مسلم دُنیاسےمتعلق عام طور پہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں بڑے پیمانے پر لڑکیوں کی تعلیم میں پیش رفت کا فقدان ہے۔مگر اب صورتحال حقیقت میں یہ ہے کہ ترکی میں اسکول کی تعلیم میں صنفی فرق تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ کویت، متحدہ عرب امارات، بحرین اور لیبیا میں، لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ لڑکیاں سیکنڈری اسکول میں زیرتعلیم ہیں اور پرائمری کے درجے تک صنفی تناسب برابری کا ہے۔اس طرح کی کامیابی کی واضح مثالیں عرب دنیا سے باہربھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے مسلم ملک انڈونیشیا کے اندر سکولوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کی یکساں تعداد ہے۔اس کے پڑوسی ملک ملائیشیا میں، تعلیم کے تقریباً تمام شعبوں میں لڑکے لڑکیوں سے پیچھے ہیں۔زیرنظر مضمون میں کچھ مثالوں کے تناظر میں اسلامی ضوابط، خواتین کی شرح خواندگی اور ترقی کے رجحانات کے باہمی تعلق پر بحث کی گئی ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
اِس وقت مسلم دنیا کے کئی ممالک میں تعلیم کا صنفی امتیاز ختم ہوچکا ہے۔ملائیشیا نے تقریباً تین دہائیاں قبل ہی صنفی فرق کے مسئلے پر قابو پالیا تھا۔ بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی نمونہ نظر آتا ہے جہاں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ اس مسلم اکثریتی ملک میں نہ تو مذہبی قدامت پسندی اور نہ ہی کوئی اور وجہ لڑکیوں کو اسکولوں سے دور رکھ سکی ہے۔’گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس‘ میں بنگلہ دیش 75 نمبر پر، سعودی عرب 127پر، ایران 130 اور پاکستان 135ویں درجے پر آتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم صنفی مساوات کے معاملے میں بنگاہ دیش سے کتنا نیچے ہیں۔
انڈونیشیا اور ملائیشیا کی کامیابی کی کہانیاںسبق ہیں کہ انسانوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری بڑے نتائج لاسکتی ہے۔ اور بنگلہ دیش ثابت کرتا ہے کہ اگر صنفی مساوات کو ترجیح دی جائے تو محدود اقتصادی صلاحیت کے باوجود تیز رفتار ترقی کا حصول ممکن ہے۔ یہ تینوں ممالک گویا یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں خواتین کی ترقی کی راہ میں نہ تو کم وسائل رکاوٹ بن سکتے ہیں اور نہ پدرسری نظام اس کا راستہ روک سکتا ہے۔یہ چیز باقی مسلم دنیا کے لیے سبق یہ ہے کہ اگر ملک میں سب کے لیے تعلیم کے حصول پر سیاسی اتفاق رائے موجود ہو،تو اسکول کی تعلیم میں پائے جانے والے صنفی فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔اس نوعیت کے اتفاق رائے کی کمی انتہا پسندی کو فروغ دے سکتی ہے اور ترقی کے سفر کو محدود کرسکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے امکانات بھی مزید محدود ہوتے جائیں گے۔
ملائشیا میں خواتین کی تعلیمی شمولیت کے اثرات
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ملائیشیا کا نقطہ نظر شروع میں زیادہ روایتی اور قدامت پسندی پر مبنی تھا۔ مگرجنوبی کوریا جیسی اعلیٰ کارکردگی دکھانے والی مشرقی ایشیائی معیشتوں کی کامیابی سے متاثر ہو کر ملائیشیا نےتعلیم کوسب کے لیے ترجیحی قررار دے دیا۔ملائیشیا میں تعلیم کو عمومی حیثیت میں توپہلے بھی کافی اہمیت حاصل تھی۔معاشی شرح نمو میں دوگنے اضافے سے قبل بھی ملائیشیا کے تعلیمی اخراجات دوسرے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ تھے۔ ورلڈ بینک کے ماتحت ادارے’ ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز‘ کے مطابق، 1970 تک ملائیشیا میں پرائمری اسکولوں میں خواتین کا مجموعی داخلہ نائیجیریا کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ملائیشیا کے اندر تعلیمی زمرے میں صنفی تفریق کے خاتمے، جمہوریت، ترقی اور مساوی معاشی امکانات نے ملک میں پرتشدد خیالات کو ختم کرنے میں مدد فراہم کی۔یہ تجربہ بتاتا ہے کہ جمہوری اقدار، معاشی ترقی اور خواتین کی شمولیت شدت پسندی اور سخت گیر خیالات کی سطح کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
نائجیریا میں کیا ہوا؟
ملائیشیا میں مذہبی انتہا پسندی یا بوکو حرام جیسے “اسلامی” بنیاد پرست گروہ نہیں پھل پھول سکے، کیونکہ عوام کوعملا ترقیاتی پراسس کا حصہ بنا دیا گیا۔نائیجیریا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صحت اور تعلیم کی بنیادی خدمات سے طویل مدتی محرومی کا عکاس ہے۔ وافر قدرتی وسائل کے باوجود نائجیریا میں انسانی ترقی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی۔ ملک کے تیل سے حاصل ہونے والے سرمایے کو سکولوں کی تعمیر اور شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے نتیجہ خیز طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔فعال جمہوری ڈھانچے کی عدم موجودگی، ناقص حکمرانی اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی نے لوگوں میں داعیہ پیدا کیا کہ اسلامی نظام لایاجائے، اس سے ان چیزوں کا حل کیا جا سکتا ہے، مگراصل میں اسلامی حکومت کے نام پر فعال گروہ آگے گئے،اور بوکو حرام جیسے انتہا پسند گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا۔بوکو حرام ابتدائی طور پہ نائیجیریا کے غریب ترین حصے میں ابھری، جہاں کی تقریباً تین چوتھائی آبادی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ نائیجیریا ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جہاں پرائمری اسکول جانے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکولوں سے باہر ہے۔
کیا شرعی حدود اور ضوابط خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ بنتے ہیں؟
اِس وقت افغانستان کے اندر ایک حلقے میں یہ تأثر پیدا ہوگیا ہے کہ شاید شرعی نظام کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کی تعلیم کو مکمل طور پہ ختم کردیا جائے۔جبکہ ایک گروہ ایسا ہے جو حدود اور ضوابط کو لاگو کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ حدود اور ضوابط کے تحت تعلیم کو فی الوقت جاری رکھا جاسکتا ہے۔ شرعی نظام کے مطابق تعلیمی نظام پر زور دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔ طالبان رہنما اب لڑکیوں کی تعلیم کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں ،البتہ نظام میں مکمل صنفی علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں۔ اس کی تصدیق کئی طالبان رہنماؤں کے بیانات سے ہوتی ہے جنہوں نے کہا کہ افغان خواتین بھی مردوں کی طرح یونیورسٹیوں میں جانے کا استحقاق رکھتی ہیں، البتہ اس شرط پر کہ یونیورسٹی کے کلاس روم الگ الگ ہوں اور اساتذہ کا بھی صنفی لحاظ سے الگ انتظام ہو۔ ان کے مطالبات میں تعلیمی اداروں کے اندرمخصوص لباس پر زور اور کھیلوں میں خواتین کی شرکت پر پابندی بھی شامل ہے۔
کیا صرف طالبان تعلیم میں شرعی ضوابط پر زور دیتے ہیں؟
طالبان اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں جوتعلیم کو مذہبی تناظراور اقدار کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اور لڑکیوں کے لیے ثقافتی طور پر ملکی وسماجی صورتحال کے مطابق تعلیم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بہت سے دیگر سرکردہ مسلم ممالک نے بھی اپنے ہاں مخلوط تعلیمی نظام پر پابندی لگا رکھی ہے اور پردہ لازمی قرار دے رکھا ہے۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب میں،حکومت زیادہ تر صنفی اختلاط پر پابندی عائد کرتی ہے[1] اور یہاں تک کہ نجی بین الاقوامی اسکولوں کو بھی لڑکیوں کو مکمل طور پر صنفی علیحدگی والے ماحول میں تعلیم دینے کا پابند بنایا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی طالبات کے لیے فٹ بال جیسے کھیلوں کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان پابندیوں نے سعودی عرب میں خواتین کی تعلیم میں پیش رفت کو روکا نہیں ہے،اور وہاں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی یکساں تعداد پڑھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں ہیں کہ، مسلم ممالک میں جہاں اسلامی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے،مگراس کے باوجود تعلیم میں صنفی برابری بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک مثال بنگلہ دیش کی بھی ہے، جہاں ہزاروں رجسٹرڈ مدارس کے ساتھ حکومتی شراکت داری کے سبب ثانوی تعلیم کی سطح پر صنفی برابری کا ہدف حاصل کیا گیا ہے۔ ایسے ہی دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں بھی مذہبی مدارس نے خواتین کی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ طالبان جب دوبارہ حکومت میں آئے ہیں توان کے سامنے ایک مختلف تعلیمی منظر نامہ سامنے تھا، جو اس سے بالکل مختلف ہے جیسا وہ چھوڑ کے گئے تھے۔2002 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد لاکھوں لڑکیاں اسکولوں میں واپس آئیں۔ اس دوران عوامی زندگی میں خواتین کی شراکت میں بھی اضافہ ہوا، سیاسی دفتر میں بھی ان کی بھرپور تقرریاں ہوئیں۔ حالیہ حکومت کی تبدیلی سے پہلے افغانستان کی آخری وزیر تعلیم ایک خاتون تھیں، محترمہ رنگینہ حامدی۔یوں،کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے اندر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی شراکت کی شرح میں بھی بہتری آئی تھی۔لہذا، اب طالبان کے لیے بھی قدرے مختلف معاملہ ہے کہ وہ اس ساری پیش رفت کو بالکلیہ ختم نہیں کرسکتے اور سوچنے پر مجبور ہیں کہ خواتین کو تعلیم کے شعبے میں امکانات میسر کرنے پڑیں گے۔اب نہ صرف بیرونی دباؤ ہے، بلکہ ملک کے اندر بھی خدشات پائے جاتے ہیں جنہیں افغان طالبان نظرانداز نہیں کرسکتے۔
اگرچہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے معاملے میں خاطرخواہ تبدیلی آئی، لیکن بہرحال جتنا اس شعبے کے لیے خرچ کیا گیا اور جو اہداف مقرر کیے گئے تھے وہ پھر بھی حاصل نہیں ہوسکے تھے۔وجہ جنگی صورتحال،کمزور گورننس اور کرپشن تھی۔افغانستان میں جنگ کے حالات، عوامی سطح پر غربت اورپہلے سے تعلیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باعث لڑکیوں کی تعلیم بہت متأثر رہی۔ 2001 سے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 2 ٹریلین امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کے باوجود ملک میں دو تہائی لڑکیاں ثانوی تعلیم سے محروم رہیں۔افغانستان اب پرائمری تعلیم میں صنفی برابری کے حوالے سے اس مقام پر ہے جہاںتیس سال پہلے ہندوستان تھا۔مگر حالیہ پابندیوں کے بعد خواتین کے لیے تعلیم کے مسائل اور بھی زیادہ ہیں۔
کامیاب مثالیں
بہت سے مسلم والدین کے لیے یہ قابل قبول ہوتا ہے کہ ، لڑکیاں دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرلیں۔پدرانہ معاشروں میں سماجی روایات کے سبب خواتین کی گھر سے باہر نقل و حرکت پر پابندی ہوتی ہے، مگر دینی مدارس ایک ایسی جگہ ہیں جہاں سے خواتین کی شرح خواندگی کو بڑھایا جاسکتا ہے، اور اس کے لیے کامیاب مثالیں موجود ہیں۔یہ دینی مدارس سماجی روایات کو توڑے بغیر تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ پردے کا خیال کرتے ہوئے لڑکیوں کے مدرسوں میں جانے کو گاؤں کے معاشروں میں مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
بنگلہ دیش کے اندر رجسٹرڈ دینی مدارس کی بڑی تعداد ہے جہاں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران خواتین کے داخلوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ دینی مدارس کی طرف سے ریاست پر کیے جانے والے انحصار نے، بنگلہ دیش میں عالیہ مدارس میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران ثانوی اسکولوں میں خواتین کے اندراج میں بڑا اضافہ کیا ہے۔
تاریخی طور پر، بنگلہ دیش میں زیادہ تر مدارس مردوں کے لیے تھے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل تک،بنگلہ دیش میں لڑکیوں کے تعلیمی اندراج کی مجموعی سطح انتہائی کم تھی۔اُس وقت تک ثانوی سطح پر مدارس کے اندر خواتین کے اندراج کی شرح 7.7 فیصد تک تھی۔ 1994 میں ’فیمیل سیکنڈری سکول سکالرشپ پروگرام‘ (FSSSP) کے متعارف کرانےکے بعد، حکومت نے طالبات کے لیے عالیہ مدارس کھولنے کی ترغیب دی اور ان کے لیے مالی مراعات کا اعلان کیا۔محض ایک دہائی کے اندر ہی پانسہ پلٹ گیا، اور 2008 تک، حکومت کے ساتھ اندراج شدہ ثانوی مدارس کے طلبہ میں سے تقریباً نصف لڑکیاں تھیں۔ اسی عرصے کے دوران، ’فیمیل سیکنڈری سکول سکالرشپ پروگرام‘ (FSSSP) کی وجہ سے، رجسٹرڈ مدارس میں خواتین اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف خواتین کے اندراج کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، بلکہ آج رجسٹرڈ پرائمری دینی مدارس میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ ہیں ۔ یہاں تک کہ غیر رجسٹرڈ شدمدارس میں بھی، 24% داخلہ لینے والی لڑکیاں ہیں۔
مدارس کے اندر صنفی مساوات کا ایسا ہی رجحان انڈونیشیا کے معاملے میں بھی دیکھا گیا ہے۔ تمام تعلیمی درجات میں، ریاست کے ساتھ رجسٹرڈ رمدارس میں صنفی برابری واضح ہے، بلکہ اعلیٰ اورثانوی تعلیمی درجات میں، لڑکوں کی تعداد لڑکیوں کے مقابلے میں کم ہے۔
ملائیشیا میں بھی ریاست کی طرف سے تسلیم شدہ دینی مدارس میں بھی اسی طرح کا رجحان نظر آتا ہے۔ پرائمری اور ثانوی دونوں سطح پر صنفی توازن موجود ہے۔ تاہم، غیررجسٹرڈ شدہ روایتی دینی مدارس میں صنفی حوالے سے تناسب کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے ،کیونکہ یہ مدارس زیادہ تر کوئی واضح ریکارڈ یا ڈیٹا نہیں رکھتے۔
مدارس کا خواندگی اور خواتین کی سماجی فعالیت پر اثر
اگرچہ دینی مدارس میں تعلیم تک رسائی لڑکیوں کو بااختیار بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اصل میں بہت کچھ مدارس میں فراہم کی جانے والی تعلیم کی نوعیت اور ساخت پر منحصر ہے۔تاہم،مجموعی نتائج کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ثانوی سطح کے دینی مدارس میں لڑکیوں کے بڑھتے ہوئے اندراج نے ایشیا کے قدامت پسند علاقوں میں خواتین کی نقل و حرکت پر سماجی پابندیوں کو کم کرنے میں مدد دی ہے۔ اس طرح، مدارس کا سماجی اثرمحض خواندگی کے درجے سے کچھ آگے بڑھ جاتا ہے، کیونکہ پردے میں ہونے کے باوجود، معاشرے میں خواتین کی نقل وحرکت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔دوسری طرف، ایک اورمختلف پہلو یہ ہے کہ خواتین کو اپنی ذاتی پسند سے ماورا مخصوص لباس قبول کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے،جو ایک روایتی پدرانہ سماجی ڈھانچے کومضبوط بنانے کی شکل ہے۔اس کے ساتھ ہی کئی مدارس اس پر بھی زور دیتے نظر آتے ہیں کہ خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی گھرداری کو ترجیح دیں۔
جنوبی ایشیا کے مقابلے، جنوب مشرقی ایشیا میں تعلیمی سطح پر صنفی عدم مساوات کم ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں صنفی تناسب متوازن ہے اور ہندوستان اور پاکستان میں یہ توازن کافی متأثر ہے۔ دینی مدارس کے پھیلاؤ اور ان کی پالیسیوں میں علاقائی تغیرات اور حالات کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، غریب اور کمزور معاشروں میں،دینی مدارس خواتین کےاسکولوں کی محدود تعداد کے چیلنج پر قابو پانے میں مدد کرتے اور متبادل بنتے ہیں۔چونکہ بہت سے علاقوں میں ان مدارس کی تعداد کم ہے،سہولیات موجود نہیں،توان کی محدود مالیاتی صلاحیت کے پیش نظر، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں بھی ان مدارس کے ساتھ حکومتی اورنجی اداروں کی شراکت داری کی وکالت کی ہے، تاکہ ان علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی کو بڑھایا جاسکے۔
بہت سے ایشیائی ممالک کی حکومتوں نے پسماندہ کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والی خواتین تک رسائی کے لیے غیر ریاستی اداروں اور نمائندگان کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ان کے ساتھ شراکت داری قائم کی ہے۔ آج،بہت سی جگہوں پر مدرسہ نظام تعلیم کے حصول کے لیے کم لاگت کے پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے اور مسلم اکثریتی ممالک میں شرح خواندگی میں صنفی مساوات کو بہتر بنانے کا سبب ہے۔ تاہم اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ شراکت داری کی پالیسی میں خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات اور کام کرنے کے حوالے سے امکانات کو بڑھایا جائے۔
پاکستان اور افغانستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک کی طرح، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے بڑے ممالک میں بھی مدارس بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ نسبتا دیکھا جائے تو ملائیشیا جیسے ممالک میں، ان کی موجودگی اگرچہ ہے، مگر محدود ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا،تو ایسی دو بڑی کامیاب مثالیں ہیں کہ جہاں ریاستی شراکت داری کے ساتھ مدارس کے پلیٹ فارم سے پرائمری اور ثانوی تعلیم میں صنفی فرق کو کم کیا گیا ہے۔ ایشا کے کئی علاقوں میں جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے اورکچھ جگہوں پر سرکاری اسکولوں کی تعداد کم ہوتی ہے، تو وہاں خواتین کی بنیادی تعلیم کے لیے مدارس ایک اہم متبادل ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ایسے ہی،ایشیاکے جن ممالک میں سرکاری اسکولوں کا معیار تسلی بخش نہیں ہے، وہاں بھی دینی مدارس ایک نمایاں متبادل ہیں،جو نہ صرف پدرسری مزاج کے خلاف نہیں ہیں اور لوگ ان پر اعتماد کرلیتے ہیں۔
البتہ اعدادوشمار اور رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ غیررجسٹرڈ مدارس میں صنفی مساوات کا تناسب رجسٹرڈ مدارس کے مقابلے میں کم ہے۔ایک تو اس لیے کہ ان کے پاس سہولیات کم ہیں، اور ان کے پاس خواتین اساتذہ کی مناسب تعداد بھی نہیں ہوتی۔ تعلیم وتدریس کے لیے اساتذہ کی بہتر تربیت کی کمی بھی ایک وجہ ہے، اور اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ غیررجسٹرڈ مدارس میں صنفی تعصب پر مبنی نصاب شامل ہوتا ہے۔جبکہ مڈل کلاس خواتین کودینی روایات کے مطابق پڑھانی بھی چاہتی ہے اور صنفی تعصب کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔یہ رجسٹرڈ مدارس وہ ہیں جو حکومت کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں، جیساکہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں۔اگر دینی مدارس میں اساتذہ خواتین ہوں، اور سہولیات بھی اچھی ہو تونتائج سے ثابت یہ ہوا ہے کہ اس سے صنفی تعلیم کے فرق کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
[1] اگرچہ ابھی وقت کے ساتھ کچھ تبدیلیاں رونما رہی ہیں، لیکن مجموعی حیثیت میں وہاں تعلیمی شعبے میں اختلاط عام نہیں ہے۔