ایک بار آپریشن ’ضربِ آگہی‘ بھی
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران متعدد سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور انتخابات کے ذریعے اہم حکومتیں تبدیل ہو رہی ہے، پاکستان کے اعصاب پر دہشت گردی ایک کڑا مسئلہ بن کر سوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقتدرہ کے پاس سرِدست اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی ایسی قابل عمل ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے جو دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری اس کشمکش کو انجام تک پہنچادے۔ حالیہ منظرنامے میں اس کی اپنی وجوہات بھی ہیں۔
اس دوران قومی اسمبلی میں آپریشن عزمِ استحکام کی گونج سنائی دی، جس کی حمایت و مخالفت میں بہت سی آوازیں اٹھیں، اور ہر فریق کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ہماری غرض اس فیصلے کے متعلق بات کرنا نہیں۔پاکستان میں دہشت گردی اِس وقت ایک پیچیدہ اور اہم مسئلہ ہے۔لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ ملک کے اندر عمومی حیثیت میں انتہاپسندی بھی عروج پر ہے۔ شدت پسندانہ رویے اور ان سے جنم لینے والے واقعات بھی توجہ طلب ہیں۔ یہی رویے سماج میں ایک سطح پر جاکر عسکریت پسندی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
بلاشبہ بوقت ضرورت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تاہم اس کے ساتھ عمومی سطح پر معاشرے سے انتہاپسندانہ رویوں اور نظریاتی محرکات کی بیخ کنی کے لیے کچھ مفاہمانہ لائحہ عمل بھی ضروری ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انتہاپسندانہ رویے اور عمومی عدم برداشت ایک بڑا چیلنج ہے جو محض عارضی یا محدود نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے، اور اس کے مظاہر بھی آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں اتنے برس گزرنے اور اتنا شدید نقصان اٹھانے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کوئی عوامی تحریک وجود میں نہیں آسکی، کیونکہ عمومی شدت پسندانہ رویے عسکریت پسندی کے لیے بھی کہیں نہ کہیں جگہ پیدا کرتے ہیں۔اس مسئلے کے محرکات کا تجزیہ کرنا اور عوامی مزاج میں بڑھتے شدت پسندی کے اثرات کی طرف توجہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ یقینا یہ محرکات صرف مذہبی نوعیت کے نہیں ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک آپریشن ضربِ آگہی کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی فکری تطہیر کی جائے، انہیں مذہب، معاشرت اور شہریت سے متعلق درست معلومات فراہم کی جائیں۔ انہیں برداشت کرنا، ایک دوسرے کے لیے سپیس دینا اور قانون کا احترام کرنا سکھایا جائے۔ ’پیغامِ پاکستان‘ بھی دراصل ضربِ آگہی کا حصہ تھا جس کا ذکر تو کافی ہوتا ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
پاکستان میں عام لوگوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ریاست یقینا اس مسئلے سے نمٹنا بھی چاہتی ہے اور اس کے لیے بہت سے اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ وقتی اور عارضی اقدامات کی بجائے،اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے ایک مربوط لائحہ عمل تیار کیا جائے، اور اس میں ضربِ آگہی بھی شامل ہو۔