی کا سوراخ ہے،جو حالیہ دنوں میں پشاور میں ہونے والی المناک ٹارگٹ کلنگ کی طرف اشارہ ہے۔اس کھوپڑی پر ایک سکھ کی پگڑی بنی ہوئی تھی جو اس مسئلے کا شکار ہونے والی اقلیتی کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی علامت ہے۔

ڈاکٹر دانش اپنی پینٹنگ کے ساتھ

اس دلخراش فن پارے کا عنوان تھا “Identity Genocide”۔ اس عنوان میں اقلیتی برادری کو درپیش مسائل، ان کی مایوسی اوران کے وجود کو لاحق خطرات  کے احساس کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پینٹنگ کا منفرد خیال  پہلے ہی لمحے میں دیکھنے والے کو ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی  طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ڈاکٹر دانش نے اپنی بات پہنچانے کے لیے سادہ مگر بے چین کردینے والے استعارے کا انتخاب کیا۔

پشاور میں اقلیتی برادری کو سیکورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، اور ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ ان واقعات نے کمیونٹی میں کمزور، پسماندہ اور تیزی سے الگ تھلگ کیے جانے کا احساس پیدا کیا ہے۔ PUAN آرٹس فار سوشل چینج ماسٹر کلاس نے ڈاکٹر خٹک کو اپنے فن کے ذریعے ان اہم مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔

اس پروگرام کی اختتامی تقریب کے دوران ڈاکٹر دانش خٹک فخر سے اپنی تخلیق کے ساتھ کھڑے رہے۔ پلاسٹک سرجن سے لے کر ایک ماہر مصور تک کا ان کا سفر حیران کن  اور خوشگوار محسوس ہوا۔ ناظرین  جذبات کی گہرائی اور “شناخت کی نسل کشی” ( Identity Genocide) کے ذریعے دیے گئے طاقتور پیغام سے بظاہر متاثر ہوئے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں اقلیتی برادریوں کے لیے سیکورٹی کے خدشات شدید ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کا خوف بہت زیادہ ہے، ڈاکٹر خٹک کا  فن پارہ عملی اقدامات کا مطالبہ تھا۔ اس نے ناظرین میں احساس جاگزیں کیا کہ وہ ان کمیونٹیز کو درپیش تلخ حقیقتوں کا سامنا کریں اور ان کی شناخت مٹائے جانے کے خلاف یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہوں۔

پاکستان میں، خاص طور پر پشاور میں اقلیتی برادریوں کو درپیش سکیورٹی مسائل کے بہت دور رس نتائج ہیں۔ زندگی اور حفاظت کے لیے فوری خطرات سے ہٹ کر، یہ مسائل ملک کے سماجی تانے بانے کو خراب کرتے ہیں، خوف، عدم اعتماد اور تقسیم کے ماحول کو فروغ دیتے ہیں۔

آرٹس فار سوشل چینج کی ماسٹر کلاس کے دوران ڈاکٹر دانش خٹک کا پلاسٹک سرجن سے پینٹر تک کا سفر ہماری زندگیوں میں آرٹ کے گہرے اثرات کا ثبوت ہے۔ ان کی پینٹنگ، “شناخت کی نسل کشی”، پشاور میں اقلیتی برادریوں کو درپیش چیلنجوں کی ایک واضح یاد دہانی اور ہمدردی، افہام و تفہیم اور عمل کی دعوت دیتی ہے۔

دنیا میں ہمیشہ سے آرٹ اور فنون لطیفہ کو انسانی مسائل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مظلوم طبقات کے مسائل کے اظہاریے کے لیےبھی مصوری وغیرہ ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں قلیتوں کا مسئلہ دیرینہ اور سنگین  ہے جس کی طرف توجہ مبذول کرانے کا ایک اہم طریقہ آرٹ کے فن پاروں کا استعمال ہے۔اس ضمن میں پاکستان میں اگرچہ بہت کم کوششیں ہوئی ہیں، لیکن ڈاکٹر دانش جیسے نوجوانوں کا اس طرف  مائل ہونا ایک خوش آئند امر ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کی لہر کے دوران سکھوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ کی صورتحال نہ صرف حکومت بلکہ سول سوسائٹی اور عالمی برادری سے بھی فوری کارروائی کا تضاضا کرتی ہے۔ حکومت کو اپنے تمام شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے، چاہے ان کا مذہبی یا نسلی پس منظر کچھ بھی ہو۔ تعلیم، آگاہی مہموں اور قانون کے مؤثر نفاذ کے ذریعے پاکستان ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے جو تنوع کی حوصلہ افزائی کرتا ہو، انسانی حقوق کی رعایت کرے، اور اقلیتی برادریوں کے خلاف تشدد کو مسترد کرے۔