افغانستان ڈائری: امارتِ اسلامیہ میں ہمارے مشاہدات (قسط دوم)

0

جب تقریبا ڈیڑھ برس قبل ہم افغانستان آئے تھے تو ہمیں سڑکوں کے کنارے جگہ جگہ منشیات کے عادی نوجوان پڑے ملتے تھے۔لیکن اب جب سڑکوں پر نکلے تو ہمیں اس طرح کے مناظر بالکل دیکھنے کو نہیں ملے۔حکام کے مطابق اب انہوں نے شہروں میں سرکاری سطح پر بحالی مراکز(rehabilitation center) قائم کیے گئے ہیں جہاں اس طرح کے افراد کا علاج معالجہ اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

حالیہ سفر کے دوران ایک فرق یہ بھی نظر آیا کہ پہلے کابل اور اس کے مضافات میں جگہ جگہ کوڑا اور گندگی کے ڈھیر نظر آتے تھے۔ لیکن سڑکیں اور ماحول صاف ستھرے ملے۔وہاں پچھلی بار ’سرائے شہزادہ‘ کے ساتھ واقع نہر میں بہت گند تھا،مگر اب اسے بھی صاف کردیا گیا تھا۔

ایسے ہی ڈیڑھ برس قبل جگہ جگہ چیک پوسٹوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب ان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ چیک پوسٹیں موجود تو ہیں لیکن محدود اور مخصوص مقامات پر ،جو گھومنے پھرنے والے یا وہاں کے مقامیوں کے لیے کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔

پورے سفر کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو لوگوں کی آراء ملی جلی تھیں۔کچھ لوگ بالکل مطمئن دکھائی دیے، تو بعض نے کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا۔ ایک  مسئلہ جس کا زیادہ اظہار کیا گیا، وہ تھا خواتین کی تعلیم کا۔ ان کے مطابق اگر ہم اپنی بیٹیوں اور خواتین کے لیے تعلیم اور ملاز مت کے معاملے میں  کچھ نہیں کرسکتے تو یہ سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کی ہم امید لے کے بیٹھے ہیں۔ایک دوسرا مسئلہ یہ تعلیم کے ساتھ صحت اور روزگار کے کچھ مسائل کا بھی ہے جنہیں لوگ بہتر ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر طالبان کو وقت ملے، مزید کچھ مستحکم ہوں اور بین الاقوامی سطح پر وہ ملک کے لیے مزید تعاون لاسکیں تو اس سے یہ مسائل بھی وقت کے ساتھ ختم ہوجائیں گے۔کیونکہ ان کے مطابق طالبان بہرحال سنجیدہ تو ہیں۔ ابھی پانی کے حوالے سے جس منصوبے پر کام کیا جارہا ہے وہ خوش آئند ہے، ایسے ہی کچھ  دیگر منصوبوں سے بھی لوگوں کو امیدیں وابستہ ہیں۔

ہم نے نو دنوں میں وہاں  خاص ملاقاتیں کرنے کے علاوہ گھومتے پھرتے بھی رہے، ہوٹلوں میں گئے، بازاروں کے چکر لگاتے رہے۔اس دوران عام لوگوں سے بات چیت اور سوال جواب بھی جاری رہے۔ مجموعی طور پہ لوگ جن چیزوں کو سب سے زیادہ سراہ رہے تھے ان  میں سرفہرست تو امن کا قیام تھا۔ ان کے مطابق اب دھماکے نہیں ہوتے۔ بدامنی کے سبب باہر نکلنے اور پبلک مقامات پر کھلے عام جانے میں جس طرح پہلے خدشات گھیرے رہتے تھے، اب ایسا نہیں ہوتا۔ایک طویل عرصے کے بعد امن وامان کی بحالی کی وجہ سے لوگ کافی مطمئن اور خوش دکھائی دیے۔

دوسری اہم چیزیہ ہے کہ لوگ ہر جگہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ملک میں اب کرپشن میں واضح طور پہ کمی آئی ہے۔ پہلے کرپشن کافی زیادہ تھی، لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام بغیر سفارش اور رشوت کے نہیں ہوتے تھے۔اب یہ ہے کہ ہمارا کام بغیر واسطوں اور پیسوں کے ہوجاتا ہے۔طالبان کم از کم سرکاری محکموں سے رشوت ستانی اور بھتہ وصولی میں مبینہ طور پر کمی لائے ہیں۔ طالبان حکام ٹیکس کی آمدنی میں بھی اضافہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ طالبان حکام یہ دعوی کرتے ہیں کہ گزشتہ دس مہینوں کے دوران ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر کرنے اور سخت کوششیں بروئے کار لالنے کے بعد ٹیکس جمع کرنے کی شرح 1.7 ارب ڈالر تک پہنچائی ہے جو یقینا ان کی بڑی کامیابی ہے۔لگ بھگ ایک دہائی تک افغانستان کا شمار دنیا کے دس  سب سے زیادہ کرپشن زدہ ممالک میں ہوتا رہا، مگر اب عالمی اشاریوں کی اس فہرست سے باہر نکل چکا ہے جس کی تصدیق ورلڈ بینک نے بھی کی ہے۔طالبان کے زیرِ اقتدارامارت اسلامیہ افغانستان اس درجہ بندی میں 150 ویں نمبر ہے جب کہ 2021 میں یہ ملک 174 ویں نمبر پر تھا۔

لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے امارت اسلامیہ کے ذمہ داران نے ’علماء شوری افغانستان‘ کے نام سے ایک شورائی کمیٹی بنائی ہے جو علماء کے زیرنگرانی ہے لیکن اس میں دیگر شعبوں کے افراد کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ تاجر برادری، ملکان اور عمائدین  اس کا حصہ ہیں۔اس کمیٹی کا مقصد انتظامی امور میں شفافیت کو برقرار رکھنا اور لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کرنا ہے۔ یہ کمیٹی ہر شہر اور علاقے میں موجود ہے ۔اگر کسی  سرکاری محکمے میں کسی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو وہ شخص اس کمیٹی سے رجوع کرتا ہے جو ایک جوابدہی خط لکھ کر متعلقہ محکمے کو ارسال کرتی ہے کہ یہ مسئلہ کیوں حل نہیں ہوا،وجوہات کیا ہیں اور کب تک اسے حل کرلیا جائے گا۔ اگر تیسری بار تک بھی ایک مسئلہ حل نہیں ہوتایا سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی تو امیرالمؤمنین کو اطلاع دی جاتی ہے اور اس محکمے کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔

یہ کمیٹی دراصل ملک میں سول سوسائٹی والا کردار ادا کررہی ہے۔ ہم اس کمیٹی کے کچھ عمائدین سے کابل آفس میں ملاقات کر رہے تھے تو وہاں پر کچھ لوگ آئے  جن میں کچھ قصائی بھی تھے۔ان کی شکایات وہیں موقع پر سنی گئیں، اور متعلقہ افراد کو ہدایت دی گئی ہے کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں۔ ایک نوجوان نے ذرا جذباتی طور پہ سخت لہجے میں یہ کہا کہ اگر آپ ہمارا کام نہیں کریں گے تو اس سے آپ پر تنقید ہوگی اور لوگ باتیں کریں گے۔اس پر کمیٹی کے سربراہ نے جواب دیا کہ آپ بالکل ہم پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ہم صرف علماء نہیں، بلکہ حکومت میں بھی ہیں۔

اس سفر میں  ایک اہم چیز ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ اب بازاروں اور ہوٹلوں میں لوگوں کا رش اتنا نظر نہیں آیا جیساکہ ڈیڑھ برس پہلے کے سفر کے دوران نظر آتا تھا۔

جاری ہے