مسلم معاشرے اور جمہوریت کی تفہیم کا مسئلہ

0

عام طور پہ جب مسلم معاشروں کے تناظر میں جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو بعض دفعہ یہ تأثر بھی دیا جاتا ہے کہ یہ ایک ناممکن عمل ہے جس کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں ہی جائیں گی۔ خود مسلم معاشرے کے اندر یہ مایوسی گھر کر گئی ہے اور سوال مسلم سماج کی سیاسی نفسیات پر کیا جاتا ہے کہ وہ اس جدید نظم کا متحمل نہیں۔ اس کے علاوہ جمہوریت کی تفہیم میں بھی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ زیرنظر مضمون میں خورشید ندیم نے ان امور کا احاطہ کیا ہے۔ مصنف پاکستان میں سماجیات کے چنیدہ ماہر ین میں سے ایک ہیں۔ کالم نگار ہیں اور ٹیلی وژن پہ پروگرام بھی کرتے ہیں۔ آپ ادارہ تعلیم و تحقیق کے سربراہ ہیں اور کئی علمی و تحقیقی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ یہ مضمون خورشید ندیم کی کتاب ‘متبادل بیانیہ’ اور اُن کے اخباری مضامین سے تیار کیا گیا ہے۔

کیا مسلم معاشرے جمہوریت کے لیے سازگار نہیں؟

‘عرب بہار’ کی پہلی لہر، 2010ء کے اواخر میں تیونیسیا سے اٹھی تھی۔ اکیسویں صدی کی سب سے بالغ نظر مسلم سیاسی شخصیت راشد غنوشی کا تعلق بھی اسی ملک سے ہے۔ تیونیسیا میں ان دنوں ایک بار پھر سیاسی اضطراب ہے۔ منتخب پارلیمنٹ معطل ہے اور آمریت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ غنوشی کے ایثار کے باوجود، جمہوریت کا شجر ثمربار نہیں ہو رہا۔

صرف تیونیسیا ہی نہیں، عرب بہار ہر جگہ خزاں میں بدل گئی۔ شام میں کیا ہوا؟ بشارالاسد چند ماہ پہلے پچانوے فیصد ووٹ لے کر ایک بار پھر صدر بن گئے۔ مصر میں پھانسی گھاٹ مستقل آباد ہے۔ منتخب صدر مرسی کا جنازہ جیل سے اٹھا اور ان کے بیٹے کا بھی۔ اسی طرح کا منظر بنگلہ دیش میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایران میں بھی انتخابات ہو رہے ہیں مگرکیسے؟ وہاں شورائے نگہبان کے منتخب کردہ افراد ہی کو حصہ لینے کی اجاز ت ہوتی ہے۔ ترک جمہوریت کی کہانی فتح اللہ گولن سے سنی جا سکتی ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا میں، ملائیشیا ہے۔ بظاہر جمہوری ملک ہے مگر مہاتیر محمد کے ہاتھوں انور ابراہیم کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ پاکستان کی جمہوریت کا ماضی اور حال ہمارے سامنے ہے۔ افغانستان میں دنیا نے حامد کرزئی صاحب کی جمہوریت دیکھی اور اشرف غنی صاحب کی بھی۔ طالبان تو خیر جمہوریت پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ جہاں کا ذکر نہیں، وہاں بادشاہتیں قائم ہیں۔

بیسویں صدی میں، جب انسانی تاریخ نے ایک کروٹ لی اور قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہوئی تو اس کی سیاسی بنت بھی تبدیل ہوئی۔ بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی۔ غیرمسلم دنیا میں جمہوریت کے ساتھ دوسرا تجربہ اشتراکی ریاست کا تھا۔ مشرقی یورپ کا ایک بڑا حصہ اس کی گرفت میں رہا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب دیوارِ برلن گرا دی گئی۔ اب صرف جمہوریت ہے۔ اشراکیت زدہ ملکوں میں ابھی آمریت ہے۔ کہیں شخصی، کہیں یک جماعتی۔ غیر اشتراکی دنیا میں جمہوریت سیاسی ایمانیات کا حصہ بن چکی۔مسلم دنیا میں کہیں جمہوریت پنپ نہیں سکی۔ ووٹ کی طاقت سے آنے والوں نے بھی بالآخر یہی چاہا کہ اقتدار کی تمام قوت ان کی ذات میں سمٹ آئے۔ اس سے سماجی علوم کے بعض ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مسلم سماج کی نفسیاتی ساخت کچھ اس طرح بنی ہے کہ جمہورت کے لیے سازگار نہیں۔ کیایہ مقدمہ درست ہے؟ کیا اس کی وجہ مسلم تاریخ ہے جو بادشاہت سے عبارت ہے؟ کیا اس کا سبب ہمارا فہمِ اسلام ہے جو اقتدار کے کسی غیر الٰہی مرکز کو قبول نہیں کرتا؟

یہاں جمہوریت سے میری مراد وہ سیاسی نظام ہے جس میں عوام کی اجتماعی دانش کو حقِ اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت کسی فرد یا گروہ کو یہ حق تفویض کر سکتی ہے کہ وہ عوام کے مفادات کی نگہبانی کرے۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتا ہے تو یہ حق عوام ہی کے پاس ہے کہ وہ اس گروہ کو کسی دوسرے گروہ سے بدل ڈالے۔ یہ گروہ طے کرے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی؟ معیشت کا نظام کیسا ہو گا؟ قومی مفاد کیا ہے؟

جمہوریت میں اکثریت کو حقِ اقتدار ملتا ہے لیکن اکثریت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیت کی رائے کا احترام کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں آزادیٔ رائے کو یقینی بنایا جائے۔ اقلیت کو یہ حق حاصل رہے کہ وہ اپنا موقف جس طرح چاہے عوام کے سامنے رکھے۔ یہ ممکن ہے کہ آج کی اقلیتی رائے، کل اکثریت کی رائے بن جائے۔ یہ سماج کے فطری ارتقا کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی معاشرہ آزادیٔ رائے کی ضمانت نہیں دیتا تووہ بہتے دریا کے بجائے، ایک جوہڑ بن جاتا ہے جہاں فکری تعفن پیدا ہوتا اور اس کا تسلسل سماج کی حسِ شامہ کو ختم کر دیتا ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم معاشروں میں جمہوریت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار، عوام کے بجائے کسی خاص طبقے کو حاصل ہے۔ یہ مذہبی اشرافیہ ہو سکتی ہے۔ یہ بادشاہ ہو سکتا ہے۔ یہ مقتدرہ ہو سکتی ہے۔ یہ ایک خاندان ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی ایک جماعت ہو سکتی ہے۔ تمام مسلم ممالک میں آج یہی صورت حال ہے۔ کہیں عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ خود کریں۔ جس کو کسی وجہ سے اقتدار حاصل ہو گیا، وہ اسے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں۔

مسلم عوام غیرجمہوری حکومتوں کے خلاف احتجاج کے لیے تیار نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کو قبول کیے ہوئے ہیں؟ کہیں ریاست کسی حد تک معاشی آسودگی فراہم کرکے عوام کو احتجاج سے روکنے میں کامیاب ہے۔کہیں خوف کی چادر ہے جو معاشرے پر تنی ہوئی ہے۔ جان کا خوف، عزت کا خوف، مال کا خوف۔ کہیں اس کا سبب اہلِ سیاست سے مایوسی ہے۔

دنیا میں آج جہاں جمہوریت ہے، کیا وہاں جان و مال کا خوف نہیں تھا؟ کیا وہاں مذہبی جذبات کا استحصال نہیں ہوتا تھا؟ یقیناً تھا۔ یورپ میں کلیسا کی قوت کا کسے علم نہیں۔ بادشاہ کا خوف بھی کم نہیں تھا۔ اس کے باوجود، آخر کیا ہوا کہ بادشاہ کا خوف باقی رہا‘ نہ اہلِ کلیسا کا ڈر؟ ایک جمہوری معاشرے نے جنم لیا اور عوام طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔ ایسی تبدیلی آئی کہ آج جمہوریت کے علاوہ کسی دوسرے سیاسی نظام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اس کی وجہ کم وبیش تین سو سال کی فکری جدوجہد ہے۔ وہ جدوجہد جس نے عوام کا زاویہ نظر بدل ڈالا۔ جس نے ان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی خیالات کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا اور افکار کی ایک نئی فصل بو دی۔ اس کے نتیجے میں مضبوط سیاسی اور سماجی ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں نے ایک بنیادی نظامِ اقدار پر اتفاق کیا‘ جس میں جمہوریت سرِفہرست تھی۔ آج عوام کی مرضی کے بغیر کوئی ان پر مسلط نہیں ہو سکتا۔

مسلم معاشروں کی تاریخ اس فکری جدوجہد سے خالی ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی کوشش ہوئی بھی تو وہ قدیم دور کے احیا کی ہوئی جسے نشاۃ ثانیہ کہا گیا۔ ہمارے اہلِ دانش نے مستقبل کا اگر کوئی خواب دیکھا تووہ بھی ماضی کے آئینے میں۔ اس سوچ کے ساتھ کوئی نیا جہاں آباد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے مذہب کے ساتھ وابستگی کا مطلب یہ سمجھا کہ قدیم اداروں کو زندہ کیا جائے۔ یہ مذہب کی درست تفہیم تھی نہ سماج کی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ووٹ کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے بھی امیرالمومنین بننا چاہتے ہیں۔ مسلم سیاسی رہنما قبائلی لباس میں ملبوس ہوں، جبہ و دستار میں ہوں یا انہوں نے جدید سوٹ زیب تن کر رکھا ہو، ان کا تصورِ حکمرانی ایک ہو گا: ارتکازِ اقتدار۔

جمہوریت کے لیے مسلم معاشروں کو پہلے فکری جدوجہد کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ انہیں ایک نیا فکری بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ وہ سیاسی ادارے بنانے ہیں جو جمہوریت کا دفاع کر سکیں۔ اسی طرح جمہوری اصولوں پر قائم سیاسی جماعتوں کے بغیر جمہوریت کادفاع نہیں ہو سکتا۔ مضبوط سول سوسائٹی نہ ہو تو جمہوری قدروں کی آبیاری ممکن نہیں جو لوگوں کے حقِ اختلاف کے لیے موثر آواز اٹھا سکے۔

جب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہو گا، مسلم ممالک میں جمہوریت نہیں آ سکتی۔ اس فکری سفر میں لازم نہیں کہ ہمارے نتائجِ فکر سو فیصد وہی ہوں جو مغرب کے تھے۔ یہ مختلف ہو سکتے ہیں مگر راستہ یہی ہے: معاشرے کی فکری و سیاسی تشکیلِ نو۔ بصورتِ دیگر صرف شراکتِ اقتدار کے فارمولے زیرِ بحث آئیں گے، جیسے آج کل کچھ ممالک میں ہو رہا ہے، بظاہر ووٹ ڈالے جارہے ہوں گے مگر پہلے سے طے ہو گا کہ کس جماعت کوکتنی نشستیں دی جائیں گی۔ یہ معلوم ہو گا کہ بشارالاسد کو پچانوے فیصد اور حسنی مبارک کو نوے فی صد ووٹ ملیں گے۔ یہ نتائج اتنے بدیہی ہوتے ہیں کہ کسی گیلپ سروے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

جمہوریت دراصل تصورِ زندگی ہے

یہ ایک تصورِ زندگی ہے جو اختلاف کے ساتھ جینے کے آداب سکھاتا ہے۔ جمہوریت ایک نظامِ حکومت ہے جس میں حکمرانی کا حق عوام کے پاس ہے۔ جمہوریت ایک عمل ہے جو زینہ زینہ اپنا سفر طے کرتا ہے۔ یہ سب باتیں پیش نظر نہ ہوں تو جمہوریت ثمر بار نہیں ہوتی۔ اس کو نتیجہ خیز بنانے کی کچھ ذمہ داری حکمران طبقے پر ہے اورکچھ عوام پر۔

پہلی بات حکمران طبقے سے۔ جمہوریت اختیارات کی تقسیم کا نام ہے ،ارتکاز کا نہیں۔ ارتکاز بادشاہت میں ہوتا ہے یا آمریت میں۔ ہمارا حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ عوام حکومت نہیں، بادشاہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں حکمران (Ruler) نہیں ہوتا، حکومت (Govt) ہوتی ہے۔ جمہوریت میں حکومت سے مراد ایک نظمِ اجتماعی ہے جو فرائض کو تقسیم کرتا اور فرد کی جگہ اختیارات نظام کو تفویض کرتا ہے۔ اس میں افراد ایک نظام کے پرزے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اگر مرکز ہے تو وزیر اعظم محض ایک پرزہ ہے۔ اگر صوبہ ہے تو وزیر اعلیٰ ایک نظام کا حصہ ہے، زیادہ سے زیادہ ناظمِ اعلیٰ۔ ہمارے حکمرانوں کا تصورِ حکومت، جمہوریت کے اس تصور سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

یہ قانون کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں سارے اختیارات ڈی سی کے پاس ہیں اور ڈی سی وزیر اعلیٰ کی جیب میں ہے۔ یہ ارتکازِ اختیار کی بد ترین صورت ہے۔ حکمرانی کا یہ تصور در اصل اس سوچ سے پھوٹا ہے کہ لوگوں نے وزیر ِاعلیٰ نہیں، حاکمِ اعلیٰ منتخب کر لیا ہے۔ اب لازم ہے کہ اسے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ یہ دراصل انگریزوں کا دیا ہوا نظام تھا، جس میں حاکم قوت کی نمائندگی ڈی سی کرتا تھا جو خود انگریز ہوتا تھا اور اس کا کام یہ تھا کہ وہ رعایا  کو اپنے قابو میں رکھے تاکہ وہ  حکمرانوں  کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ اس تصورِ حکومت کا جمہوریت سے دور کا واسطہ نہیں۔ یہ ایک بدیسی حکمرانوں کا وضع کردہ نظام ہے جسے انہوں نے ایک نو آبادی (Colony) کے لیے بنایا تھا۔

مقامی حکومتوں کا مطلب یہ ہے کہ اختیارات کا ارتکاز ختم ہو اور اقتدار نچلی سطح تک کئی ہاتھوں میں تقسیم ہو جائے۔ ہمارے آئین میں بعض ترامیم کے بعد، مرکز اور صوبے میں بڑی حد تک اس تقسیم کو متشکل کر دیا گیا ہے۔ اب صوبائی حکومتوں کام ہے کہ وہ اسے مزید نچلی سطح تک پہنچائیں۔ جمہوریت اگر زینہ زینہ اترتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اختیار مرکز سے صوبے اور صوبے سے ضلع اور ضلع سے تحصیل تک پہنچے۔ یہاں تک کہ راولپنڈی میں رہنے والے کے مسائل ان کے شہر میں حل ہوں اور ملتان میں رہنے والا چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے لاہور آنے پر مجبور نہ ہو۔

دوسری بات عوام سے۔ عوام نے جمہوریت کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ‘‘احتجاج ہمارا حق ہے’’۔ بجا ارشاد، لیکن اگر ہر فرد یا طبقہ اس تصورِ جمہوریت کا قائل ہو جائے اور اسے روز مرہ بنالے تو کیا کسی نظم اجتماعی کا قیام ممکن ہو سکتا ہے؟ احتجاج جمہوری حق ہے لیکن ہر حق آداب کا پابند ہوتا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ سڑکوں کی مسلسل توسیع کے باوجود، گاڑیوں کی تعداد کے سامنے اُن کی وسعت آئے دن سمٹ رہی ہے۔ یوں شہر کے اندر دس منٹ کا سفر، آدھ اور کبھی ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اگر دس افراد بھی کہیں احتجاج کے نام پر اس ٹریفک کو روک لیں تو میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ یوں دس منٹ کا سفر دو گھنٹے طویل ہو جاتا ہے۔ آج کل آئے دن احتجاج ہوتے ہیں۔ کبھی ڈاکٹر،کبھی استاد، کبھی مذہبی تنظیمیں ، کبھی سول سوسائٹی ، کبھی بینا کبھی نابینا۔ سیاسی جماعتوں میں سے بعض ایسی ہیں جو سال کا بڑا حصہ سڑکوں پر ہی گزارتی ہیں کیونکہ ‘‘احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے’’۔

جمہوریت کی اس تفہیم نے زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اب ناگزیر ہو چکا کہ احتجاج کا یہ حق جمہوری روایات کا پابند بنے۔ احتجاج کو تہذیب کے سانچے میں ڈھلنا ہی ہو گا۔ احتجاج دراصل وہاں ہوتا ہے جہاں اپنی بات حکمران طبقے تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ آزادعدالتوں کے ساتھ میڈیا کی موجودگی میں اب یہ امکان ختم ہو گیا ہے کہ مطالبات کا ابلاغ نہیں ہوگا۔ جہاں گائے کسی گڑھے میں گر جائے اور وہ بریکنگ نیوز بن جائے وہاں کیسے ممکن ہے کہ کسی مطالبے کو ابلاغ سے روکا جا سکے۔ اس کے بعد سڑکوں پر نکلنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس کے باوجود اگر کوئی جوشِ خطابت کا مظاہرہ کرنے پر بضد ہے تو پھر اس کے لیے جگہ مخصوص کر دینی چاہیے۔ اس کے لیے ہر شہر کی انتظامیہ کو بروئے کار آنا چاہیے۔ انتظامیہ کے ساتھ اب ضروری ہو گیا ہے کہ عدالت بھی اپنا کردار ادا کرے۔ جب آئین ہر کسی کو حرکت کی آزادی دیتا ہے اور اسے بنیادی حقوق میں شمار کرتا ہے تو کسی کا یہ حق کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے کے بنیادی حقِ حرکت کو معطل کر دے؟دوسروں کے معمولات کو متاثر کرے؟

جمہوریت کو ثمر بار ہونا ہے تو لازم ہے کہ حکمران طبقہ اور عوام ، دونوں جمہوریت کے آداب سے واقف ہوں۔ معاشرہ مذہب جیسی نعمت کی برکات سے بھی محروم رہ جاتا ہے اگر اس کا نفاذ کرتے وقت، اس کے مالہ وما علیہ کا لحاظ نہ رکھا جائے۔ 1979ء سے ہمارے ہاں حدود قوانین نافذ ہیں۔ جرائم ابھی تک ختم ہوئے ہیں نہ ان میں کمی آئی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی تفہیم پر مبنی اس قانون کی ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم نے انہیں وہ ماحول فراہم ہی نہیں کیا جن میں ان کی برکات سامنے آتیں۔ یہی معاملہ جمہوریت کا ہے۔ اگر ہم اسے نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس کی روح کو جانیں اور اس کی ضروریات کا لحاظ کریں۔

حکمران طبقے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ حکمران نہیں، نظمِ اجتماعی کا محض ایک پرزہ ہیں۔ ان کو یہ حق نہیں کہ وہ اختیار کو اپنی ذات یا اپنے خاندان میں جمع کر دیں۔ اگر وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو لازم ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دیں۔ عوام بھی اگر جمہوریت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو ان پرلازم ہے کہ وہ جمہوریت کے آداب سے واقف ہوں۔ جمہوریت عوامی ووٹ کی بنیاد پر بادشاہت قائم کرنے کا نام نہیں۔ شتر بے مہار معاشرے کو جنم نہیں دیتی۔ یہ ایک فرد کی آزادی کو اس طرح یقینی بناتی ہے کہ دوسرے فرد کی آزادی متاثر نہ ہو۔ جمہوریت زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے، اسے بے ترتیب کرنے کا تصور نہیں۔جمہوریت ہیجان پیدا نہیں کرتی،یہ جذبات کو تہذیب کے دائرے میں لاتی ہے۔