افغانستان ڈائری: امارتِ اسلامیہ میں ہمارے مشاہدات (قسط چہارم)

0

جس وقت میں کابل جانے کے لیے رخت سفر باندھ رہا تھا، اس وقت پاکستان اور افغانستان کے مابین تناؤ عروج پر تھا۔اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے دوست احباب نے مشورہ دیا تھا کہ اِس وقت کابل جانا مناسب نہیں ہے۔کچھ وقت کے لیے اس سفر کو متاخر کر دینا چاہیے۔ جب حالات نارمل ہوجائیں تو پھر یہ دورہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن میرا خیال یہ تھا کہ اگر حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جائے تو معلوم نہیں کتنا وقت رکنا پڑے گا۔مزید یہ کہ اگر تناؤ ہے بھی، تو ایسے میں کسی نہ کسی کو تو یہ قدم اٹھانا ہوگا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان کے معاملات کو سمجھنے کے لیے اپنے تئیں کوشش کرے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟اور داخلی سطح پر ذمہ دار شخصیات اور عام لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ لہذا ہم نے ذاتی طور پہ بھی اور ادارے و منتظمین نے بھی سفر کو مؤخر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ہم یہ چاہتے تھے کہ جتنا ممکن ہوسکتا ہے ہم اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔
سفر کرنے سے قبل ہم نے وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان جناب آصف درانی اور مولانا فضل الرحمان صاحب سے بھی ملاقاتیں کیں اور دورے کے اغراض مقاصد اور کچھ اہم مسائل پرمشاورت کی۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین ویسے تو بہت سے مسائل ہیں اور اسباب بھی کافی متنوع ہیں۔ لیکن فی الوقت دونوں ملکوں کے ہاں تناؤ کے پس منظر میں دو بنیادی مسائل زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک تو تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کا مسئلہ ہے، اور دوسرا اہم سبب مہاجرین کا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے جو چیز افغانستان کے نوجوان میں مشترک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان سے کافی بیزاری کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ کھلے عام اس ناپسندیدگی کو بیان کرتے ہیں۔ خصوصا ملک کا جو لبرل حلقہ ہے وہ پاکستان سے نفرت کرتا ہے۔ اس میں ایک بنیادی کردار پچھلی دو دہائیوں پر مبنی حکومتوں کا رہا ہے جن کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا ہے۔ بھارتی پراپیگنڈہ بہت گہرا اور مؤثر رہا ہے۔اسی کے اثرات اب ملک کے نوجوان طبقے میں واضح طور پہ دیکھے جاسکتے ہیں۔وہ اپنے تمام مسائل کی وجہ پاکستان کو قرار دیتے ہیں۔

تاہم، یہ عمومی رجحان زیادہ تر پاکستانی ریاست کے حوالے سے ہے۔ خصوصا افغانستان کا جو پختون حلقہ ہے وہ پاکستانی عوام، بالخصوص پختون سماج کو اپنا محسن قرار دیتا ہے کہ اس نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا، ہمیں جگہ اور کئی برسوں تک ہمیں اپنے ساتھ بٹھایا۔البتہ پاکستانی ریاست سے انہیں گلے شکوے ہیں، اور یہ وہاں بہت عام مظہر ہے۔
لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہمیں پاکستان اور افغانستان سے متعلق پاکستانی خارجہ پالیسی کے تناظر میں کئی مختلف آراء اور نقطہ ہائے نظر سننے کو ملے،جن کے صحیح غلط ہونے سے قطع نظر ان کا ذکر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔
مثال کے طور پہ کچھ لوگ پاک افغان بارڈر کو تسلیم نہیں کرتےاور ان کا خیال ہے کہ پاکستان بھی ان کے لیے ایسے ہے جیسے افغانستان، لہذا اگر مہاجرین کو وہاں سے بے دخل کیا جا رہا ہے تو وہ اپنی ہی زمین سے بے دخل کیے جا رہے ہیں۔ لہذا ایسے لوگ مہاجرین کے پاکستان سے بے دخل کیے جانے پر سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان ان کا ہمسایہ ملک ہے اور وہ اس کے ساتھ برابری کی بنیاید پر تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان نے جو ابھی ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکام کو کاروائی کرنے کا کہا ہے یہ بھی غیر ضروری ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالباان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ایک منظم جماعت تھی اور کاروائیاں کر رہی تھی۔ مزید یہ کہ پاکستان نے سرحد کے اوپر باڑ بھی لگا رکھی ہے، تو ایسے میں ہم سے ان کو کنٹرول کرنے اور مکمل ختم کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ان کے مطابق، پاکستان کے پاس ایک بڑی فوج ہے،اس کے پاس وسائل ہیں،اوراس کا انٹیلی جنس کا مضبوط ادارہ ہے، اگر انہیں ٹی ٹی کو کنٹرول کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تو پھر ہمیں تو یہ مسئلہ زیادہ درپیش ہوگا۔

مہاجرین کے حوالے سے دوسری رائے یہ ہیکہ پاکستان جو مہاجرین کو ملک سے نکال رہا ہے ،اس وقت میں یہ ایک مناسب اقدام نہیں تھا۔ ابھی سخت سردی کا موسم ہے، ہمارے پاس انتظامات کی قلت ہے۔لہذا اس وقت افغان مہاجرین کو ملک سے بے دخل کرنا بالکل ٹھیک نہیں تھا۔

اس کے عاوہ ایک تیسری رائے بھی موجود ہے۔مگر یہ بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس طرح سوچتے ہیں۔وہ یہ کہ پاکستان اور افغانستان دو الگ ریاستیں ہیں جو خودمختار ہیں۔ دوحہ معاہدے کے پیش نظر ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ ہماری سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔یوں پاکستان کا یہ مطالبہ حقیقی اور بالکل جائزہے کہ ٹی ٹی پی اگر افغانستان کی سرزمین استعمال کرتی ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔اور ان کے مطابق وہ اسی وجہ سے پاکستان کے مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئےکچھ اقدامات کر بھی رہے ہیں۔کچھ افراد کوگرفتار کرکے جیل میں بھی ڈالا ہے۔البتہ اسی حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس قدر پرزور اور شدید مطالبہ نہیں ہونا چاہیے،یہ کچھ حائق کے برخلاف ہے۔جب پاکستان ایک بڑی فوج، مضبوط انٹیلی جنس اور سرحدی باڑ کے باوجود ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے میں مشکلات کا شکار ہے تو ہم سے اس قدر پرزور مطالبہ ٹھیک نہیں ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویسے بھی خود امیر المؤمنین نے یہ پیغام جاری کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کاروائی جنگ ہے، جہاد نہیں کہلائے گا۔تو بذات خود یہ تصریح بھی بڑا اقدام ہے۔ اس سے قطع نظر افغانستان کے اس حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی تو طالبان کے ساتھ مل کر نیٹو کے خلاف لڑ چکی ہے، وہ افغان طالبان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ اگر اب ان کے خلاف یکدم بڑی کاروائی کی جائے تو وہ ہم سے بدظن ہوں گے اور خود ہمارے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس سے پھر داعش کو تقویت ملے گی۔ہمارے مخالف جہادی گروہ مضبوط ہوں گے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک منظم نیٹ ورک رکھتی ہے اوران کے بندے کھلے عام نہیں پھر رہے کہ ہم انہیں پکڑلیں۔ بہرحال یہ اس حلقے کی رائے ہے جس سے اختلاف ممکن ہے، کیونکہ افغانستان کے بعض علاقوں میں ان کے ایسے ٹھکانے موجود ہیں جو ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
بہرحال، اس حلقے کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ جائز ہے ، مگر ہمیں اس حوالے سے کچھ وقت دیا جانا چاہیے۔یہ حقیقت ہے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور ہم اس مسئلے سے نمٹنا چاہتے ہیں،مگر اس بابت جو ہمیں مشکلات درپیش ہیں انکو بھی سمجھنا چاہیے اورہم اپنے حساب سے رفتہ رفتہ کچھ اقدامات کر رہے ہیں۔

اسی طرح افغانستان میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ مہاجرین کے آنے سے افغانستان میں داعش کی مضبوطی کے خدشات بڑھے ہیں۔ کیونکہ اچانک اتنی بڑی تعدداد میں جب لوگ آرہے ہیں توان کی آڑ میں کچھ داعش کے عناصر بھی آرہے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل ہم افغانستان سے داعش کا لگ بھگ صفایا کرچکے تھے اور یہ اب ہمارے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں رہ گئی تھی۔ مگر اب ہمیں خدشہ ہے کہ پاکستان سے مہاجرین کی آڑ میں کچھ داعش کے عناصر بھی داخل ہو رہے ہیں۔پھراس میں بھی ایک گروہ کی رائے تھی کہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان نے کیا ہے کہ افغانستان میں ان عناصر کو داخل کیا جائے۔یہ رائے ظاہر ہے کہ مبالغہ اور غلط فہمی پر مبنی ہے۔البتہ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تو نہیں تھا، لیکن داعش نے اس ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اب اگر ہم اپنی انٹیلی جنس رپورٹ کی بنا پرآنے والےمہاجرین میں سے کسی فرد کے خلاف کاروائی کرتے ہیں، اسے پکڑتے ہیں تواس سے مہاجرین خوفزدہ ہوتے ہیں اور ہمارے بارے ایک منفی رائے قائم ہوتی ہے۔
مہاجرین کے حوالے سے افغانستان کے عام باشندوں میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان نے زبردستی اور جبرا دس سے پندرہ لاکھ افراد کو بے دخل کر دیا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کو گھروں سے اٹھاکر نکالا جا رہا ہے۔مارپیٹ کی جا رہی ہے۔ ان کا کاروبار اور اموال ضبط کیے جارہے ہیں۔کچھ ایسی پراپیگنڈہ ویڈیوز پھیلی ہوئی ہیں جن میں پاکستان کی انتظامیہ افغان باشندوں کے خلاف یہ سلوک کرتی نظر آتی ہے۔یہ ایک عمومی تأثر ہے جس کے سبب ہر بچے کےذہن میں پاکستان کے خلاف نفرت کا عنصر پایا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں مبالغہ آرائی کافی ہے۔

ایسے ہی ایک قلیل طبقہ ایسا بھی ہے جو قومی ریاستوں کے متعلق معلومات نہیں رکھتا یا اس ڈھانچے اور نظام کو درست نہیں سمجھتا، یوں اس کا خیال ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں اور ایک خلیفہ یا امیر المؤمنین سب کا حاکم ہوتا ہے۔ یہ لوگ قومی ریاستوں کے خدوخال بارے غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور مہاجرین کے مسئلہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔

بہرحال، اس سارے منظر نامے میں ایک چیز شرح صد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ افغانستان کے حکام و ذمہ داران پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ برملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ہم جنگ نہیں چاہتے، بلکہ دنیا میں یہ واحد ملک ہے جو ہمارے لیے ٹھکانہ بنتا ہے۔
مہاجرین کے معاملے میں میں نے کچھ سوالات ان کے سامنے رکھ دیے کہ جب پاکستان نے مہاجرین کے انخلا کا فیصلہ کیا کہ تو آپ کے وزیر خارجہ کواسلام آباد آنا چاہیے تھا،یہاں وہ آتے بات چیت کرتے، کچھ اور راستہ نکالنے کی کوشش کرتے۔ اس پر ان کا جواب تھا کہ پاکستان نے جس طرح جلدی میں اور دو ٹوک فیصلہ کیا اس کے بعد کچھ کرنا ممکن نہیں تھا۔ ظاہر ہے یہ جواب اتنا تسلی بخش نہیں تھا۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی کہا جب مولانا فضل الرحمان نے آنے کا اردہ ظاہر کیا تو آپ کی طرف سےتب بھی کوئی مثبت پیش رفت دکھائی نہیں دی، بلکہ وہ اسی لیے نہیں آسکے کہ آپ نے جواب میں تأمل کا مظاہرہ کیا۔
وہاں سے جو یہ تأثر ملا کہ وہ پاکستان کے خلاف قطعا کوئی جنگ نہیں چاہتے، یہ ایک خوش آئند امر تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے دونوں ممالک کے یہ دو بڑے مسائل کسی حل کی طرف جائیں اور یہ تناؤ کی کیفیت ختم ہوجائے۔