نائن الیون کے 22 برس: القاعدہ کس حال میں ہے؟

0

نائن الیون کی بائیسویں برسی کے موقع پر القاعدہ نے اپنے مجلے ’اُمۃ واحدۃ‘ کا نیا شمارہ جاری کیا ہے۔ اس موقع پر یہ توقع کی جاری رہی تھی کہ القاعدہ اپنے نئے امیر کا اعلان کرے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایمن الظواہری کے بعد تقریبا ایک سال ہوگیا ہے مگر القاعدہ میں نئی قیادت کا اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا۔بلکہ تنظیم نے اب تک ایمن الظواہری کی موت کے بارے میں بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ مجلے کے اندر البتہ انہوں نے محمد عطا اور اور ہانی حنجور کی زندگی پر مضامین شائع کیے ہیں، یہ دونوں وہ شخصیات تھیں  جنہوں نے نیویارک میں عمارات کو جہازوں کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔اس شمارے میں القاعدہ نے امریکا کو نائن الیون سے بڑے حملوں کی دھمکی بھی ہے۔شمارے کے ٹائٹل پر  پینٹاگون کی تباہی کی تصویر لگائی گئی جسے ہانی حنجور نے نشانہ بنایا تھا۔

القاعدہ کے نئے امیر کے بارے میں اب تک ایک ابہام باقی ہے۔اس ضمن میں ماہرین کے مطابق  القاعدہ کے اندر دو شخصیات ہیں جو ممکنہ طور پہ تنظیم کی قیادت کے اہل ہیں۔ ایک سیف العدل ہیں۔ یہ تنظیم میں شمولیت سے پہلے مصری فوج میں کرنل کے عہدے پر خدمات  انجام دے چکے ہیں۔تنظیم میں مجلس شوری کے  رکن ہیں اور اسامہ بن لادن کے ذاتی محافظ کے طور پہ بھی کام کرچکے ہیں۔یہ افریقا میں بھی تنظیم کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور پاکستان میں صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں بھی ان کا کردار مانا جاتا ہے۔اس کے علاوہ 1981 میں انورسادات کے قتل میں حصہ بننے والے فوجیوں میں بھی ان کا نام آتا ہے۔اور یہیں سے ان کا تعلق شدت پسندوں سے جڑا۔اب بعض رپورٹس کے  مطابق وہ ایران میں ہیں ، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ وہ ایران سے باہر نکل چکے تھے۔

جبکہ دوسری شخصیت جن کا نام ممکنہ طور پہ القاعدہ کی نئی قیادت کے طور پہ لیا جاتا ہے ، وہ حمزہ الغامدی ہیں۔ان کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ یہ ستر کی دہائی میں پیدا ہوئے۔اصل نام صالح بن سعیدآل بطیح الغامدی ہے۔ان کے بارے میں زیادہ معلوومات نہیں ہیں کہ وہ اس راستے پر کیسے داخل ہوئے۔ البتہ 80 کی دہائی کے اواخر میں وہ افغانستان آئے تھے۔یہ دو سال  کے لیے تاجکستان میں بھی رہے۔ پھر 1995 میں یہ پاکستان بھی آئے اور کچھ عرصہ پشاور میں مقیم رہے، اور یہاں سے افغانستان آتے جا تے رہتے۔2005 میں سعودی عرب نے 36افراد کی فہرست جاری کی تھی جو سعودی عرب سے تعلق رکھتے تھے اور وہ حکومت کو مطلوب تھے، اس میں ایک حمزہ الغامدی کا نام تھا۔

ماہرین کے مطابق القاعدہ کے اندر قیادت کے حوالے سے دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک طرف سیف العدل ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ شاید ابھی تک ایرانی پاسداران انقلاب کے قبضے میں ہیں۔اس لیے یہ جماعت کے ایک حصے میں یہ شکوک موجود ہیں کہ سیف العدل پر ایران اثرانداز ہوسکتا ہے۔ دوسری طری طرف حمزہ الغامدی ہیں جو سیف العدل کے خلاف مبینہ طور پہ مہم چلا رہے ہیں۔

حمزہ الغامدی

لیکن بہرحال نئی قیادت کا حتمی فیصلہ تنظیم کی مجلس شوری کا ہے جو مجہول ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نئی قیادت کا فیصل ہوچکا ہے لیکن تحفظ سے جڑے خطرات کی وجہ سے اعلان نہیں کیا گیا۔

اِس وقت القاعدہ عملی طور پہ کافی کمزور حالت میں ہے۔ تنظیم کی بعض مختلف خطوں میں موجود ہیں لیکن ان کی حالت ایک جیسی نہیں ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پہ تنظیم کے رہنما اپنے خاندان سمیت افغانستان کے علاقے قندھار میں  پناہ لے رہے ہیں،لیکن طالبان یہ یقینی بنائیں گے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی حملے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔

القاعدہ کے میڈیا ونگ السحاب کی جاانب سے نائن الیون کے موقع پر جاری کیے جانے والے مجلے کا ٹائٹل جس پہ پیناگون کی تباہی کی تصویر ہے۔

تنظیم کی قدرے مضبوط شاح افریقا کے صحرائے اعظم  کی پٹی پر مشتمل  علاقوں میں ہے۔اس خطے کی معاشی ابتری اور فقر کی وجہ سے یہاں القاعدہ اور داعش کا خاتمہ کافی مشکل ثابت ہوا  ہے۔اس کے علاوہ مالی، نائجر اور برکینا فاسو میں میں عسکری انقلابات کے بعد کے حالات نے بھی  اس تنظیم کو فائدہ دیا ہے، اور انہی تین ممالک میں القاعدہ کی فعالیت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ افریقا کے اندر لیبیا میں بھی اس کی فعالیت کسی حد تک موجود ہے۔

مشرق وسطی میں تنظیم سب سے زیادہ کمزور ہے۔ داعش نے اس کو ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔عراق میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ شام  میں اس کی شاخ  جبہۃ النصرہ نے اپنا نام ہیئۃ تحریرالشام کرلیا۔

خلیج میں یہ صرف یمن کے بعض حصوں میں موجود ہے۔

مصر کے اندر ماضی میں اس کی شاخ بہت مضبوط رہی، خصوصا صحرائے سینا میں۔لیکن اب وہاں بھی یہ بہت کمزور ہے۔ صحرا کے عسکریت پسندوں کی اکثرت نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔