تعلیم،معاشروں کی مربوط تشکیل، افہام و تفہیم کو فروغ دینے اور متنوع طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ایک عرصے سے مسلم دنیا پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں اقلیتوں کو تعلیمی سطح پر کم درجہ یا غیراہم دکھایا جاتا ہے۔اسے گویا حکومتوں کی تعلیمی پالیسی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اب بھی بجا طور پہ کئی مسلم ممالک میں اقلیتوں کو مسائل کا سامنا ہے،مگر اس کی وجہ مذہب یا مذہبی تعلیم نہیں ہے۔مزید یہ کہ اب کچھ سالوں سے مسلم دنیا میں تعلیمی ڈھانچے کے اندر مذہبی اقلیتوں کے لیے رواداری کو فروغ دینے کی عمدہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ متعدد مسلم اکثریتی ممالک میں، تعلیمی نصاب میں رواداری اور تنوع پسندی کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس میں مذہبی اقلیتوں کی اہمیت و حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے بھی کئی اقدامات سامنے آئے ہیں۔زیرنظر مضمون میں ایسی ہی کچھ مثالوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
اِس وقت مسلم دنیا میں کئی ممالک ایسے موجود ہیں جومذہبی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے حوالے سے تعلیمی سطح پر عمدہ اقدامات کر رہے ہیں۔ذیل میں کچھ مثبت مثالیں پیش کرتے ہوئے، یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کس طرح کچھ قومیں اپنے تعلیمی فریم ورک میں تنوع کو اپنا رہی ہیں، رواداری کو فروغ دے رہی ہیں۔مسلم ممالک سےیہ چند مثبت مثالیں واضح کرتی ہیں کہ مسلم اکثریتی ممالک کے لیے اپنے تعلیمی نظام میں مذہبی تنوع کو جگہ دینا ممکن ہے اور اسے فوائد بھی بہت ہیں۔ ہم آہنگ نصاب کو شامل کرکے، بین المذاہب مکالمے کو فروغ دے کر، اور مشترکہ اقدار پر زور دے کر، یہ قومیں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرتی ہیں جہاں طلباء نہ صرف اپنی مذہبی روایات کے بارے میں بلکہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعاون اور بقائے باہمی کے بارے میں بھی سیکھ سکیں۔
اگرچہ ان ممالک میں بھی چیلنجز موجود ہیں،مگریہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ ان اقوام میں افہام و تفہیم اور رواداری کو فروغ دینے کا عزم موجود ہے۔جیسے جیسے یہ قومیں ترقی کرتی جا رہی ہیں، ان کے تجربات پرامن بقائے باہمی کی قدربارے قیمتی نتائج پیش کرتے ہیں کہ کس طرح تعلیم ایسے معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جو تنوع کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔
انڈونیشیا
انڈونیشیا، دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے،اور یہ اپنے ثقافتی اور مذہبی تنوع کے لیے مشہور ہے۔ مختلف نسلوں، زبانوں اور مذاہب پر مشتمل آبادی کے ساتھ، انڈونیشیا نے اپنے تعلیمی نظام میں بھی اس تنوع کو ظاہر کرنے کے لیے کاوشیں کی ہیں۔
انڈونیشیا میں ہر سطح پر اسکول کے بچوں کے لیے مذہب ہمیشہ سے ایک لازمی مضمون رہا ہے۔ زیادہ تر اسکولوں میں،عام طور پر ہفتے میں دو کلاسیں مذہبی تعلیم کی ہوتی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں مذہب کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ مگر جو نصاب شامل درس ہے اس میں تمام ادیان کی توصیف کی گئی ہے۔اسی لیے سماجی سطح پر بھی عوام میں تمام طبقات میں ہم آہنگی نظر آتی ہے۔2003 میں پاس ہونے والے نئے تعلیمی قانون میں کہا گیا کہ ہر اسکول پر لازم ہے کہ ہر مذہب کے بچوں کے لیے مذہبی تعلیم کی متعلقہ کتاب کی تدریس کے لیے اسی مذہب کا استاد مقرر کرے۔مسلم طلبہ کے لیے مسلم اساتذہ، ہندو طلبہ کے لیے ہندو اساتذہ، وغیرہ۔ حتی کہ نجی تعلیمی ادارے بھی اس قانون کے پابند ہیں کہ متعلقہ مذہبی کتاب کے لیے اسی مذہب کا استاد مقرر کریں۔نجی کیتھولک اسکول کو اپنے مسلمان طلبہ کے لیے ان کی مذہبی تعلیم کی کتاب پڑھانے کے لیےمسلم استاد فراہم کرنا ہوگا۔ یہ ایک عمدہ قانون سازی ہے تاکہ ہر مذہب کے بچے اپنے دین کی صحیح تعلیم حاصل کرسکیں۔
مذہی تعلیم کی حساسیت صرف نچلے تعلیمی اداروں میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ اعلی تعلیمی اداروں میں بھی اس بارے عمدہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔یوگیکارتا میں گاجا ماڈا یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ طلباء کے لیے بین المذاہب مطالعات کا ایک شعبہ قائم ہے۔ یہ ایک فعال تحقیقی مرکز ہے جو اس موضوع پرسیمینارز اور کانفرنسوں کی میزبانی کرتا ہے اور اس موضوع پرتحقیق کو اسپانسر بھی کرتا ہے۔ دیگر اسلامی یونیورسٹیوں میں بھی اسی طرح کا ماحول نظر آتا ہے۔طلبہ مذاہب کی سماجیات پربھی تحقیقات کرتے ہیں۔ خاص طور پر جکارتہ اور یوگیکارتا کی اسلامی جامعات میں، بین المذاہب تعلقاتپر طویل عرصے سے کام جاری ہے۔سنن کلیجاگااسلامی یونیورسٹی نے پوسٹ گریجویٹ تھیالوجی کے طلباء کے لیے،یوگیکارتا میں ڈوٹا واکانا کرسچن یونیورسٹی کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کا ایک شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ تحقیق کےدوران طلباء (اور دیگر دلچسپی رکھنے والے افراد) ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا دورہ کرتے ہیں، مذہبی تہواروں میں شرکت کرتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں تقابل ادیان کی بجائے،مذاہب کی سماجیات پر کام کیا جاتا ۔ تاکہ طلبہ میں یہ تصور پختہ کیا جاسکے کہ مذاہب انسانیت اور پرامن بقائے باہمی کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں ہیں۔
جامع نصاب: انڈونیشیا کا تعلیمی نصاب جامع ہے،اس میں متعدد مذہبی اور نسلی گروہوں کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے والی تعلیمات موجود ہیں۔
نصابی کتب اور تدریسی موادمیں تسلیم کیا گیا ہے کہ انڈونیشین قوم کی تاریخ، ثقافت اور ترقی میں مذہبی اقلیتوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، نصاب میں ہندو اور بودھ سلطنتوں کا احاطہ بھی کیا گیا ہے جو کبھی انڈونیشی جزیرے پر پروان چڑھی تھیں۔اسلام کی آمد اور غلبے کے باوجود بھی ماضی میں ان دیگر مذاہب کی موجودگی، اثرات اور ان کے کردار کو مسترد نہیں کیا گیا۔وہ اسے اپنی تاریخ کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی کی تعلیم
انڈونیشیا بین المذاہب ہم آہنگی کی تعلیم پر بھی زور دیتا ہے، جس کا مقصد بچوں میں ابتدائی عمر سے ہی رواداری اور افہام و تفہیم کی اقدار کو فروغ دینا ہے۔ طلباء کو ایسی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتا ہے جو مختلف مذہبی روایات کے احترام کو فروغ دیتی ہیں،اور متنوع کمیونٹیز کے درمیان اتحاد کے احساس کو پختہ کرتی ہیں۔
مذہبی ہم آہنگی کی کلاسیں: انڈونیشیا کے اندر کچھ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو اسکول میں مذہبی ہم آہنگی سے متعلق باقاعدہ الگ سے کلاسزکا اہتمام کرتے ہیں،اورطلبا میں مختلف عقائد بارے گہری تفہیم پیدا کرتے ہیں۔ ان کلاسوں میں اکثر مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مہمان مقرر ہوتے ہیں، جو طلباء کے درمیان براہ راست بات چیت اور مکالمے کو یقینی بناتے ہیں۔
لبنان
1989 کے طائف معاہدے کے بعد، لبنان میں 15 سال کی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔اس معاہدے نے ملک میں بڑی تعلیمی اصلاحات کی بنیاد رکھی اور ایک نیا نصاب تشکیل دینے کی ضرورت محسوس کی گئی جو ملک میں مختلف مذہبی اور سیاسی گروہوں کے درمیان قومی اتحاد کو فروغ دے۔ نتیجے کے طور پر، لبنانی وزارت تعلیم نے ایک نیا نصاب تیار کیا، جسے 1997 میں لاگو کیا گیا۔ نئے نصاب کے دو اہم اہداف یہ ذکر کیے گئے تھے: “فرد کی شخصیت کی تعمیر اور شہری مساوات کو قائم کرنا”۔
ِ1997 میں تشکیل دیے گئے نئے نصاب میں شہریت کی تعلیم اور آپسی مفاہمت پر زور دیا گیا۔ وزارت تعلیم نے قومی اور شہری تعلیم کے تحت ایک نئے لازمی مضمون کے لیے ایک نصاب بھی تیار کیاجسے گریڈ 1 سے 12 تک کے تمام سرکاری اسکولوں میں ہفتے میں ایک گھنٹہ پڑھایا جاتا ہے۔ اس مضمون کو گریڈ 9 اور 12 کے سرکاری امتحانات میں بھی شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ وزارت تعلیم نے نصابی کتب کا ایک نیا مجموعہ تیار کیاجو12 کتابوں پر مشتمل ہے اوربارھویں تک ہر جماعت میں ایک کتاب زیردرس ہے۔اسی طرح تاریخ کی نصابی کتب کو تیار کرنے کے دوران بھی اس امر کی رعایت رکھی گئی کہ کسی قسم کا ایسا اشارہ موجودہ نہ ہو کہ جس سے کسی مسلک یا طبقے کی تحقیر ہوتی ہو۔
2010 میں لبنان نے ایک مرتبہ پھر تعلیمی اصلاحات کا آغاز کیا جس میں شہریت کے نصاب اور کتب پر نظر ثانی کی گئی۔نئے نصاب میں پچھلی تعلیمی اصلاحات کے فوائد اثرات اور اس کے نتائج پر بھی تبصرہ شامل ہے۔نئے نصاب میں ترکی سمیت خطے کے چند مسلم اکثریتی ممالک میں پائی جانے والی مذہبی ہم آہنگی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس طرح کی ہم آہنگی اور رواداری قوموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی: لبنان، ایک ایسا ملک ہےجو اپنے مذہبی تنوع اور مختلف فرقوں کے مابین تاریخی بقائے باہمی کے لیے جانا جاتا ہے۔اگرچہ پچھلی چار دہائیوں سے وہاں مسالک کے درمیان ایک طرح کے صورت کی صورت رہی ہے اور اس بنا پر بہت سے فسادات بھی ہوئے۔ یہ مگر تنظیموں کی سطح پر ہے اور انہی کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن تعلیمی حوالے دیکھا جائے تو لبنان کا تعلیمی نظام ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
جامع نصابی کتب: لبنان میں نصابی کتب اکثر مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان باہمی احترام اورحقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک متوازن تصویر کشی کرتی ہیں۔ ایسے تعصبات سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے جو فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دیں۔یہ ملک مسلم دنیا میں مذہبی تعلیم کے اعتدال کے ضمن میں ایک عمدہ مثال ہے۔
شہری تعلیم: لبنان کے تعلیمی نصاب میں شہری اقدار،رواداری، تنوع اور بقائے باہمی کی اہمیت کے باقاعدہ اسباق اور ابواب شامل ہیں۔ اس سے طلبہ میں
طلباء مشترکہ شہریت کے احساس کو فروغ دینے،اور قوم کی تشکیل میں مختلف مذہبی گروہوں کے کردار کے بارے میں سیکھتے ہیں۔
مشترکہ اقدار پر زور: لبنانی اسکول اکثر مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دیتے ہیں، جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مذہبی اختلافات کے باوجود، ایسے اعلیٰ اصول موجود ہیں جو قوم کو متحد کرتے ہیں۔
لبنان میں نہ صرف مسلم مسالک کا تنوع ہے اور ان کے درمیان سیاسی کشاکش ہے، بلکہ ایک بڑی تعداد میں وہاں پر مسیحی آبادی بھی موجود ہے۔مگر ثقافتی لحاظ سے وہاں سب ایک ہی رنگ میں گندھے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ظاہر ہے کہ تعلیم اور تعلیمی نصاب ہے۔لبنان کے مسیحی ادیبوں نے عربی زبان و ادب کی بہت خدمت کی ہے۔لبنانی مفکرین بلاتفریق مذہب و مسلک قومی نمائندے تھے۔ان کی فکری وادابی تحریروں میں اسلامی ثقافت کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔مثال کے طور پہ مارون عبود پچھلی صدی میں لبنان میں مختلف مذاہب و فرقوں سامراجی سازشوں کے عہد میں پیدا ہونے والا ایسامسیحی مفکر تھا جو خود فرقہ واریت کے خلاف بردبار سوچ کا حامل تھا۔ وہ مذاہب کے مابین نفرتوں کے لئے کھلے دل سے باغی تھا۔مارون عبود فرقہ پرستی کے خلاف وہ پہلا مسیحی تھا جس نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا۔ لوگوں کے نزدیک ”محمد مارون“ ایک انوکھا نام تھا۔ نہ صرف اس نے اپنے بیٹے کا نام ”محمد“رکھا بلکہ اپنی بیٹی کا نام ”فاطمہ“رکھا۔یہ وقت تھا جب سیاسی سطح پر فرقہ وارانہ جنگ کی نوعیت غالب تھی،مگر لبنانی مفکرین عوام میں اس تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مارون عبود کی بیٹی فاطمہ کو لبنان میں مذہبی شناخت اور فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل تک کر دیا گیا تھا۔مگر اس نے یہ قربانی دی اور کبھی بھی اس امر کی اجازت نہیں دی کہ مذہب یا مسلک کی وجہ سے ملک میں تناؤ اور بدمزگی پیدا ہو۔
ملائیشیا
ملائیشیا بھی مسلم اکثریتی ملک ہے،جو اپنے تعلیمی نظام میں تکثیریت پسندی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ملک کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں مختلف نسلی اور مذہبی برادریوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔1956 سے ہی ملائشیا حکومت کی طرف سے مختلف اوقات میں مرتب کی جانے والی تعلیمی پالیسیاں قومی یکجہتی کو محور بناتی ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران تعلیم میں انسانیت پسندی (Humanizing of education) کے عنصر کو خاص توجہ دی گئی ہے۔اس کا اظہار قومی فلسفہ تعلیم (NPE) میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔ ملائیشیا کے تناظرمیں تعلیم کو انسانیت پسندی پر مبنی بنانے سے مراد ایسے افراد پیدا کرنے کے لیے تعلیمی نظام میں سماجی و ثقافتی پہلوؤں کو شامل کرنا ہے جو فکری، روحانی، جذباتی، جسمانی اور معاشرتی طور پر متوازن اور ہم آہنگ ہوں۔
تعلیم سے متعلق کی جانے والی نئی قانون سازی میں وضح کیا گیا ہے ملائشیا تعلیم کو اس نہج پر استوار کرنا چاہتا ہے کہ اس کے شہری نہ صرف قومی ترقی میں کاگر ثابت ہوسکیں، بلکہ وہ آپسی تعلقات میں بھی صحت مندانہ رویہ رکھتے ہوں۔ملائیشیا کی آزادی کے بعد سے پرامن اور ہم آہنگ انداز میں زندگی گزارنے کی تربیت حکومتوں کی ہمیشہ سے بنیادی ترجیح رہی ہے۔اس کا اندازہ تمام تعلیمی رپورٹس اور قانون سازیوں سے کیا جا سکتا ہے۔
کثیر الثقافتی نصابی کتب: ملائیشیا میں نصابی کتب میں ایسا مواد شامل ہے جو قوم کے کثیر الثقافتی تانے بانے کی عکاسی کرتا ہے۔ طلباء مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے رسوم و رواج اورروایات کے بارے میں سیکھتے ہیں، جس سے نوجوانوں کے اندر ملائیشیا کی متنوع ثقافتوں سے متعلق فخر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
بین المذاہب مکالمے: ملائیشیا کے اسکولوں میں بین المذاہب مکالموں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ طلباء مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں جو باہمی احترام اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کا باعث ہیں، انہیں موقع ملتا ہے کہ وہ مختلف مذہبی پس منظر کے حامل ساتھیوں کے ساتھ عملا روابط قائم اور مضبوط کریں۔
اتحاد کا فروغ: ملائیشیا کا تعلیمی فلسفہ ’قومی اتحاد‘ کو فروغ دینے پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔اس بیانیے کا مقصد ظاہر ہے کہ مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان محبت اور احترام کو پیدا کرنا ہے۔ملائشیا مختلف گروہوں کے مابین آپسی کشمکش کا شدید تجربہ کر چکا ہے، اس لیے اب تعلیمی سطح پر کوشش کی جاتی ہے کہ ان میں باہمی رواداری کو فروغ دیا جائے۔
ترکی
ترکی مشرق اور مغرب کے مابین پل کے طور پرایک منفرد تاریخ ہے۔ حالیہ برسوں میں، ترکی نے ہم آہنگی اور تکثیریت پسندی پر زور دیتے ہوئے اپنے نصاب کو جدید بنانے کے لیے تعلیمی اصلاحات کی ہیں۔
ترکی کی مذہبی تعلیم خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کئی مراحل سے گزری ہے۔1927 میں مذہبی تعلیم کو ترکی کے دیہی اسکولوں سے ختم کردیا گیا تھا، اور 1936 میں ملک کے تمام اسکولوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ تاہم، غیر نصابی شکل میں ترکی کے دیہی ابتدائی اسکولوں میں مذہبی تعلیم 1938 تک جاری رہی۔ 1939 میں، ایک نئے ضابطے کے تحت نصاب سے مذہبی تعلیم کو مکمل طور پرحذف کردیا گیا تھا۔امام حاطب اسکول ترکی میں مذہبی تعلیم کے لیے سب سے نمایاں ادارے سمجھے جاتے تھے۔جب مذہبی تعلیم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو، 1929 میں امام حاطب اسکولوں کوبھی بند کر دیا گیا، اور 1933 میں استنبول یونیورسٹی کی فیکلٹی آف تھیالوجی کو بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد کے سالوں میں ترکی کے اندر کوئی ادارہ مذہبی تعلیم کے لیے کام نہیں کرسکتا تھا۔
مگر،1980کے بعد سے رفتہ رفتہ ترکی میں مذہبی تعلیم کی واپسی ہونے لگی۔اکیسویں صدی کے شروع سے، جب سے رجب طیب ارگان کی جماعت حکومت میں آئی ہے، تب سے ترکی میں مذہبی تعلیمی اداروں کو بحال کیا جانے لگا۔ امام حاطب اسکول پہلے سے بہتر طور پہ پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔2012 سے امام ہاتب کے ثانوی اسکول بھی بحال کردیے گئے تھے،جبکہ یہ پہلے کچھ سالوں سے صرف پرائمری تک چل رہے تھے۔
اگرچہ امام حاطب سرکاری اسکول ہیں،مگر یہ ترکی کے دیگر سرکاری اسکولوں سے مختلف ہیں، کیونکہ ان کے نصاب کا تقریباً 40فیصد اسلامی کورسز، جیسے کہ عربی، قرآنی تفسیر اور اسلامی فقہ کے لیے وقف ہے۔ باقی تعلیمی نصاب ریاضی، سائنس، ترک تاریخ اور جغرافیہ وغیرہ کے لیے وقف ہے۔ان اسکولوں کو روایتی اور جدیدتعلیم کا مرکب سمجھا جاتا ہے۔
ترکی میں امام حاطب اسکول ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن پر ملک کا بایاں بازو اور مغربی ادارے کافی تنقید کرتے ہیں کہ یہ ادارے سخت گیر مذہبی خیالات کو فروغ دے رہے ہیں۔ لیکن ، اگر امام حاطب اسکولوں کے نصاب کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادارے اگرچہ اسلامی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ جدید تعلیم دیتے ہیں اور جو مذہبی تعلیم دی جاتی ہے وہ سخت گیر خیالات پر مبنی نہیں ہے۔ان اسکولوں کو نگرانی خود وزارت تعلیم کرتی ہے،اس لحاظ سے وہ سلطنت عثمانیہ کے روایتی مدارس سے مختلف ہیں۔
ان اسکولوں میں سماجی ہم آہنگی اور معاشرتی آداب جیسے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے بارے میں مثبت اور توصیفی انداز میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ طلبہ کی دیگر ادیان کے ماننے والوں کے خلاف ذہن سازی نہ ہو۔
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی کی مذہبی تعلیم میں شروع سے ہی تین اہم عناصر جڑے ہوئے ہیں۔ایک تو روایتی تفہیم کا عنصر ہے۔ دوسرا کمالی نظریہ(کمال اتاترک) جولبرل نوعیت کا ہے اور جو مذہب میں انفرادی آزادی اور عقلی نقطہ نظر کو ترجیح دیتا ہے۔اور تیسرا عنصر ہے مذہب کی جدید تفہیم جو عصر حاضر کے حالات کو پیش نظر رکھ کر سمجھی جاتی ہے۔اگرچہ ان تینوں عناصر میں بہ ظاہر تضادات محسوس ہوتے ہیں، لیکن ترکی میں ان کی عملی تشکیل واضح نظر آتی ہے،جہاں غیرملکی افراد جو مختلف مذاہب و نسلوں سے ہوتے ہیں ،سیاحت کے لیے آتے ہیں، اور یہ سماج ان کے لیے انتہائی پرامن اور محفوظ ہے۔ وہاں مذہبی عنصر بھی کھلے عام نظر آتا ہے اور لبرل عنصر بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ترکی میں ایک طویل عرصے تک علوی مسلک کے لوگوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے ۔لیکن اب ترکی کی مذہبی تعلیم میں علوی مسلک بارے مواد شامل ہے اور اس کی توصیف کی گئی ہے۔مثال کے طور پر، گریڈ 7 کے لیے مذہبی تعلیم کی نصابی کتاب میں علوی مسلک کو قرآن کریم کی صوفیانہ تشریحات میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔صرف تعارف ہی نہیں، بلکہ اس مسلک کی مذہبی عبادات اور تہواروں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ظاہر ہے کہ ترکی میں علوی مسلک کے ماننے والوں کے خلاف تاریخی تناؤ کو کم کرنا ہے اور بچوں کو بتانا ہے کہ یہ دین اسلام ہی کا نمائندہ ہے۔
ان کے علاوہ، اسکولوں کے نصاب میں گریڈ 6، 8 اور 12 میں دیگر مذاہب کے بارے میں بھی معلومات شامل ہیں۔ گریڈ 6 کی نصابی کتاب میں قرآن، انجیل، تورات اور زبور سمیت مقدس کتابوں کے بارے میں معلومات پیش کی گئی ہیں،ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اسلام کے مطابق اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ عام طور پہ غیر آسمانی مذاہب(جیسےہندو مت، بدھ مت،) بارے مسلم ممالک میں کچھ نہیں پڑھایا جاتا،لیکن ترکی میں ان کے متعلق بھی تعارف موجودہے۔اسی طررح آسمانی مذاہب میں عقائد، عبادت، اور اخلاقیات کے لحاظ سے پائی جانے والی کچھ مماثلتوں کو بھی واضح کیا گیا ہے۔
ترکی میں اگرچہ ہر اسکول مذہبی تعلیم کی نصابی کتب کا انتخاب کر سکتا ہے، لیکن انہیں وزارت تعلیم سے منظور شدہ ہونا ضروری ہے۔ چوتھی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک،کو ہفتے میں دو گھنٹے مذہی مضمون پڑھایا جاتا ہے۔، جبکہ ہائی اسکول کے طلبہ اس لازمی مضمون کو ہفتے میں صرف ایک گھنٹے کے لیے پڑھتے ہیں۔
شہری تعلیم: ترکی کے نظام تعلیم میں شہری تعلیم شامل ہے جو جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور مساوات پر زور دیتی ہے۔ اس جامع نقطہ نظر کا مقصد متنوع کمیونٹیز کے درمیان اتحاد کا احساس پیدا کرنا اور مشترکہ قومی شناخت کو فروغ دینا ہے۔
بین المذاہب مکالمہ: ترکی نے اپنے تعلیمی نظام میں بین المذاہب مکالمے کے اقدامات کو فعال طور پر فروغ دیا ہے۔تعلیمی اداروں میں طلباء کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ایسی مساعی و مباحث کا حصہ بنیں جو مذہبی حدود سے بالاتر ہوں،اور مختلف عقائد کے ماننے والوں میں باہمی احترام کو فروغ دیں۔
اُردن
مسلم ممالک میں عمان ایک ایسا ملک ہے جو بین المذاہب آہم آہنگی کے فروغ کے لیے دنیا میں بہت سی کوششیں بروئے کار لا رہا ہے۔خلیج عرب میں موجود یہ چھوٹا سا ملک مذہبی حوالے سے بھی دنیا میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ دنیا میں اسلام کی مثبت تصویر پیش کرنے میں آگے آگے رہتا ہے۔اسلام اور قرآن سے اس کی محبت کا کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2016 میں، ریاست عمان نے قرآن کی فاصلاتی تعلیم کے لیے ایک آن لائن نظام کا آغاز کیا تھا جس کا نام ہے’برنامج الکترونی لتعلیم القرآن‘(قرآن پاک سیکھنے کے لیے الیکٹرانک پروگرام) پوری دنیا میں قرآن کریم کی ناظرہ و حفظ کی تعلیم حاصل کرنے ،اور تلاوت کے آن لائن کورسز میں داخلہ لینے کے لیے اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔یہاں تک کہ عمان کی وزارت اوقاف اور مذہبی امور کے ذریعے تصدیق شدہ حفظ (حفظ) کا سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔
دین سے ان کی قدر والہانہ عقیدت کے باوجودوہاں کے حکام نےہمیشہ یہ کوشش بھی کی ہے، مذہب کی جو بھی تصویر پیش کی جائے اور اس ضمن میں جو خدمات بھی انجام دی جائیں، ان میں کوئی سخت گیر عنصر موجود نہ ہو۔عمان کے تعلیمی اداروں میں ایسے کئی سروے کیے گئے جن میں مذہب سے متعلق اساتذہ اورطلبہ کے خیالات معلوم کیے گئے تھے۔نتائج سے ظاہر ہوا کہ طلباء عمان کے معاشرے اور دنیا بھر میں مذہبی اور ثقافتی رواداری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ کسی قسم کی جارحیت، مذہبی اور ثقافتی علامتوں درمیان اختلاف کو ہوا دینے کے حق میں نہیں ہیں۔سروے کے نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین طالبات مردوں کے مقابلے میں زیادہ روادارانہ خیالات کی حامل ہیں۔
عمان کے تعلیمی ادداروں میں ’عالمی انسانی شہریت‘ بارے بھی معلومات دی جاتی ہے، جس کے پانچ بڑے اصول ہیں:امن ، انسانی حقوق و تنوع، ماحولیاتی تحفظ، سماجی انصاف ، جمہوریت و مساوات۔یہ پانچ اصول عمان کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں باقاعدہ پڑھائے جاتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمان عالمی شہریت کے لیے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور حکام اپنے بچوں کو ایک بہتر تعلیم سے ہم آہنگ کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ،عمان کے تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق، امن و تنازعات اور ماحولیات سے جڑے مسائل و خدشات سے متعلق اسلامی اصولوں اور اقدار پر بھی انحصار کیاجاتا ہے اور ان مسائل پر دینی نقطہ نظر سے ذہن سازی کی جاتی ہے، بایں طور کہاسلام ان اصولوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ان اقدارکو مختلف ذرائع جیسے خاندانی مجالس، مسجد کے اجتماعات ،میڈیااور تقاریر اور سماجی اداروں کے ذریعے بھی پروان چڑھایا جاتا ہے۔
سعودی عرب
سعودی عرب میں ہمیشہ سے مذہبی تعلیم کا عنصرتمام تعلیمی مراحل (پرائمری اسکول، انٹرمیڈیٹ اسکول، ہائی اسکول، اعلیٰ تعلیم) میں حاوی رہا ہے۔مثال کے طور پر، فی ہفتہ پرائمری اسکول کے تقریباً ایک تہائی اسباق مذہبی تعلیم کے موضوعوات پر مبنی ہوتے ہیں، اور مذہبی کورس یونیورسٹی کے تمام طلباء کے لیے بھی لازمی ہیں، چاہے ان کا شعبہ چاہےجو بھی ہو۔ اس لیے سعودی عرب کی تعلیمی پالیسیوں میں مذہبی اہداف نمایاں رہے ہیں۔سعودی عرب کی تعلیمی پالیسی(1969 میں وزراء کی کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز) میں مملکت میں تعلیم کے لیے یہ بنیادی اصول وضع کیاتھا کہ اسلامی ثقافت کو اعلیٰ تعلیم کےتمام مراحل میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔
تعلیمی شعبے میں مذہبی عنصر پر بہت زیادہ اصرار اور انحصار کی بنیادی وجہ ایک تو1979کا انقلاب ایران تھاجس کے بعد مشرق وسطی میں فرقہ وارانہ گہما گہمی غالب آگئی۔ اس کے علاوہ اسی دہائی میں مسلم دنیا میں مسلح عسکریت پسندی کارجحان بھی بڑھ گیا۔اسی دوران سعودی عرب میں ایک بڑی تعدادغیر ملکی اساتذہ کی آئی، جن میں سے بہت سے اخوان المسلمین کے لوگ تھے جومصر اور شام سے سعودی عرب میں جلاوطن ہو کر آئے تھے۔انہوں نے مملکت میں تعلیم کی تشکیلِ نو کی۔خصوصا مذہبی نصاب کو سیاسی بنایا گیا پر سیاست کی، اور خاموش وہابی عنصر کوبھی سیاسی سرگرمی کا حصہ بنا دیا۔
اساتذہ کا یہ نیا حلقہ ،”پوشیدہ نصاب”( the hidden curriculum) کے نام سے مشہور ہوا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2001 میں سعودی اسکولوں میں پرائمری اور انٹرمیڈیٹ کلاسوں میں مذہبی علومکا دورانیہ ہفتہ وار کلاس روم کے اوقات کا تقریباً ایک تہائی حصہ تھا۔
مگر9/11 کے واقعے میں 15 سعودیوں کے ملوث ہونے کے بعد سعودی عرب نے نصابی کتب پر نظر ثانی شروع کردی مذہبی کتب میں عدم برداشت کے تصورات کو ہٹا دیا گیاجانے لگا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ کے ذہن سے یہ چیز نکال دی جائے کہ جو مسلم نہیں ہے وہ آپ کا دشمن ہے۔ جیسے کہ 2005-06میں پانچویں جماعت کی ایک کتاب سے اس عبارت کو ہٹا دیا گیا کہ ’’جو شخص خدا کی مخالفت کرتا ہے، چاہے وہ خاندانی تعلق میں آپ کا بھائی ہی کیوں نہ ہو،وہ آپ کا دشمن ہے‘‘۔توحید کی پہلی جماعت کی نصابی کتاب کا 2007-08 ایڈیشن کہتا ہے: ’’اسلام کے علاوہ ہر مذہب باطل ہے‘‘،اسے بھی ہٹا دیا گیا،تاکہ دیگر اقلیات بھی پڑھ سکیں اور انہیں مسئلہ نہ ہو۔
2011 میں، شاہ عبداللہ نے 2,000 اساتذہ کو معطل کر کے “پوشیدہ نصاب”( the hidden curriculum)کو ختم کرنے کی طرف ایک بڑا قدم اٹھایا، جو سعودی عرب میں اساتذہ کی کل تعداد کے 2 فیصد کے برابربنتا ہے۔
اگرچہ سعودی عرب میں مذہبی اقلیتیں موجود نہیں ہیں، اس کے باوجود اب نئے نصاب میں مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے نرم گوشہ شامل کیا گیا ہے۔ خصوصا ان کے خلاف جو دشمنی کا عنصر اور پہلو تھا وہ ختم کردیا گیا ہے۔
نئے سعودی نصاب کےخصائص
سخت مواد حذف:اب سعودی عرب نے عدم برداشت، یا امتیازی سلوک کو فروغ دینے والے مواد کی تشخیص کرنے اور اسے ختم کرنے کے لیے اپنی نصابی کتابوں کا جامع جائزہ لیا ہے۔ ایسے سارے مواد کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں جو فرقہ واریت اور مذہبی عدم برداشت کو جنم دے سکتے ہیں۔
اعتدال پر زور: نصاب پر نظرثانی میں اسلام کے اندر اعتدال، رواداری اور بقائے باہمی کے اصولوں پر زور دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا مقصد مذہب کے بارے میں زیادہ متوازن تفہیم پیش کرنا ہے جو تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرے۔
نئے مضامین کا اضافہ:
- شہریت اور قومی شناخت: سعودی عرب نے نئے مضامین متعارف کرائے ہیں جو شہریت، قومی شناخت اور ثقافتی بیداری پر مشتمل ہیں۔ ان مضامین کا مقصد طلباء میں قومی فخر اور اتحاد کا احساس پیدا کرنا ،اور ذمہ دار شہری ہونے کی اہمیت پر زور دینا ہے۔
- تنقیدی سوچ اور تجزیاتی صلاحیت: تنقیدی سوچ اور تجزیاتی صلاحیتوں کو بہتر کرنے کے لیے بھی نیا مواد شامل کیا ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ طالب علموں میں آزادانہ سوچنے، تنقیدی سوال کرنے، اور مختلف مسائل پر مربوط نقطہ نظر تشکیل دینے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے۔
اساتذہ کی تربیت:
- پیشہ ورانہ ترقی کے پروگرام: سعودی عرب نے اساتذہ کے لیے پیشہ ورانہ ترقی کے پروگرام شروع کیے ہیں، انہیں اصلاح شدہ نصاب کو مؤثر طریقے سے سمجھانے کے لیے ضروری مہارتوں اور علم سے آراستہ کیا گیاہے۔ اس میں جدید تدریسی مناہج کی تربیت اور طلباء کی متنوع علمی فکری ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا شامل ہے۔
- مثبت تدریس پر زور: اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ مثبت تدریسی انداز اپنائیں،اور کھلے مکالمے، تنوع کا احترام، اور طلباء کے درمیان رواداری کی ذہنیت کو فروغ دیں۔
بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون:
- یونیسکو کے ساتھ شراکت: سعودی عرب نے تعلیمی اصلاحات میں عالمی تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے یونیسکو سمیت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تربیتی معاہدے کیے ہیں۔اس طرح کی شراکت داریوں کا مقصد سعودی عرب کے تعلیمی طریقوں کو بین الاقوامی معیارات اور بہترین مناہج سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
- عالمی تناظر : نصاب میں عالمی انسانی تناظر کو متعارف کرانے کی کوششیں کی گئی ہیں، جس سے طلباء کو بین الاقوامی مسائل، ثقافتی تنوع، اور عالمی تعاون کی اہمیت کے بارے میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔
صنفی مساوات :
نظرثانی شدہ نصاب میں معاشرے کے اندر خواتین کے کردار کی زیادہ جامع تصویر کشی کے ذریعے صنفی مساوات کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ اقدام وسیع تر سماجی تبدیلیوں کا حصہ ہے جس کا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا اور صنفی حرکیات کے بارے میں مزید ترقی پسند تفہیم کو فروغ دینا ہے۔
سعودی عرب میں اصلاحات کی کوششیں تعلیمی نظام کو جدید بنانے اور زیادہ کھلے اور روادار معاشرے کو فروغ دینے کے عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔مملکت کا مقصد دراصل انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے اور اسلام کی متوازن تفہیم کو فروغ دینے کے ذریعے، بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے عالمی کوششوں میں حصہ ڈالنا ہے۔
پاکستان
پاکستان میں اقلیتوں کو ایک عرصے سے یہ شکایت تھی کہ جس طرح مسلمان طلبہ کے لیے نصاب میں اسلامیات کی کتاب شامل ہوتی ہے، اسی طرح باقی مذاہب کے طلبہ کے لیے بھی ان کے مذہب کی کتاب زیرتدریس ہونی چاہیے۔یہ اقلیتوں کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا، جسے اب پورا کردیا گیا ہے۔اقلیتی رہنما کہتے آئے ہیں کہ مسلمان بچوں کو اسلامی علوم ضرور پڑھائے جائیں تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو اسلامی نصاب پڑھانا پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔پاکستان میں نئے ’یکساں قومی نصاب‘ میں اقلیتوں کے لیے الگ سے ان کے مذہب کی کتب شامل کی گئی ہیں۔قبل ازیں اقلیتی طلبہ کو تعلیمی اداروں میں رائج اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کی درسی کتب پڑھائی جارہی تھیں۔مگر اب پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک اقلیتی طلبہ کو ان کے اپنے مذاہب کی درسی کتابیں پڑھائی جانے لگیں گی۔نئے لاگو ہونے والے نصاب میں ان سات مذاہب کی کتب تیار کی گئی ہیں:ہندو، مسیحی، بدھ، سکھ، بہائی، کیلاش اور زرتشت مذاہب ۔یہ تمام کتب ہر مذہب کے نمائندہ رہنماؤں کی مشاورت اور زیرسرپرستی تیار کی گئی ہیں۔یہ قومی تعلیمی نصاب برائے مذہبی تعلیم کے مطابق ہیں اور ہر قسم کے ثقافتی، لسانی یا نسلی تعصبات سے بالاتر ہوکر جاری کی جارہی ہیں۔ان درسی کتابوں میں کسی بھی مذہب یا پھر پاکستان اور ریاست کی مخالفت میں کوئی مواد شامل نہیں کیا جائے گا، مقدس کتابوں کے تمام مستند حوالے کتابوں میں شامل ہوں گے جبکہ ان میں شامل کیے جانے والے تمام نقشے سروے آف پاکستان کے مطابق ہوں گے ۔
پاکستان کی یہ کوشش اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جاری عمل کا حصہ ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو اسکول میں اپنی نصابی کتب کے ذریعے ہی اپنے مذہب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے۔ تمام سات مذاہب کے ماہرین اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ نصاب ان کے عقائد اور اقدار کا عکاس ہو۔ہرطالب علم کاحق ہے کہ اسے برابری کے اصول پرتعلیم وتربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ جو عقائدو افکاراس کے مذہب سے مناسبت نہ رکھیں، اُسے اُنہیں پڑھنے پرمجبورنہ کیاجائے۔پاکستان کی طرف سے یہ اقدام بہت مؤثر اور مفید ثابت ہوگا۔