طوفانِ اقصیٰ: محرکات اور اثرات کی بحث
گزشتہ روز ہفتے کی صبح غزہ سے حماس کے عسکری وِنگ ’عزالدین قسام بریگیڈز‘ کی جانب سے اسرائیل پر اچانک سینکڑوں راکٹ فائر کیے گئے، جس کے بعد سے خطے کی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ اسرائیل جو ہمیشہ اس طرح کے کسی بھی اقدام کے بعد فلسطینیوں پر ایک جنگ مسلط کردیتا ہے،گزشتہ روز سے شدید بمباری کر رہا ہے اور عام شہریوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔اس بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ یہ معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا اور فلسطینیوں کی طرف سے اس اقدام کے کیا محرکات تھے، عالمی میڈیا فلسطین کو ذمہ ٹھہرا رہا ہے اور اسرائیل کی طرف سے ہونے والے قتل عام کو ردعمل کے طور پہ پیش کیاجارہا ہے۔
مجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالک(Cooperation Council for the Arab States of the Gulf) نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے اور اس تصادم کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔
خطے کے اندر ہونے والی تبدیلیوں،اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کی بیرونی کوششوں، اور عرب ریاستوں کے اسرائیل کے تعلقات کے اپنے تقاضے اور محرکات ہوسکتے ہیں، تاہم اس سے عام فلسطینی شہری جو اس عمل میں کسی بھی طرح حصہ نہیں ہے،خود کو زیادہ عدم تحفظ کا شکار اور کمزور محسوس کرتا ہے۔گزشتہ روز حماس کی طرف سے ہونے والا حملہ جسے گزشتہ چالیس سالہ تاریخ کا سب سے منظم اور مؤثر اقدام سمجھا جا رہا ہے اور جسے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت بھی حاصل ہے،بہ ظاہراسی بے چینی اور غصے کا اظہار ہے۔جبکہ اسرائیل خطے کے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کو مزید دیوار کے ساتھ لگانے اور انہیں ریاست کے حق سے بالکلیہ محروم کرنے کے درپے ہے۔لہذا اس سارے پس منظر نے دنیا میں لوگوں کی رائے کو تقسیم کردیا ہے۔
یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ ’طوفان اقصی‘ جیسے حملوں کا نقصان زیادہ ہے یا فائدہ؟ خلیج کے زیادہ اخبارات اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے ساتھ اس پہلو کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ فلسطین کی بعض تنظیمیں عام فلسطینی شہریوں کے حق میں سوچنے سےے قاصر ہیں۔ان کے مطابق حالیہ حملے کی ٹائمنگ معنی خیز ہے،جس سے مسائل زیادہ پیدا ہوں گے اور اسرائیل کو فائدہ ہوگا۔
عالمی برادری کو چاہیے تھا کہ وہ خطے میں جنگ کی صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے اقدامات کرتی۔لیکن گزشتہ روز سے یورپی یونین اور انفرادی طور پہ کئی مغربی ممالک نے اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے،جوکہ حالات کی مزید خرابی اور فلسطینیوں کے لیے مسائل کا سبب بنے گا۔
اسرائیل کی موجودہ حکومت سخت گیر صہیونی تنظیموں کے زیراثر ہے اور ان عناصر کو مضبوط بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔اسرائیل کی حکومت اور سخت گیر عناصر کے بیانات اشارہ دے رہے کہ وہ کل کے اقدام کے بہانے فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے ایک بار پھر تیاری کر رہے ہیں۔اس تناظر میں سعودی عرب ، ترکی اور قطر جیسے ممالک کی طرف سے اس تصادم کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے دباؤ بالکل درست ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔موجودہ حالات میں فلسطینیوں کے پاس بہرحال معقول راستہ یہی بچتا ہے کہ وہ تنظیموں کے اقدامات کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ان ریاستوں کے منصوبے اور سوچ کی طرف بھی توجہ کریں۔
عالمی سطح پر مذہبی ہم آپہنگی کے لیے کام کرنے والے نیٹ ورک United Religions Initiative(URI)نے بھی بین الاقوامی برادری اور امن کے لیے کام کرنے والے اداروں پر زور دیا ہے کہ اس تصادم کو روکا جائے، کیونکہ اس میں 80 فیصد سے زائد مرنے والے افراد عام شہری ہیں۔