پاکستان کی جوابی کاروائی: ایران پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

0

اگرچہ پاک افغاان سرحد پر اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں،پاکستانی حدود میں وہاں سے پچھلی دو دہائیوں سے ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے۔لیکن پچھلے دو دنوں کے دوران پاک ایران سرحد پر جو کچھ ہوا،یہ  معمول کی چیز نہیں تھی۔اس کےبعد پاکستان میں مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔پاکستان نے حملے کا جواب بھی دیدیا۔اس ساری صورتحال میں کچھ اہم چیزیں سامنے آئی ہیں، جن پر اختصار کے ساتھ کچھ نکات پیش ہیں۔

ایک تو شیعہ سنی کا معاملہ زیربحث آگیا۔پاکستان میں اہل سنت مسلک کو اپنی بنیادی شناخت سمجھنے والے عام لوگ ایرانی حملے کو ایرانی منافقت اور یہودی سبائی کردار اور ایسے ہی نفرت انگیز انداز سے دیکھ رہے ہیں۔جبکہ مقامی شیعہ انتہا پسند پاکستان پہ ہونے والے حملے کو ایران میں ہونے والی دہشتگردی کا جواب سمجھ رہے ہیں اور ان سے بعض کا کہنا ہے کہ ایرانی حملے پاکستان کی مرضی سے ہوئے ہیں۔کل صبح کے بعد سنی مسلکی شناخت والے برادران کافی خوش تھے کہ ایران کے شیعہ منافقوں کو جواب دے دیا گیا ہے۔

پاکستان میں تو امریکی فوجی کاروائیوں کی ایک پوری مکمل تاریخ موجود ہے۔ایمل کانسی، ڈرون حملے ، ایبٹ آباد میں ہونے والا اسامہ بن لادن آپریشن ، سلالہ چیک پوسٹ حملہ اور یہاں تک کہ ریمنڈ ڈیوس ، یہ سب واقعات ہوئے ہیں اور ہم نے امریکہ کو ہمیشہ سپر پاور ایڈوانٹج دیا ہے۔یہ سہولت انڈیا کو میسر نہیں ہےاور اس نے تجربہ کرکے بھی دیکھا ہے۔

ایران نے خود کو برادر اسلامی ملک کے علاوہ ٹرانس نیشنل ملٹری پاور سمجھا۔ اور پاکستان کو عراق اور شام سمجھا اور ان کے یہ دونوں اندازے غلط ہوئے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران چپ رہے گا یا آگے بڑھے گا؟

مجھے یہ لگتا ہے کہ ایرانی سرزمین پہ حملہ ایک taboo ہوتا تھا جسے پاکستان نے توڑ دیا ہےاور اب حساب برابر نہیں ہوا بلکہ پاکستان کا پلڑا بھاری ہے۔

80 کی دہائی میں ہوئی ایران عراق جنگ کے بعد پہلی دفعہ کسی فوجی طاقت نے ایران کے اندر میزائل داغے ہیں اور پھر اس حملے کو عالمی سطح پہ قبول کیا ہے۔ اس صورتحال میں ایران کی اسٹرٹیجک پوزیشن کافی کمزور ہوگئی ہے ۔مشرق وسطی پہ نگاہ رکھنے والے ماہرین اور خود ایران میں موجود اہل دانش یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر پاکستانی میزائل ایران کو نشانہ بنا سکتے ہیں تو امریکی یا اسرائیلی میزائل کیوں نہیں ؟اگر اب اسرائیل یا امریکہ کو اس سے شہ ملے تو ایرانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اس کی خود ذمہ دار ہوگی۔

اور جہاں تک خطے میں ایرانی آشیربادپہ کام کرنے والی پراکسی تنظیموں کا سوال ہے تو پاکستان میں لبنان کی مانند نہ تو کوئی حزب اللہ ہے اور نہ ہی الحشد الشعبی یعنی پاپولر مو بلائزیشن فورسسز آف عراق، کہ پاکستان کو ایران کی کسی بڑی پراکسی تنظیم کا خطرہ درپیش ہوگا ۔ہاں البتہ زینبیون کے لڑاکے یہاں موجود ہوسکتے ہیں لیکن ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور انفراسٹرکچر یہاں نہیں ہے اور رہ گئے اکا دکا شیعہ عسکریت پسند ، تویہ  پاکستانی ریاست کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہیں۔

عراق ، شام لبنان اور یمن ایک مختلف کہانی ہے۔ پاکستان اس فہرست میں نہیں تھا۔ ایرانیوں نے پاکستان سے متعلق غلط اندازہ لگایا اور یہ اچھا خاصا الٹا پڑ گیا ہے۔ پاکستان نے تو برملا کہا ہے کہ ہم نے بلوچ سرمچاروں پہ حملہ کیا ہے اور ایرانی میزائل حملے کے مقابلے میں پاکستانی ردعمل زیادہ بڑا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے ایک سے زائد مقامات پہ حملے کئے ہیں۔

امریکیوں اور اسرائیلیوں نے یہ سب سیٹلائیٹس کے ذریعے دیکھا ہوگا۔

اب آگے کیا ہوسکتا ہے ؟

اب ایران کے پاس دو آپشن ہیں یا تو پاکستان کے ساتھ سفارتکاری کا آپشن استعمال کرے اور دو قدم پیچھے ہٹ جائے۔ معذرت کرلے، اور مشترکہ بیان آجائے کہ دونوں برادر ملک مل کر سرحدی دہشتگردی کا مقابلہ کریں گے۔ یاپھر پاکستان میں اوپن اینڈ کوورٹ ، دونوں طرز کی متشدد کاروائیوں کو ہوا دے۔

میری رائے میں ایرانی انقلابی ریاست کی تاریخ دوسری صورت کی ہے ۔ وہ تشدد کا استعمال زیادہ بہتر کرتے ہیں۔ اور انہیں اسی کی زیادہ عادت ہے۔ صدر خاتمی اور روحانی کا ایران اور ہے اور احمدی نژاد اور ابراہیم ریئسی کا ایران کچھ اور۔ اگلے چند دن اہم ہیں اور اگر ایران ایسی کوئی بے وقوفی دُہراتا ہے تو انقلاب ِاسلامی ایران جو پہلے ہی صابن پہ قائم ہے بہت بُری پھسلن میں جا پڑے گا۔