تُرک اسلام  اور جمہوریت:مسلم دُنیا کے لیے قابل تقلید نیا ماڈل؟

0

ترکی میں 2002ء سے مذہبی میلان رکھنے والی سیاسی جماعت ‘جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ’ حکومت کر رہی ہے جس کے سربراہ رجب طیب اردغان ہیں۔ اردغان کو مسلم دنیا میں خاصی مقبولیت حاصل ہے اور نوجوان نسل میں وہ ایک ماڈل سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ترکی کی ترقی میں ان کا کردار لازوال ہے۔ ترکی کا جمہوری ماڈل کئی اعتبار سے توجہ طلب ہے۔ ایک تو طویل عرصے تک وہاں سیکولر حلقہ حکومت میں غالب رہا اور اور اسے فوج کی براہ راست حمایت حاصل رہی۔ اس کے علاوہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں ترکی ایک بڑی معاشی طاقت بھی بنا۔ اس سب کے ساتھ جماعت نے اپنا مذہبی تشخص بھی برقرار رکھا ہے۔ اس مضمون میں اسی پہلو پر بات کی گئی ہے کہ یہ کیسے قابل تقلید ہے۔ مصنف فریڈی بی ایل ٹابنگ یونیورسٹی آف انڈونیشیا میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں استاد کے طور پہ کام کرتے ہیں اور ملک کے نمایاں تجزیہ کار ہیں۔ یہ مضمون انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی میں ایک نئے سیاسی ومذہبی ڈھانچے کو متعارف کرایا گیا۔ اس ڈھانچے کو عموماََ سیکولرزم کے نظم سے تعبیر کیا جاتا ہے جس میں بظاہر مذہب وریاست کے تعلق کو ہم آہنگ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ لیکن ترکی میں سیکولرزم کے نام پر آمریت کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا اور مذہبی تشخص کو سیاسی میدان سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ تاہم آمریت کے خلاف ترکی کے اندر سب سے توانا آواز مذہبی تشخص کی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک کی مطلق العنان اشرافیہ کمزور ہوئی تو مذہبی تشخص کی حامل جماعتیں سیاسی منظرنامے پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں۔ پچھلے 19 سالوں سے رجب طیب اردغان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اقتدار میں ہے۔

2002ء سے رجب طیب اردگان کی جماعت ساری دنیا کے فکری سیاسی حلقوں میں زیربحث ہے۔ اس اہتمام کی ایک وجہ جماعت کا مذہبی تشخص کا حامل ہونے کے باوجود لبرل و سیکولر اقدار ونظم کے تحفظ کی بات کرنا بھی ہے۔ ایک ایسی جماعت جو سیاسی اسلام کی نمائندگی کرتی ہے وہ کمال اتاترک کے لیے بھی احترام کا اظہار کرتی ہے اور خلافت عثمانیہ کے عہد کو بھی ایک یادگار عہد تسلیم کرتی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی مقبولیت محض اس کا مذہبی یا اس کے ساتھ لبرل آزادیوں کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اس نے عملاََ ترکی کو ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کی امید دلائی۔ 2002ء سے 2007ء تک کا مرحلہ اس جماعت اور ترکی کے لیے ایک سنہری دور رہا۔ اس دوران ترکی نے ریکارڈ معاشی ترقی حاصل کی اور G20 کی صف میں شامل ہوگیا۔ اس کے بعد ترکی نہ صرف معاشی ترقی بلکہ اس کے ساتھ سیاسی ڈھانچے کی خاص ترکیب کے اعتبار سے مسلم دنیا کے لیے ایک رول ماڈل بھی بن گیا۔ اسے ایک ایسے ملک کے طور پہ دیکھا جانے لگا جو مذہبی اور سیکولر دونوں شناختوں کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ طویل عرصے تک حکومت میں رہنے کے باوجود جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی  نے جمہوری اقدار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

ترکی میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد اسلامی جماعتوں کو یہ واضح برتری حاصل رہی کہ وہ ایسا طبقہ بن سامنے آئیں جو ملک میں جمہوریت اور جمہوری سیاسی آزادیوں کے لیے کوشش کرنے والا واحد مضبوط طبقہ تھا۔ سیکولر عناصر مطلق العنان عناصر کی حمایت کرتے رہے۔ ریاستی اور سیاسی امور میں فوج کا عمل دخل زیادہ تھا اور اس عمل دخل کے لیے ڈیپ اسٹیٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ لبرل اور سیکولر عناصر نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اے کے پارٹی کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ فوج نے 2007ء میں اے کے پارٹی کے صدارتی امیدوار کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بھی کوشش کی۔ اس کے ایک سال بعد ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے اے کے پارٹی کو سیکیولر ازم کی دشمن قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کروانے کی بھی کوشش کی۔ سیاسی بنیاد پر اس جماعت کے خلاف اور بھی کئی اقدامات کیے گئے اور پھر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ لیکن جماعت نے شروع سے ہی انسانی حقوق اور آزادیٔ صحافت کے حوالے سے بہتری اور سول سوسائٹی کو طاقتور بنانے کے لیے متحرک کردار ادا کیا۔ تاکہ ترکی کی طاقتور فوجی اشرافیہ کے مقابلے میں یورپ اور مغرب میں زیادہ مقبولیت حاصل کی جائے۔ جمہوری راستہ اختیار کرنے کے کچھ اضافی فوائد بھی ہوئے، جس میں  مذہب اور جمہوری بیانیے کی آمیزش کی گئی اور بتایا گیا کہ اسلام اور جمہوریت ساتھ چل سکتے ہیں۔

اردگان کی سیاسی جماعت نے حال ہی میں کئی ایسے اقدامات اٹھائے جو مذہبی نوعیت کے ہیں لیکن انہیں قانون بنانے کی بجائے انہیں اس طرح اخلاقی زمرے میں پیش کیا ہے کہ اس سے لوگوں میں ایک دم تردد پیدا نہ ہو۔ مثال کے طور پہ اس نے شراب کو محدود کرنے اور حجاب پر عائد پابندی اٹھانے پر توجہ دی ہے۔ دوسرے بہت سے اقدامات بھی کیے گئے ہیں تاہم شراب پر مکمل پابندی اور خواتین کے لباس کے حوالے سے کوئی باضابطہ ضابطۂ اخلاق جاری کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترکی میں ایک ملک گیر سروے کیا گیا جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ ترکی میں 92 فیصد عوام کی رائے یہ ہے کہ حکومت ان کی طرزِ زندگی میں مخل نہیں ہوتی۔یہ سروے بہتوں کی زباں بندی کے لیے کافی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اے کے پارٹی پر کسی کی طرزِ زندگی میں مداخلت کا الزام صرف سیکولر عناصر کی طرف سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔ صرف اُنہی کو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکیں گے۔ باقی معاشرہ پُرسکون ہے۔ کسی کو بظاہر حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔ اے کے پارٹی کی کارکردگی اچھی رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سیکولر عناصر کے خدشات کم یا ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اردگان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی اسلام نواز پارٹی اپنے بنیادی نظریات کو ترک کئے بغیر آج کی دنیا میں بھی اچھی طرح حکومت کرسکتی ہے، ترقی کی راہوں پر سفر کرسکتی ہے اور مغرب سے بہتر تعلقات استوار رکھ سکتی ہے۔ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی قیادت میں عرب دنیا کے اسلام نواز عناصر کے لیے خاصا حوصلہ افزا پیغام ہے۔ اے کے پی نے ترکی کے سیکولر عناصر میں اپنی حیثیت اور اہلیت کو منوایا ہے۔ مغرب میں اردگان کے مداح اے کے پی کی کامیابی کو ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ کوئی بھی اسلامی جماعت جدیدیت کی مخالف ثابت ہوئے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے اور اپنا وجود منوا سکتی ہے۔ اردگان نے ایک مرتبہ ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر آئین کو سیکولر رکھنا پڑے تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکولر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مذہب کے دشمن ہیں۔ ان کا مطلب شایدیہ تھا کہ جن معاشروں میں سیکولر ازم موجود رہا ہے وہاں سب کچھ راتوں رات نہیں بدل جاتا۔ ترکی میں بھی سیکولر ازم عشروں سے جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ اسلامی جماعتوں نے سیکولر روایات سے تصادم کے بغیر رفتہ رفتہ اس کے ساتھ چلنا سیکھا اور کامیابی پائی۔

طیب اردگان کے ایک سابق مشیر ابراہیم کلین نے بیسویں صدی کے دوران مصر و پاکستان میں ابھرنے والے سیاسی اسلام اور ترک حکمران جسٹس ڈیویلپمنٹ پارٹی کے درمیان ایک بنیادی فرق کی وضاحت کی تھی۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ مصر اور پاکستان میں اسلامی تحاریک نے ریاستی سطح پر اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کی، ریاست کے جدید ترین اطوار اپنا کر اسلامی ریاست کے قیام کا خواب دیکھا۔ اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے تعلیم کو بھی اہم ذریعے کے طور پر اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جبکہ  اے کے پی نے ایسا طریقہ اختیار کیا ہے جس میں وہ غیرسرکاری تنظیموں، نجی شعبے اور علمی اداروں اور شخصیات کو نسبتاً بڑا اور اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، اور ترکی کا یہ ماڈل زیادہ ثمرآور بھی ثابت ہوا۔ترکی میں ایسے بہت سے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو کسی اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور عمل کرتے بھی ہیں۔ ایسی بہت سی خواتین ہیں جو سر ڈھانپنا پسند کرتی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر ان کا تعلق کسی بھی سیاسی تنظیم یاجماعت سے نہیں۔

ترک میں اسلام پسند افراد ہمیشہ غیر تشدد پسند رہے ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دوران رواداری ایک بنیادی وصف تھا۔ دوسروں کو برداشت کرنا اور انہیں بھی پنپنے کا موقع دینا سلطنتِ عثمانیہ کے دور سے چلی آرہی خصوصیت ہے۔ اس دور کے حکمرانوں نے مذہب کی بنیاد پر منافرت کیحوصلہ افزائی نہیں کی۔ آئین کی پاسداری اور پارلیمانی روایات کا ہر دور میں احترام کیا جاتا رہا۔

ترکی اسلام پسندوں کے نظریات پر فتح اللہ گولن اور ہزمت تحریک نے بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ترک اسلام پسندوں نے تصادم سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ معاشرے میں کہیں کوئی خرابی یا گڑبڑ پیدا نہ ہو۔ 1994ء میں جب فتح اللہ گولن نے اعلان کیا کہ جمہوریت کی منزل سے واپسی کی اب کوئی گنجائش نہیں تو اسلام پسندوں کو واضح سمت ملی اور ان کے لیے واضح سیاسی سوچ کو پروان چڑھانے اور اس پر عمل کی راہ ہموار ہوئی۔

معیشت کے معاملے میں اردغان حکومت کی پالیسیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے چین کی طرز پر آجروں کو سرکاری سرپرستی فراہم کرنے کے بجائے کام کرنے کی آزادی دی اور مختلف رکاوٹیں دور کیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آجروں کا اعتماد بڑھا اور اب وہ افریقا اور وسط ایشیا میں بھرپور انہماک سے کام کر رہے ہیں۔ ترک تعمیراتی کمپنیاں پورے مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقا میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور چینی اداروں سے بہتر مسابقت کے قابل بھی ثابت ہو رہی ہیں۔

لبرل معاشی پالیسیوں اور معاشی ڈھانچے میں متعارف کرائی جانے والی تبدیلیوں نے ترکی میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے اور اس معاملے میں ترکی نے یورپ کی ہمسری کی ہے۔ دوسری طرف اشیا و خدمات کی تیز رفتار ترسیل ممکن بنائی جاسکی ہے جس کے نتیجے میں معیشت کو فروغ ملا ہے۔ تعلیم و صحت سے متعلق خدمات کی فراہمی کے حوالے سے اب ترکی بھی یورپ کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے معیارات کو چُھونے والا ہے۔

جمہوریت کے لیے بہت سے انقلابات کے رونما ہونے کے بعد اے کے پارٹی اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ ایک ایسی سیاسی قوت کی حیثیت سے اُبھری جو کئی ممالک کے لیے مثال تھی۔ یعنی اصلاحات کے لیے اے کے پارٹی سے تحریک لی جاسکتی تھی۔ تیونس کے راشد غنوشی پہلے لیڈر تھے جنہوں نے رول ماڈل کے طور پر ترکی کا ذکر کیا۔ تیونس میں صدر زین العابدین بن علی کے برطرف کر دیے جانے کے بعد راشد غنوشی کی النہضہ پارٹی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر اُبھری۔ تیونس میں اسلامی جڑیں رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کے برسر اقتدار آنے پر تیونس کے اندر اور باہر لبرل اور سیکولر حلقوں کا ملا جلا ردعمل تھا۔ خدشات اور تحفظات ٹالنے کے لیے راشد غنوشی کو اعلان کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی اپنے دور حکومت میں تیونس میں شریعت نافذ نہیں کرے گی، خواتین کو اسکارف استعمال کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، شراب والے ریستوران پر پابندی عائد نہیں کی جائے گی،یعنی ترکی کے تجربے سے مکمل استفادہ کیا جائے گا۔

کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کو تھوپا یا لگایا نہیں جاسکتا۔ جمہوری مزاج تو لوگوں میں خود بخود پنپتا ہے مگر اس کے لیے لگن اور محنت بنیادی شرط ہے۔ تصادم سے گریز کرنے والے گروپوں اور تحریکوں کو بر وقت مدد ملتی رہے تو وہ بہتر نتائج کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔