پراپیگنڈا اور عوامی نفسیات پر کنٹرول: سوشل میڈیا کا مہلک استعمال

0

حالیہ برسوں میں، سوشل میڈیا کا پاکستان کی پالیسیوں اور گورننس پر گہرا اثر مرتب ہوا ہے۔وہ پلیٹ فارم  جو روابط قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا ، اب ایک طاقتور آلہ بن چکا ہے،جس کے ذریعے عوامی  بحث و مباحثہ، اجتماعی ذہنیت کی تشکیل، اورعوامی رائے کو ترتیب دیا جا رہا  ہے۔ سوشل میڈیا کے اثرات حیرت انگیز انداز میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور قومی پالیسی سازی پر  بھی اس کے اثرات کو  نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پالیسی سازی، جو کبھی سفارت کاروں، سیاستدانوں اور حکمت عملی سازوں کے زیر اثر تھی، اب الگورتھم، ٹویٹس، اور وائرل رجحانات اس پر حاوی ہیں۔

درپیش قومی مسئلے میں بنیادی سوال: بیانیے کواصل میں  کنٹرول کون کرتا ہے؟ یہ سوال سیاست سے زیادہ معاشرت کے پہلوؤں کی عکاسی کرتا  ہے۔ رائے ساز—چاہے وہ کمپیوٹر اسکرین کے پیچھے ہوں یا اقتدار میں— وہ بیانیے کو  توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں عمدہ مہارت  حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان میں، جہاں عوامی جذبات تیزی سے بدل رہے ہیں،وہیں  رائے ساز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جو افراد ان کے ایجنڈا کے خلاف جائیں، انہیں شدید تنقید، عوامی رسوائی، اور کچھ حد تک آن لائن  تنہائی کا سامنا بھی کرنا پڑے۔

بیانیے کے فروغ  کے یہ طریقے نئے نہیں ہیں۔ بیانیہ ترتیب دینے والوں اور سیاسی نمائندگان کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ سیاست کا۔ لیکن سوشل میڈیا نے اس کے انداز اور طریقوں کوتبدیل کر دیا ہے۔ رائے عامہ کے سست رفتار بہاؤ  کو، محض ایک ہیش ٹیگ یا آن لائن مہم کے ذریعے راتوں رات تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اور یہیں سے اصل مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ مشکلات یا ڈر محض سیاسی یا نظریاتی تنقید کا نتیجہ نہیں ہوتا —بلکہ اسے محتاط انداز میں تیار کیاجاتا ہے۔

بیانیے کو کنٹرول کرنے والے لوگوں کو طاقت حاصل ہو جا تی ہے، اور جو لوگ پاکستان میں سوشل میڈیا کو زیادہ  استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ کوئی بھی  شخص، جو  ایجنڈا کے خلاف جانے کی کوشش کرے، وہ خطرے میں ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں اظہارِ رائے کی آزادی پہلے ہی تشویشناک  ہو، وہاں  سوشل میڈیا نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کے باعث عوام کو اظہار رائے کے مواقع میسر ہوئے ہیں ، لیکن اسی سوشل میڈیا نے نقصان دہ /حساس رائے کو بھی فروغ دیا ہے، جس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔

جو افراد یا ادارے  ایجنڈا کی  خلاف ورزی کرنے کی کوشش کریں، وہ خود ہی  ڈیجیٹل پلٹ فارمز پر الزام تراشی  کے دائرے میں  پھنس جاتے  ہیں۔ یہ   واقعات محض افراد یا اداروں تک محدود نہیں  ہیں۔ عوامی شخصیات، صحافی، اور عام شہری بھی آن لائن غم و غصے/تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور یہ تنقید صرف سائبر اسپیس تک محدود نہیں رہتی۔ اس کے اثرات ، عام  معاملات زندگی  پر بھی مرتب  ہوتے ہیں: کیریئر تباہ ہو جاتے ہیں، امیج خراب ہو جاتا ہے، اور بعض حالات میں، فرد کے تحفظ کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

یہ قومی مسئلہ سیاسی قیاس آرائیوں  سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اس کے منفی اثرات ، اس کی زد میں آنے والے لوگوں کی نفسیات تک پھیل چکے ہیں۔ ۔ آن لائن ہراسانی اور دھمکیوں  نے عوام میں خوف  کی ایک ایسی لہر پیدا کر دی ہے، جس نے بہت سے لوگوں کو خاموشی رہنے یا غالب بیانیے کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا ہے ، چاہے وہ اس سے اتفاق کرتے ہوں یا نہیں۔ پاکستان میں، ہم آہنگی کے فروغ  کو قدرے  آسان سمجھا جاتا ہے  ہیں کیونکہ  مقرررہ حدود کے تجاوز کے نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں۔

اس سے ایک  سوال پیدا ہوتا ہے: ان معاملات کا حل کیا ہے؟ ہم بطور قوم، سوشل میڈیا کے پالیسی سازی اور عوامی رائے پر بڑھتے ہوئے اثرات کو  کیسےکنٹرول  کریں؟ جواب پیچیدہ ہے، لیکن  اس کا پہلا قدم درپیش  مسئلے کی سنجیدگی کو تسلیم کرنا ہے۔ اکثر ہم آن لائن تنقید کے اثرات کو “محض انٹرنیٹ کی گفتگو” کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن جب یہی گفتگو عوامی گفتگو کا بنیادی محور بن جائے، تو اسے سنجیدگی سے لینا ضروری ہو جاتا ہے۔

سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے  کہ بہت سے لوگ اپنی رائے کو نظر انداز اور خود کو بے بس  محسوس کرتے ہیں۔ عام شہری، حتیٰ کہ خود پالیسی ساز بھی، اکثر ڈیجیٹل طوفان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہ بے بسی سوچی سمجھی سازش کےما تحت ہے، جسے اس سے مستفید ہونے والےلوگوں نے بڑی مہارت سے ترتیب دیا ہے ۔عوام میں  خوف  خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے  ، لیکن  یہ مسئلہ ناقابل شکست نہیں ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ اب بھی  موجود ہے۔

آن لائن غم و غصے کے شکار افراد کے لیے حل یہ نہیں  ہے کہ پیچھے ہٹ جائیں یا ہار مان لیں۔بلکہ انہیں ، پہلے سے زیادہ، تنقیدی سوچ کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوری ری ایکشنز  مشکلات کا سبب بنتے  ہیں، خاص طور پرقومی پالیسی کے معاملات میں ۔ہر آن لائن رجحان یا تنازعے پر فوری ردعمل دینے کے بجائے، سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا زیادہ  ضروری ہے۔ سوچیں، غور کریں، اور سب سے اہم، پالیسی اور میڈیا کی حکمت عملی سے متعلق جانکاری رکھنے والے پروفیشنلز کی رائے لیں ۔

پاکستان پہلے بھی پیچیدہ سماجی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا کر چکا ہے۔ یہ مسئلہ، اگرچہ اپنی شکل میں نیا ہے، مگر اس کی پیچیدگیوں میں  خاص فرق نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا سامنا عوامی perception اور پالیسی میکنگ کے ماہر افراد کی مدد سےپروفیشنل انداز میں کیا جائے ۔ اس کا مقصد آن لائن غم و غصے کو قبول کر نا نہیں، بلکہ اسے سمجھنا اور مؤثر طریقے سے اس کا توڑ کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی رائے  کے حاوی یا مضبوط ہونے کا ہر گز یہ  مطلب نہیں ہے  کہ  رائے درست ہے۔ ایسے پریشان کن مواد  کو اصل مواد سے الگ  کرنا، پالیسی سازوں اور شہریوں کے لیے ایک  چیلنج ہے۔

ہماری امید ابھی  تک قائم ہے ۔کیونکہ  ہم نے ماضی میں بھی  دیکھا ہے، کہ پاکستان ہر قسم کے معاملات سے نمٹ سکتا ہے ۔اس صورتحال کا موثر  حل یہ ہے کہ عوامی رائے کو تشکیل دینے کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز کو تعمیراتی مکالمے کی طرف موڑنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ اس کے لیے حکومتی اداروں، معاشرے، میڈیا کے پروفیشنلز،  اور شہریوں کی جانب سے، ایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے ۔ سوشل میڈیا کو بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم اس سے احتیاط، تنقیدی سوچ، اور پروفیشنل طریقے کے ساتھ کام لیں۔

ہمیں درپیش مسائل  ایک دن مٰیں حل نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں، ڈیجیٹل دور کے اثرات پر نظرثانی کریں، اور پروفیشنلز کے ساتھ مل کر کام کریں، تو آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے۔ پاکستان ماضی میں بڑے چیلنجز کا سامنا کر چکا ہے، اور ایک محتاط، سوچ سمجھ کر کی جانے والی حکمت عملی کے ساتھ، اس مسئلے  کا بھی مناسب حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں خوف کے سامنے ہار نہیں ماننی بلکہ مکالمے اور پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے  اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

………

عمران غزنوی سینئر ریپوٹیشن منیجمنٹ اور کرائسز کمیونیکیشن پروفیشنل  ہیں، ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔