ایک وقت تھا کہ سعودی عرب کے تعلیمی نظام کو ایک مذہبی نظام کے طور پہ دیکھا جاتا تھا۔ مسلم ممالک میں بھی تعلیم کی سطح پر صرف وہ جامعات معروف تھیں جو مذہبی تعلیمی ڈگریوں کے حوالے سے مشہور تھیں۔ لیکن اب ملک کا نقطہ نظر تبدیل ہوا ہے۔اکتوبر 2017 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا وہ اپنی ریاست کو جدید اسلام کی جانب موڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا عالمی دنیا ان کے اس اقدام میں ان کا ساتھ دے اور ایک سخت گیر معاشرے کو بدل کر سماج کو آزادانہ بناتے ہوئے شہریوں کو بااختیار بنانے اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھانے کے لئے ان کی کوششوں کی حمایت کرے۔اس ضمن میں تعلیم اور خصوصا مذہبی تعلیم میں خوب اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مضمون میں سعودی عرب کے مذہبی تعلیمی ڈھانچے اور اصلاحات پر نظر ڈالی گئی ہے۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
سعودی عرب کے دستور میں تعلیم کے مقاصد اور مذہب کی اہمیت
سعودی عرب میں مذہب کو ایک ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس کی وجہ اس کا ایسی سرزمین ہونا ہے جہاں مسلمانوں کے لیے مقدس ہے۔اور سعودی عرب میں بھی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں مذہب کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔یوں تعلیم بھی منطقی طور پہ اس سے متأثر رہی۔سعودی عرب کے آئین میں تعلیم کے مقاصد میں بھی مذہب شامل ہے۔
آئین کی دفعہ 13میں مقاصد تعلیم اس طرح درج ہیں:
’’نئی نسل کے دلوں میں اسلامی عقدے کی تزکیز وآبیادی، اسے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے امداد مہیا کرنا او راسے اس طرح تیار کرنا کہ وہ اپنے معاشرے کی تعمیر میں نفع بخش ثابت ہو، اپنے وطن سے محبت اور اپنی تاریخ پر فخر کرے۔‘‘
ایسے ہی آئین کی دفعہ 23 میں حکومت کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ مذہب اور مذہبی اقدارکاسماجی سطح پر تحفظ کرے گی:
’’حکومت، عقیدہ اسلام کی حفاظت اور شریعت اسلامیہ کو نافذ کرے گی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے گی اور دعوت الی اللہ کا اہتمام کرے گی۔‘‘
اوردفعہ 11 میں معاشرت کو اسلامی اقدار پر قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے:
’’سعودی معاشرے کا قیام اس اساس پر ہوگا کہ اس کے تمام افراد اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، نیکی او رپرہیزگاری کے اصولوں پر ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں او رتفرقہ سے اجتناب کریں۔‘‘
جدید سعودی عرب میں تعلیم
1932ء میں مملکت سعودی عرب کے قیام کے وقت ہر باشندے کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی اور شہری علاقوں میں مساجد سے ملحق مدارس میں تعلیم کی محدود اور انفرادی کوششیں ہورہی تھیں۔ ان مدارس میں اسلامی اور دینی تعلیم سکھائی جاتی تھی تاہم گذشتہ صدی کے اختتام تک سعودی عرب ایک قومی تعلیمی نظام کا حامل ملک ہے جس میں تمام شہریوں کو اسکول سے قبل سے لے کر جامعہ کی سطح تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ جدید سعودی تعلیمی نظام جدید اور روایتی تجربہ و شعبہ جات میں معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم سعودی نظام تعلیم کا بنیادی خاصہ ہے۔ سعودی عرب کا مذہبی تعلیمی نصاب دنیا بھر کے مدارس اور اسکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔
جدیدسعودی عرب میں باقاعدہ بنیادی تعلیم کا آغاز 1930ء کی دہائی میں ہوا۔ 1945ء میں شاہ عبدالعزیز السعود نے مملکت میں اسکولوں کے قیام کے لیے ایک جامع پروگرام کا آغاز کیا۔ 6 سال بعد 1951ء میں مملکت کے 226 اسکولوں میں 29 ہزار 887 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ 1954ء میں وزارت تعلیم کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے وزیر شہزادہ مہروز بن عزیز بنے۔ سعودی عرب کی پہلی جامعہ شاہ سعود یونیورسٹی 1957ء میں ریاض میں قائم ہوئی۔
آج سعودی عرب کا قومی سرکاری تعلیمی نظام ، 24 ہزار سے زائد اسکولوں اور ہزاروں کالجوں اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں پر مشتمل ہے۔ اس نظام کے تحت ہر طالب علم کو مفت تعلیم، کتب اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مملکت کے سرکاری میزانیہ کا 24 فیصد سے زائد تعلیم کے لیے مختص ہے۔ سعودی عرب میں طالب علموں کو اسکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک بھی بھیجا جاتا ہے جن میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، ملائیشیا جرمنی اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
سعودی عرب میں 1956 تک خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔مگر اب انہیں خلا میں بھیجا جا رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں تعلیم سے خواتین کی محرومی کا دور 1950 کی دہائی تک جاری تھا لیکن جس کا سبب مذہب نہیں تھا بلکہ ثقافت تھی۔قابل غور بات یہ ہے کہ یہ اس وقت ختم ہونا شروع ہوا جب پڑھے لکھے متوسط طبقے کے مردوں کے ایک گروپ نے شاہی خاندان سے لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کرنے کی درخواست کی۔ ان مردوں کا خیال تھا کہ تعلیم یافتہ بیویاں خاندان اور ازدواجی زندگی کو ہم آہنگی کو بہتر طریقے سے بڑھاتی ہیں۔ سعودی خاتون اسکالر سارہ یزرائیلی کے مطابق خواتین کے لیے پہلا سرکاری فنڈ سے چلنے والا اسکول 1960 میں کھولا گیا تھا۔
اب صورتحال کتنی بدل چکی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2022 میں سعودی عرب میں خواتین کارکنان کی افرادی قوت میں شرکت 37 فی صد تک پہنچ گئی تھی،جو ظاہر ہے کہ تعلیمی انقلاب کا نتیجہ ہے۔جب2009میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون وزیر کو چنا اور نورہ بنت عبد اللہ الفایز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا تو پہلی بار ٹھوس قدم کا اشارہ ملا تھا۔اسی طرح،ڈاکٹر لیلک الصفدی کو سعودی الیکٹرونک یونیورسٹی کی وائس چانسلر مقرر کیا گیا تو اس بات کا پیغام تھا کہ سعودی عرب میں اب سب کچھ بدل رہا ہے۔ڈاکٹر لیلک الصفدی پہلی خاتون ہیں جو سعودی عرب کی ایسی یونیورسٹی کی صدر نشین بنی ہیں جہاں طلبہ وطالبات دونوں زیر تعلیم ہیں۔ شاہی فرمان کے ذریعے یونیورسٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ڈاکٹر لیلک الصفدی امتیازی تعلیمی قابلیت کی حامل شخصیت ہیں۔
وژن 2030 اور تعلیمی انقلاب
سعودی عرب کے تعلیمی منہج میں ایک طویل عرصے تک مذہب کا اثرو رسوخ بہت زیادہ رہا ہے۔بلکہ مسلکی اعتبار سے وہابیت کو فروغ ملا۔لیکن اب سعودی عرب تبدیل ہو رہا ہے۔ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں 1979میں ایران میں شیعہ اسلام کے انقلاب کو تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے ان کی ریاست میں سخت گیر وہابیت کا نفاذ ہوا اور پچھلی تین دہائیوں سے ان کا ملک ایک’نارمل ‘ معاشرہ نہیں رہا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سابقہ سعودی حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے ۔
موجودہ حکومت نے تعلیم پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ سعودی عرب کا تعلیمی بجٹ 53.4 بلین ڈالر ہے جو مسلمان ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں خواندگی کا تناسب 99 فیصد ہے جس میں مردوں کا تناسب 96 فیصد اور خواتین کا تناسب 91.73 فیصد ہے۔ سعودی عرب کے شعبہ تعلیم کے بارے میں دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرائمری اسکول میں جانے والے بچوں کی تعداد 3.8 ملین، سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 1.8 ملین اور اعلیٰ تعلیم کے مختلف شعبوں میں زیر ِ تعلیم طلبہ کی تعداد 3.6 ملین بتائی گئی ہے۔
سعودی عرب کی چودہ جامعات کو 2022 کی عالمی بہترین جامعات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے سال کی فہرست میں اس کی صرف 10 جامعات ٹائمز کی درجہ بندی میں شامل تھیں۔
جامعہ شاہ عبدالعزیز سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں 1967ء میں قائم کی گئی تھی۔اس کو ٹائمز کی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں 190ویں نمبر پر رکھا گیا ہے اور یہ مشرقِ اوسط کے خطے کی تمام جامعات میں سب سے آگے ہے۔
سعودی عرب نے 160 ممالک کے طلبہ کی سہولت کے لیے ’ادرس فی السعودیہ‘ (سعودی عرب میں تعلیم حاصل کریں) کے عنوان سے پلیٹ فارم متعارف کرایا ہے۔ وزارت تعلیم اس کے تحت مختصر اور طویل المدتی تعلیمی ویزے جاری کرتی ہے۔
اسی طرح کنگ عبداللہ یونیورسٹی فارسائنس اینڈ ٹکنالوجی قائم کی گئی ہے ۔ جس میں امریکہ ،برطانیہ اور ملایشیا کے اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جنہیں بہت بڑی رقم ادا کی جارہی ہے۔
تعلیم اور انتہاپسندانہ نظریات
سعودی عرب نے نائن الیون کے بعد سے کئی مرتبہ اس امر کا اظہار کیا ہے کہ وہ تعلیم سے متشدد افکار کو ختم کررہا ہے۔سعودی عرب کے سابق وزیر تعلیم احمد العیسیٰ نے 2018ء میں اپنے ایک پیغام میں کہا تھا ’’وزارت تعلیم انتہاء پسندانہ نظریات سے لڑنے کے لیے نصابی کتب میں تبدیلیاں لانے پر کام کر رہی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تعلیمی نصاب پر کالعدم اخوان المسلمون کا اثر ختم کیا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا تھا، ’’یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں اس طرح کی تمام کتب پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور اس گروپ سے ہمدردی رکھنے والوں کو ان کے عہدوں سے بھی برطرف کر دیا جائے گا‘‘۔ تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ اخوان المسلمون سے رابطے رکھنے والے تمام مشتبہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گا۔ مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومتی ناقدین کے خلاف یونیورسٹیوں میں بھی آپریشن کیا جائے گا۔
بہت سے تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ سعودی عرب میں آنے والی تبدیلیاں اس کی خارجہ پالیسی میں بھی جھلکتی ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے بارے میں سعودی عرب کی عدم دلچسپی اس کی بدلتی ہوئی اسی پالیسی کی طرف اشارہ ہے۔ حالانکہ 1996ء میں سعودی عرب ان تین ملکوں میں سر فہرست تھا، جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ سعودی حکومت کو اس سلسلے میں نہ فقط عالمی سطح پر اخوان المسلمین اور دیگر مزاحمتی قوتوں کی تنقید کا سامنا ہے بلکہ داخلی طور پر بھی بہت سے سلفی علماء اس پر تنقید کر رہے ہیں۔
شہزادہ ترکی الفیصل جونائن الیون کے وقت امریکا میں سعودی عرب کے سفیر تھے انہوں نے اُس وقت کہا تھا کہ’’سعودی مملکت نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں اور مواد پر نظرثانی کی ہے اور ایسے عنصر کو نصاب سے خارج کردیا ہے جو جدید تعلیم کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتے تھے۔ انہوں نے مختلف امریکی شہروں کے حالیہ تقریری دوروں پر یہ بات کہی تھی کہ ’’نہ صرف یہ کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم کے سابقہ نصابی کتابوں سے ان چیزوں کو خارج کردیا ہے جسے عدم برداشت کی علامت خیال کیا جاتا تھا۔ بلکہ ہم نے داخلی سطح پر نظرثانی اور تجدید کا ایک جامع منصوبہ نافذ کیا ہے۔‘‘
سعودی حکومت نے گزشتہ دسمبر میں ’’نیوریپبلک‘‘ اخبار میں ایک مکمل صفحے کایہ اشتہار دیا تاکہ اپنی کامیابی کی تشہیر کرسکے:
’’ہم نے اپنے اسکول نصاب کو جدید خطوط پر مرتب کیا ہے تاکہ ہمارے بچے مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے بہتر طو رپر تیار ہوسکیں‘‘۔
گزشتہ برس حکومت کے ایک ترجمان نے یہ اعلان کیا کہ:
’’ہم نے اپنے تعلیمی نصاب پر نظرثانی کی ہے اور ایسے مواد کو جو دوسروں کے عقائد کے حوالے سے بھڑکانے اور عدم تحمل سے کام لینے کی جانب راغب کرنے کا کام کرتے تھے نصاب سے خارج کردیا ہے۔‘‘
مغربی ممالک میں سعوودی عرب اپنی معتدل مثال کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی نصابی اصلاحات بارے معلومات عام کررہا ہے۔امریکا میں سعودی سفارت خانے نے ۷۴ صفحات پر مبنی نصاب کی اصلاحات سے متعلق جائزہ رپورٹ تقسیم کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ نصابی کتابوں کو متعدل بنادیاگیا ہے۔ اسی طرح بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی معیار کا ادارہ KAICIID بھی بنایا گیا ہے۔
نصاب میں تبدیلیاں
Institute for Monitoring Peace and Cultural Tolerance in School Education ایک ایسا تحقیقی ادارہ ہے جو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکوکی بتائی ہوئی تعلیمی ہدایات کی روشنی میں دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ٹیکسٹ بکس اور تعلیمی و درسی نصابوں کا گاہے بگاہے جائزہ لے کر اپنی رپورٹ اور سفارشات شائع کرتا ہے ۔ دسمبر 2020 میں اسی ادارہ نے سعودی عرب کی درسی کتب اور تعلیمی نصاب کے بارہ میں رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیاہے کہ سعودی عرب نے اپنے ہاں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں میں چند اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نئی درسی کتابوں میں سے یہود مخالف اور جہادی مواد، نیزارتداداور ہم جنس پرستی کی سزاؤں کا ذکرحذف کردیا گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سعودی نصاب میں کی جانے والی تبدیلیاں سعودی عرب کے نئے معاشی و ثقافتی پروگرام( ویژن2030 )کا حصہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق درسی کتب میں تاحال مندرجہ ذیل قابل ذکر اور نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں:
1۔یہ جملہ کہ ’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اسلام کی معراج ہے ‘ حذف کردیا گیا ہے۔
2۔جہاد سے متعلق سورۃ التوبہ کی آیات 41 تا 68 اور ان کی تفصیلی تشریح اور تفسیر پر مبنی ایک پورا باب (ٹیکسٹ بک یونٹ) نئی کتاب سے خارج کردیا گیا ہے۔
3۔ایک پورا پیراگراف جو اس تعلیم پر مشتمل تھاکہ “منکرین اسلام کے ساتھ دشمنی ایمان کا جزولاینفک ہے”، حذف کردیا گیا ہے۔
4-ایک ایسی حدیث کو بھی حذف کردیاگیا ہے جو ایک پیشگوئی پر مشتمل ہے جس کے مطابق آئندہ زمانہ میں ایک ایسی ناگزیر جنگ ہو گی جس میں مسلمان دنیا میں موجود سارے یہودیوں کو قتل کردیں گے۔رپورٹ کے مطابق اس حدیث کی وجہ سے مسلمان طلباء کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف غصہ اور جارحیت کے ہیجان انگیزجزبات پروان چڑھتے تھے۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جوہمیشہ سے مسلمانوں کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف سخت نفرت،دشمنی وعناد پیدا کرنے کا سبب بن رہی تھی اس لیئے اس حدیث کو نئے سعودی نصاب میں سے حذف کردیئے جانے کا اقدام بہت ہی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
5۔ ایک ایساپورا باب ہٹا دیا گیا ہے جو کہ سورۃ البقرہ کی ایک ایسی آیت کی تفسیر اور تشریح پر مبنی تھا جس میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ یہود کے نقش قدم پر مت چلیں اور ان کی مشابہت مت اختیار کریں۔
6-پڑھایا جاتا تھا کہ چونکہ یہود پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے منکر ہیں اس لئے ان کا مذہب یا تاریخ سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔نئے نصاب سے یہ جملہ بھی حذف کردیا گیا ہے۔
7- یہ جملہ بھی حذف کردیا گیا ہے کہ صیہونی قوتیں اور ان کے ایجنٹ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے پیسوں،عورتوں اور منشیات کو استعمال میں لاتے ہیں ۔
8۔اسی طرح یہ نظریہ کہ قیامت کے روز سب سے پہلے یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتاراجائے گا ، بھی نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔
9۔ایک ایسے پیراگراف کو بھی نئے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا جس میں درج تھا کہ دنیا میں مرتد کی سزا قتل ہے اور آخرت میں جہنم۔
10۔اسی طرح سے ایک اور تفصیلی پیراگراف کو بھی نئے نصاب سے خارج کردیا گیا ہے جس میں قوم لوط کے حوالے سے ثابت کیا گیا تھا کہ لواطت اور ہم جنس پرستی ایک گھناؤنا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ یہ بھی پڑھایا جاتا تھا کہ ہم جنس پرستی کی وجہ سے دنیا میں قدرتی آفات بھی آتی ہیں اور وبائیں بھی پھیلتی ہیں۔
11- اسرائیل سے متعلق نفرت پر مبنی بہت سارے مواد کو بھی نئے نصاب میں سے حذف کردیا گیا ہے۔چنانچہ “صیہونی خطرہ” کے عنوان سے نصاب میں موجود ایک پورا باب حذف کردیا گیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ یہودی صیہونی لابی کس طرح پوری دنیا کو اکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لئے منظم طور پر سرگرم عمل ہے اور باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ اس پر کام کرتی ہے۔
جدیداسلامیات کورس
سعودی وزارت تعلیم نے تمام اسکولوں، چائیلڈ کئیر سنٹر، مدارس اور تعلیمی مراکز سے کہا ہے کہ وہ پرانے نصاب چھوڑ کر نئے اسلامیات اور قرآنی کورس کا پڑھانے کا انتظام کریں۔ اب پرایمری لیول میں اسلامیات اور قرآنی نصاب کو ایکدوسرے میں ضم کردیا گیا ہے اور ایک نیا کورس ’قرآن و اسلامک اسٹڈیز‘ کے عنوان سے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس نئے نصاب کو ہائی اسکولوں میں 34 کلاسز کی بجایے پندرہ کلاسز میں پڑھایا جاسکتا ہے اور پرائمری لیول میں ان کلاسز کو 38 کی بجائے تیس کلاسز تک محدود کردیا گیا ہے۔ سعودی وزارت تعلیم نے قرآنی کورس بشمول تجوید، فقہ، حدیث و تفسیر کوبھی نئے انداز میں ترتیب دیا ہے اور اس کو یکساں طور پر پڑھانے کا حکم دیا ہے۔
التوعیۃ پروگرام کا اختتام
خیال رہے کہ سعودی عرب میں تعلیمی اداروں میں اسلامی بیداری پروگرام 1969ء میں رائج کیا گیا تھا۔ اسلامی بیداری پروگرام کے تحت گرمیوں کی تعطیلات میں اسلامی بیداری کورسز کرائے جاتے تھے۔ ان پروگرامات میں اسلامی بیداری اور اسلامی دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں طلباء طالبات کو آگاہی مہیا کی جاتی تھی۔ نصف صدی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مملکت میں اسلامی بیداری پروگرام ختم کیے گئےہیں۔اس طرح کا ایک اور اقدام سعودی ولی عہد کا پچھلے سال سعودی عرب کے قیام کے سال کو 1744ء سے تبدیل کر کہ 1727ء کرنے کا اعلان ہے۔ اس سے پہلے اس کے قیام کی تاریخ سعودی عرب کے شاہی خاندان اور عالم دین محمد ابن عبدالوہاب کے مابین 1744ء میں طے پانے والے ایک معاہدے پر مبنی تھی۔اس معاہدے میں سعودی شاہی خاندان نے وہابیت کی مالی معاونت اور اسے تعلیم اور عوامی اخلاقیات کے امور کا اختیار دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے بدلے میں محمد ابن عبدالوہاب نے سعودی عرب میں شاہی خاندان کی حکمرانی کو مذہبی نقطہ نظر سے منظوری دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جبکہ 1727ء میں محمد بن سعود نے ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پہلی سعودی ریاست کے بانی کے طور پر اقتدار سنبھالا تھا۔
مذہبی تعلیم پر توجہ
سعودی عرب میں مذہبی تعلیم کو بالکلیہ کمزور نہیں کیا جارہا، البتہ اسے محدود کیا جا رہا ہے اور عمومی حیثیت میں تعلیمی ڈھانچے پر اس کے غالب اثرات کو کم کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک مذہبی تعلیم کا تعلق ہے تو اس کو کو پہلے سے منظم کرکے مخصوص اداروں تک محدود کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے بھی حکومت کی طرف مالی معاونت اور توجہ موجود ہے۔مساجد کے اندر اور شہروں کے مخصوص احاطوں میں مذہبی تعلیم دی جارہی ہے۔اس ضمن میں مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں خصوص کاوشیں کی جارہی ہیں۔
مسجد نبوی میں حفظ قرآن مجید کے لئے 406اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کے حلقات کی تعداد 803آٹھ سو تین ہے جن سے9182طلبہ مستفید ہو رہے ہیں اسی طرح ۴۳۴ معلمات کی نگرانی میں 573پانچ سو تہتر حلقات سے 11209 طالبات قرآن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں ، یہ تو وہ اعداد وشمار ہیں جو براہ راست ان حلقات میں شامل ہوکر استفادہ کرتے ہیں ۔ آج کے اس فاصلاتی تعلیم کے دور میں فاصلاتی تعلیم سے مستفید ہونے والوں کا تعلق دنیا کے 124 ممالک سےہے جن کی مجموعی تعداد 65818ہے ۔ قرآن مجید کے حفظ کے علاو ہ دیگر علو م وفنون کے متون کا یاد کرنا ایک اچھے عالم کے لئے ضروری ہے اسی کی خاطر مسجد نبوی میں مختلف علوم وفنون کے متون بھی یاد کروائے جاتے ہیں جس کے لئے 131اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کی288حلقات ہیں جس سے 288 طلبہ مستفید ہوتے ہیں اسی طرح 84 معلمات کی نگرانی میں طالبات کے لئے84 حلقات ہیں جن سے استفادہ کرنے والی طالبات کی تعداد 2139 ہے ۔یہ تو وہاں موجود رہ کر استفادہ کرنے والوں کی تعداد کی تفصیل ہے جبکہ دنیا کے ۹۸ ممالک کے ۱۸۹۷۱طلبہ وطالبات مستفید ہوتے ہیں ۔ یہ تو صرف قرآن مجید کے حفظ اور علمی متون کے یاد کرنےکی تفاصیل ہے ۔جبکہ تصحیحِ تلاوت کے حلقات الگ ہیں جن میں سے بہت سے حلقات سال بھر چلتے رہتے ہیں اورکچھ حلقات موسمی ہوتے ہیں جو زائرین کی قلت و کثرت سے کم وزیادہ ہوتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح بڑے بڑے علماء کے مستقل دروس ہوتے ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف علوم وفنون کے مختلف کتابوں کو پڑھانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔کہیں تفسیر کا درس ہوتا ہے تو کہیں حدیث کا کہیں علم قراءت کی مجلس ہے تو کہیں علم حدیث کی ۔ کہیں فقہ کے مسائل پڑھائے جاتے ہیں تو کہیں عقیدہ کی باریکیاں بتائی جاتی ہے تو کہیں وعظ ونصیحت ہوتی ہے ۔ اسی طرح باقاعدہ مسجد نبوی میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے مستقل کلیہ قائم ہے ۔یہ صرف مسجد نبوی کی تعلیمی خدمات ہیں ، مسجد حرام میں بھی اسی طرح کی علمی فضاء قائم ہے مختلف علوم وفنون کی تدریس ہوتی ہے اور باقاعدہ اعلی تعلیم کے لئے کلیہ موجود ہے۔ سابقہ سطور سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سعودی حکومت علم اور علماء کی کیسی سرپرستی کر تی ہے۔