سفرنامہ انڈونیشیا
راقم اور اسفار کابچپن سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ،میں ابھی صرف نو سال کا تھا کہ ہندوستان کے سفر پر حضرت دادا جان مولانا عبدالحق اور حضرت والد ماجد مولانا سمیع الحق شہید کے ہمراہ پہلی مرتبہ عازم سفر ہوا،اس تاریخی سفر کے دن رات اور یادگار لمحات وواقعات آج تک حافظے کی لوح پر پتھر کی لکیر کی طرح محفوظ ہیں، کبھی موقع ملا تو سفرِ ہندوستان کی بھی مختصر روداد لکھوں گا۔
حالیہ انڈونیشیا کا سفر بھی مجھے بادل نخواستہ کرنا پڑاکیونکہ اِس سے ڈھائی تین ماہ پہلے چین کا میرا بڑا مصروف ترین وزٹ ہوا تھا اوراُس سفرمیں مسلسل جہازوں کے لمبے اسفار کے وجہ سے میں بہت زیادہ اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا شکار ہو گیا تھا، چین کے ایک ماہ بعد افریقہ کے دوردراز ممالک سینگال،گیمبیاوغیرہ کا بھی دعوت نامہ ملا تھا مگر میں نے اس سے بھی معذرت کرلی تھی کیونکہ افریقہ کے کئی ملکوں میں مرحوم کرنل قذافی کی دعوت پر متعدد بار لیبیا سے ہوتے ہوئے مختلف ممالک کی کانفرنسوں میں گئے تھے اور یوں کئی سال پے درپے افریقہ کے جنگلوں اور صحراؤں کی خاک بھی چھاننی پڑی تھی …
دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
لڑکپن ”دورِ جاہلیت”کے ایام میں میری قسمت کے خم و پیچ کو ایک بار ایک پامسٹ دوست نے ٹٹولا تھا اور اُس انجم شناس نے میرا ہاتھ دیکھ کر بتایا تھا کہ تمہارے ہاتھ کی لکیروں میں بہت زیادہ بیرونی اسفار ہیں،تم بہت زیادہ دنیا کی سیرکرو گے تو اس وقت میں نے اس کو مذاق سمجھا تھا لیکن وہ مذاق حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی اوراپنی صحرانورد طبیعت کی بدولت درویشی اور فقیری میں ہی درجنوں ممالک دیکھ چکا ہوں اور وہ بھی کئی کئی بار ۔
ہوسکتا ہے کہ ہاتھ کی لکیروں میں راستوں ،شاہرائوں اور منزلوں کے نشان پنہاں ہوں…
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں
اسی طرح اس دوست نے ساتھ میں یہ پیشنگوئی بھی کی تھی کہ تم متعدد شادیاں بھی کرو گے، معلوم نہیں کہ یہ دوسری پیشنگوئی کب پوری ہوگی؟ (اسی لئے حدیث میں نجومیوں کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ جھوٹ اور فریب وغیرہ سے بھی کچھ نہ کچھ کام لیتے ہیں،اللہ تعالیٰ مجھے بھی معاف فرمائے) حالانکہ اس کو پہلے پورا ہونا چاہیے تھا مگر وہ اب تک تشنہ طلب ہے، پہلی پیشنگوئی کے نتیجے میں تو صرف تجربات اور گردِ سفر ہی ہاتھ آیا،کبھی کبھی اس پامسٹ دوست سے دوسری پیشنگوئی کے بارے میں استفسار کرتا رہتا ہوں تووہ اپنی پیشنگوئیوں پر اَب تک مصر ہے کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کہ وہ بھی جلد ہی پوری ہوگی،آخر دل امید کو دلفریب وعدوں سے انسان کب تک بہلائے؟ …
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
تو اسی باعث افریقہ کے ایک ماہ پر مشتمل طویل سفر سے پیشگی معذرت کرلی تھی کہ میرے تھکے اور بھیگے پروں میں اب اتنی سکت نہیں کہ دوبارہ فوری محو پرواز ہوسکوں ۔اس کے کچھ دنوں بعد ہی برادرم اسرار صاحب نے نئے سفر انڈونیشیا کا جرس بجایا کہ انڈونیشیا کا دو ہفتے کا سفر نومبر کے آخری ہفتے میں فائنل ہو گیا ہے اور آپ کا نام بھی سفارتخانے نے منتخب کرلیا ہے،اس ”بے وقت ”کرم نوازی پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ میں معذرت بھی کی کہ اب پائے شکستہ میں وہ استقلال نہیں رہا اور نہ پروں میں وہ دم خم باقی ہے کہ تم جیسے تازہ واردان بساطِ ہوائے دل کا ساتھ دوں، برادرم اسرار صاحب نے چپکے سے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے میری ”شکایت” لگائی اور کچھ دن بعد ڈاکٹر صاحب نے بھی تاکیداً حکم صادر فرمایاکہ راشد ضرور تمہارے ہمراہ راہی سفر ہوگا۔الامر فوق الادب کے پیش نظر مجبوراً کمر کسی اور پابہ رکاب ہوگیا۔…
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تمھے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ئے رکاب میں
اور مرا در منزل جانان چہ امن عیش چون ہر دم
جَرس فریادمی دارد کہ بربندید محمل ھا
یار دوست تو سفر کو بہت زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن سفر سفر ہوتا ہے چاہے یہ انفرادی ہو یا اجتماعی ہو ،اپنی خواہش پر ہو یا حکومتوں کی دعوت پر ؟ اس کے لئے لمبی چوڑی تیاری کرنی پڑتی ہے اور متعدد بار اسلام آباد اورسفارتخانوں کے چکر وغیرہ لگانے پڑتے ہیں تب کہیں منزل مقصود نظر آتی ہے اور پھر کہیں جا کر دَم بھر کوچہ جاناں میں گھڑی دو گھڑی کا سایہ نصیب ہوتا ہے، لہٰذا تمام تر تیاری کے بعد26 نومبر کو قافلہ کے ہمراہ دوحہ اورپھر دوحہ سے انڈونیشیا کے دارالحکومت جانے کا پروگرام فائنل ہو گیا لیکن اس دوران بدقسمتی سے کچھ ضروری کام مسائل آڑے آگئے جس کی بنا پر میں قافلہ سے مجبوراً رہ گیا اور پھر دو دن بعد اکیلے 28 نومبر کو جکارتہ کے لئے قطر ایئرلائز کے ذریعے روانہ ہوگیا۔
اسلام آباد ایئر پورٹ سے تین بجے شب قطر دوحہ روانگی ہوئی، پھر دوحہ میں تین چار گھنٹے ایئرپورٹ پر انتظار کے بعد جکارتہ کے لئے مسلسل ساڑھے آٹھ نو گھنٹے کی مزید عصاب شکن فلائٹ لینا تھی جس کے لئے میں بالکل ذہنی طورپر تیار نہیں تھا لیکن مجبوراً یہ بھاری پتھر میرے ناتواں کندھوں کو اٹھانا ہی پڑا۔میں گزشتہ چین کے سفرنامے میں لکھ چکا ہوں کہ ہوائی اسفار سے اب مجھے چِڑ ہوگئی ہے، عہد شباب میں تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی لیکن اب ہوائی جہازوں میں سفر طے کرنا بہت بھاری محسوس ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کہ بڑھتی عمر کا اثر ہے یا جستجوو طلب میں کمی واقع ہو گئی ہے۔کبھی وہ بھی وقت تھا کہ دن رات یہ شعر دہراتا رہتا …
جز ذوق سفر جز شوق سفر کچھ اور ہمیں منظور نہیں
اے عشق بتا اب کیا ہوگا کہتے ہیں کہ منزل دور نہیں
بہرحال! گیارہ بارہ گھنٹے کے مسلسل ہوائی سفر کے مراحل طے کرنے کے بعد 29 نومبر کو جکارتہ کو رات کے وقت پہنچ گیا۔تقریباً سفر کے دوران تمام ایئرپورٹس میں انتظار کے لمحات وغیرہ کو ملا کر بیس بائیس گھنٹے جکارتہ تک پہنچنے میں لگ جاتے ہیں۔ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے ایک دو منٹ کے لئے روکا اور پاسپورٹ کسی دوسرے دفتر میں لے جاکر پھر واپس کردیا کیونکہ میرے پاس انوٹیشن لیٹر نہیں تھا۔ دراصل وہ آفیشلی لیٹر اور دوسرے ضروری کاغذات تو وفد کے ساتھ ہی تھے اوروہ دو دن پہلے پہنچ چکے تھے۔بہرحال ایئرپورٹ سے نکل کر شدید گرمی اور حبس کے جکڑ نے میرا استقبال کیا۔ میں پاکستان سے کے پی اور اسلام آباد کی شدید سردی میں لپٹا اور ٹھٹھرتا ہوا روانہ ہوا تھا ، قدرت کے عجائبات ملاحظہ کیجئے کہ انڈونیشیا آسٹریلیا میں نومبر دسمبر وغیرہ میں شدید گرمی واقع ہوتی ہے۔ایئرپورٹ پر انڈونیشین ایمبسی کے جناب ذوالفقار صاحب استقبال کے لئے کھڑے تھے، انہوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا اور مجھے ہوٹل لے گئے ،گاڑی میں ایئرکنڈیشن فل سپیڈ پر تھا لیکن پھر بھی میرے جسم پر پسینے کے قطرے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے،شاید انہیں بھی کافی عرصے بعد باہر نکلنے کا موقع ہاتھ آیا تھا۔
جکارتہ بہت زیادہ گنجان اور آبادی والا عظیم شہر ہے ،گاڑی سے باہر ہرطرف لائٹیں اور سبزہ وغیرہ نظر آرہا تھا،تمام شہر بہت زیادہ صاف ستھرا،اُجلااور پُررونق معلوم ہورہاتھا۔جناب ذوالفقار صاحب مجھ سے مسلسل سوالات پوچھ رہے تھے اور گپ شپ لگا رہے تھے۔ وہ مجھے مسلسل کریدتے رہے آخر جب انہیں معلوم ہوا کہ میرا تعلق جامعہ حقانیہ اور مولانا سمیع الحق شہید سے ہے تو انہیں یقین نہیں آرہاتھا اوروہ بار بار تعجب اورخوشی کا اظہار کررہے تھے ، دراصل جناب ذوالفقار صاحب گزشتہ آٹھ برس سے مسلسل اسلام آباد میں سفارتخانے میں ملازمت کررہے ہیںتو اس لئے وہ پاکستان کے جغرافیے اوراس کی سیاست بخوبی واقف ہیں۔تو اس لئے انہوں نے مجھے بہت زیادہ محبت اور خلوص سے نوازا اور حضرت والد صاحب شہید کا بہت دیر تک ذکر خیر کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ جناب ذوالفقار صاحب کو نیک خواہشات اورمحبتوں کا صلہ دے۔کچھ دیر بعد ہوٹل پہنچ گئے اور وہاں پر ذوالفقار صاحب مجھے جناب اسرار صاحب اوراسماعیل صاحب کے کمرے میں لے گئے ،انہوں نے میرا استقبال کیا لیکن ان کے چہرے مرجھائے اور بیمار لگ رہے تھے ،استفسار پر پوچھا کہ ہم لوگ تو آتے ہی سارے شدید بیمار ہوگئے ہیں اور آدھے سے زیادہ قافلہ بخار،زکام وغیرہ ادھ موا ہوا پڑا ہے۔میں حیران رہ گیا کہ قافلہ منزل مقصود پر پہنچ کرہی کیوں ”لُٹ ”گیا۔
بہرحال ! کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھنے کے بعد میں نے اجازت چاہی ،کیونکہ شدید تھکاوٹ اور بے خوابی کے ہاتھوں سر وبالِ دوش بن رہا تھا۔ساتھ میں انہوں نے خوشخبری سنائی کہ علی الصبح تیاری کے بعد جامعہ الصدیقیہ کا وزٹ کرنا ہے اور اس وزٹ میں آپ شرکت کریں گے کہ آپ تازہ دم ہیں اور ہم اکثر ساتھی نہیں جارہے کیونکہ ہم لوگ بیمار ہیں۔میں نے بھی عذر تراشنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کہاکہ نہیں! آپ کا نام فائنل ہوچکا ہے۔بہرحال! عشاء کی نماز پڑھی اور باہر شیشے سے جکارتہ شہر پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ ٹوکیوکی طرح یہ بہت بڑا شہر ہے اور جگہ جگہ اونچے درخت آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے۔میں بغیر کھانا کھائے بستر پر دراز ہوگیا۔مسلسل بائیس گھنٹے سفر کے بعد یوں محسوس ہورہا تھا کہ بائیس گھنٹوں کی تھکاوٹ نہیں بلکہ بائیس برس کی تھکاوٹ ،ہجوم افکار اور بے خوابی کا مرض میرے ہمراہ ہے …
کچھ جہدِ مسلسل سے تھکاوٹ نہیں لازم
انساں کو تھکا دیتا ہے سوچوں کاسفر بھی
جاری ہے