ترکی مسلم دنیا میں ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کمال اتاترک نے ملک سے مذہبی تعلیم کو مکمل طور پہ ختم کردیا تھا۔ بعد میں اگرچہ امام خطیب کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مخصوص اسکول کھولے گئے تھے، مگر وہ کافی وقت تک غیرمؤثر رہے۔یوں عملی طور پہ ملک کے اندر لوگ کسی باقاعدہ منظم مذہبی ادارے سے کئی دہائیوں تک محروم رہے،البتہ اکیسویں صدی کی شروعات سے بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور سرکاری سرپرستی میں دینی علوم واداروں کو فروغ ملا ہے۔ اس مضمون میں ترکی کی موجودہ مذہبی تعلیمی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
خلافت عثمانیہ کےسقوط کے بعد ترکی کا تعلیمی ڈھانچہ مکمل طور پہ سیکولر کردیا گیا تھا۔کمال اتاترک نے تعلیمی شعبے میں جو چند اموراختیار کیےوہ درج ذیل ہیں،ان کے ذریعے ترکی کے نظام تعلیم کی ترقی کے مدارج کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
- تعلیمی نظام کو بڑے پیمانے پر تبدیل کیا گیا اور سائنسی علوم کوخاص طور پر شامل نصاب کیا گیا۔
- ریاست نے تعلیمی نظام کو مکمل طور پہ اپنے کنٹرول میں لے لیا اور نظام تعلیم کو ریاستی حیثیت میں ریگولیٹ کیا گیا۔
- تعلیمی نظام میں طبقاتی فرق کو ختم کیا گیا اور تمام لوگوں کے لیے یکساں معیار تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔
- نصاب کے بنیادی اصول ریاست کی طرٖف سے متعین کیے گئے تاکہ فکری و نظریاتی اعتبار سے ریاست مخالف فکر پروان نہ چڑھ سکے۔
- نصاب ِتعلیم بنیادی طور پر نیشنلزم کی سوچ کو پروان چڑھاتا تھا۔
- کسی بھی طرح کافکری اور مذہبی نصاب جو ایک سیکولر ریاست کے منافی ہو اس پر بابندی عائد کر دی گئی۔
آئین میں تعلیم
ترکی کے آئین میں درج ہے کہ:
Compulsory education is free for every citizen
یعنی ضروری تعلیم ہر شہری کے لیے مفت ہے،ترکی میں موجودہ حکومتی قوانین کے مطابق Compulsory educationمیں آٹھ سالہ پرائمری ایجوکیشن اور چارسالہ سیکنڈری ایجوکیشن شامل ہے،یہ بارہ سالہ تعلیم ہر شہری کو حکومت کی طرف سے مفت دی جاتی ہے،ترکی میں ریاستی سطح کے اسکولوں میں تعلیم مفت ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی اعلی تعلیم ہر شہری کے لیے مفت ہے ،نیز اپنے شہریوں کے علاوہ ترکی میں ہر سال بین الاقوامی طلباء کے لیے بھی ایک ا سپیشل اسکالر شپ کا اعلان کیا جاتا ہےجس میں ان کے لیے معیاری تعلیم ،قیام وطعام کی سہولتوں کے علاوہ معقول وظیفہ بھی دیا جاتا ہے،گویا ابتداء سے لیکر انتہائی درجے تک ہرسطح پر تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے ترکی میں 79غیرمنافع بخش ادارےقائم کیے گئے ہیں ،ترکی میں سرکاری یونیورسٹیوں سمیت کئی ایک فاؤنڈیشن یونیورسٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں جن کا مقصد ترکی کے شہریوں کو مفت تعلیم دینا ہے۔
ترکی کا معاصر تعلیمی ڈھانچہ
ترکی کا نظام تعلیم ریاست کے ماتحت ہے جس کے لیے ایک وزارت تشکیل دی گئی ہے ،اسے( Ministry of National Education) کہا جاتا ہے۔ اس وزارت کا کام ترکی میں تعلیمی نظم کو قائم رکھنے ، نصاب تعلیم ، تعلیمی رجحانات کا جائزہ لینے ، تعلیمی نظام اور نصاب میں عصرحاضر کے اتبارر سے تبدیلیاں کرنے،قوانین کی تشکیل،انکا اجراء اور ایسے ہی دیگر دوسرے تعلیمی امور کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
ترکی میں ہر فرد کا خواندہ ہونا ضروری ہے،یہ ممکن نہیں کہ ترکی کاکوئی شہری غیر تعلیم یافتہ رہ جائے۔6سال سے 11سال کی عمر کےہر بچے کوتعلیمی نظم کا حصہ ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ ریاستی سطح کے اسکولوں میں تعلیم مفت دی جاتی ہے ۔
ابتدائی تعلیم:
اسے کنڈر گارڈن بھی کہا جاتا ہے،اس کی تعلیم چھ سال سے کم عمر کے بچوں کو دی جاتی ہے تاکہ ان میں ابتداہی سے تعلیمی نظام کا حصہ بننے کی استعداد پیدا ہو سکے۔
پرائمری ایجوکیشن:
چھ سال سے چودہ سالتک کے بچے پرائمری ایجوکیشن کے دائرے میں آتے ہیں ،اسکی ابتدا پہلی جماعت سے مڈل تک ہوتی ہے جہاں طالب علم بنیادی سطح کی تعلیم میں مہارت حاصل کرتا ہے۔اس کا دورانیہ آٹھ سال کا ہوتا ہے۔
سیکنڈری ایجوکیشن:
چار سال کی جنرل سیکنڈری ایجوکیشن ہے۔اس میں پندرہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کےطلباء وطالبات شامل ہوتے ہیں ،سیکنڈری ایجوکیشن میٹرک اور انٹر کی ح ک تک کی تعلیم فراہم کرتی ہے۔
پرائمری اور سیکنڈری کی یہ بارہ سالہ تعلیم ترکی میں لازمی تعلیم کے طور پرقانون کا ایک حصہ بنایا گیا ہے۔یہ تعلیم حاصل کرنا ہر شہری پر لازم ہے ۔
ہائیر ایجوکیشن:
ترکی میں ہر قسم کی اعلی تعلیم یونیورسٹیوں میں ہی دی جاتی ہے، اعلی تعلیمی نظامCouncil of Higher Education Commissionکی سرپرستی میں چلتاہے،صرف بعض انسٹیٹیوٹ ایسے ہیں جو براہ راست وزارت دفاع کے ماتحت تعلیمی عمل میں مصروف ہیں ،ترکی میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کے ساتھ کئیFoundation Universitiesبھی سرگرم عمل ہیں۔
تعلیم کی اسلامائزیشن
صدر طیب اردگان کی آمد کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر اصلاحات ہوئی ہیں اور تعلیمی نظام میں اسلامی عنصر کو شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ترکی کی مذہبی روایت کا احیا ء ہو سکےاور ترکی کو اس اسلامی مز اج سے قریب کیا جا سکے جو ترکی کی قدیم اسلامی روایت رہا ہے ۔اس حوالے سے نچلی سطح پر مذہبی اسکولوں کے قیام سے لے کر اعلیٰ سطح کے تعلیمی درجات تک اس بات کا خاص خیال رکھا جا رہاہے کہ ترکی میں اسلامی فکری تعلیمی نظام کے راستے دوبارہ پروان چڑھ سکے۔
پروفیسر مصطفیٰ،پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف استنبول کے تعارفی صفحے پر ترکی میں اعلیٰ تعلیمی سطح پر اسلامی تعلیم کا نقشہ کچھ یوں پیش کرتے ہیں:
The Islamic and Religious Studies Program focuses on Islamic Studies with extensive instruction in Arabic. The language of instruction is Arabic (at least 30%) as well as Turkish and 50% of the curriculum of the undergraduate program is taught in Arabic by native Arabic speaking academic staff. Therefore, students registered in these programs are required to take Arabic preparatory classes. Those who successfully complete all 6 levels of Arabic courses are rewarded with an educational trip to Jordan, where they take further Arabic courses at the University of Jordan to improve their Arabic language skills as well as attending some other courses related to their programs for a period of two-three months.
صدر اردگان کی آمد کے بعد بڑے پیمانے پر ترکی کے تعلیمی نظام کو اسلامائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سیکولر دور کے اثرات کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ترکی کہ ہاں بدیع الزماں نورسی جیسی عظیم علمی شخصیات پیدا ہوئیں،جن کی کی گئی محنت سے ترکی دوبارہ سے اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے ۔
امام حاطب اسکولوں کی تاریخ
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی کی نئی جمہوری حکومت نے تھوڑے سے عرصے میں ہی تمام مدارس دینیہ کو بند کروایا اور بہت سارے علماء کو جیل خانوں میں اور اسی طرح کئی اہم بڑے علماء کوملک بدر کردیا۔البتہ اسی حکومت کے زمانے میں ہی کچھ عظیم شخصیات نے انفرادی طور پر امر بالمعروف اور درس و تدریس کا فریضہ خفیہ طور پر جاری رکھا۔ ان شخصیات میں سے استنبول کے شیخ محمود آفندی کا نام سرفہرست ہے اس کے علاوہ بدیع الزماں سعید نورسی کی ’’رسالہ نور‘‘ کے نام سے تحریک نے بھی دینی خدمات کو جاری رکھا۔ ترکی میں اس خفیہ طریقے سے اسلام کے کام میں کئی سال گزر گئے۔ چونکہ ترکی کی اس سرزمین پر تقریباً ساڑھے چھ سوسال تک خلافت عثمانیہ کے قیام کی وجہ سے اور اسی طرح بعض اہل علم کی انفرادی محنتوں کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں میں اسلام کے ساتھ قلبی لگاؤ کی تھوڑی سی رمق باقی تھی۔ اس وجہ سے نئی جمہوری حکومت نے مدارس کی جگہ دینی تعلیم کے لئے امام ہاتب(امام خطیب) مکاتب کے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس نظام تعلیم کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ مذہبی ذہن رکھنے والے لوگ انہی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں تاکہ یہ آگے حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے اہل نہ ہوں۔ چنانچہ 1924ء میں ترکی کی پارلیمنٹ میں توحیدی تدریسات کے نام سے ایک قانون پاس کروایا گیا۔ اس طرح سے ترکی میں امام خطیب مکاتب کی ابتداء کی گئی۔
لیکن بدقسمتی سے ان مکاتب میں ابتداء معیاری تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کا رجحان ان کی طرف بہت کم رہا جس کی وجہ سے 1930ء میں ان مکاتب اور سکولز کو بند کیا گیا۔ 1950ء تک یعنی 20 سال تک یہ مکاتب بند رہے۔ البتہ 1951ء سے دوبارہ نئے سرے سے ان کا آغاز امام ہاتب سکول کے نام سے کیاگیا۔ 1970ء تک یہ سکول مڈل لیول تک چلتے رہے پھر بعد میں ان سکولز کو ترقی دیتے ہوئے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ ابتدائی سالوں میں کالج سے فارغ ہونے والے طلبہ اور طلبات کو یونیورسٹی میں داخلے کے لئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے کہ یونیورسٹی گرانٹس آف کمیشن کے ہاں امام خطیب سکول کی ڈگری قابل ققبول نہ تھی۔ لیکن 1980ء میں امام خطیب کالجز کے طلباس کا یہ مسئلہ بھی ختم ہوا۔ اس کے بعد سے طلبہ تاحال یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں داخلےے لے رہے ہیں۔
امام حاطب اسکولوں کا نصاب
امام حاطب سکولوں سے فارغ ہونے والے طلباء چونکہ ترکی کی مساجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں چونکہ ترکی کی اکثر مساجدحکومت کی زیر نگرانی میں ہیں۔ اس لیے اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سکولوں اور کالجوں کا نصاب مرتب کیا گیا ہے۔ ابتدا میں نصاب تقریباً نوے فیصد دینی مضامین پر مشتمل تھا جس میں قرآن، حدیث، فقہ، سیرت، عقائد، تاریخ، عربی وغیرہ سامل تھیں۔ لیکن ترکی کے حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کے نصاب میں تبدیلیاں بی کی جاتی رہیں۔ اب موجودہ صورت حال میں تقریباً ساٹھ فیصد عصری علوم اور چالیس فیصد دینی علوم شامل نصاب ہیں۔ یہ طلبہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیک وقت مسجد میں امام و خطیب، ہسپتال میں ڈاکٹر، عدالت میں جج اور کرسی اقتدار پر صدر اور وزیراعظم بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردوان بذات خود بھی اسی سکول سسٹم کے فارغ التصیل ہیں۔ انہوں نے 1973ء میں استنبول کے ایک امام خطیب کالج سے میٹرک پاس کیا ، وہاں سے ہی قرآن حفظ کیا، تجوید پڑھی اور علوم دینیہ حاصل کیے۔اسی نظام تعلیم نے انہیں اسلام سے حقیقی لگاؤ عطا کیا جس کانتیجہ آج ہم ترکی میں اسلام کی بڑھتی ہوئی محبت اور دینی حمیت و غیرت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
عصر حاضر میں یہ سکول تین تعلیمی مراحل میں کام کررہے ہیں۔ پہلا مرحلہ پرائمری تک اور دوسرا مڈل اور تیسرا کالج تک ہے۔ ان تین طرح کے سکولوں اور کالجوں میں مخلوط تعلیمی نظام ہے۔ جس میں طلبہ اور طالبات ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ البتہ کالج کی سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاس رومز الگ الگ ہوتے ہیں۔ لیکن چند سالوں سے کالج کی سطح پر اب لڑکیوں کے لیے جگہ جگہ امام ہاتب کالجز بھی قائم کیے گئے ہیں جس میں صرف لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ ان اداروں کی اہم حصوصیات یہ ہیں کہ ان سے ان سے فارغ ہونے والے طلبہ اور طالبات چاہے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اس کو قرآن اور حدیث کی بنیادی احکام اور مسائل کا علم ضرور ہوتا ہے۔ ترکی میں اس وقت چالیس ہزار سے زائد ایسی مساجد ہیں جو وزارت مذہبی امور کے زیر انتظام چل رہی ہیں ان کے نوےہزار کے لگ بھگ ائمہ و خطباء اور خدماءانہی کالجوں اور یونیورسٹی کی شعبہ الہیات سے فارغ التحصیل ہیں۔ امام خطیب سکولز میں پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کی تعداد میں ہر آنے والے سال میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ چنانچہ ایک تحقیق کے مطابق امام ہاتب سکولز میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد2002ء میں 71 ہزار تھی۔ 2012ء میں 94 ہزار 461 ہوئی جبکہ 2017ء میں 657 ہزار ہوگئی۔ اس وقت اس نظام تعلیم میں پڑھنے والے طلبہ کی کل تعداد 1 ملین 2 لاکھ 91 ہزار ہے۔ جبکہ صرف امام ہاتب کالجز میں اس وقت کل طلبہ اور طالبات کی تعداد 6 لاکھ 60 ہزار 406 ہے۔ جس میں 3 لاکھ 80 ہزار لڑکیاں ہیں۔ دراصل پچھلے دس سالوں سے امام ہاتب کالجز میں لڑکیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔اس کی ایک بنیادی وجہ موجودہ حکومت ہےکیونکہ طیب اردوان نے ہی سکارف اوڑھنے اور نقاب پر پابندی ختم کی جس کی وجہ سے لڑکیوں کا رجحان زیادہ ہوا۔ اس کے علاوہ چونکہ اس نظام تعلیم میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی تعلیم بھی دینی ماول میں رہ کر پڑھائی جاتی ہے اس وجہ ے بھی لڑکیوں کا رجحان زیادہ ہے۔
امام حاطب کالجز کی خصوصیات
اس نظام تعلیم کی بعض خصوصیات درج ذیل ہیں:
اس نظام تعلیم میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام کی بنیادی تعلیم ایک منظم اسلوب کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔
ان سکولز اور کالجوں میں غریب طالبات کو دوپہر کا کھانا مفت دینے کے علاوہ سکول تک آنے جانے کا کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔
ان کالجز کا سیکیورٹی نظام بہت سخت ہے چنانچہ سکول میں داخل ہونے کے بعد چھٹی تک کالج کے گیٹ سے بغیر اجازت نکلنا ناممکن ہے ۔ البتہ پرنسپل کے آفس سے اجازت ملنے کے بعد ضرورت کے لیے باہر جاسکتی ہیں ۔
سب سے اہم چیز جس کی وجہ سے آج کل پڑھائی میں کافی خلل آتا ہے وہ موبائل فون ہے لیکن ان کالجز میں طالبات کے لیے صبح 8 بجے سے دوپہر بجے تک موبائل فون استعمال کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ کالج میں موبائل فون کے لئے الگ الماریاں بنائی گئی ہیں جہاں پر سب طالبات موبائل رکھتی ہیں پھر 3 بجے چھٹی کے بعد ساتھ لے کر جاتی ہیں۔
ان کالجز میں عملی طور پر وعظ اور خطابت کی تعلیم بھی دی جاتی ہے تاکہ کل معاشرے میں مفید فرد کی حیثیت سے آگے دین کاکام کرسکیں۔
ترکی میں اس وقت بیس ہزار سے زائدایسی مساجد ہیں جو وزارت مذہبی امور کے زیراہتمام چل رہی ہیں ان کے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ائمہ وخطبا انہی سکولز اور یونیورسٹی کی الہیات فیکیلٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ترکی کی وزارت دیانت ائمہ وخطبا ء انہی یونیورسٹی کی الہیات فکیلٹی سے ڈگری لینے والوں کو ترجیح دیتی ہے ۔ ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت ترکی میں ۳۰۰۰۰ امام خطیب سکول قائم ہیں ۔جن میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔
ترکی میں ایردوآن حکومت میں کی جانے والی تعلیمی اصلاحات کے بعد مذہبی اسکولوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت قومی تعلیم کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں مڈل تک کی تعلیم دینے والے ایسے اسکولوں کی تعداد ایک ہزار ننانوے سے بڑھ کر تین ہزار دو سو چھیاسی ہو چکی ہے، جب کہ امام خطیب نامی مذہبی مدرسوں کی تعداد پانچ سو سینتس سے بڑھ کر سولہ سو پانچ تک جا پہنچی ہے۔ اس وقت ترکی میں مجموعی طور پر مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد چھ لاکھ بیس ہزار ہے۔
مذہبی اسکولوں سے متعلق عوامی رائے
امام حاطب اسکولز(Imam Hatip Schools)سے متعلق ترکی کے عوام میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں، سیکولرذہنیت کے حاملین اس نظام کی سخت مخالفت کرتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بچوں کو سر پر اسکارف ، اورڈھیلا ڈھالالباس پہننا پڑے گا ،یہ نظام ہمیں پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہےحالانکہ ہم اپنے بچوں کو سیکولرازم کے اصولوں پر تعلیم دینا چاہتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف مذہبی سوچ کے حاملین اس طرز تعلیم سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ اس نظام کے قیام پر انتہائی خوش دکھائی دیتے ہیں،ان کے بقول ترکی ایک اسلامی ملک ہے اور ان کے باسیوں کو اسلامی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے جس کوImam Hatip Schoolsانتہائی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔
قرآن کورس(دارالقرآن) کے نام سے قائم کئے گئے ادارے
ترکی میں ایک طویل عرصے تک قرآن کی تعلیم نہ ہونے برابر تھی لیکن اب طیب اردوان کی کوششوں سے ایک مرتبہ پھر قرآن کریم کی تعلیم کے لیے ہر شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں مراکز قائم کئے گئے جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان مراکز کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
قیصری شہر ترکی کا پانچواں بڑا شہر ہے اس کی آبادی تقریباً 2 ملین ہے۔ اس شہر میں سرکاری طور پر قرآن کورسس کے نام سے جگہ جگہ پر 450 ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ ان اداروں میں ہر سال بچوں اور بچیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
یہ ادارے دو قسم کے ہیں اکثر اداروں میں ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ بعض اداروں میں جن کی تعداد 15 ہے قرآن کریم کے حفظ کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ان میں سے 15 ادارے لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ خاص ہیں۔ قرآن کورسس کے نام سے قائم کئے گئے اداروں میں پڑھانے والے اکثر خواتین ہیں جوکہ امام ہاتب کالجز یا پھر جامعات سے شعبہ علوم اسلامیہ میں ایم اے تک تعلیم مکمل کی ہوتی ہے۔ ان اداروں میں ترکی کی دیگر سرکاری اداروں کی طرح تعلیم اور کتابیں وغیرہ بغیر کسی اجرت کے دی جاتی ہیں۔ ان میں قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ قرآن کریم حفظ کرنے والی طالبات کے لئے ان اداروں میں کھانے پینے اور رہائش کا انتظام حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔ قرآن کریم حفظ کرنے والی طالبات صبح کے اوقات میں دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئے سکولز اور کالجوں میں جاتی ہیں جبکہ دوپہر کے بعد رات تک قرآن حفظ کرتی ہیں۔ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد وفاقی مذہبی امور کے زیر نگرانی ادارہ امور دیانت کی طرف سے ان کو سندات دی جاتی ہیں۔