تیونس اور مصر، مسلم دنیا کے ایسے دو ممالک ہیں جہاں قدیم ترین مذہبی علوم کے ادارے قائم ہیں۔ تیونس میں جامعہ زیتونہ اور مصر میں جامعۃ الازہر تابناک مثالیں ہیں۔یوں ان اداروں کی وجہ سے دونوں ممالک میں دینی تعلیم کا فروغ تاریخی تناظر میں ہمیشہ نظر آیا ہے جس سے باقی مسلم دنیا نے بھی استفادہ کیا۔ اس مماثلت کی وجہ سے یہ تأثر سامنے آتا ہے کہ دونوں ممالک کا موجودہ مذہبی نظام تعلیم اور نصاب بھی ملتا جلتا ہوگا اور شہری حقوق و اقلیتوں کے حوالے سے بھی چیزیں ایک جیسی ہوں گی۔ اس مضمون میں دونوں ممالک کی مذہبی تعلیم کا ایک عمومی جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون نگار مجلہ تحقیقات کے مدیر ہیں۔
یہ مضمون تحقیقات کے خصوصی شمارے ’مسلم دنیا اور مذہبی تعلیم: رُجحانات و اصلاحات‘ (2023ء) میں شائع ہوا ہے۔
تیونس میں مذہبی تعلیم
تیونس،شمالی افریقہ میں واقع مسلم اکثریتی ملک ہے۔یہ اسلامی روایات سے جڑا ہوا ایک بھرپور ثقافتی اور تاریخی ورثہ رکھتا ہے۔ ملک میں مذہبی تعلیم کی فراہمی کے لیے مختلف اسکول اور ادارے قائم ہیں۔ذیل میں اس پہلو کا ایک جامع تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
تاریخی پس منظر
تیونس میں مذہبی تعلیم کے موجودہ منظر نامے کو سمجھنے کے لیے، اس کے تاریخی ارتقاء کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اسلامی فکر و تعلیم کے حوالے سے اس کی ایک طویل تاریخ ہے، اور مختلف ادوار میں دینی مدارس بھی قائم ہوتے رہے ہیں۔عثمانی دور حکومت میں تیونس میں اسلامی تعلیم بہت زیادہ کو فروغ ملا۔ مدارس اور روایتی اسلامی اداروں نے دینیات، فقہ اور عربی زبان جیسے شعبوں میں علم کی فراہمی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ تاہم، نوآبادیاتی نظام کی آمد کے ساتھ ہی تعلیمی نظام میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں، اور فرانسیسی استعماری عہد (1881-1956) کے دوران تعلیمی میدان میں سیکولرائزیشن کی بھی کچھ کوششیں کی گئیں۔
جدید تعلیمی صورتحال
آزادی کے بعد تیونس میں سیکولر تعلیم اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔یوں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی گئیں، اور مذہبی تعلیم کومزید پنپنے کے دوبارہ مواقع میسر آئے۔ آج، تیونس کے تعلیمی منظر نامے میں سیکولر اور مذہبی دونوں اجزاء شامل ہیں۔
دینی مدارس
مدارس تیونس کے مذہبی تعلیمی نظام کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ یہ مکاتب، جو اکثر مساجد سے منسلک ہوتے ہیں، مذہبی تعلیم کی روایتی شکل فراہم کرتے ہیں۔ مدارس میں طلباء قرآن، حدیث، اسلامی فقہ اور دیگر اسلامی علوم کاعلم حاصل کرتے ہیں۔ اس کا مقصد اسلامی تعلیمات سے باخبر افراد پیدا کرنا ہے۔
یہ ادارے عام طور پر پرائمری سطح کی تعلیم فراہم کرتے ہیں اور مذہبی تعلیم کے بنیادی مراکز کے طور پر کام کرتے ہیں۔ نصاب کا ہدف نہ صرف مذہبی علوم کی تدریس ہے،بلکہ اس کے ساتھ سماجی اخلاقی اقدار کو فروغ دینا بھی ہے۔
زاویہ
Zaouias، یا صوفی لاجز، تیونس کے مذہبی تعلیم کے منظر نامے کا ایک اور اہم پہلو ہیں۔ صوفیانہ اعتقادی نظام کی جڑیں تیونس میں کافی گہری ہیں۔ ’زاویہ‘ نام کے ادارے روحانی ترقی کے مراکز کے طور پر کام کرتے ہیں، اور ان میں متنوع تعلیمی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ صوفی رہنما، جنہیں شیخ کہا جاتا ہے،وہ ان اداروں میں روحانی اور فکری دونوں معاملات میں شاگردوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔روایتی معنوں میں باضابطہ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے باوجود، زاویہ اسلامی اقدار، روحانی نظم و ضبط اور اللہ تعالی کے ساتھ تعلق پر زور دے کر،ایک طرح سے مذہبی تعلیم میں ہی حصہ ڈالتے ہیں۔
مرکزی دھارے کی تعلیم میں مذہبی علوم
تیونس کے مرکزی دھارے کے تعلیمی نظام میں بھی نصاب کے اندر مذہبی علوم شامل ہیں۔ معیاری اور معتدل مواد کو یقینی بنانے کے لیے وزارت تعلیم اس مواد کی نگرانی کرتی ہے۔ طلباء اسلامی تاریخ، اخلاقیات اور روحانی اقدار کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ اس کا مقصد نوجوانوں میں اسلام کی ایک جامع تفہیم فراہم کرنا ہے ۔مرکزی دھارے کی تعلیم میں مذہبی علوم کی شمولیت تیونس کی اسلامی شناخت کو برقرار رکھنے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
حکومتی ضابطے اور پالیسیاں
تیونس کی حکومت اسلامی اقدار اور قومی شناخت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے مذہبی تعلیم کے نصاب کی نگرانی کرتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات موجود ہیں کہ مذہبی ادارے تعلیمی معیارات پر عمل پیرا ہوں اور اسلام کی معتدل تشریح کو فروغ دیں۔حکومتی حکام مذہبی علماء اور اداروں کے ساتھ مل کر نصاب تیار کرتے ہیں جو ملک کی ثقافتی اور مذہبی اخلاقیات کے مطابق ہو۔ اس کا مقصد انتہاپسند نظریات کے فروغ کو روکنا اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینا ہے۔
تیونس میں مذہبی مدارس اور ادارے دلیل ہیں کہ ملک میں عوامی سطح پر ان کی مقبولیت اور ضرورت موجود ہے۔ روایتی مدارس سے لے کر صوفی زاویہ اور مرکزی دھارے کے تعلیمی اداروں تک، ہر ایک شعبہ ملک میں مذہبی تعلیم کے کثیر جہتی ڈھانچے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔جدیدیت کو اپنانے کے باوجود، اپنے اسلامی ورثے کے تحفظ کے لیےمذہبی علوم کو مرکزی دھارے کی تعلیم میں ضم کرنے کی کوششیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاست سیکولر اور مذہبی عناصر کے درمیان توازن قائم کرتے ہوئے،ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتی ہے جو تعلیم اور روحانی روایات دونوں کو اہمیت دیتا ہے۔ جیسے جیسے ملک ترقی کرتا جا رہا ہے، مذہبی تعلیم کا کردار تیونس کی ثقافتی اور تعلیمی شناخت کا ایک متحرک اور اٹوٹ حصہ بن رہاہے۔
مصر میں مذہبی تعلیم
مصر، ایک شاندار تاریخ اور ممتاز اسلامی ورثے کا حامل ملک ہے،جو تعلیمی حوالے سے بھی متنوع جہات رکھتا ہے۔اس میں مذہبی تعلیم کے لیے کئی نامی گرامی ادارےشامل ہیں۔ روایتی اسلامی مدارس سے لے کر جدید تعلیمی نظام تک،مصر جس قدر تنوع رکھتا ہے ایسی مثال کسی بھی مسلم ملک میں نہیں ملتی۔یہ وہ ملک ہے کہ جہاں پچھلے ایک سو سالوں میں مذہبی فکری تناظر میں جتنے مکاتب، نقطہ ہائے نظر اور حلقے سامنے آئے وہ صرف اسی کا خاصہ ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مصر میں مذہبی علوم کے لیے بڑی وسیع جگہ رہی ہے اور ریاست و عوام دونوں نے اس لحاظ سے بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ملک صدیوں سے اسلامی علوم و مباحث کابہت بڑا مرکز رہا ہے، جس میں کئی معروف ادارے بھی قائم ہیں۔
جامعہ الازہر
10ویں صدی میں قاہرہ میں قائم کی گئی الازہر یونیورسٹی دنیا کے سب سے قدیم مسلسل چلنے والے تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے اور اسلامی تعلیم کے لیے مصر کی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔جامعہ الازہر مصر میں دینی تعلیم کا سب سے بڑا اور نمایاں مرکز ہے۔یہ اصل میں قرآنی علوم کے ایک مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا، الازہر میں صدیوں سےمختلف مذہبی شعبہ جات، بشمول الہیات، فقہ اور عربی زبان شامل رہے ہیں۔ یہ اسلامی دنیا کے علماء اور طلباء کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔الازہر کا کردار روایتی تعلیم سے بالاتر ہے۔ یہ عظیم تاریخی ادارہ اہم فتاوی جاری کرنے اورپوری دنیا کے سنی مسلم سماج کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ادارے کے اثرات عالمی نوعیت کے ہیں،اسی لیے دنیا میں کسی بھی بڑے اور اہم مسئلے کے لیے ازہر کی رائے کو کافی حیثیت دی جاتی ہے۔
الازہر سکولز
مرکزی جامعہ کے علاوہ، الازہر مختلف تعلیمی پراجیکٹس کی بھی نگرانی کرتا ہے،اور اسکولوں کے نیٹ ورک کی نگرانی کرتا ہے۔ الازہر کے اسکول جدید معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں۔اس میں ایک جامع تعلیمی فریم ورک تشکیل دیا گیا ہے، جو سیکولر اور مذہبی علوم کو یکجا کرتا ہے۔ یہ اسکول طلباء کی مذہبی اور اخلاقی تہذیب میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ اپنی اسلامی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے،جدید تعلیم حاصل کریں۔
روایتی مدارس
الازہر کے علاوہ، مصر میں بہت سے روایتی مدارس ہیں جو اسلامی تعلیم کے کلاسیکی ماڈل کی پیروی کرتے ہیں۔ ان اداروں میں قرآن، حدیث، اسلامی فقہ اور عربی زبان کی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سے مدارس مساجد کے اندر کام کرتے ہیں اور مقامی کمیونٹیز کا ایک لازمی حصہ ہی۔یہ ادارے اسلامی علوم کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
جدید تعلیمی اداروں میں مذہبی عنصر
مصر کے جدید تعلیمی نظام کے نصاب میں بھی مذہبی علوم بھی شامل ہیں۔ سرکاری اور نجی اسکولوں میں طلباء اسلامی تاریخ، اخلاقیات اور اقدار کے بارے میں سیکھتے ہیں، جو ان کے ثقافتی اور مذہبی ورثے کے بارے میں ان کی مجموعی تفہیم کو بہتر بناتے ہیں۔
وزارتِ اوقاف
مصر میں وزارت اوقاف (مذہبی اوقاف) مذہبی تعلیم کی نگرانی کرنےمیں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ اوقاف مساجد کو منظم کرتا ہے، اور تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تاکہ ان میں مذہبی علوم اقدار کی مناسب ترسیل کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزارت اوقاف مصر کے اندرجدید تعلیمی اداروں کے نصاب کی تشکیل و نگرانی میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔
روایت اور جدیدیت کا توازن
مصرمیں اب جدیدیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔مگر اس کے باوجود یہ بھی ظاہر ہے کہ وہاں کے مذہبی ادارے اپنی گہری ساکھ اور جڑیں رکھتے ہیں۔ حکومت اگرچہ کئی حوالوں سے انتہاپسندی کے سدباب کے نام پر ایسے اقدامات کر رہی ہے جو سیکولر نوعیت کے ہیں، لیکن یہ رجحان زیادہ تر حکومتی سطح پرہی ہے، عوام میں اب بھی مذہبی اداروں کی ساکھ ویسی ہی مضبوط ہے۔اس چیز کا ادراک خود حکومت کو بھی ہے اور وہ ان دینی اداروں کی اہمیت کو سمجھتی بھی ہے۔ اسی لیےجدیدیت کی طرف رجحان کے باوجودوہ ان دینی اداروں کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔حکومت کی کوششیں زیادہ تر بعض مذہبی جماعتوں کے رسوخ کو کم کرنے پر مرکوز ہیں۔روایتی مذہبی ادارے اب بھی مضبوط ہیں۔بہرحال ،مجموعی لحاظ سےمذہبی تعلیم کے حوالے سے،جامعہ الازہر جیسے تاریخی مرکز سے لے کر روایتی مدارس اور جدید تعلیمی اداروں تک، مصر کا منظرنامہ متنوع اور کثیر جہتی ہے۔
مصر اور تیونس کے مذہبی نصاب کا تقابل
اگر مذہبی تعلیم کے حوالے سے تیونس اور مصر کے مابین موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ،ادارہ جاتی سطح پر انفرادی حیثیت میں الگ الگ امتیازی خصائص اگرچہ موجود ہیں،لیکن اگر مجموعی تناظر میں دونوں ملکوں کی مذہبی تعلیم کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ تیونس کی مذہبی تعلیم کا ڈھانچہ دینی و شہری اقدار کی تدریس میں مصر سے زیادہ ذمہ دارانہ ہے اور یہ کہ حکومت کا کنٹرول تیونس کے مذہبی منظرنامے پر مصری حکومت سے زیادہ ہے۔تیونس کی مذہبی تعلیم کا ڈھانچہ شہری اقدار، سماجی مساوات،باہمی احترام،رواداری اور عالمی انسانی اقدار کو بھی بہتر انداز میں ملحوظ رکھتا ہے اور ان کی رعایت رکھتا ہے۔خصوصا تیونس کے جدیدتعلیمی اداروں میں جو مذہبی تعلیم کا نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ کافی معتدل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی نصاب میں رواداری کے عنصر کو سابق تیونسی حکمران زین العابدین علی کے آمرانہ دور صدارت میں فروغ دیا گیا۔ان سماجی اصطلاحات کو باقاعدہ منظم انداز میں تعلیمی نصاب میں جگہ جگہ شامل کیا گیا تھا تاکہ نوجوانوں کو ان سے متعارف کریا جائے۔ زین العابدین علی نے 1989 میں محمد الشرفی کو ملک کا وزیر تعلیم مقرر کیا تھا،جو ایک قابل وکیل، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن، اورخود صدر کے ناقد بھی تھے۔محمد الشرفی نے ملک کے تعلیمی ڈھانچے میں بہت سی اصلاحات متعارف کرائیں۔ان کے دور میں اسکول کی تمام نصابی کتب کی جانچ پڑتال کی گئی۔ اس کا مقصد ایسے سارے مواد کو حذف کرنا تھا جو مختلف مذاہب اور گروہوں میں عدم برداشت کو فروغ دینے کا سبب بن سکتا تھا،اور مذہبی تعلیم میں مسلم فکر کے لبرل پہلوؤں کو شامل کرنا بھی تھا۔اسی طرح انہوں نے تعلیمی نصاب سے مغرب دشمنی کو بھی حذف کردیا۔ سائنس کے نصاب میں، مثال کے طور پر، بگ بینگ تھیوری اور ڈارون نظریہ ارتقاء کو بھی شامل کیا گیا۔ ان اصلاحات کو البتہ ملک کی اسلامی سیاسی جماعت النہضہ نے مسترد کر دیا تھا۔
تیونس کی 98 فیصد آبادی سنی مسلم ہے،جبکہ یہودی اور مسیحی کل آبادی کا 2 فیصد سے بھی کم ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جانے والا واحد مذہب اسلام ہے۔ مگر اس کے ساتھ سرکاری ثانوی اسکولوں میں سماجی علوم کے حصے کے طور پر، یہودیت، مسیحیت کی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے۔
سرکاری پرائمری اسکولوں میں، اسلامی تعلیم کے ضمن میں تیونس کی نصابی کتابوں میں اسلام کے اخلاقی اور اخلاقی پہلوؤں اور اس کے بنیادی ستونوں کے ساتھ ساتھ مخصوص مذہبی رسومات، نماز اور روزہ کی تربیت کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ مسیحی اور یہودیوں کے ساتھ مذہبی رواداری قائم رکھنےکو بھی اسلامی قدر کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسرے عرب ممالک کے برعکس، تیونس کے نصاب میں شامل کتب کفار کے ساتھ دشمنی کو غلط قرار دیتی ہیں اورانسانی یکجہتی وہم آہنگی پر زور دیتی ہیں۔ مثال کے طور پہ اسکولوں میں زیرتدریس ایک دینی کتاب میں یہ واقعہ بھی شامل ہےکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مدینہ میں ایک یہودی کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہوئے تھے۔ جب آپﷺسے کہا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے، تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا تھا کہ کیا وہ انسان نہیں ہے،جب بھی تم جنازے کا جلوس دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔
اسی طرح تیونس کے اسکولوں کے مذہبی تعلیم کے سارے نصاب میں تقریبا36 ابواب شامل ہیں، اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے قرآن کی بہت سی آیات بھی حصہ بنائی گئی ہیں۔اس نصاب میں بتایا گیا ہے کہ مذاہب کے الگ ہونے کے باوجود تمام مذاہب کے ماننے والے حقوق کے اعتبار سے مساوی ہیں۔اسلام امن کا درس دیتا ہے اور جارحیت و جنگ کی تمام شکلوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔مزید یہ کہ، جہاد کی روحانی تعبیر کو بھی نمایاں کی گیا جوکہ نفس کے خلاف جہاد ہے۔اس کے علاوہ جمہوری اقدار اور عالمی انسانی ثقافت پر بھی کچھ مواد کتب کا حصہ ہے۔
تیونس میں پرائمری اور مڈل اسکولوں کے لیے مختص کیے گئے مذہبی نصاب میں دین کو ایک ذاتی معاملے کے طور پہ پیش کیا گیا ہے،کہ اس میں معاشرے کے کسی طبقےیا ریاست کو کوئی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔
سیکنڈری سطح پر، سرکاری اسکولوں میں اسلامی تعلیم کے کورس کو “اسلامی فکر” کا عنوان دیا گیا ہے،تاکہ اس کو پڑھتے ہوئے طلبہ میں کسی تعبیر کی حتمیت کا تصور نہ پیدا ہو۔
مصر میں،حسنی مبارک کے عہدکے دوران مذہبی تعلیم کو اسی انداز میں باقی رکھا گیا جیسے روایتی دینی مدارس میں موجود تھی۔جدید تعلیمی اداروں میں بھی اسی طرح کا ہی عنصر نظر آتا رہا۔حکومتی سطح پر اس طرح کے کسی خاص اقدام کا پتہ نہیں چلتا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں شامل مذہبی نصاب پر نظرثانی کی گئی ہو یا اس کی تنقیح کے لیے کوششیں کی گئی ہوں۔ اس دور میں اگرچہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی سخت مخالفت کی جاتی رہی، مگر اس کے باوجود تعلیمی اداروں میں شامل مذہبی نصاب کے اندر کوئی تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔
البتہ پچھلے دس برسوں کے دوران شہریت کی تعلیم کو پرائمری اور مڈل اسکول کی سطح پر مذہبی تعلیم اور سماجی علوم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ حال ہی میں، وزارت تعلیم نے گیارہویں اور بارہویں جماعت کے نصاب میں شہریت اور انسانی حقوق پر ایک کورس شامل کیا ہے۔